
افغانستان میں امریکا کے سابق فوجی کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل اور ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ واحد سپر پاور کا مشیر برائے قومی سلامتی مسخرہ ہے، نائب صدر کچھ بھی نہیں اور صدر کا حال یہ ہے کہ وہ معاملات سے مطمئن نہیں اور خوفزدہ ہے۔ اس رائے کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے قدرے بے خوفی کے ساتھ جنرل میک کرسٹل کو برطرف کرکے ان کا کیریئر ختم کردیا۔ ریاستی امور میں سویلین سیٹ اپ کی برتری ثابت کرنے کے لیے یہ اقدام ناگزیر تھا۔ میک کرسٹل اور ان کے ساتھیوں کی رائے سے امریکی خارجہ پالیسی پر وہی زد پڑ رہی تھی جو طالبان کے کسی بڑے حملے سے امریکی فوج پر پڑتی ہے۔ جنرل میک کرسٹل کو سر تسلیم خم نہ کرنے کی جو سزا ملی وہ کسی بھی اعتبار سے غیر موزوں نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر اوباما اس حقیقت کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے کہ افغانستان میں جاری جنگ امریکا اور اس کے اتحادی ہار رہے ہیں۔
صدر بارک اوباما کے پاس جنرل میک کرسٹل کو برطرف کرنے کا مکمل جواز تھا۔ سویلین اتھارٹی کو تسلیم نہ کرنے کی یہی سزا ہونی چاہیے تھی۔ اگر اوباما ایسا نہ کرتے تو ان کی اپنی پوزیشن کمزور پڑ جاتی اور ان کی اتھارٹی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اوباما کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ طالبان کو خوش کرنے کے لیے اس سے بڑی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے کہ میک کرسٹل کو برطرف کردیا گیا ہے۔ اسی اقدام کی تو وہ راہ دیکھ رہے تھے۔ جنرل میک کرسٹل واحد امریکی افسر تھے جو عسکریت پسندی کے خلاف کامیاب رہے تھے۔ وہ افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل تھے اور ان کے منتخب کردہ افسران ہی قندھار میں طالبان کے خلاف آپریشن کرنے والے ہیں۔ اس آپریشن کے نتائج ہی سے افغانستان میں جاری جنگ کا رخ حتمی فیصلے کی طرف مڑے گا۔ صدر اوباما کے لیے ایڈوانٹیج کی بات یہ ہے کہ انہوں نے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو افغانستان میں امریکی افواج کا کمانڈر مقرر کیا ہے جو عراق میں کامیاب رہے تھے اور جنہوں نے عسکریت پسندی کے خلاف کارروائی کا منشور بھی لکھا ہے۔ مگر خیر، اس کے باوجود جنرل میک کرسٹل کی برطرفی نے امریکا کو افغانستان میں ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ناکامی کا راستہ بھی نکلتا ہے۔
صدر اوباما نے ایک مرحلے پر افغانستان میں جاری جنگ کو ضرورت کے تحت لڑی جانے والی جنگ قرار دیا تھا۔ اب اوباما کو یہ سوچ ایک طرف ہٹاکر دو سوالوں پر توجہ مرکوز رکھنی پڑے گا۔ پہلا یہ کہ کیا امریکی سربراہی میں بین الاقوامی افواج افغانستان میں جنگ جیت سکتی ہیں؟ اور اگر ہاں، تو کس طرح؟
جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے وہ جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان اختلافات کے لیے بہترین نہیں اور یہ موقع بھی موزوں نہیں۔ افغانستان میں امریکی موجودگی اب بیرون ملک اس کی طویل ترین مہم جوئی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ایک ہزار سے زائد فوجی مارے جاچکے ہیں اور ۶ ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ افغانستان بھر میں طالبان کا عمل دخل اب بھی غیر معمولی ہے۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والے امریکی ادارے دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ افغان عوام دوبارہ طالبان کی حکومت نہیں چاہتے مگر سچ یہ ہے کہ افغانستان کے ۱۲۰ اضلاع میں سے محض ایک تہائی میں صدر حامد کرزئی کو حمایت حاصل ہے۔ ایک تہائی سے زائد اضلاع میں اب بھی لوگ طالبان کی حکومت دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
نومبر ۲۰۰۹ء میں صدر اوباما نے افغانستان کے لیے مزید ۳۰ ہزار فوجی روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا مگر تب سے اب تک افغانستان میں کچھ بھی درست نہیں ہوا ہے۔ جنرل میک کرسٹل چاہتے تھے کہ افغان حکومت، فوج اور پولیس اس قابل ہوجائیں کہ افغانستان کا کنٹرول تیزی سے سنبھال سکیں اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد کوئی بڑی دشواری پیش نہ آئے۔ ہلمند کے علاقے مرجہ میں آپریشن کو اس حوالے سے غیر معمولی اہمیت دی جارہی تھی اور کہا جارہا تھا کہ اس علاقے میں اتحادیوں کی غیر معمولی کارروائی طالبان کو پسپا کردے گی مگر اب خود میک کرسٹل اس آپریشن کو رستا ہوا ناسور قرار دے رہے ہیں! صدر حامد کرزئی کے کرپٹ سوتیلے بھائی احمد ولی کرزئی کے بارے میں خیال تھا کہ ان سے چھٹکارا پالیا جائے گا مگر آج بھی وہ قندھار میں تمام اہم امور کے انچارج ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع افغانستان میں معدنیات کی دولت کی بات تو کرتا ہے مگر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سال رواں کے آخر تک جنگ کیا رخ اختیار کرے گی۔ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی حتمی طور پر کیا نتائج پیدا کرے گی، یہ بھی کوئی نہیں بتا سکتا۔
