
کوئی چھ ماہ قبل، ایک دوست سے ، ’’فصل نامۂ چلیپا‘‘ کے نام سے ایک فارسی رسالہ مطالعہ کے لیے ملا۔ یہ رسالہ بنیادی طو رپر خطاطی کے موضوعات سے متعلق ہے۔ ہفت قلم خطاطی میں ناموری کے باوجود اہل ایران نستعلیق کو قومی خط قرار دیتے ہیں اور مشینی تحریر کی دستیابی کے ہوتے ساتے خطاطی کو اپنی تہذیب کا ایک اہم ستون سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترک بھی اگرچہ مصطفی کمال کے عہد سے رومن اختیار کر چکے ہیں لیکن ہر تیسرے سال خطاطی کا بین الاقوامی مقابلہ منعقد ہوتاہے۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی ’’فصل نامۂ چلیپا‘‘ کی۔ چلیپا کے معنی جہاں صلیب کے ہیں، وہاں زلف کے بھی ہیں اور اُس خطاطی کو بھی کہتے ہیں جس میں دو ایک شعر جلی قلم سے درمیان میں لکھے جاتے ہیں اور اس شعرپارے کے باقی اشعار خفی قلم سے اس ورق کے اطراف میں مزین کیے جاتے ہیں۔
اس جریدے میں ایک مضمون ’’درتنگنائے قافیہ خورشید‘‘ کے عنوان سے دس بارہ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ خطاطی کے علاوہ ضمناً املا کے بعض مسائل بھی زیر بحث آگئے ہیں۔ واو معدولہ والے الفاظ مثلاً خود، خوش، خور (اور خور مخفف خورشید) کا ذکر ابتدا ہی میں کرتے ہوئے صاحب مقالہ رقم طراز ہے:
’’دربار شاعر ان گفتہ اند’یجوز للشاعر، مالایجوز لغیرہ‘‘ یعنی جائز است برائے شاعر آنچہ برغیر او جائیز نیست۔‘‘
پہلی مثال اس جواز کی یہ ہے:
اگر خواہی کہ بینی چشم خور
ترا حاجت بود باچشم دیگر
یہاں خور، کہ خورشید کا مخفف ہے، تلفظ میں خَر یعنی بہ فتح خ ہے کیونکہ اسے دیگر کا ہم آہنگ ہونا ہے۔ شعر میں خود، خوش وغیرہ الفاظ بھی تینوں اعراب سے خلعت جواز سے بہرہ ور ہیں۔
اسی مضمون میں آگے چل کر بعض الفاظ کے اشتباہ کا ذکر کرتا ہے جو املا میں عدم احتیاط سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً گذار اور گزار کی ذیل میں لکھتا ہے: ’’این دو کلمہ باہم اشتباہ می شوند؛ اما شناخت جاے ھریک آسان است۔ ھرگاہ کلمہ از گذاردن (بمعنی نہادن و قرار دادن و اجازہ دادن) و یاگذشتن وگذرکردن باشد باذال نوشتہ می شود۔
(اردو ترجمہ: یہ دو کلمات باہم مغالطہ انگیز ہیں لیکن ان دونوں کے محل استعمال کی شناخت آسان ہے۔ جب گذاردن کا کلمہ رکھنے، قرار دینے، اجازت دینے یا گذرنے یاگذر کرنے کے معنی میں ہو تو حرفِ ’ذ‘ سے لکھا جانا چاہیے)۔ اس کے بعد دو تین درج ذیل شعر بہ طور مثال دیے گئے ہیں:
اے دل بہ کوے دوست گذارے نمی کنی
اسباب جمع داری و کارے نمی کنی
صحبتِ عافیتت گرچہ خوش افتاد اے دل
جانبِ عشق عزیز است فرومگذارش
بگذارید کہ از میکدہ یادے بکنم
من کہ با دستِ بت میکدہ بیدار شدم
منقولتہ الصدر تینوں شعروں میں بالترتیب گذارے، فرومگذارش اور بگذارید حرف ’ذ‘ سے صحیح ہے۔
’’وھرگاہ از مصدر گزاردن بہ معنی اداکردن، تفسیر و تعبیر کردن و روایت کردن باشد با ’ز‘ نوشتہ می شود۔‘‘
ترجمہ: جب مصدر گزاردن، ادا کرنے، تفسیر و تعبیر کرنے یا روایت کرنے کے معنی میں ہو تو حرف ’ز‘ سے لکھا جاتاہے۔
مثالوں کی ذیل میں جو اشعار صاحبِ موصوف نے دیے ہیں، وہ بھی سن لیجیے:
خدا ترس باشد امانت گزار
امین کز تو ترسد امینش مدار
بہ حق صحبت دیرین کہ ہیچ محرم راز
