
روس، چین اور پاکستان جس تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں وہ بھارت کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ تینوں ممالک بہت سے معاملات میں ہم آہنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ معاشی اور سفارتی سطح پر یکساں سوچ کا حامل ہونا کسی بھی تیسرے ملک کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے، اور ہو رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بعض اوقات ترجمے کی غلطی سے کوئی بیان کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے اور اس سے پتا نہیں کیا کیا مفاہیم اخذ کیے جانے لگتے ہیں۔
روس، چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون اور سفارتی امور میں ہم آہنگی بھارت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ بھارت کے مقامی ذرائع ابلاغ میں جو کچھ شائع ہو رہا ہے اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ روس، چین اور پاکستان مل کر بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور خطے میں اس کی برتر حیثیت کو ختم کرنے کی بھرپور، شعوری کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستان اور چین تو ہر حال میں ایک دوسرے کے دوست رہے ہیں۔ ان کی دوستی ایسی ہے کہ جس کے بارے میں کسی کے لیے شک و شبہے کی گنجائش نہیں رہی۔ مگر روس؟ وہ تو بھارت کا دیرینہ رفیق رہا ہے۔ روس نے جس تیزی سے پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر بنائے ہیں اسے دیکھ کر بھارت میں خارجہ پالیسی اور تزویراتی امور کے حوالے سے سوچنے والوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ ان کے لیے یہ سب کچھ انتہائی حیران کن ہی نہیں، مایوس کن بھی ہے۔ وہ اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ پاکستان اور روس مل کر بھارت کے خلاف جارہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ روس، چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل کے بارے میں غلط تاثر کون پیدا کر رہا ہے؟ یہ کام وہ لوگ کر رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے خوفزدہ ہوکر روس سے بھی ہتھیار خریدنا ترک کردے اور چین کو قابو کرنے کے حوالے سے کی جانے والی امریکی کوششوں کا حصہ بن جائے۔ کبھی انہوں نے سوچا بھی ہے کہ ایسا کرنے کا عام بھارتی پر کیا اثر مرتب ہوگا؟ بھارت میں سرگرم امریکا نواز لابی چاہتی ہے کہ بھارت خطے کی صورت حال سے مکمل بے نیاز ہوکر، تمام زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے امریکا کا دامن تھام لے اور تمام امیدیں اسی سے وابستہ کرلے۔ ہم آئے دن ایسی خبروں سے دوچار ہوتے ہیں کہ مالیاتی بحران سے دوچار روس مجبور ہوکر پاکستان کو انتہائی خطرناک نوعیت کے ہتھیار فروخت کر رہا ہے مگر اب تک صرف اس بات کی تصدیق ہوسکی ہے کہ اس نے پاکستان کو چار پانچ ایم آئی تھرٹی فائیو ایم ہیلی کاپٹرز فروخت کیے ہیں اور وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کے لیے۔ روس کے حالیہ دورے میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جدید ترین ہتھیاروں کے حصول میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مختلف کردار ادا کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھنے والے روس کے جدید ترین سخوئی لڑاکا طیاروں کے حصول کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ یہ ایسی بات تھی جس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی صفوں میں ہلچل مچادی۔
