
برطانیہ کی ریاست اپنے ہی مسلم باشندوں کے جہادی بننے اور نام نہاد اسلامک اسٹیٹ (داعش) میں شمولیت سے الجھن کا شکار ہے۔ برطانوی شہری اور داعش کے رکن ’’جون‘‘ کے ہاتھوں امریکی صحافی کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو سے برطانیہ خوف زدہ ہے۔
میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ اس واقعے سے میں بھی دہشت زدہ ہوں۔ یہ کسی بھی طرح اسلامی فعل نہیں۔ اسلام تشدد اور دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا۔ حضور نبی کریمﷺ کے ہاتھوں جن لوگوں کو شکست ہوئی، انہیں زبردستی مسلمان نہیں کیا گیا، کم لوگ ہی قتل کیے گئے۔ قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتا ہے، ’’اسلام میں زور زبردستی نہیں‘‘۔
لیکن ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی جانب سے تشدد اور مظالم آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔ اور اب اسلامک اسٹیٹ کے نام پر مبینہ جہادیوں کا نیا گروہ سامنے آیا ہے۔ داعش میں شامل بعض افراد تو وہ ہیں جنہوں نے بہتر روزگار کے لیے اپنا گھربار چھوڑا اور پھر اسلامک اسٹیٹ کا حصہ بن گئے۔ عمدہ طرزِ زندگی کے باوجود انہوں نے اپنی زندگی خطرے میں کیوں ڈالی اور روزگار کے لیے پناہ دینے والوں کے خلاف ہتھیار کیوں اٹھائے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے، جیسا کہا جارہا ہے کہ ان لوگوں نے Dummies for Islam جیسی کتابیں پڑھ رکھی ہیں؟
کیوں؟ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا، فلسطینیوں کے مکان اور بستیاں تباہ کر دیں۔ دو ہزار سے زیادہ مسلمان قتل کیے گئے، ان میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے، یہ سب نہتے تھے۔ ہزاروں افراد شدید زخمی ہوئے، بیشتر معذور ہوگئے۔
اسرائیلی جارحیت پر امریکا یا یورپی ملکوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا، نہ ہی مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی کے دو بول کہے گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکا نے مسلمانوں کے قتلِ عام، ان کے مکان اور بستیوں کی تباہی کے لیے اسرائیل کو مزید رقم اور اسلحہ فراہم کیا۔
اگر مغربی صحافی کا سر تن سے جدا کرنا مسلمانوں کی بربریت کا ثبوت ہے، تو غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتلِ عام پر یہی رائے کیوں قائم نہیں کی جاسکتی؟ نہیں، فلسطین میں تو بچوں سمیت سب دہشت گرد ہیں اور اسرائیل جیسے جمہوری ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انہیں قتل کرے، مکان، بستیاں اور شہر تباہ کردے۔
اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ مشرقِ وسطیٰ کے نام نہاد مسلمان ہمیشہ مغرب کے لیے مہمان نواز رہے۔ لیکن مغرب نے اس خطے میں اپنے مفادات کی ہی جنگ لڑی۔ انہوں نے عربوں کے ایک ملک شام کو توڑ کر عراق، لبنان، فلسطین اور شام کی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ مسلمان اس وقت قومیتوں میں تقسیم نہیں تھے۔ وہ خود کو صرف امت مسلمہ سمجھتے تھے۔
مغرب نے عربوں سے وعدہ کیا کہ شام (بلاد شام) کو آزادی دلا کر ان کے حوالے کر دیا جائے گا، لیکن انہوں نے ترکوں کو یہاں سے نکال کر ملکِ شام عربوں میں تقسیم کر دیا۔ مغرب کی چالبازیوں کے نتیجے میں عراق برطانیہ کی جھولی میں جاگرا۔ سوریا (شام) اور لبنان فرانس کے حصے میں آئے۔ فلسطین کو برطانیہ کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا گیا جو بعد میں فلسطینیوں کو واپس کیا جانا تھا۔ فلسطین کئی صدیوں سے مسلمانوں، عرب عیسائیوں اور قلیل تعداد میں یہودیوں کا مسکن رہا۔ مسلمانوں کے دور حکمرانی میں مختلف مذاہب کے باوجود یہ سب امن سے رہتے تھے۔