بہ یار یک جہت حق گزار ما نرسد
مر این خوابہا را بجز پیش او
مگوی و ز نادان گزارش مجو
گزارش چنین می کند جوھری
سخن را بہ یاقوت اسکندری
یہاں مواقع حرف’ ز‘ کے ہیں اور اساتذۂ فن اس لطیف نکتے سے آگاہ تھے۔
صاحب فرہنگ عمید نے تو گزارش دادن اور گزارش کردن میں بھی امتیاز کرتے ہوئے لکھا ہے:
گزارش دادن ۲۳۶ اطلاع دادن، خبردادن (یعنی اطلاع دینا خبر دینا)
گزارش کردن ۲۳۶ بیان کردن، تفسیر کردن و شرح دادن (یعنی بیان کرنا، تفسیر کرنا اور تشریح کرنا)
البتہ حییم نے فارسی انگلیسی لغات میں گذشتن اور گزاشتن کو ہم معنی قرار دے کر یہ ٹنٹا ہی ختم کر دیا ہے! ہمارے ہاں گذرنا، گزارنا وغیرہ کے مصادر گذشتن اور گزاردن ہی سے مستنبط ہیں۔ لہٰذا ہمیں اشتباہ سے بچنے کے لیے موقع و محل کے مطابق احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
کوئی ایک ڈیڑھ ماہ قبل انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ نے اپنے ایڈیشن ‘Books and Authors’ میں سید عابد علی عابد مرحوم کے فرزند ارجمند سید مینوچہر کی تصنیف ’’کاروان گزران‘‘ جو ’’ میرے شب روز‘‘ کا تسلسل معلوم ہوتا ہے، پر مختصراً تبصرہ شائع کیاہے۔ ضمناً اس کتاب کا سرورق بھی دکھایا ہے۔ کاروان گزران جسے انگریزی ترجمے میں The Passing Carvan سمجھنا چاہیے (ڈان کے تبصرے سے یہ مفہوم متبادر ہوتا ہے)۔ لہٰذا راقم کی رائے میں یہاں گزران کی بجائے گذران یعنی حرف دوم ’ز‘ نہیں بلکہ یہ موقع حرف ’ذ‘ کا ہے۔
راقم الحروف کی رائے میں ’ز‘ اور ’ذ‘ کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال نہ صرف ہم آہنگی کی بنا پر راہ پا گیا ہے بلکہ یہ وجہ بھی ہے کہ نسخ کے برعکس نستعلیق میں روزِ اول سے جہاں حرف ’د‘، ’ذ‘ ماقبل سے ملحق آتے ہیں تو ’ر‘، ’ز‘ کی شکل میں لکھے جاتے ہیں۔
اردو میں غلط املا عموماً حروف کی ہم آہنگی کی بنا پر ہوتا ہے۔ برخاست کی جگہ غلطی سے برخواست لکھا جاتاہے، حالانکہ خاستن اٹھنے کو کہتے ہیں اور خواستن چاہنے کو۔ یہی حال پذیر کا ہے کہ اصلاً ’ذ‘ سے ہے ، اکثر ’ز‘ سے دیکھا گیا ہے۔ تعویذ جو ذال سے ہونا چاہیے تعویز یعنی ’ز‘ سے لکھ دیتے ہیں۔ غیظ جو ’ظ‘ سے ہے ’ض‘ سے غیض کی صورت میں دیکھا گیا ہے۔ آزر یعنی پدر حضرت ابراہیمؑ اکثر ’ذ‘ سے لکھ دیتے ہیں حالانکہ آذر کے معنی آگ، آتش کے ہیں۔ مصدری معنوں میں بھی آزری کی بجائے آذری لکھ دیتے ہیں۔ نو آموز اسراف کی جگہ اصراف لکھ دیتے ہیں۔ بہاء الدین زکریا اور زکریا خواجہ کو غلطی سے ’ذ‘ سے ذکریا غلط فاحش ہے۔ آنجہانی لبھورام جوش ملسیانی، جو ہماری طرح مدرس تھے، بھی املا میں احتیاط کا درس دیتے تھے۔ امرت سر (لاہور سے قریب شہر جو اب بھارت کا حصہ ہے) عام طورپر امرتسر املا ہوتا تھا۔ جوش صاحب اس املا کو اَمر تسر سمجھتے ہوئے املا کی یہ صورت غلط بتاتے تھے کیونکہ صحیح تلفظ امرت سر لکھنے ہی سے ادا ہوتا ہے۔
ہم سنگ کی ذیل میں ثواب اور صواب کو لیجیے۔ ثواب کے معنی خیر اور نیکی کے ہیں اور صواب کے معنی صحیح اور درست کے ہیں۔ انھیں خلط ملط کیا جاتا ہے۔ یہی حال مامور اور معمور کا ہے۔
’’در تنگنائے قافیہ خورشید‘‘ کا مصنف لکھتا ہے: ’’نگاہ کنید کہ چگونہ اتصالات نامناسب موجب اشکال در شناخت کلمات شدہ است‘‘: (یعنی : دیکھیے کہ کس طرح نامناسب اتصالات کلمات کی پہچان میں اشکال کا سبب بن گئے ہیں):
بنو شیروان بجائے بہ نوشیروان
جہانجویرا ” جہان جوی را
ہما نچارہ ” ہمان چارہ
بدانمحضر ” بدان محضر
سپاس ” سہ پاس
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے قواعد اردو میں اس زبان کے حروف تہجی کی تعداد اکاون بتائی ہے۔ انھوں نے بھ، پھ، تھ، ٹھ،جھ، چھ، دھ، لھ، مھ اور نھ کو بھی مرکب کے بجائے مفرد حروف ہجا قرار دے کر تعداد یہاں تک پہنچا دی ہے۔ اس بنا پر تمھیں، انھیں، جنھیں، دولھا (دلھا)، دلھن، کمھار، کمھارن وغیرہ ہائے دو چشمی (ھ) سے لکھنے چاہئیں تاکہ تلفظ صحیح ملحوظ خاطر رہے۔
چونکہ عربی کے بہت سے الفاظ فارسی کے راستے سے اردو میں داخل ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہمارا تلفظ اور املا عجم کی تقلید میں فصیح ہو گا۔ مثلاً عربی میں حَرَکت اور بَرَکت تھے لیکن جب فارسی میں پہنچے تو حرف دوم ساکن ہو گیا۔ یہی روپ ان کا اردو میں ہے۔ اسی طرح عربی اسما جو الف ہمزہ پر تمام ہوتے ہیں، عربی میں ان کے آخر میں ’ء‘ کی علامت لازم ہے لیکن فارسی اس قید سے آزاد بلکہ بغیر ہمزہ آخر کو فصیح سمجھتی ہے۔ لہٰذا اردو میں بھی ابتدا، انتہا، علما، صلحا، انبیا وغیرہ کے آخر میں ’ء‘ کی علامت نہ ہونی چاہیے۔
یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ سید عابد علی عابد کی کتابوں (خصوصاً وہ انتقادی کتب جو ۱۹۵۲ء کے بعد کی ہیں) کے اولین ایڈیشنوں میں بعض الفاظ غلط املا ہوئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سید صاحب اس عہد میں کتب اپنے ہاتھ سے نہ لکھتے تھے بلکہ ڈکٹیشن دیتے تھے۔ (کاروان گزران کے متذکرا الصدر تبصرے سے متبادر ہوتا ہے کہ سید مینوچہر ہی عموماً ڈکٹیشن لیتے تھے۔)
راقم ۱۹۵۳ء کے ماہ جولائی کے آخر میں سید صاحب سے نیاز کے حصول کے لیے عازمِ لاہور ہوا۔ اس زمانے میں شاہ صاحب مجیٹھیہ ہال (ہوسٹل دیال سنگھ کالج) کے ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ کے کوارٹر میں فروکش تھے۔ جب پہنچا تو ڈاکٹر صفدر مرحوم انھیں مرثیہ سنا رہے تھے۔ دو تین شعر سنانے کے بعد ڈاکٹر صاحب کہنے لگے، اب میں رخصت ہوتا ہوں کیونکہ آپ نے شعر اقبال کی ڈکٹیشن اب دینا ہو گی۔ اس پر سید صاحب نے فرمایا: ’’اب میں محتاط ہو گیا ہوں، دن میں صرف ایک مرتبہ یہ کام کرتا ہوں کیونکہ فکر اقبال (مصنفہ خلیفہ شجاع الدین) پربڑی کفش کاری ہوئی ہے۔ سید صاحب ڈکٹیشن دے کر غالباً دوبارہ مسودے کو نہ دیکھتے تھے۔ اس لیے ساقط کی جگہ منشی نے ساکت لکھ دیا۔ بعد میں کاتب تو آپ جانتے ہیں اعلیٰ درجے کا امانت دار ہوتا ہے، وہ جاننے کے باوصف منصباً غلط نوشت کو مِن و عن لکھنے پر مجبور ہے۔
یہ واقعہ میں نے اس لیے درج کر دیا ہے کہ صرف نو آموز طلبہ ہی املائی غلطیاں نہیں کرتے، اہل علم کی تحریروں میں بھی دیکھی گئی ہیں۔ ان کے وجوہ متذکر الصدر انداز کے سوا اور بھی ہو سکتے ہیں، جن کی اصل اعتماد بر دیگرے یا کم کوش و سہل انگاری وغیرہ سے مربوط دکھائی دیتی ہے۔
class=”refu”>(بشکریہ: ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد۔ اگست۲۰۱۱ء)
Leave a Reply