یہاں مجھے روس کے سابق وزیر اعظم ییوگینی پریماکوف کی کتاب ’’ایئرز اِن بگ پالیٹکس‘‘ یاد آرہی ہے جو ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ سابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے لے کر ۱۹۹۶ء میں وزیراعظم بنائے جانے تک ییوگینی پریما کوف نے روسی خارجہ خفیہ سروس (ایس وی آر) کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا۔ اپنی کتاب میں پریماکوف نے لکھا ہے کہ پاکستان نے ۱۹۹۰ء کے عشرے میں روس سے سخوئی ایس یو ۲۷ لڑاکا طیارے خریدنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تب یہ طیارے ٹیکنالوجی کے اعتبار سے سب سے بہتر تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم کوزیریف نے اس سودے کو حتمی شکل دے دی تھی۔ اور پھر معاملہ ایس وی آر کے سپرد کر دیا گیا۔
پریماکوف لکھتے ہیں، ’’ہم نے پاکستانی حکام سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ اس سودے کی پوری ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کا سعودی عرب سے معاہدہ ہے۔ جب ہم نے اپنے ذرائع سے تصدیق چاہی تو معلوم ہوا کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ مزید تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ دراصل ایک بڑے غیر ملکی منصوبے کا حصہ تھا جس کا بنیادی مقصد روس اور بھارت کے درمیان دفاعی اشتراک عمل کو بکھیرنا تھا۔
نزنی تیگل میں اسلحے کی حالیہ نمائش کے حوالے سے روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے بیان نے نئی دہلی میں اس قدر تشویش پیدا کی کہ بھارت میں روسی سفارت خانے کو باضابطہ بیان جاری کرنا پڑا کہ روس ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے اس کے اپنے دیرینہ تزویراتی شراکت دار بھارت سے تعلقات متاثر ہوں یا اس کے مفادات کو نقصان پہنچے۔ ساتھ ہی ساتھ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے وزیر دفاع اور آرمی چیف کے دورے پر بھارت میں جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ کچھ زیادہ ہے۔ یعنی ایسی کوئی بات نہیں جس پر زیادہ تشویش کا اظہار کیا جائے، خواہ مخواہ ایسی باتوں کے بارے میں سوچا جائے جن کا کوئی وجود ہی نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ میں نے روس کی کوریج میں تیس سال گزارے ہیں۔ میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ روسی زبان سے کیے جانے والے ترجموں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ زبان اس قدر جامع ہے کہ ایک ہی بات کو مختلف طریقوں سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایک ہی لفظ کئی مفاہیم رکھتا ہے۔ اگر مجھے پورے معاملے کو سمجھنا ہوگا تو میں خبر کے اُس انگریزی متن کا بغور جائزہ لوں گا جس کے باعث پاکستان میں تو جوش و خروش پیدا ہو، اور بھارت میں صفِ ماتم سی بچھ جائے۔
روسی نائب وزیر خارجہ ریابکوف نے پاکستان کو روس کا قریب ترین پڑوسی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان محض دفاع نہیں بلکہ دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی تعاون کی خاصی گنجائش ہے جن میں توانائی بھی شامل ہے۔ جب میں نے انگریزی متن دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ روسی قیادت پاکستان کو نزدیک ترین ساتھی سمجھتی ہے اس کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ روس اب چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایسا تزویراتی تعلق قائم کرے جو دونوں کو جنوبی ایشیا میں ممتاز کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ روسی زبان سے انگریزی میں ترجمے کے دوران غلطی ہوئی ہے۔ قریب ترین ہمسائے کو نزدیک ترین ساتھی قرار دے کر معاملے کو الجھا دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ نئی دہلی میں روسی سفارت خانے کو بیان جاری کرنا پڑا تاکہ بھارتی قیادت کو یقین آجائے کہ روسی قیادت ۲۰۰۰ء کے دفاعی معاہدے پر عمل کی پابند ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فریق ایسے کسی بھی معاملے میں ملوث نہیں ہوگا جس سے فریق ثانی کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہو۔
