
پہلی عالمی جنگ کے جو منفی نتائج اُمتِ مسلمہ نے دیکھے، ان میں ترکی کی عثمانی خلافت کا خاتمہ بھی تھا۔ ترکی اگر جنگ کی آگ میں نہ بھی کودتا، تو دنیا پر یہ بات کھل چکی تھی کہ اس ’’مردِ بیمار‘‘ میں عظمت و قوت کے اعتبار سے ماضی کا سا دَم خم نہیں ہے۔ جو ترک پانچ سو سال تک سر اٹھا کر چل رہے تھے، وہ سرافگندہ ہو چکے تھے۔ معاملہ صرف عسکری میدان میں ہزیمتوں ہی کا نہ تھا۔ ترکی اپنی فکری اور اعتقادی طاقت کھو بیٹھا تھا۔ جن مغربی قوموں کا اس نے ان کی سرحدوں کے اندر جا کر بار بار سر کچلا تھا، انہوں نے اپنی سازشوں سے اس کی نئی نسل کے سروں میں ایسا سودا ڈال دیا تھا کہ وہ اپنے ماضی سے کٹ کر انہی قوموں کے نظریات و افکار اور تہذیب و تمدن پر فریفتہ ہو گئی تھیں۔ ترک ایک جنگجو قوم تھی۔ صدیوں تک میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتی رہی لیکن علم و معرفت کی چمن آرائی میں کوتاہی کی مرتکب رہی۔ عثمانی خلافت اسلام کے تصورِ ریاست و سیاست کا کوئی مثالی نمونہ تھی اور نہ ہی ترک خلفاء اسلام کے حقیقی معنوں میں ترجمان اور خادم تھے۔ مسلمانانِ عالَم کی ترکی سے جذباتی وابستگی اس وجہ سے تھی کہ عثمانی خلافت ہمارے دین سے جڑی ہوئی ایک سیاسی روایت تھی۔ اس روایت کا خاتمہ سیاست کے دین سے تعلق کا خاتمہ سمجھا گیا تھا۔ یہ رسمی تعلق ٹوٹا تو ترکی کی جون بدل گئی۔ میں پہلے بھی انہی کالموں میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ ترکی کی عملداری کے اندر واقع عیسائی مشنری اور تعلیمی اداروں نے عرب نوجوانوں کے اندر کس طرح عرب قومیت کا صور پھونکا اور انہیں خلافت کے خلاف جذباتی اور فکری اور عملی طور پر کس طرح صف آرا کر دیا تھا۔ عین اسی طرح عیسائی اور یہودی خفیہ تنظیموں نے ترک نوجوان نسل کو تورانی قومیت کے جادو میں مبتلا کر دیا تھا۔ ادارۂ خلافت کے انہدام سے پہلے ہی تہذیبی و تمدّنی اور ثقافتی اعتبار سے ترکی کو مغرب کے قالب میں ڈھالنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ اسی فتنۂ قومیت کے زیرِ اثر مِلت کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر اقبالؒ پکار رہے تھے:
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر مِلت میں گْم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
لیکن بات اب بہت آگے جا چکی تھی۔ نئے ترکی کا رشتہ سیاسی لحاظ سے جمہوری فلسفے کے بجائے اس فکر اور فلسفے سے قائم ہو گیا جو دوسری جنگِ عظیم کے قریب نازی ازم اور فاشزم کی صورت میں جرمنی اور اٹلی میں رائج تھا۔ خلافت کی روایت کے صدیوں وارث رہنے کی وجہ سے سارے ترک عوام شاید دین و سیاست کی جدائی کے تصور کو آسانی سے ہضم نہ کر پاتے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ ترکی کو بہ جبر ایک تو اپنی مذہبی روایات اور اپنی تہذیب و ثقافت سے کاٹ کر مغربی کلچر سے جوڑا جائے۔ دوسرے ترک عوام مغربی تہذیب کے رنگ کو تو اپنا رنگ بنا لیں لیکن مغرب میں مقبول و متداول سیاسی فلسفے یعنی جمہوریت کو یہاں پنپنے کا مطالبہ نہ کریں۔ ترک فوج نے کمالی فلسفے اور سیکولر سیاسی نظریے کی محافظ کا کردار سنبھال لیا تھا اور سیاست کو دین کے ذائقے (Blend) سے ناآشنا بنانے کے لیے قہر و جبر کا ہتھیار استعمال کرنے لگی تھی۔ یوں اسلام کے سیاسی، تہذیبی اور تمدنی چہرے پر گویا ایک پردہ ڈال دیا گیا اور اپنی دانست میں یہ سمجھ لیا گیا کہ ’’سیاسی اسلام‘‘ کے ابھرنے کے سارے راستے مسدود ہوگئے۔
لیکن وہ فصل جس کے لیے ترک سرزمیں ناموافق بنا دی گئی تھی، ادارۂ خلافت کے خاتمے کو ابھی ایک عشرہ بھی پورا نہ ہوا تھا کہ مصر و ہند میں اس پر بہار آ گئی۔ مصر کے اِمام حسن البناؒ اور برصغیر پاک و ہند سے سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ اٹھے اور انہوں نے دین و سیاست کی جدائی کے رد میں فکری اور نظری سطح پر دلائل و براہین کے انبار لگا دیے اور عملی سطح پر اسلام کو ایک دینِ کامل ثابت اور ایک نظامِ زندگی اور ایک ہمہ گیر ضابطۂ حیات کے طور پر متعارف کرانے کے لیے زبردست تحریکیں برپا کر دیں۔ عظیم فلسفی شاعر علّامہ اقبالؒ پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ:
جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ان جلیل القدر رہنماؤں نے اسلام کے چہرے پر پڑے ہوئے جَہلِ خِرد کے وہ جالے بھی ہٹا دیے اور توہمات و رسومات کی وہ گرہیں بھی کھول دیں جو خلافتِ عثمانیہ کے دور میں بھی نہ ہٹے اور نہ کھلی تھیں۔ ان تحریکوں نے معذرت خواہانہ رویے کو خود اعتمادی میں بدلا اور احساسِ کمتری کے سِحر کو توڑا۔ جدید علم الکلام اور مغرب کی جدید اصطلاحات ہی کو استعمال کر کے اسلام کا دفاع کیا۔ دونوں تحریکوں نے تبدیلی اور انقلاب کے لیے رائے عامہ کی ہمواری اور جمہوری طریقے ہی کو اختیار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ جمہوریت اگر حکمرانوں کے انتخاب اور احتساب میں عوام کی رائے اور مرضی کا نام ہے اور ریاست کے شہریوں کی عزت، آزادی اور انسانی حقوق سے عبارت ہے توپھر یہ جمہوریت درحقیقت اہلِ ایمان کی گم شدہ متاع ہے۔ دینی شعور بیدار کر کے اور اصلاحی کاوشوں سے معاشرے کے تزکیہ و تطہیر کے ذریعے قلوب و اذہان کو اسلام سے جوڑنے کا جمہوری عمل ان کی جدوجہد میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا تھا۔ اسی کو اصلاحِ معاشرہ اور تبدیلیٔ اقتدار کا منہاج قرار دیا۔
ذہن و فکر اور کردار و عمل کا زوال صرف ترکی تک محدود نہ تھا۔ تقریباً سارا عالَمِ اسلام استبدادی پنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ اس دور میں پبلک مقامات پر ایسے انتباہی بورڈ آویزاں ہوتے تھے کہ یہاں مذہب اور سیاست پر بحث و گفتگو منع ہے۔ یہ تصور ذہنوں میں بٹھا دیا گیا تھا کہ اسلام کا نہ ریاست و سیاست سے کوئی تعلق ہے، نہ معیشت اس کے دائرے میں آتی ہے اور نہ تہذیب و تمدّن ہی اس کا موضوع ہے۔ بطورِ احسان بس نماز روزے، حج عُمرے کی آزادی تھی۔ ہماری مذہبیت اسی پر پھولی نہیں سما رہی تھی کہ دیوبند، سہارنپور اور بریلی جیسے مدرسے اور تھانہ بھون جیسی خانقاہیں آباد ہیں۔ فرقہ وارانہ اور مسلکی مباحثوں، مناظروں اور مباہلوں پر کوئی پابندی نہیں، گویا اسلام آزاد ہے۔ اقبالؒ نے اسی خود فریبی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
ادھر آزادی کی تحریکیں اپنا رنگ دکھا رہی تھیں اور غلامی کی زنجیریں ڈھیلی پڑتی جا رہی تھیں۔یہی وہ حالات تھے جن میں علّامہ اقبالؒ نے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک جدا اور آزاد و خود مختار وطن کا تصور پیش کیا۔ دس سال بعد اس تصور نے ایک مطالبے اور ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ قائدِاعظم محمد علی جناحؒ نے اس تحریک کی قیادت کا بار اپنے نحیف و نزار کندھوں پر اٹھایا اور سات برس بعد پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک دنیا کے نقشے پر وجود میں آگیا۔ یوں تو اس دور میں کئی ملک مغربی استعمار سے آزادی پا رہے تھے لیکن پاکستان اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل انوکھا وطن تھا۔ یہ اسلامی نظریے کی بنیاد پر بنا تھا۔ پوری انسانیت کو نجات دلانے کا فطری طریقہ یہی تھا کہ اس خاص خطۂ زمین کو پہلے اسلام کے مثالی اور بابرکت نظام کا ماڈل بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر کے ا سلام کی فیوض سے آشنا کیا جائے۔ بانیانِ پاکستان نے اس مملکتِ نوزائیدہ کے حصول کے جو اہداف مقرر کیے تھے، اُن میں اسلام کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور وہ اسے اسلام کی ایک عملی تجربہ گاہ بنانے کا عزم ظاہر کر رہے تھے۔ آزاد پاکستان میں نظریاتی اور فکری اور اعتقادی بو قلمونی کی نفی نہیں کی گئی تھی۔ اس میں اقلیّتیں بھی تھیں، مغربی تہذیب کے دلدادگان بھی تھے، سیکولر اور اشتراکی فکر کے لوگ بھی تھے لیکن اس کا نظریاتی تشخص اس کی تشکیل سے پہلے ہی طے ہو گیا تھا اور قرار پا گیا تھا کہ اس کی سرکاری حیثیت اسلامی جمہوریہ کی ہو گی۔
اب کوئی ۶۷ برس بعد یہ نکتہ نئے سرے سے اٹھایا جا رہا ہے کہ ریاست اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوا کرتی۔ اس کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ نظریاتی چہرہ۔ سرمایہ دارانہ نظام ہو یا کمیونزم، یہ بھی اپنی نوعیت کے ’’مذہب‘‘ ہی ہیں۔ یورپ اور امریکا نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کو اپنا ’’مذہب‘‘ قرار دے رکھا ہے اور روس نے کوئی سات عشروں تک کمیونزم کو اپنا سرکاری ’’مذہب‘‘ بنائے رکھا۔ چین خواہ کمیونزم کی اصلی نظریاتی شکل بڑی حد تک ترک کر چکا ہے لیکن اس کا سرکاری ’’مذہب‘‘ اب بھی کمیونزم ہے۔ اسرائیل اپنے قیام کے پہلے روز سے ایک یہودی ریاست ہے اور اس کا طرزِ عمل بول بول کر اس حقیقت کی گواہی دے رہا ہے۔ اس پر وہ نہ شرما رہا ہے اور نہ دنیا کے سامنے کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر رہا ہے۔ اب تو وہاں ایسی آوازیں آنے لگی ہیں کہ اسے سرکاری طور پر یہودیوں کی ریاست کا درجہ دے دیا جائے۔
پاکستانی ریاست کا مذہب سے کوئی واسطہ تھا یا نہیں؟ اس کے لیے سب سے بہتر اور قابلِ اعتماد گواہی ان لوگوں کی ہو سکتی ہے جنہوں نے اس کے حصول کی جدوجہد میں حصہ لیا، جنہوں نے اس کی خاطر گھر بار چھوڑے۔ جنہوں نے اس کی تعمیر میں جانفشانی دکھائی، جن کی بصیرت نے اس قراردادِ مقاصد کے ذریعے اس کے نظریاتی اور اصولی رخ متعین کیے اور جنہوں نے پاکستان کے نصب العین کی تعبیر و تشریح کی۔ ممتاز محقق، مورّخ اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم ایسی ہی شخصیات میں سے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے اور اس حکومت میں وزیر تعلیم کے منصب پر فائز رہے۔ اس وقت میرے سامنے Pakistan an Islamic Democracy کے نام سے ان کی دو بہت اہم تقریروں پر مشتمل ایک کتابچہ ہے۔ پہلی تقریر دسمبر ۱۹۴۹ء میں ’’پولیٹیکل سائنس کانفرنس‘‘ منعقدہ لاہور اور دوسری ’’آل پاکستان پولیٹیکل سائنس کانفرنس‘‘ منعقدہ پشاور میں صدارتی خطبہ کے طور پر کی گئی تھی۔ پہلی تقریر کا عنوان ہے: The future constitution of Pakistan پاکستان کے نظریاتی اور فکری پس منظر اور پیش نظر مقاصد کو اس میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہاں میں صرف ایک دو اقتباسات پر اکتفا کروں گا جو آج کل جاری ایک بحث سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک معتدل و معقول اور جینوئن سوچ کے علاوہ سوچ کی دو لہریں اور بھی تھیں جو متوازی بہہ رہی تھیں۔ ایک وہ جامد اور رجعت پسند لہر تھی۔ بقول اقبالؒ:
اس کا شیوا تھا… آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا۔
یہ رسم پرست سوچ روحِ اسلام کے بجائے کچھ ظاہری شکلوں پر جمے رہنے پر اصرار کرتی ہے۔ ڈاکٹر قریشی مرحوم نے اس سوچ کی نشاندہی ایک مثال سے کی ہے۔ رسول اللہؐ نے جب بھی حج اور عمرہ کے لیے مدینہ سے مکّہ کا سفر کیا تو اونٹ پر ہی یہ سفر طے کیا۔ یہ سوچ گویا سفر کی اس ظاہری شکل میں الجھی ہوئی ہے۔ اس کے نزدیک گویا حج و عمرہ کا سفر اونٹ اور گدھے گھوڑے پر ہی ہونا چاہیے۔ دوسری سوچ تقریباً وہی تھی جو آج پاکستان کے نظریاتی تشخص پر سوال اٹھا رہی ہے۔ ڈاکٹر قریشی مرحوم ان کے بارے میں کہتے ہیں:
’’اس تنگ نظر قدامت پسند گروہ کو ایک ساتھی ان لوگوں میں سے مل گیا ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ سیاست کے ساتھ مذہب کے بارے میں سوچنا غلطی ہے اور ہم دقیانوسیت اور زندگی کے موجودہ (جدید) حالات سے غیر متعلق تصورات سے چپکے رہنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ (ڈاکٹر قریشی مرحوم کہتے ہیں) باوجود اس کے کہ اس نئے تصور کے حامیوں کی ظاہری روشن خیالی اور جدیدیت کے باوجود ان کے نقطۂ نظر کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس حقیقت کی بڑی آسانی سے توضیح ہو سکتی ہے کہ جو نظامِ سیاست و معاشرت راست بازی اور عدل کے بلند ترین اصولوں کی بنیاد پر کھڑا نہ ہو، وہ نہ صرف اس ملک کے لیے جس میں یہ برپا ہو بلکہ ساری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے‘‘۔ (راست بازی اور عدل کی اصل اقدار مذہب ہی فراہم کر سکتا ہے)
سیاست اور مذہب کے تعلق سے وہ مزید کہتے ہیں:
’’کسی پاکستانی کے ذہن میں، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، یہ اشتباہ نہیں رہنا چاہیے کہ پائیدار نظامِ ریاست صرف وہی ثابت ہو سکتا ہے جو سب کے لیے مبنی بر اصول اور عادلانہ ہو اور جو انسانیت کی فلاح کا ضامن ہو۔ یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اسلام کے اصولوں پر قائم ہو۔ ایک مٹھی بھر گروہ کی خاطر، جو ممکن ہے اسلام کو مانتا ہی نہ ہو یا اس کی نظر اسلام کی حرکیات اوراثر آفرینی اور اس کے ممکنات پر نہ ہو، (مذہب کے) اس جوہرِ لازم سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ یوں گویا جو معقول نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہماری دستوریہ نے اپنے دستور میں بطورِ ہدف اسلام کے اصولوں کو اپنا بڑا نصب العین قرار دینے کا جوفیصلہ کیا تھا، وہ درست تھا‘‘۔
اس وقت اتفاق سے میرے سامنے State politics and Islam کے نام سے شائع ہونے والی ایک کتاب ہے۔ ستمبر ۱۹۸۲ء کے اوائل میں ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائینٹسٹس کی سرپرستی میں انڈیانا کی پرڈیو یونیورسٹی میں “Islamic political thoughts and institutions” کے موضوع پر ایک عالمی سمینار منعقد ہوا تھا۔ یہ کتاب اسی سمینار میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے، جسے ہمارے بھائی ڈاکٹر ممتاز احمد نے مرتّب کیا تھا۔ محترم پروفیسر خورشید احمد بھی اس سمینار میں شریک تھے لیکن ان کے مقالے کا مختصر مسوّدہ مرتّب کو بروقت بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ اس کتاب کی زینت نہ بن سکا۔ کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ ریاستی سیاست کا اسلام سے ایک خاص اور گہرا تعلق ہے۔ یوں تو اس میں شامل ہر مقالہ بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن نامور قانون دان خالد ایم اسحاق مرحوم کا مقالہ بعنوان: Problems of Islamic political theory اور محترم جسٹس(ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کا مقالہ بعنوان The concept of state in Islam بطورِ خاص میری اس تحریر سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کی چند آیات سے اخذ کردہ اصولوں (Ideals) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرحوم خالد ایم اسحاق لکھتے ہیں کہ اپنی طویل تاریخ میں امتِ مسلمہ نے شاید ان اصولوں کو حرزِ جان نہ بنایا ہو لیکن یہ اصول نظروں سے پوری طرح اوجھل کبھی نہ ہوئے۔ امت کے سامنے اب یہ چیلنج ہے کہ یا تو پرانے اداروں کو بروئے کار لائے یا نئے اداروں کی تشکیل کرکے یہ امر یقینی بنائے کہ شریعت سرزمینِ وطن کا سب سے بالا اور مؤثر قانون ہوگا۔ دوم، ہر آدمی کے ساتھ شرعی قوانین کے تحت برتاؤ ہو۔ سوم، افراد کے حقوق کی حفاظت کا بہرحال اہتمام ہونا چاہیے اور اس حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کافی اداروں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ چہارم، لوگوں کو ایسے سیکولر قوانین کی پابندی پر طاقت کے زور سے مجبور نہ کیا جائے جن پر عمل سے شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ پنجم، حقوق کے مطالبے کے لیے آواز بلند کرنے (یا ان کی پامالی پر احتجاج) کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے انتظامیہ کے اثرسے آزاد عدالتی ٹربیونل کا وجود میں لانا ضروری ہے۔ ششم، تمام بااختیار قوتیں خواہ وہ سرکاری ہوں یاغیر سرکاری، شہریوں کے ساتھ انصاف اور برابری کی سطح پر برتاؤ کریں۔ ہفتم، فیصلہ سازی اور عوامی معاملات میں، حکومتی کارروائیوں میں، بطورِ اصول اور قاعدہ شورائیت کو پوری طرح متحرک ہونا چاہیے۔
مرحوم خالد ایم اسحٰق اپنے مقالے کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں:
Some of the Muslim world’s major problems arise from the fact that those who defacto exercise power do not always agree with the priorities of Shariah. The Ummah’ stask is to change the rhetoric of Islamic idealism into practical programs which can effect all legislative, judicial and executive processes of the state, particularly in regard to their pririorities.
’’مسلم دنیا کے سب سے بڑے مسائل اس طرح جنم لیتے ہیں کہ جو لوگ طاقت اور اختیار کا استعمال کرتے ہیں شریعت کی ترجیحات سے ہمیشہ ان کا اتفاق نہیں ہوتا۔ اس اُمت کا کام یہ ہے کہ اسلامی اصول کے بارے میں جذباتی رویے کو ایسے عملی پروگراموں کی شکل میں ڈھالے جن کے ذریعے ریاست کی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر اثرانداز ہوا جاسکے۔خاص طور پر جن کا تعلق ان ترجیحات سے ہو‘‘۔
مذکورہ کتاب میں جو مقالے شامل ہیں یہ Edited version ہیں۔ ممکن ہے کہ تلخیص کے عمل میں ان کی روح کچھ مجروح ہوئی ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ تحریر کی طوالت کے باعث جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کے مقالے سے اقتباسات پیش کرنے کی گنجائش باقی نہیں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنے مقالے میں بڑی محنت، دیانت اور علمی فراست سے قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں اسلام کے سیاسی نظام کا ایک جامع خاکہ پیش کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دین کی ریاست و سیاست سے بے دخلی کا فلسفہ پیش کرنے والے اصحابِ دانش کا دینی فہم ان سارے اصحابِ علم و فکر کے مقابلے میں بہت بلند ہو لیکن علم کی دنیا میں جتنی ممکن یہ بات ہے کہ بہت سے لوگ مغالطے کا شکار ہو جائیں، اس سے زیادہ یہ امکان ہوتاہے کہ بہتوں کے مقابلے میں اس ایک مذہبی اسکالر کا فہم ٹھوکر کھا گیا ہو۔ ریاست و سیاست سے مذہب کے تعلق کی نفی علمی دنیا میں کوئی نئی فکری دریافت ہے اور نہ ہی یہ چمنِ علم میں پھوٹنے والا کوئی نیا شگوفہ ہے۔ یہ سوچ استعماری دور سے کسی نہ کسی رنگ میں سامنے آتی رہی ہے اور اب گزشتہ چند دہائیوں سے یہ ’’پولیٹیکل اسلام‘‘ کی پھبتی بن کر نئے سرے سے ان اسلامی قوتوں پر برس رہی ہے جو اسلام کی زندگی کے ہر میدان اور تمام شعبوں میں کارفرمائی اور رہنمائی کی قائل ہیں۔ وہ جسے ’’پولیٹیکل اسلام‘‘ کہا جاتا ہے، وہ ایسا چراغ نہیں ہے کہ ان پھونکوں سے بجھ جائے۔ اس کے اوپر سے گزشتہ چھ عشروں میں بڑی آندھیاں اور سخت طوفان گزرے ہیں لیکن وہ اسے گُل نہیں کر سکے۔ وہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ابتلا و آزمائش کے ہر دور میں اس کی ضوفشانی دو چند ہوئی۔ یہ ایسی حقیقت کہ اس کی کرنیں سیاہ گھٹاؤں میں بھی منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ ’’پولیٹیکل اسلام‘‘ اب مولانا مودودیؒ اور حسن البناؒ کے دیس تک محدود حقیقت نہیں ہے۔ یہ ترکی سے لے کر شمالی افریقا تک اور انڈونیشیا، ملائشیا سے لے کرجنوبی ایشیا اور بحیرۂ عرب کے اس پار خلیجی ممالک تک سارے عالمِ اسلام تک کی ایک مقبول فکر ہے۔ اسے مٹانا آسان ہوتا تو مصر کے یکے بعد دیگر چار فوجی ڈکٹیٹر اسے کب کے مٹا چکے ہوتے۔ شام کے اسد خاندان کا ۴۵ سالہ اقتدار اس کی رگوں سے سارا خون نکال چکا ہوتا۔ کرنل قذافی کی چار عشروں پر محیط وحشت خیز آمریت اور صدام حسین کی بائیس تئیس سال پر پھیلی ہوئی سفاک حکومت اس کی جان نکال چکی ہوتی۔ تیونس، الجزائر اور مراکش میں اس کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ اسلام کے اس تصور کا کام تمام کرنا ممکن ہوتا تو امریکا اور مغربی قوتوں کے زیرِ اثر عرب بادشاہتیں، سلطانیاں، شیخیاں اور امیریاں کب کی اسے خلیج کی لہروں کی نذرکر چکی ہوتیں۔ روس کا قہرناک نظام کب کا اسے دفن کر چکا ہوتا۔
دین کا یہ تصور تاب و تواں سے خالی ہوتا تو اس فکر کو ترکی میں کمال ازم اور عرب میں عرب نیشنل ازم کی لہریں کب کی تنکوں کی طرح بہا کر نیست و نابود کر چکی ہوتیں۔ کمیونزم اور سوشلزم کی جفا کاریوں سے یہ گہرا دفن ہو چکا ہوتا۔ لیکن پولیٹیکل اسلام کا تصور زندہ و باقی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہے۔ اسلام کی صورتِ کامل کو کارگاہِ حیات کی وسعتوں سے بے دخل کر کے پہلے بھی کبھی تو رسم و راہِ خانقاہی کا عادی بنانے کی کوشش کی گئی اور کبھی اس کومنبر و محراب تک محدود کیا گیا۔ کبھی اسے مدرسوں کی گھٹن آلود فضا میں دھکیلا گیا اور کبھی صرف نکاح و طلاق کے رجسٹر اور جنازہ گاہ کا چارج اسے سونپا گیاکہ اس سے زیادہ اور کسی چیز سے سروکار نہ رکھے۔ کبھی اس کے گرد رسمیت کی لکیریں کھینچ دی گئیں اور کبھی اسے خوبصورت رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھ کر خشک مقالے، مضمون، کالم لکھنے یا بے مغز ٹی وی ٹاک اور مباحثوں اور مذاکروں والا محض اکیڈمک معاملہ بنا کر اس کی رعنائیٔ افکار چھیننے کی سعی کی گئی تا کہ اس سے دلوں کو منور کرنے کا جوہر چھین کر سینوں کی بے نوری بڑھانے پر لگائے رکھا جائے۔ اس کی اثر آفرینیوں کے آگے بند باندھنے کے لیے امریکی تھنک ٹینک “RAND” نے آٹھ نو سال قبل ’’صوفی اسلام‘‘ کا نسخہ تجویز کیا تھا۔ پرانا ’’صوفی ازم‘‘ کارگر نہ رہا تو نئی وضع قطع اور جدید طرز کے صوفیوں کو میدان میں اتارا گیا۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ ایک اور امریکی تھنک ٹینک “PEW” نے پچھلے چند سالوں میں اسلامی دنیا کے بارے میں جو جائزے پیش کیے ان کے مطابق اکثر مسلم ممالک کے ۸۰ فیصد سے بھی زیادہ لوگ اپنے ملکوں میں شریعت کی بالادستی چاہتے ہیں۔ ہمارے صحیح الفکر صوفیا کا یہ موقف تو رہا ہے کہ طریقت شریعت کے تابع ہوتی ہے اور کوئی بڑے سے بڑا ولی بھی اس وقت تک ولی نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ شریعت کا پابند نہ ہو لیکن شریعت کا نفاذ کبھی ’’صوفی ازم‘‘ کا بنیادی ایشو رہا ہے اور نہ کبھی اس کا مطالبہ اس کی مہمات میں شامل دیکھا گیا۔ ’’صوفی ازم‘‘ افراد کی باطنی اصلاح ہی سے بحث کرتا ہے۔ مذہب کو ریاست و سیاست سے بے دخلی کے فاضل وکیل اس حد تک ’’صوفی ازم‘‘ سے ہم آہنگ ہیں کہ وہ بھی دین کی خدمت کا سارا عمل فرد کی اصلاح تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ تبلیغی جماعت کے بھی قریب ہے کیوں کہ وہ بھی فرد کی اصلاح ہی کا مشن لے کر طویل مدت سے سرگرم ہے۔ تبلیغی جماعت کے مخلص اور سرگرم کارکن کبھی کبھی اپنے دعوتی کام کے بارے میں ایک مثال دیا کرتے ہیں۔ ان کے بقول بگڑا ہوا معاشرہ ایک گندی نالی کی مانند ہے اور بگڑے ہوئے افراد اس نالی میں پڑے ہوئے آلودہ سکے ہیں۔ تبلیغی جماعت ایک ایک آلودگی زدہ سکے کو نالی سے نکالتی اور اس پر وعظ و تلقین کے ڈول انڈیل کر اسے دھوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ نیک اور سادہ دل لوگ ہیں، انہیں اس پر تعفن اور غلاظت بھری نالی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ اس کے اندر کا گند نکال کر اسے صاف و شفاف پانی کی ایک ندی کی صورت دینے کے عمل کو اپنی مہم میں شامل نہیں کرتے۔ شریعت کا نفاذ در اصل سماج کی اس نالی کو صاف کرنے کا عمل ہے۔ انفرادی سطح پر اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں ہر آدمی کو حسبِ استطاعت نیکی کو پھیلانے اور بدی کو مٹانے کا کام کرنا چاہیے لیکن قرآن مجید بتاتا ہے کہ جن کو زمین پر (ریاست میں) اقتدار و تمکّن دیا جائیخ وہ اس امر کے پابند ہوتے ہیں کہ سماج میں پھیلنے والی اعتقادی اور اخلاقی گندگی والی ساری بد روئیں صاف کریں۔ افراد کی اصلاح کے لیے کوششیں ضرور ہونی چاہییں لیکن بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا گند صاف کرنے کی اصل ذمہ داری ریاستی انتظامی مشینری کی ہے۔ اس اقتدار کی سمت درست نہ ہو تو افراد کی اصلاح کی کوششیں بے نتیجہ رہتی ہیں۔
(بشکریہ: “munir-khalili.blogspot.ae”)
Leave a Reply