عام خیال یہ ہے کہ جنرل میک کرسٹل اور ان کے ساتھیوں نے صحافی رولنگ اسٹون کے سامنے امریکی قیادت کو جس طرح لتاڑا اس کی پشت پر بد حواسی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ فوجیوں نے ہمیشہ وہ نتائج نہیں دیے جو سیاست دانوں کی خواہش پر مبنی تھے۔ مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ سیاست دانوں نے بھی تو وہ سب کچھ نہیں کیا جو جرنیلوں کے نزدیک ناگزیر تھا۔ مثلاً جب افغانستان میں بھرپور توجہ کی ضرورت تھی تب جارج واکر بش اپنے ساتھیوں کے ساتھ صرف عراق جنگ پر توجہ دیتے رہے۔ صدر بارک اوباما اور ان کی ٹیم نے مزید خرابی پیدا کی۔ افغانستان کے لیے مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ خاصی لیت و لعل کے بعد اور تاخیر سے کیا گیا۔ اور اب انہوں نے فوجی انخلا کے لیے جولائی ۲۰۱۱ء کی ڈیڈ لائن کا اعلان کرکے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔
صدر اوباما کو ایک طرف تو اندرونی سطح پر اختلافات کا سامنا ہے اور دوسری جانب مختلف امور میں تذبذب بھی ان کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ افغان جنگ میں بھرپور اور حتمی کامیابی کا امکان معدوم تر ہوتا جارہا ہے۔ صدر اوباما کے بلند بانگ دعوے عمل کی دنیا میں ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ افغانستان اور پاکستان میں کم لوگ ایسے ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ امریکا اب افغانستان میں مزید لڑنے کی خواہش اور سکت رکھتا ہے۔
اگر افغانستان میں بہت کچھ داؤ پر نہ لگا ہوتا تو مغربی قائدین بڑی آسانی سے افواج کو واپسی کا حکم دے دیتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ افغان جنگ کو اپنے ووٹروں کے سامنے بیان کرنا بھی ان کے لیے درد سر سے کم نہیں۔ اس جنگ کا جواز ثابت کرنا سب سے بڑی الجھن ہے۔ اگر واضح فتح کے بغیر افواج کو واپس بلایا گیا تو بہت سے سیاسی قائدین کا کیریئر ہی ختم ہو جائے گا۔ القاعدہ کے محفوظ ٹھکانوں کو ناممکن بنانے کا مقصد بھی حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ القاعدہ مبینہ طور پر پاکستان، صومالیہ اور یمن میں بھی محفوظ ٹھکانے حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ افغانستان سے مغربی افواج کا فوری انخلا وہاں خانہ جنگی کی راہ ہموار کرے گا جس میں ایران، پاکستان، بھارت اور روس سبھی ملوث پائے جائیں گے۔ یہ صورت حال بالآخر امریکا کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ افغانستان میں فتح کا نہ ملنا مغربی دنیا اور نیٹو کے لیے بہت بڑا دھبّا ہوگی۔ یہ صورت حال نیٹو کے لیے مشکلات پیدا کرے گی اور اس کے مخالف گروپ مزید مستحکم ہو جائیں گے۔ اور ہم افغان عوام کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ مغربی طاقتوں نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اب ان کا فرض ہے کہ افغان عوام کو کم از کم نصف شائستہ طریقے ہی سے ان کا ملک واپس کریں۔ عراق میں جو کچھ ہوا، افغانستان میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔ وہاں ہر سال ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اترتے تھے۔ افغان فوج اور پولیس میں بھرتی کا عمل جاری ہے اور یہ سوچنا محض خوش فہمی نہیں کہ افغانستان میں بہت سے لوگ طالبان کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ وہ پہلے کسی متبادل پر یقین رکھیں۔
جنرل پیٹریاس کا انتخاب بھی بہرحال کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ عراق میں انہوں نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ افغانستان قدرے مختلف حالات کا ملک ہے، مگر خیر جنرل پیٹریاس کا تجربہ بھی کم نہیں۔ اب سب کچھ قندھار آپریشن کے نتائج پر منحصر ہے۔ میک کرسٹل کے برے فیصلوں میں قندھار آپریشن کو موسم خزاں تک موخر کرنا بھی شامل ہے۔ افغانستان میں صدر اوباما نے سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔ ان کا بہترین جرنیل میدان میں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا کو شدید نوعیت کی پسپائی کا سامنا بھی کرنا پڑے۔ مگر خیر اس نتیجے کا کوئی بھی خیر مقدم نہیں کرے گا۔
(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۲۴ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply