گڑھے کو تکتے رہیے۔۔۔

پاکستان میں لبرل ازم کے لیے پنپنے کی گنجائش ویسے ہی کم ہے اور ایسے میں پنجاب کے گورنر اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے ایک کٹر مخالف سلمان تاثیر کا قتل لبرل عناصر کے لیے مشکلات میں اضافے کا نقیب ہے۔ لبرل سوچ رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی یہ قتل پریشان کن ہے۔ ۲؍ جنوری کو حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں جب متحدہ قومی موومنٹ نے حکومت کو دی جانے والی حمایت واپس لے لی۔

سلمان تاثیر کے قتل نے تین سال قبل رونما ہونے والے بے نظیر بھٹو کے قتل کی یاد بھی تازہ کردی۔ پاکستان شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ اسلامی شدت پسندی عروج پر ہے۔ ایسے میں اگر حکومت کمزور ہو تو ان دونوں بحرانوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکتی۔ سلمان تاثیر نے توہین رسالت سے متعلق قانون میں ترمیم کے لیے تنہا اور بے باک مہم چلائی۔ سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس گارڈ ممتاز قادری نے بعد میں کہا کہ اس نے گورنر پنجاب پر گولی اس لیے چلائی کہ توہین رسالت قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرکے وہ توہین رسالت کا ارتکاب کر بیٹھے تھے۔ سلمان تاثیر اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستانیوں کی اکثریت انتہا پسند نہیں مگر چونکہ انتہا پسند عناصر تشدد کی راہ پر گامزن ہیں اس لیے تاثر یہ ملتا ہے جیسے بیشتر پاکستانی انتہا پسند ہیں۔

ممتاز تجزیہ کار خالد احمد کہتے ہیں ’’پاکستان چونکہ مستقل خوف کے سائے میں جی رہا ہے اس لیے یہ سوال اہم نہیں کہ انتہا پسند اکثریت میں ہیں یا اقلیت میں۔ جب مستقل خوف کو زندگی کا حصہ بنادیا جائے گا تو اعتدال پسند عناصر کبھی نہیں اٹھ سکیں گے‘‘۔ ۲۰۰۹ء میں ایک ایسے عالم دین کو خود کش حملے میں ہلاک کردیا گیا جنہوں نے خود کش حملوں اور تشدد کے دیگر واقعات کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اسی سال مذہبی امور کے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد متعدد اعتدال پسند شخصیات نے ملک چھوڑنے میں عافیت محسوس کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے توہین رسالت کے قانون کو ختم یا ترمیم کرنے سے متعلق سلمان تاثیر کی کال کی حمایت دینے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہیں کی۔

توہین رسالت سے متعلق قانون برطانوی دور میں متعارف کرایا گیا تھا تاہم جنرل ضیاء کے دور میں اس قانون کے تحت موت کی سزا متعین کی گئی۔ اس قانون کا غلط استعمال بڑے پیمانے پر ہوتا رہا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے دشمنوں سے انتقال لینے یا انہیں ٹھکانے لگانے کے لیے توہین رسالت کے الزام کا سہارا لیتے ہیں۔ توہین رسالت کا قانون مبہم ہے اور اسلام کی توہین پر انطباق پذیر ہوتا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم سبھی اس کی گرفت میں آتے ہیں۔ توہین آمیز کلمات فرد جرم میں ظاہر کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی عدالت کے روبرو دہرائے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کا دہرایا جانا بجائے خود توہین رسالت یا توہین اسلام کے زمرے میں آتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری نے یہ کام تنہا کیا ہو تاہم تفتیش کے ذریعے یہ بات تو منظر عام پر لائی جاسکتی ہے کہ اسے اس کام کی تحریک کن لوگوں نے دی تھی۔ ممتاز قادری کے لیے پاکستان میں غیر معمولی حمایت پائی جاتی ہے۔ عدالت کے باہر وکلا نے اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ مذہبی حلقے اور میڈیا میں بعض ادارے بھی اس کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

جماعت اہل سنت پاکستان نے اعلان کیا کہ کوئی بھی مسلمان سلمان تاثیر کی نماز جنازہ نہ پڑھے اور دعائے مغفرت بھی نہ کرے۔

مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں غیر معمولی حمایت نہیں مل پاتی۔ ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو ڈالے گئے ووٹوں میں سے صرف پانچ فیصد ووٹ ملے تھے۔ گیلپ پاکستان کے سربراہ اعجاز گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہب سے وابستگی کا اندازہ مذہبی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی سے نہیں لگایا جاسکتا۔ پاکستان میں لوگ مذہب کے حوالے سے شدید جذبات رکھنے کے باوجود ان جماعتوں کو ووٹ دینا بہتر سمجھتے ہیں جن کے اقتدار میں آنے کا امکان قوی ہوتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹروں میں مذہبی جذبات رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں اس لیے وہ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا تصور نہیں کرسکتیں۔

اسکولوں کے نصاب سے ٹی وی کے ٹاک شوز تک پاکستان کا کلچر مذہب کے حوالے سے انتہا پسندی سے عبارت ہے۔ خود سلمان تاثیر اس خیال کے حامل تھے کہ حکومت شدت پسند مذہبی گروپوں کی حمایت اور مدد کرتی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے سے اب تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے مذہبی انتہا پسندی کی حمایت کی ہے اور جہاد کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ اس رجحان کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مساجد سے سلمان تاثیر کے قتل کی کال دی گئی مگر کال دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد سے وفاقی حکومت بھی خاصی پریشان ہے۔ متحدہ نے حمایت بحال تو کی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اب بھی کسی نئے اور قابل اعتبار اتحادی کی تلاش میں ہے۔ اس بات کے بھی آثار ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت بنائیں۔ اس وقت ترپ کا پتہ میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی کسی بھی تحریک کو مسلم لیگ (ن) کی واضح حمایت درکار ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ خود میاں نواز شریف کا ذہن بھی واضح نہیں کہ اس وقت اقتدار ہاتھ میں لینے کی کوشش کی جائے یا نہیں۔ انہیں زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں معاملات ہاتھ سے نکل نہ جائیں اور پھر صورت حال کو کنٹرول کرنے فوج دوبارہ اقتدار میں آ جائے۔

فوج بھی اس وقت اقتدار میں آنے کے موڈ میں نہیں۔ ایک طرف تو ملک کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور دوسری طرف اسلامی شدت پسندوں کو کچلنے کا معاملہ بھی ہے۔ ایسے میں فوج کے لیے اقتدار زیادہ پرکشش نہیں رہا۔ اس وقت حالات فوج کے حق میں ہیں۔ وہ سیکورٹی کے حوالے سے تمام امور کی انچارج ہے، خارجہ پالیسی پر بھی فوج ہی کا کنٹرول ہے، دفاعی بجٹ میں کمی کی کوئی گنجائش نہیں اور خراب حالات کے باعث امریکی امداد کا حصول بھی آسان ہے۔ اوباما انتظامیہ بھی حالات کی درستی کے نام پر پاکستان کی امداد بھرپور طور پر جاری رکھنے کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف تمام الزامات سویلین حکومت کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ فوجی بغاوت ناممکن تو نہیں مگر اس وقت جرنیل ایک ایسے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز ہی کریں گے جہاں سب سے بڑے صوبے کے گورنر کے قتل کو سراہا جارہا ہے۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘لندن۔ ۸ جنوری ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*