
سری لنکا، بحر ہند کے مرکز میں اپنی منفرد حیثیت کی وجہ سے حالیہ تزویراتی مباحث میں ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ جیسے منصوبوں کے ذریعہ چین کی جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے بعد اسٹریٹجک کمیونٹی میں یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ آیا کولمبو چین کو فوجی اڈہ بنانے کی اجازت دے دے گا؟اس طرح کے اقدام کے مضمرات کے پیش نظر، وسیع تر ہند-بحرالکاہل میں سری لنکا کے مقام کو سمجھنے کے لیے جیو اسٹریٹیجک، علاقائی اور قومی سطحوں پر سری لنکا کا جائزہ لینا ہو گا۔
جغرافیائی و تزویراتی سطح پر، سری لنکا سرد جنگ کے دوران بڑی طاقتوں کی نقل و حرکت کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکاکے بھارت کے ساتھ ہمیشہ غیر متناسب تعلقات رہے ہیں، یعنی ان تعلقات میں سری لنکا کی پوزیشن ہمیشہ کمزور ہی رہی ہے۔ تاہم اس کے پاس علاقائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کا موقع ہے۔ سری لنکا کا سب سے بڑا چیلنج قومی سطح پر ہے، جہاں اسے بگڑتے ہوئے معاشی بحران کا سامنا ہے۔
سری لنکا کی جغرافیائی و تزویراتی اہمیت:
آج کل بہت سے مبصرین سری لنکا کو بنیادی طور پر چین امریکا مسابقت کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ بحر ہند کے خطے میں ایک چھوٹی سی ریاست کا عالمی طاقتوں کی رقابت کے اثرات سے نمٹنا کوئی نئی بات نہیں۔سرد جنگ کے دوران بھی سری لنکا اس طرح کے حالات سے نبرد آزما رہا ہے۔ جب ایک طرف تو سوویت یونین اور بھارت ہوتے تھے اور دوسری طرف امریکا اور پاکستان۔ اس دور میں سری لنکا نے بہت اچھے طریقے سے کسی خاص گروپ کی حمایت کیے بغیر دونوں اطراف اپنے تعلقات قائم رکھے۔ ورنہ دوسری صورت میں پاکستان بھارت خراب تعلقات کا اچھا خاصا اثر سری لنکا پر بھی پڑ سکتا تھا۔ اور اس کو بھی مزید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔
مثال کے طور پر ۱۹۷۰ء میں سری لنکا نے بحرہند میں عالمی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی کے پیش نظر اقوام متحدہ میں ایک قراداد پیش کی، جس میں ’’بحرہند امن زون‘‘ کے قیام کا منصوبہ پیش کیا گیا، اس قرارداد کو اقوام متحدہ نے منظور بھی کر لیا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی سیاست میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ اسی لیے سری لنکا میں قیادت تبدیل ہوئی تو باقاعدہ طور پر واشنگٹن سے سفارتی اور معاشی تعلقات مضبوط کیے گئے۔ ۸۰ء کی دہائی تک امریکا سے تعلقات میں بہتری کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔
سرد جنگ کے دوران بھارت کے لیے اپنے پڑوس میں سب سے زیادہ پریشانی امریکا کی موجودگی سے ہوتی تھی، خاص طور پر ۱۹۷۱ء میں۔ اور اب یہی ڈر اُسے چین سے ہے، ایک ایسے وقت میں جب وہ کولمبو سے تعلقات مضبوط کرتا جارہا ہے۔ امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ ’’کواڈ‘‘ کی بحالی نے بحرہند کے اندر وسیع تر اسٹریٹجک ماحول کو سری لنکا کے نقطہ نظر سے اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سری لنکا اور جنوبی ایشیا:
علاقائی نقطہ نظر سے، اگرچہ سری لنکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات تجزیہ کاروں کی سب سے زیادہ توجہ مبذول کرتے ہیں، لیکن جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک، بنگلادیش، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کے ساتھ اس کے روابط بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ جنوبی ایشیا کے یہ تمام چھوٹے پانچ ممالک آبادی، معیشت اور فوجی طاقت کے لحاظ سے بھارت کے ساتھ غیر متناسب تعلقات رکھتے ہیں، اور نئی دہلی کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں اکثر کمزور اداکار ہوتے ہیں۔ سری لنکا کو علاقائی توازن کو فروغ دینے کے لیے ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
اس کی ایک حالیہ مثال سری لنکا کا بنگلادیش سے ۲۵۰ ملین امریکی ڈالرکی کرنسی کا تبادلہ ہے، جس کی سری لنکا کو اشد ضرورت تھی۔ آزادی کے پچاس سال بعد، بنگلادیش اقوام متحدہ کے ’’کم ترقی یافتہ ملک‘‘ کے درجہ سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کے خزانے میں زرمبادلہ کے کافی ذخائر ہیں۔ بیرون ملک کام کرنے والے شہریوں کی زیادہ ترسیلات اور عالمی سطح پر ملبوسات کی صنعت سے اعلیٰ برآمدات نے اس کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان اقتصادی فوائد نے جنوبی ایشیا میں اس ملک کی حیثیت کو بڑھا دیا ہے، اور اب یہ سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک کو مشکل وقت اور قدرتی آفات میں مدد بھی فراہم کرتا ہے جس سے اس کے قد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بنگلادیش کی بڑھتی ہوئی اقتصادی کامیابی اور خلیج بنگال میں بار بار آنے والے طوفانوں اور سیلابوں کی تباہی سے نمٹنے کے لیے بہتر اقدامات سری لنکا کے لیے سبق ہیں کہ وہ بھی قومی ترقی پر توجہ دے۔
جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کے درمیان شراکت داریاں بھی منظرعام پر آرہی ہیں جن میں بھارت ایک شراکت دار ملک کے طور پر شامل ہے۔ سری لنکا، مالدیپ اور بھارت کے درمیان ایک دہائی قبل شروع ہونے والے بحری سلامتی کے سہ فریقی معاہدے کو حال ہی میں نئی شکل دی گئی ہے۔ اس فورم میں بنگلادیش کی شمولیت کے آثار نمایاں نظر آرہے ہیں۔ بنگلادیش کی بڑھتی ہوئی اقتصادی کامیابیوں سے سبق سیکھنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک سے تعلقات استوار کرنا بھی ضروری ہے۔ سری لنکا جیسے ملک کے لیے جنوبی ایشیا میں ہونے والے مختلف اتحادوں کے چیلنجوں کا سامناکرنے اور بھارت اور چین کے سامنے اپنے ’’آپشنز‘‘ کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔
داخلی چیلنجز:
سری لنکا کو قومی سطح پر تاریخ کے سب سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ کورونا وبائی مرض سے پہلے بھی، اسے کم اور درمیانی آمدنی والے ملک کے طور پر اہم اقتصادی چیلنجوں کا سامنا تھا، جس میں مجموعی ملکی پیداوار اور قرضوں کے درمیان بڑھتا ہوا تناسب، زرمبادلہ کے کم ذخائر، اور کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کو قرض کی ادائیگی کے شیڈول شامل تھے۔ ۲۰۱۷ء میں سری لنکا نے اپنی ’’ہمبن ٹوٹا‘‘ بندرگاہ۹۹ سال کی لیز پر چینی کمپنی کو دے دی تھی، جس کا مقصد براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اورقرضوں کی ادائیگیوں کی صورت حال کو بہتر بنانا تھا۔
وبائی مرض نے اس معاشی صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ اب یہ خراب صورتحال خوراک کی کمی تک پہنچ چکی ہے۔ سفری پابندیوں اور لاک ڈاؤن نے منافع بخش سیاحت کی صنعت کو تباہ کر دیا ہے۔ سیاحت سے غیر ملکی کرنسی کی آمد کولمبو کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک دونوں کے ساتھ ساتھ خودمختار بانڈز کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔
ملک کا قرض، جی ڈی پی کا تناسب مستقل بڑھ رہا ہے جو کہ ایک اندازے کے مطابق ۱۰۱ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ سری لنکا کو تقریباً چار ارب ڈالر سالانہ واجب الاد ہیں۔ ایک ایسے ملک کے لیے جو اپنی تاریخ میں کبھی قرض پر نادہندہ نہ ہونے پر فخر کرتا ہے، ۲۰۲۱ء میں صورت حال اس کے بر عکس رہی۔ سری لنکا اس وقت بین الاقوامی خودمختار بانڈز کے ساتھ ساتھ چین کے قرضوں اور بھارت کے ساتھ کرنسی کی تبدیلیوں پر انحصار کر رہا ہے۔ اور زر مبادلہ کے ذخائر کو ایک حد تک برقرار رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
مزید برآں، گزشتہ تین برسوں میں بڑھتے ہوئے سیکورٹی خطرات نے بھی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ اپریل ۲۰۱۹ء میںایسٹر کے روز، گرجا گھروں اور ہوٹلوں کو بم حملوں میں نشانہ بنایا گیا، جس سے ملک میں داعش اور اس سے متاثرہ گروہوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ یہ دہشت گرد حملے ۲۰۰۹ء کی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد دہشت گردی کی سب سے بڑی کاروائی تھی۔ پچھلے دو سالوں میں ماحولیاتی بحران بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں ’’نیو ڈائمنڈ‘‘ نامی تیل کے جہاز میں ڈیزل ایندھن کے رسائو کے ساتھ آگ لگ گئی۔ اس سال کے آغاز میں ایک اور تباہ کن واقعہ پیش آیا، جس میں X-Press Pearl، نامی جہاز، جس میں کیمیکل کے کنٹینر تھے آگ لگنے کی وجہ سے ڈوب گیا۔ ان آفات نے ماحولیاتی نظام کو لامحدود نقصان پہنچایا، جس کا اندازہ لگانے میں برسوں لگ جائیں گے۔ ایک ا یسا ملک جو جزیروں پر مشتمل ہے اور سمندری راستے جس کے لیے اہمیت کے حامل ہیں وہاں سمندری ماحولیات کو اس قسم کا نقصان پہنچنا بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
مستقبل کی منصوبہ بندی:
مستقبل میں سری لنکا کو بیجنگ، واشنگٹن، اور نئی دہلی کے درمیان مقابلہ بازی کو اسی طرح توازن کے ساتھ لے کر چلنا ہوگا جیسا کہ وہ سرد جنگ میں چلتا رہا۔ایسا کرنے کے لیے ایک بار پھر بھارت کے ساتھ اپنے غیر متناسب طاقت کے تعلقات کو احتیاط سے آگے لے کر چلنا ہو گا۔ اپنے لیے مواقع کو متنوع بنانے کے لیے، سری لنکا کو جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے ممالک کے ساتھ تعاون پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ترقی اور رابطوں کے امکانات کا بہتر فائدہ اٹھایا جا سکے۔ کولمبو عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کے ساتھ مل کر اپنے قرضوں کی واپسی کے شیڈول کو ازسر نو منظم کر سکتا ہے۔ یہ بنگلا دیش اور مالدیپ جیسے شراکت داروں کے ساتھ ایک منظم طریقے سے رابطہ برقرار رکھ کر اور ان ممالک کی قرضوں کے حوالے سے پالیسیوں کو قریب سے دیکھ کر اپنے ہاں ان حکمت عملیوں کو لاگو کر سکتا ہے۔ایک بار کولمبو ان ادائیگیوں کے مسئلے سے نکل گیا تو اپنی اقتصادی صورت حال کو بہتر طریقے سے انجام دے پائے گا۔ اور اس کے لیے ترقی کی راہ پر چلنا آسان ہو جائے گا۔
تاہم، سری لنکا کا سب سے مشکل کام قومی سطح پر ہے، جہاں وہ اقتصادی، صحت، ماحولیاتی اور اندرونی استحکام کے چیلنجوں کے آمیزے سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ ایک پیچیدہ بیرونی عنصر اقوام متحدہ میں ۲۰۰۹ء میں جنگ کے آخری مراحل میں حکومت کے طرز عمل کی مسلسل جانچ پڑتال اور انسانی حقوق کے حوالے سے مسلسل شکایات ہیں جو حالیہ دنوں میں سامنے آرہی ہیں۔ جن کے بارے میں عالمی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔ داخلی استحکام کے مضمرات کے علاوہ، ان مسائل کے معیشت پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں، جیسا کہ جون ۲۰۲۱ء میں یورپی پارلیمنٹ کا سری لنکا کے لیے جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنس پلس (GSP+) کا درجہ واپس لینے کا مطالبہ۔ یورپی یونین کی منڈیوں تک اس ترجیحی رسائی سے دستبرداری سری لنکا کی تجارتی برآمدات کو محدود کر دے گی، اس طرح قومی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ خاص طور پر اس کے بین الاقوامی قرضوں کی بروقت ادائیگی میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔
کورونا وبا کے دور میں سری لنکا نے چین سے کرنسی کے تبادلے اور قرضوں کے ذریعے مالی مدد کی درخواست کی تھی جس سے داخلی چیلنجوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس سے پہلے، مبصرین نے کولمبو کو وسیع تر اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لیے چین سے مالی امداد کی درخواست کرتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ فعال، ترقیاتی مقاصد کے لیے منصوبے ضرور عمل میں آتے رہے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران معاشی پریشانی سے نمٹنے کے لیے چین سے مالی مدد کی درخواست نے ایک غلط تاثر دیا ہے۔ اس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے کہ سری لنکا چین کا بہت بڑے پیمانے پر مقروض ہے، اسی لیے وہ بیجنگ کے جیو اسٹریٹجک عزائم کو آگے بڑھانے میں مدد دینے پر مجبور ہوگا۔ بیرونی قرضوں کا جائزہ لیں تو سری لنکا کے ذمے چین کا حصہ صرف ۱۰ سے ۲۱ فیصد ہے۔ اس لیے اپنے شراکت داروں کو متنوع بنانے سے ایک ملک پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی عادت کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
سری لنکا کی جاری ترقی میں ایک حوصلہ افزا رجحان پانچ سو ملین امریکی ڈالر کے رعایتی قرض کے ذریعے جنوبی کوریا کے ساتھ تعاون ہے۔ جنوبی کوریا دیگر چھوٹے جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک اہم تجارتی اور ترقیاتی شراکت دار کے طور پر ابھر رہا ہے، جو سری لنکا کو اپنی طویل مدتی اقتصادی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک متبادل راستہ تجویز کرتا ہے۔ ایک اور مثبت پیش رفت، چین یا بھارت کے علاوہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ۷۸۷ ملین امریکی ڈالر کی امداد کو قبول کرنے کا فیصلہ ہے۔ اگرچہ یہ صرف ایک محدود پیمانے کی مدد ہے طویل مدتی حل نہیں، لیکن لیکویڈیٹی کا یہ انجکشن اور دوطرفہ کرنسی کے تبادلے سے سری لنکا کو سال کے آخر تک اپنی غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ملک کو درپیش قومی چیلنجز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ چھوٹی سی یہ ریاست تینوں سطحوں پر کس طرح آگے بڑھتی ہے یہ آنے والی دہائی میں اس کی بقا کے لیے اہم ہوگا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Sri Lanka: Navigating Geopolitics, Regional Asymmetry, and a National Crisis”. (“southasianvoices.org”. December 9, 2021)
Leave a Reply