اسی دوران برطانیہ نے یورپ میں یہودیوں کے مسائل کا حل نکالنے کے لیے فلسطین کی سرزمین سے یہودی ریاست بنانے کا فیصلہ کیا۔ بالفور میں ۱۹۱۷ء میں ایک معاہدے کے تحت فلسطینیوں کی زمین صہیونیوں کو دینے کا معاہدہ کیا گیا۔ یہ بہت آسان تھا۔ کسی کی زمین یہودیوں کو دے دی جائے، وہ بھی اس بات کا خیال رکھے بغیر کہ وہاں عرب اکثریت میں ہیں۔ عربوں کے قتلِ عام اور انہیں فلسطین سے نکال کر یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا جشن منایا۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کو ریاست کی حیثیت سے تسلیم کر کے سارے مظالم کو جائز قرار دے دیا۔ اس معاملے میں عربوں کی ناراضی یکسر نظرانداز کردی گئی۔
اُس وقت سے مشرق وسطیٰ کو امن نصیب نہیں ہوا۔ جب بھی فلسطین کے عربوں نے اپنی سرزمین واپس لینے کی کوشش کی، انہیں روکنے کے لیے مغربی اقوام، خاص طور پر امریکا نے اسرائیل کی کھل کر حمایت اور مدد کی۔
ہر بار کی ناکامی نے عربوں کے غصے میں اضافہ کیا اور اپنی سرزمین کو قابضین سے واپس حاصل کرنے کے لیے ان کا عزم مزید پختہ ہوا۔ عرب ملکوں نے مدد و حمایت ختم کی تو اِس کی پروا کیے بغیر فلسطینی عوام نے بکتربند اور ٹینکوں میں موجود اسرائیلی فوجیوں پر پتھر برسانے کے لیے الفتح بنالی۔ پتھر مارنے والے بچوں کے جسم اسرائیلی فوجیوں نے ربر اور اصلی گولیوں سے چھلنی کیے۔
الفتح نے اپنے دفاع کے لیے غیرموثر ہتھیار حاصل کیے۔ انہیں شہید کیا گیا، ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کر کے مقدمہ چلائے بغیر اسرائیلی جیلوں میں قید کردیا گیا۔ فلسطین کی زمین پر قبضہ کیا اور یہودیوں کی غیرقانونی آبادکاری کی گئی۔ یہ سب ان قوانین اور روایات کے خلاف ہے جو مغربی اقوام بڑے فخر سے برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
اسرائیل کو روکنے کے بجائے مغرب نے فنڈز اور ہتھیاروں سے اس کی مدد جاری رکھی۔ اسرائیلیوں نے درحقیقت فلسطین پر قبضہ کیا۔ سڑکوں پر رکاوٹیں قائم کرکے فلسطینیوں اور سیاحوں کی نقل و حرکت روکی گئی۔ اسرائیلیوں کو خاص قسم کی سہولتیں پہنچانے کے لیے فلسطین کے مقبوضہ حصے پر سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے فلسطینی سرزمین پر بلند دیواریں تعمیر کی گئیں۔ اسرائیل نے غزہ کا بھی محاصرہ کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی بحریہ نے کشتیوں اور جہازوں کو قبضے میں لیا۔ امدادی رضاکاروں کو گہرے سمندر میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا، ان کے جہازوں پر قبضہ کرکے زبردستی اسرائیل کی بندرگاہوں تک لے جایا گیا۔ امدادی سامان ضبط کرلیا گیا۔ یہ سارے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، پھر بھی عالمی طاقتوں نے کچھ نہ کیا۔ یہی نہیں، مغرب کی جانب سے اسلام و مسلم دشمن جذبات اور اقدامات کا مظاہرہ دیگر موقعوں پر بھی کیا گیا۔ پہلے تہذیبوں کے تصادم کا واویلا کیا، اب ایسا لگتا ہے کہ اسے حقیقت بنانے میں جُتے ہوئے ہیں۔
بوسنیا ہرزے گوینا میں خیال کیا جارہا تھا کہ نیٹو کے فوجی مسلمانوں کی حفاظت کریں گے لیکن انہوں نے سربوں کو روکنے کے بجائے قتل عام کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اس دوران کلہاڑیوں اور ہتھوڑوں کے وار کرکے بارہ ہزارہ مسلمان مرد اور لڑکے قتل کیے گئے۔
