جنرل پرویز مشرف کا ’’ امریکن جیوش کانگریس‘‘ سے خطاب

صدر جنرل پرویز مشرف نے فلسطینیوں کی خواہشات کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس دیرینہ تنازعے کے خاتمہ کیلئے جرات کا مظاہرہ کرے۔فلسطین میں امن سے مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں المناک باب بند ہوگا۔ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو نظر انداز کرنا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان سوچی سمجھی اور جامع الگ الگ حکمت عملی کے ذریعہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔ ہم نے دہشت گرد اور انتہاپسند عناصر پر مکمل غلبہ پانے تک اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار امریکی یہودی کانگریس کے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدرمملکت کے امریکن جیوش کانگریس سے خطاب کا متن حسب ذیل ہے۔

قابل احترام جیک روزن

معززین

مہمانان گرامی!

سب سے پہلے میں جنوب مشرقی ریاستوں بالخصوص نیو آرلینز میں سمندری طوفان کترینہ کے باعث ہونے والی تباہی، جانی نقصان اور انسانی مشکلات پر اپنے ذاتی اور قوم کے دکھ اورتعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
میں امریکن جیوش کانگریس کے زیر اہتمام اس معزز اجتماع کیلئے مدعو کئے جانے پر جیک روزن کا مشکور ہوں جو بے یقینی اور خوف کے وقت باہمی مفاہمت کی ایک کوشش کا اظہار ہے۔ حالیہ تاریخ کے بدقسمت واقعات سے تین بڑے توحیدی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے پیروکاروں کے درمیان تقسیم اور کشیدگی پیدا ہوئی۔ آپ کے دعوت نامہ نے اس موقع کو ایک تاریخی موقع قرار دیا ہے۔ پاکستان کے ایک رہنما کیلئے درحقیقت اتنے سارے ارکان سے خطاب کرنا میرے ایک اعزاز ہے جو ممکنہ طور پر امریکہ کی انتہائی معزز اور بااثر کمیونٹی ہے۔ میں اس اجتماع کے اہتمام کی بھی انتہائی تعریف کرتا ہوں۔ امریکن جیوش کانگریس نے دیگر معروف تنظیموں اور ایسوسی ایشنوں کے ارکان کو بھی مدعو کیا ہے جو امریکی معاشرہ کے نمائندہ ہیں۔

میں ہمیشہ کھل کر اظہار خیال کرتا ہوں اور میں ایسا ہمیشہ اپنے مکمل خلوص کے ساتھ کرتا ہوں اور ایسا ہی آج شام کروں گا۔ اب دو جذبیت یا بہ تامل سفارتکاری کا وقت نہیں ہے۔

دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہوگئی ہے جہاں متعدد خطرات، دہشت گردی، سیاسی تنازعات، ایٹمی پھیلاؤ اور غربت سے عالمی اور تباہ کن جہتیں جمع ہو چکی ہیں۔ انہیں فوری اور حتمی طور پر حل کرنا ہوگا اور محض یہ امید نہیں کی جانی چاہئے کہ یہ بعد میں حل ہوسکتے ہیں۔ ان زخموں کو ہم مزید رستے ہوئے نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ دنیا اور ہماری مستقبل کی نسلوں کیلئے ایک بڑے خطرے کے حامل ہیں۔

ہماری آج کی دنیا کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب کے ذریعے ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ لوگ نقل وحرکت کرتے ہیں۔ رابطہ کرتے ہیںاور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک خطہ میں اچھائی یا برائی جغرافیائی سیاسی سرحدوں کو عبور کرتی ہے اور اس کے عالمی اثرات ہوتے ہیں۔ واعظ جو انسانیت کا ایک مشترکہ ورثہ ہے، اب ایک واضح حقیقت بن گئی ہے۔ ہم اپنے عوام اور درحقیقت انسانیت کی فلاح، ترقی وخوشحالی کیلئے مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں۔ ہر قوم اور مذہب کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے اور ایک دوسرے کو کوئی نقصان نہیں دینا ہے۔

آج دراصل، ہم اپنے بھائیوں کے رکھوالے ہیں۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے ان حالات میں کہ ہماری دنیا میں عظیم دولت ہے لیکن بڑی غربت بھی، بڑی کامیابیاں لیکن بہت زیادہ نا انصافیاںبھی، ترقی وخوشحالی کیلئے بے مثال استعداد لیکن اپنے سیارے کے تباہ کرنے کی زبردست صلاحیت بھی ۔

ایک خدا کو ماننے والے تینوں بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام مشترکہ ورثہ رکھتے ہیں اور ان سب کا جھکاؤ آفاقی اقدار کی طرف ہے۔ اس کے باوجود ان تینوں عظیم مذاہب کوامید، بردباری اور امن کا ذریعہ ہونا چاہئے تھا جو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا، کیا یہ ممکن ہے کہ مستقبل کو ایک نئی صورت دی جائے جو انسانیت یعنی ہم سب کے مفاد میں ہو۔ یہ وہ سوالات ہیں جن پر میں آج کی شام گفتگو کرنا چاہوں گا۔

اس موقع پر اس بات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے مذہب اور ثقافت میں مشترک چیزیں زیادہ اور مختلف چیزیں کم ہیں۔ ایک خدا کو ماننا( جسے مسلمان توحید کہتے ہیں) اسلام اور یہودیت میں مشترک ہے۔ مسلمانوں کی تہنیت کے الفاظ اسلام علیکم (آپ پر سلامتی ہو) یہودیوں کے تہنیتی الفاظ شالوم جیسے ہیں جس کا معنی’’ امن وسلامتی‘‘ ہے۔ میں نے مشہورفلم ‘‘شنڈلرز لسٹ‘‘ دیکھی۔ یہ تلمود کے ایک اقتباس پر ختم ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں’’ ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے جیسا ہے اور ایک بے گناہ انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے جیسا ہے‘‘ یہی الفاظ قرآن حکیم میں بھی آئے ہیں۔

قرآن مجید اور ہمارے پیغمبرصلی اﷲ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ کو اہل کتاب کہا ہے جن کا تعلق ایک ہی روحانی روایت سے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام قابل احترام پیغمبر ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام وہ پیغمبر ہیں جن کا مسلمانوں کی مقدم مذہبی کتاب قرآن مجید میں سب سے زیادہ ذکر ہے۔ قدیم دور میں کئی خطوں خاص طور سے مقدس سرزمین پر ہماری تاریخ اور تجربات باہم مربوط ہیں۔

مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی تاریخ طویل بھی ہے اور بھرپور بھی۔ اس تارِیخ میں قرطبہ، بغداد، استنبول اور بخارا میں مسلمانوں اور یہودیوں کے باہمی امن وسکون سے ساتھ ساتھ رہنے کی روشن مثالیں بھی شامل ہیں جنہوں نے گراں بہا اور خوبصورت ثقافت اور روایات کی تشکیل میں حصہ لیا ہے۔ کئی یہودی مورخین نے سپین میںمسلمانوں کے دور حکومت کو اپنی تاریخ سنہری دور کہا ہے جس میں یہودی معاشرہ مذہبی تحمل اور علم دوست فضا میں معاشی، سیاسی اورعلم ودانش کے لحاظ سے پھلا پھولا، بعد ازاں مسلمان اور یہودی دونوں رومن کیتھولک تنظیم کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے۔ درحقیقت یہودی اور مسلمان صدیوں تک نہ صرف مشرق وسطیٰ سے سپین تک امن اور خوشحالی کے ادوار میں بلکہ مصائب کے دور میں بھی اکھٹے رہے۔

گذشتہ چھ دہائیاں مسلم یہودی تعاون اور بقائے باہمی کی طویل تاریخ میں معمول سے ہٹ کر ہیں۔مخالفت اور تشدد کی وجوہات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔میں اس پر بحث نہیں کرنا چاہوں گا۔ ہم میں سے ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن یہ یاد دلانا غیر ضروری نہیں کہ مسلمانوں اور یہودی کمیونٹیز کے درمیان خیلج انسانی تاریخی کی سب سے خونریز صدی اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی جنگوں، نسل کشی اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی جس کے دوران لاکھوں افراد ہلاک ہوئے کے دوران پیدا ہوئی۔اسی خونریز صدی میں یہودیوں کو عظیم ترین المیے ’’ عظیم تباہی‘‘ کا سامنا کرنا پڑا جس کی یاد اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔اسی خونریز صدی میں دیگر لوگوں، فلسطینیوں، کشمیریوں، بوسنیائی اور روانڈا کے لوگوں کو عظیم المیوں سے گزرنا پڑا۔ہمیں بھولنا نہیں چاہے بلکہ معاف کر دینا چاہئے۔مشکلات سے اکثر غم وغصہ کا خطرہ رہتا ہے لیکن اسے جلد ہی ہمدردی میں بدل دیناچاہئے اور ہم نے یہودی کمیونٹی سے اس ہمدردی کا مظاہرہ دیکھا ہے۔امریکہ میں یہودی گروپ ہی تھے جو بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف سب سے آگے رہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ بوسنیائی کاز میں سب سے زیادہ مدد امریکی یہودی تاجر اور متمول شخصیت جارج سورس نے دی۔ حال ہی میں گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد پاکستانی تارکین وطن سمیت مسلمانوں کے خلاف زبردست رد عمل کے دوران ان میں مختلف یہودی گروپوں نے قانونی اور دیگر تعاون فراہم کیا،میں اس کا اعتراف اور تعریف کرنا چاہتا ہوں۔

یہ قابل احترام مثالیں امیدوں کی بنیاد پر ہیں۔ امید ہے کہ ہم اس صدی کو ایک ایسی صدی میں تبدیل کر سکیںگے جو امن، ترقی اور خوشحالی کا مشاہدہ کر سکے گی۔یہ خواہش صرف مفاہمت اور تعاون کے ذریعے ہی پوری ہوسکتی ہے۔

عام سیاسی ، سماجی اور ماحولیاتی تناظر میں ہمیں کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ درپیش خطرات میں بین الاقوامی دہشت گردی کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔آج کی دنیا دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔دھماکے، کار بم دھماکے اورخود کش حملہ آوروں نے دہشت گردی کو ایک تباہ کن صورت میں تبدیل کر دیا ہے۔دہشت گردی نے دور جدید کے تمام معاشروں کو مستحکم ہونے سے دور کا کر دیا ہے۔یہ ترقی معکوس کی صورتحال ہے اور اس کو مسترد کرنا ہوگا اور اس عمل کو کسی بھی وجہ اور مقصد کیلئے معاف اورنظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان کے عوام دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ خطے میں انتہا پسندی کی وجہ سے ہم بدستور دہشت گردی سے متاثر ہو رہے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے ہماری کوششوں کی تعریف کی ہے۔پولیس، فوجی ایکشن، انٹیلی جنس معلومات کے تبادلہ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے خاتمے کیلئے اقدامات کی صورت میں پاکستان اس مہم میںاپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

تاہم مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے آپ کو جھڑپ اور مقامی سطح پر افراد اور گروپ کے خلاف کارروائی تک محدود نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں دہشت گردی کے پھلنے پھولنے اور وہ اقدامات جن کی وجہ سے بعض لوگ انتہائی غیر منطقی رویہ کا مظاہرہ کر تے ہوئے دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں، کے عوامل اور اسباب کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے اسباب اور عوام ہیں جن کی وجہ سے ایک شخص انتہائی مایوسی کی حالت میں اپنی جان دے کر دوسروں کی جان لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو نظر انداز کرنا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے اور یہ اقدام ناکامی کا یقینی نسخہ ہے۔دہشت گردوں کے خلاف فوجی ایکشن اور طاقت کا استعمال اس مسئلہ کا حتمی حل نہیں۔ان اقدامات سے دہشت گردی کے خلاف موثر پالیسیوں کے نفاذ کیلئے ہمارا وقت ضائع کرنے کا باعث بنے گا۔

نفرت اور تعصب سے ناقص نظریات اور بے مقصد مہمات کی صورت میں ایک متوازی خطرہ بھی موجود ہے۔ تہذیبوں بالخصوص اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کے نظریہ کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔ تہذیب اور معاشرے ایک دوسرے ساتھ روابط، ارتباط اور باہمی اثر نفوذ کے باعث پھلے پھولے ہیں۔دہشت گردی کے ساتھ اسلام کو منسوب کرنے کے رجحانات ہیں اور حتیٰ کہ ایسے خیالات ہیں کہ برداشت، رواداری اور امن کا یہ عظیم مذہب کسی نہ کسی طرح ان عالمگیر اقدار سے وابستگی سے انکار کرتا ہے۔ آج کی فعال دنیا میں ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اپنے معاشروں میں مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے درمیان ہمیں ایسی مہمات کو برداشت کرنا چاہئے۔لہٰذا ہم بین العقیدہ اور بین التہذیبی مکالمے اور ہم آہنگی کے فروغ کی کوششوں کے بھر پور حامی ہیں۔

تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آج دہشت گردی کے واقعات میں سب سے زیادہ ملوث اور ان واقعات کے نتیجہ میں تکلیف اٹھانے والے زیادہ تر مسلمان ہیں۔یقیناً اسلامی معاشروں کے اندر شدید بے چینی پائی جاتی ہے جو حالیہ برسوں میں شدت اختیار کر گئی ہے۔اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ سرد جنگ کے اختتام سے تقریباً ہر بڑے اشتعال انگیز مسئلے اور بحران نے اسلامی دنیا کو متاثر کیا ہے۔ فلسطین مشرق وسطیٰ میں مشکلات کی بنیاد ہے۔ہمارے خطے میں کشمیر کشیدگی اور بحران کا اصل سبب ہے۔افغانستان کی افسوسناک تاریخ نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو جنم دیا۔ عراق میں پرتشدد واقعات نے اسلامی دنیا اور باقی ماندہ عالمی برادری میں گہری تشویش پیدا کی۔یہ اور دیگر سیاسی معاملات نے عرب اور اسلامی دنیا میں شدید غم وغصے اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔یہ وہ سیاسی اور سماجی ماحول ہے جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ میں اسلامی معاشروں کے اندر اصلاحات، ترقی اور جدیدیت کو اپنانے سے قاصر رہنے کی نشاندہی کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ مسلم دنیا نوآبادیات ، سیاسی، معاشی اورسماجی رکاوٹوں کی دہائیوں سے ابھری ہے۔ سیاسی آزادی ہمیشہ بہتر اسلوب حکمرانی کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ ہم میں سے بہت سے وقت کی کج روی میں پھنسے ہوئے ہیں اور ابھی بھی اپنے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی نظاموں کی تشکیل نو کیلئے کوشاں ہیں تاکہ عصر حاضر کے چیلنجوں کاجواب دیا جاسکے۔ اسلامی معاشرے جدیدیت کی حمایت اور دقیانوسیت کا اسیر ہونے کے درمیان تقسیم ہیں نتیجتاً اقتصادی محرومی اور سماجی پسماندگی بھی انتہا پسندی کا ذریعہ ہیں اور انتہا پسندی دہشت گردی کیلئے زرخیز پرورش گاہ پیدا کرتی ہے۔

خواتین و حضرات !

اگر ہمیں دہشت گردی کے خلاف کامیابی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں اس کے بنیادی اسباب کو دور کرنا ہوگا۔ آج کے رہنماؤں کو 11 ستمبر اور 7 جولائی جیسے متعدد تباہ کن واقعات پر محض رد عمل کی بجائے واقعات کے راستے و عمل کو تبدیل کرنا چاہئے۔

سب سے پہلے میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی دو مختلف مظہر ہیں ان میں سے ہر ایک مختلف حکمت عملی کا متقاضی ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ایک جیسا سمجھنا یا رویہ ظاہر کرنا آیا کہ یہ مترداف ہوں، غلط ہے۔ دہشت گردی کو دبانے اور ختم کرنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ اس پر براہ راست ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی کے معاملے میں بہتر یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو مسخر کیاجائے۔ طاقت کے استعمال کے ذریعے اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے قلیل اور طویل المدتی الگ الگ حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ اس قسم کی فوری اور طویل المعیاد حکمت ہائے عملی کو تین سطحوں پر نافذ کرنا ہوگا، عالمی سطح پر، مسلم دنیا کی سطح پر اور متعلقہ ممالک میں قومی سطح پر۔

فوری تناظر میں جیسا کہ میں نے کہا کہ دہشت گردی کا دنیا بھر میں پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ تعاون کی فراہمی اور انٹیلی جنس کو مربوط بنانے اور دہشت گرد و انتہا پسند تنظیموں کے زیر زمین فنڈز کو دبوچنے سے بہت حد تک دہشت گردی کی کارروائیوں کے انسداد میں مدد ملے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ سیاسی تنازعات کے حل کو فروغ دیا جائے جن کو دہشت گردوں نے اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے جواز کیلئے غلط استعمال کیا ہے۔ ان سیاسی تنازعات میں مجھے واضح طور پر یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ فلسطینی اور کشمیری تنازعات حل کیلئے تیار ہیں۔ کوئی اس امر سے مطمئن نہیں ہوسکتا کہ حرکت کی واضح علامات ان دونوں تنازعات کے خاتمے کی طرف ظاہر ہورہی ہیں۔ ہمیں ان کے حتمی حل کیلئے اپنا اجتماعی وزن ان کی پشت پر زور دار انداز میں ڈالنا چاہئے۔ دوسری بات طویل مدت کیلئے مسلم دنیا کی سماجی و اقتصادی بحالی، تعلیم اور تخفیف غربت کے بارے میں بالخصوص توجہ مرکوز کرتے ہوئے دہشت گردی و انتہا پسندی کی بنیاد کو اکھاڑنا ہوگا۔

میں نے اسلامی معاشروں میں اصلاحات ، سماجی و اقتصادی ترقی کی کوششیں کرنے اور انتہاپسندی کو مسترد کرنے کی پرزور وکالت کی ہے۔ اس کے متوازی میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص مغرب کو تصفیہ طلب مسائل خاص طور پر فلسطین کے مسئلے کے حل میں سہولت پیدا کرنی چاہئے۔ میں نے اسے روشن خیال اعتدال پسندی کے طور پر دو جہتی حکمت عملی قرار دیا ہے۔ نوعیت سے قطع نظر یہ دو جہتی حکمت عملی ہمارے تاریخی اور سیاسی حالات کے حقائق کا جواب دیتی ہے جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عالمی اور مسلم دنیا میں روشن خیال اعتدال پسندی کی حکمت عملی انتہا پسندی کے خاتمے میں بھی مدد دے گی۔ ملکی طور پر مذہبی کٹرپن ، منافرت کی مہمات اور محاذ آرائیوں کے رجحانات کو دبانا ہوگا۔ ایسا کرنے کے لئے جرأت ، عزم ، سوچی سمجھی اور مقامی طور پر قابل اطلاق حکمت ہائے عملی کرنا ہوگا۔ عسکریت ، منافرت اور تشدد کو پھیلانے کیلئے مذہب کے غلط استعمال کو دبایا جانا چاہئے۔ مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں متاثرہ ممالک میں قومی مباحثہ اور بین الاقوامی مکالمہ شروع کیا جانا چاہئے۔ مسلم دنیا میں‘ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں حقیقی اسلام کی سوجھ بوجھ کو فروغ دینے کیلئے سنجیدہ بحث کا آغاز کرنا چاہئے پھر ہمیں دنیا کے سامنے اس کے حقیقی جوہر کو اجاگر کرنا چاہئے۔

میں فخر کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ آج کا پاکستان شاید واحد ملک ہے جو فعال طور پر سوچی سمجھی اور جامع الگ الگ حکمت عملی کے ذریعہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔ نتائج پہلے ہی حقیقی طور پر واضح ہیں ہم نے دہشت گرد اور انتہاپسند عناصر پر مکمل غلبہ پانے تک اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔

خواتین و حضرات!

اگر امریکی یہودی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل ، فلسطین مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار نہ کروں تو میںفرض ناشناسی کروں گا۔ میرے ذہن میں رتی بھر بھی شبہ نہیں ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے دہشت گردی کو جنم دینے کا بنیادی سبب ہے۔ اپنے عالمی اثرات کے پیش نظر بین الاقوامی برادری خاص طور پر مغرب اور امریکہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس تنازعہ کے پرامن حل کو یقینی بنایاجائے۔ دونوں متعلقہ فریقین اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو محاذ آرائی چھوڑ کر امن اور مصالحت کی پیروی کرنی چاہئے۔

اسرائیل بجا طور پر سلامتی کا خواہاں رہا ہے۔ یہ آزاد اور فعال فلسطینی ریاست کی تشکیل کو یقینی بنانے تک ادھورا رہے گی۔ اسرائیل کو جغرافیائی و سیاسی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے فلسطینیوں کیلئے انصاف غالب ہونے کا موقع دینا چاہئے۔ فلسطینیوں کی آزادی اور قومیت کیلئے خواہش کسی بھی دوسرے عوام کی طرح شدید ہے۔ وہ اپنی آزاد ریاست کے خواہاں ہیں۔

ہم حالیہ واقعات میں امید دیکھتے ہیں ہم نے غزہ سے انخلاء کیلئے اسرائیلی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ روڈ میپ میں وضع کردہ متفقہ امن کے عمل کی پیروی کی جانی چاہئے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیل بہت جلد مغربی کنارے سے بھی انخلاء کرے گا۔ یہ عمل فلسطین میں آزاد ریاست کے قیام کیلئے ماحول پیدا کرے گا۔ فلسطینی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل یقینی سلامتی کیلئے اپنی جائز خواہش کو حاصل کر لے گا۔ میں قائل ہوں کہ فلسطین میں امن جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں سے انصاف کرتا ہو، مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں المناک باب کو بند کر دے گا۔ یہ اسلام اور یہودیت کے درمیان تاریخی تعلقات کو بحال کرے گا۔ یہ غیظ و غضب اور مایوسی کو دور کرے گا جو تشدد و انتہاپسندی کا سہارا لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ امن کیلئے پاکستان جیسے اسلامی ممالک کی طرف سے اسرائیل میں سفارتخانے کھولنے سے بہتر کیا اشارہ ہوسکتا ہے؟۔

’’حتمی حیثیت‘‘ کا مشکل مسئلہ حل کرنے کیلئے رہ جائے گا۔ یروشلم (جسے ہم القدس شریف کہتے ہیں) کے مقدس شہر کی قسمت سے زیادہ کوئی بھی حساس نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کیلئے مقدس ہے یہ اسلام کا قبلہ اول ہے۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق نے 14 سو سال پہلے بیت المقدس میں داخل ہونے کے بعد پہلا حکم یہودیوں کی 5 سو سالہ جلا وطنی کو منسوخ کرنے کادیا تھا۔ انہوں نے ان کو واپس آکر مقدس شہر میں اپنے گھر تعمیر کرنے کی دعوت دی تھی۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان درحقیقت اسرائیل اور مسلم دنیا کے درمیان پائیدار امن اور ہم آہنگی کیلئے اسرائیل کی طرف سے مصالحت اور حقیقت پسندی جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی حتمی تصفیہ یروشلم کی بین الاقوامی ہیئت اور بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے احترام پر مبنی ہونا چاہئے۔

میرا ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ سمجھوتے کیلئے جرات درکار ہوتی ہے اورمصالحت محاذ آرائی سے کہیں زیادہ عظیم تر ہوتی ہے۔ میں اسرائیل سے اپیل کروں گا کہ اس جرات کا مظاہرہ کرے۔ میں امریکی یہودی کانگریس اور یہودی کمیونٹی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فلسطینی تنازعے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے اپنے خاطر خواہ اثر و رسوخ کو بروئے کار لائیں اور مشرق وسطیٰ غالباً پوری دنیا میںامن و آشتی کے دور کا آغاز کرے۔ اب ناکامی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

خواتین و حضرات اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے امکانات کے بارے میں کلمات کے ساتھ اختتام کرنا چاہوںگا۔ پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ کوئی براہ راست تنازعہ یا تصادم نہیں ہے۔ ہم اسرائیل کی سلامتی کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہیں ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے کوئی خطرہ لاحق نہیں کرتا تاہم ہمارے عوام میں فلسطینی عوام اور ان کی اپنے وطن کیلئے جائز امنگوں کیلئے شدید احساس ہمدردی ہے۔ وزیراعظم شیرون کی طرف سے غزہ سے انخلاء کے جرات مندانہ اقدام کے جواب میں پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے وزراء خارجہ ترک دوستوں کے اثرورسوخ کے ذریعے استنبول میں ملے۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب امن کے عمل میں پیش رفت ہونے کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کا جائزہ لینے کیلئے ہم تعلقات کو معمول پر لانے اور تعاون کی جانب مزید اقدامات اٹھائیں گے۔

خواتین و حضرات

ہم پرانے تعصبات کی دلدل میں پھنسے رہ سکتے ہیں اور دنیا کو دائمی طور پر دشمن کے تعین اور از سر نو تعین کی سیاست کا یرغمال رکھ سکتے ہیں یا پھر ہم جرات کے ساتھ آگے بڑھ کر تاریخ کے نئے جنم اور امن ہم آہنگی ، باہمی احترام، وقار اور خوشحالی کے نئے مستقبل کیلئے کام کرسکتے ہیں۔ ہم تنگ نظری سے اس موقع کو کھو سکتے ہیں اور ایک دوسرے میں انسانیت کو دیکھنے میں ناکام رہ سکتے ہیں۔ صحیح راستہ کو اختیار کرنے کی ذمہ داری ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کی درست راستہ اختیار کرنے میں رہنمائی کرے۔

(بحوالہ اے پی پی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*