یہ پورا معاملہ اس وقت اٹھا جب نومبر ۲۰۱۲ء میں روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں دوطرفہ دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔ سفارتی امور میں یہ عام سی بات ہے کہ جو ممالک ایک دوسرے کے سامنے میدان جنگ میں یعنی متحارب نہ ہوں وہ دفاع کے شعبے میں بھی تعاون کے معاہدے کرتے ہیں۔ بھارتی قیادت اس معاملے کو اتنا زیادہ کیوں اچھال رہی ہے؟ کیا بھارت نے چین سے (ایک جنگ لڑنے کے باوجود) دفاعی تعاون کا معاہدہ نہیں کر رکھا اور اس کے ساتھ فوجی مشقوں کا بھی اہتمام کرتی ہے؟ روس، چین اور بھارت بھی تو مل کر فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف سمجھا جائے گا؟
یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف موثر طور پر لڑنے کے لیے بھارت اور پاکستان دونوں ہی شنگھائی تعاون تنظیم کے فعال رکن بننا چاہتے ہیں۔ یہ تنظیم بنیادی طور پر روس اور چین کی چھتری تلے کام کر رہی ہے۔ اب پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت کو پچھاڑنے کے معاملے میں واقعی سنجیدہ ہے۔
افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد روس کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ پاکستان سے قریبی تعلقات قائم رکھے کیونکہ خطے میں کسی بھی نوع کے کردار کے حوالے سے پاکستان بہت اہم ہے۔ ایک سابق سوویت فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان میں سوویت افواج تعینات رہیں، پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے روسی فوج کا رابطہ برقرار رہا۔
افغانستان کے حوالے سے مذاکرات میں بھارت اور روس اس نکتے پر متفق رہے ہیں کہ اتحادیوں کے انخلا کے بعد کے افغانستان میں پاکستان کا اہم کردار ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ روس جانتا ہے کہ وسط ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں میں روسی نسل کے کروڑوں باشندے سکونت پذیر ہیں۔ ان تمام ریاستوں میں انتہا پسندی اور اسلامی بنیاد پرستی کا فروغ روسی نسل کے باشندوں کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر افغانستان اور وسط ایشیا کے حوالے سے چند ایک خدشات برقرار ہیں تو روس کیوں نہیں چاہے گا کہ پاکستان کو اس پورے معاملے میں ساتھ ملاکر اپنی مرضی کے حالات پیدا کرے؟ یہ روس کا بنیادی مسئلہ ہے۔ شمالی ترکستان (سنک یانگ) میں بڑھتی ہوئی اسلامی شدت پسندی کے باعث چین بھی بہت پریشان ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان کو ساتھ ملاکر معاملات درست کرنے میں کامیابی حاصل کرے۔ اس کے لیے چند ایک معاشی منصوبے شروع کرنا بھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
مجموعی طور پر چین کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کر رہا۔ روس اور چین کے درمیان اشتراک عمل دونوں کی ضرورت ہے۔ چین کو توانائی کی ضرورت ہے جس کے لیے وہ پائپ لائنیں بچھا رہا ہے۔ روس اور چین ایک دوسرے کے حریف ہونے کے باوجود شراکت دار بھی ہیں۔ یہ دونوں کی بنیادی ضرورت کا معاملہ ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے دائرے میں رہتے ہوئے بھارت بھی روس کے لیے ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ چین ’’ایک پٹی، ایک سڑک‘‘ کے فلسفے کے تحت کام کر رہا ہے جبکہ روس چاہتا ہے کہ شاہراہِ ریشم کے ساتھ وسط ایشیا اور یوریشیا سے گزرنے والے قدیم تجارتی راستوں کو بھی بحال کیا جائے تاکہ تجارت کا دائرہ اس قدر پھیل جائے کہ کوئی ایک خطہ مستفید نہ ہو بلکہ کئی خطوں کو فائدہ پہنچے۔
بھارت علاقائی طاقت ہے اور اب عالمی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے لیے اسے اپنی بصیرت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اسے اپنے پڑوس میں ابھرنے والے مواقعوں کے حوالے سے وسیع النظری اور احساسِ ذمہ داری سے مزیّن سوچ اپنانا پڑے گی۔ اسی طور وہ خطے میں اور عالمی سطح پر کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے گا۔
“Spectre of Russia-China-Pakistan axis haunts Indian minds”. (“in.rbth.com”. Sept. 17, 2015)
Leave a Reply