
سیاسی اور انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ماہ صدارتی انتخابات سے عین قبل سری لنکا نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے کولمبو اسٹیشن چیف کو ملک سے بے دخل کر دیا۔ اس پر صدر مہندا راجا پاکسے کو ہٹانے میں حزبِ اختلاف کی مدد کرنے کا الزام تھا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے ایسی کسی بے دخلی کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ تبادلے معمول کے فیصلے تھے۔ راجا پاکسے، جنہیں ۸ جنوری ۲۰۱۵ء کے انتخابات میں شکست کے بعد عہدہ چھوڑنا پڑا، انہوں نے ’’رائٹرز‘‘ کو بتایا کہ وہ تمام حقائق سے آگاہ نہیں جبکہ کولمبو میں نئی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ رپورٹس سے آگاہ ہے لیکن ان کی تصدیق نہیں کر سکتی۔
مگر کولمبو اور دہلی دونوں میں موجود کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ دسمبر میں بھارت سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے ایجنٹ کو واپس بلائے کیونکہ وہ حزبِ اختلاف کے مشترکہ امیدوار مائیتھری پالا سری کو راجا پاکسے کی کابینہ چھوڑنے پر راغب کرنے کے بعد اب ان کے لیے حمایت جمع کرنے میں مدد کر رہا تھا۔
۲۸ دسمبر کو سری لنکا کے ’’سنڈے ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والی ایک سرسری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’مشترکہ حزبِ اختلاف کے ساتھ روابط‘‘ رکھنے کی پاداش میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے کولمبو اسٹیشن چیف کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔
بھارت اپنے جنوبی ساحل پر واقع اس چھوٹی سی جزیرہ ریاست کی اندرونی سیاست میں اکثر مداخلت کرتا رہا ہے۔ ۱۹۸۷ء میں اس نے وہاں فوجیں بھیج کر تامل باغیوں اور حکومت کے درمیان امن قائم کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
اِس عہدہ پر دو باریاں گزارنے کے بعد اس بار راجا پاکسے کی غیر متوقع شکست ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب بھارت میں اس بات پر تشویش بڑھ رہی تھی کہ علاقائی حریف چین کی طرف سابق صدر کے جھکاؤ کی وجہ سے وہ سری لنکا میں اپنا اثر و رسوخ کھو رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے آخر میں یہ تشویش اُس وقت خطرے کی گھنٹی میں تبدیل ہوئی، جب راجا پاکسے نے نیو دہلی کو خبردار کیے بغیر چین کی دو آبدوزوں کو سری لنکا کی بندرگاہ میں داخلے کی اجازت دے دی جبکہ نافذ العمل معاہدہ کے تحت اسے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔
نئے صدر سری سینا نے کہا ہے کہ وہ اپنا پہلا غیر ملکی دورہ اگلے ماہ بھارت کا کریں گے اور بھارت ان کی خارجہ پالیسی کا ’’پہلا اور اصل محور‘‘ ہوگا۔
ایک بھارتی عہدیدار نے کہا کہ را ایجنٹ کو ان شکایات کے بعد واپس بلایا گیا کہ اس نے سری لنکا کی عام طور سے منقسم اپوزیشن کو انتخابات کے لیے ایک متفقہ امیدوار لانے پر تیار کیا۔ پھر اس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے سری سینا سمیت کئی قانون سازوں کو راجا پاکسے کی پارٹی سے علیحدہ ہونے پر ابھارنے کے لیے ملاقاتیں ترتیب دی تھیں۔
ایک افسر اور سری لنکا کے رکنِ قومی اسمبلی جو بھارت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ایجنٹ پر الزام تھا کہ اس نے حزبِ اختلاف کے اہم رہنما اور سابق وزیراعظم رانل وکری میسنگھی کو راجا پاکسے کے مقابل کھڑے نہ ہونے اور کسی ایسے شخص کے لیے جگہ چھوڑنے پر آمادہ کیا، جس کے جیتنے کا یقین ہو۔ افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایجنٹ سابق صدر چندریکا کمار تنگا کے ساتھ بھی رابطے میں تھا، جنہوں نے سری سینا کو الیکشن میں کھڑا ہونے پر راضی کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انہی افسر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ایجنٹ کو ملک چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔
رکنِ قومی اسمبلی نے رائٹرز کو بتایا: ’’وہ پوری طرح ملوث تھے، رانل سے بات چیت کر رہے تھے، چیزوں کو ترتیب دے رہے تھے، چندریکا سے بات چیت کر رہے تھے‘‘ کہ ’’بعض چیزوں کے بارے میں آپ بات نہ کریں‘‘۔
وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ ووٹنگ سے قبل مہینوں میں وکری میسنگھی، جو اَب سری سینا کی حکومت میں وزیراعظم ہیں، انہوں نے ’’دو یا تین بار‘‘ اس شخص سے ملاقات کی جس کی نشاندہی ایجنٹ کے طور پر کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھارتی ہائی کمشنر یا سفیر سے بھی ملے۔
’’انہوں نے موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا‘‘۔ وکری میسنگھی کے ترجمان نے کہا۔ مگر انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ بھارتیوں نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا۔ ’’وہ نہیں جانتے کہ آیا دیگر سیاست دانوں کو اس نے کوئی مشورہ دیا‘‘۔ یہ واضح نہیں کہ آیا ملاقات کے وقت وکری میسنگھی کو علم تھا کہ وہ ایک انٹیلی جنس افسر سے ملاقات کر رہے ہیں۔ عام طور سے جب بھارتی را کے ایجنٹوں کو غیر ملکی مشن تفویض کیے جاتے ہیں تو سفارتی عہدے دیے جاتے ہیں۔
سابق صدر کمارا تنگا نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
راجا پاکسے نے اپنے خلاف مہم میں بھارت کے ملوث ہونے کی تصدیق کرنے سے انکار کیا۔
’’میں نہیں جانتا۔ میں جب تک حقائق نہ جان لوں، کسی پر شک نہیں کروں گا‘‘۔ انہوں نے پارٹی ہیڈ کوارٹر میں یہ بات کی۔
’’کچھ چیزوں کے بارے میں آپ بات نہیں کرتے‘‘۔ راجا پاکسے کے خاندان کے ایک قریبی ساتھی نے کہا۔ لیکن اس بات کا اضافہ کیا کہ ’’غیر ملکی عناصر کی طرف سے ایک گہری مہم کے واضح آثار موجود تھے‘‘۔
بھارتی عہدیدار نے کہا کہ سری لنکا کے اس وقت کے وزیرِ دفاع گوتابے راجا پاکسے جو سابق صدر کے بھائی ہیں، انہوں نے نومبر میں بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال سے ایجنٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں شکایت کی۔ اس وقت دوال ایک دفاعی سیمینار کے لیے سری لنکا کے دورے پر تھے۔
ایک دوسرے بھارتی عہدیدار جو علاقے میں سلامتی کے خطرات کا جائزہ لینے پر مامور ہیں، انہوں نے کہا کہ نیودہلی راجا پاکسے کے ماتحت بیجنگ کے سری لنکا میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور بھاری سرمایہ کاری پر نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ وہ ۲۰۰۵ میں صدر بننے کے بعد سے اب تک سات دفعہ چین کا دورہ کر چکے تھے۔ مگر بھارت پچھلے سال اس وقت حیرت اور غصے میں آیا جب دو مختلف مواقع پر چینی آبدوزیں سری لنکا کی بندرگاہ پر آئیں۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جسے نیو دہلی نے بیجنگ کی اس ’’اسٹرنگ آف پرلز‘‘ حکمتِ عملی کے حصے کے طور پر دیکھا، جس کے ذریعے وہ جنوبی ایشیا میں مضبوط قدم جمانا اور بحرِ ہند کے ذریعے سمندری رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
’’تعلقات میں اہم موڑ آبدوزوں کا واقعہ تھا۔ وہاں پر حقیقی غصہ تھا‘‘۔ بھارتی سکیورٹی عہدیدار نے بتایا: بھارتی فوجی حکام نے کہا کہ نیو دہلی نے سری لنکا کو یاد دلایا کہ ایک سمندری معاہدے کے تحت وہ اس طرح کی ’’بندرگاہ کالز‘‘ کے بارے میں ہمسایہ ممالک کو مطلع کرنے کا پابند ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نیو یارک میں راجا پاکسے کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا۔
بدلتی ہوئی وفاداری کی ایک ممکنہ علامت کے طور پر، بھارت کے کولمبو میں ہائی کمشنر وائے۔کے۔سنہا نے ۹ جنوری کو نتائج کے اعلان کے صرف چند گھنٹوں بعد سری سینا کو پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ پیش کیا۔ چین کے سفیر چھ دن بعد نئے صدر سے ملنے کے قابل ہو سکے۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Indian spy’s role alleged in Sri Lankan president’s election defeat”. (“Reuters”. Jan. 17, 2015)
Leave a Reply