پھر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا الزام مسلمانوں پر لگا کر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی گئی۔ عراقی اس کارروائی کے ذمہ دار نہیں تھے لیکن الزام یہ لگایا گیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، جو برطانیہ کو ۴۵ منٹ میں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بعد میں برطانیہ نے خود اعتراف کیا کہ عراق پر لگائے گئے الزامات جھوٹے تھے۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے امریکا کے ساتھ مل کر عراق پر حملے کا حکم دیا۔ بعد میں انہوں نے بے شرمی سے یہ دعویٰ کیا کہ یہ حملہ عراق والوں کو صدام حسین سے نجات دلانے کے لیے کیا گیا، جس میں ہزاروں افراد قتل اور کئی شہر و قصبے تباہ ہوگئے۔ صدام حسین کو گرفتار کر کے پھانسی پر لٹکا دیا گیا لیکن عراق پر قبضہ اور جنگ جاری رہی۔ جب امریکا اور یورپ عراق سے نکلے تو کسی دور میں مستحکم اور ترقی پذیر عراق انارکی اور خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا۔
اسی طرح افغانستان پر حملہ طالبان کی حکومت کے خاتمے اور اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے لیے کیا گیا۔ اسامہ تو اب دنیا میں نہیں رہا لیکن افغانستان میں اب امن بھی نہیں۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ عراق اور افغانستان میں کارروائی تین ماہ میں مکمل کرلی جائے گی لیکن اتنے سال گزرنے اور دونوں ملکوں کی تباہی کے باوجود بدقسمتی سے وہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت اور امن قائم نہیں کیا جاسکا۔ عراق اور افغانستان کو مکمل طور پر عدم استحکام کی جانب دھکیل دیا گیا ہے اور خانہ جنگی سے انہیں شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
سی آئی اے نے مسلمانوں کی ایک فہرست تیار کی جنہیں قتل کیا جانا تھا۔ مغرب نے کسی مقدمے کے بغیر حراست کی مذمت کی۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب میں مقدمے کے بغیر ہی مسلمانوں کے قتل کے پروانے جاری کیے جارہے ہیں۔ جن لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، انہیں تو موت کی وجہ بھی نہیں بتائی جارہی۔ حتیٰ کہ ان کی گرفتاری کی کوشش بھی نہیں کی جارہی۔ جاسوس طیاروں (ڈرون) سے میزائل حملے کر کے مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ اسامہ بن لادن کے معاملے میں تو امریکا کے فوجی بغیر اجازت پاکستانی حدود میں اتار دیے گئے۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کی لاش بھی سمندر میں بہا دی، جو بربریت کی بدترین مثال ہے۔
اتنا سب ہونے کے باوجود امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کے متاثر مسلمانوں سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ہزاروں مرد، عورتیں، شیرخوار بچے، بزرگ اور بیمار قتل کر دیے گئے اور اب بھی کیے جارہے ہیں، مغربی اقوام کو ذرا سی بھی تشویش اور افسوس نہیں۔
داعش کے دعوؤں کے برخلاف، میں امریکی صحافی کے قتل کو ایک لمحے کے لیے بھی اسلامی فعل تسلیم نہیں کرتا۔ میرے خیال میں ایسا کرنا مسلمانوں کے لیے باعث شرم ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ لیکن مسلمانوں سے کی جانے والی زیادتیوں اور ناانصافی کا بدلہ لینے کے لیے کسی نوجوان کو ورغلا کر ایسے بھیانک جرائم کرائے جائیں، تو کیا اسے قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟
مذہب اسلام کسی کو اس طرح کے ظالمانہ اقدام کی ترغیب نہیں دیتا۔ اس غصے، نفرت اور جھنجھلاہٹ کے اظہار کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں پر مغرب کا ظلم و ستم روکنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ اور مغربی اقوام، جن میں سے بیشتر بے عمل عیسائی ہیں، کو کسی خطرے کا سامنا ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
مغرب کے ماضی پر نظر ڈالی جائے، خاص طور پر اسرائیل بننے کے بعد تو انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اگرچہ وہ تسلیم نہیں کریں گے لیکن مغرب نے اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ یا تہذیبوں کے تصادم کا نام دے رکھا ہے۔ حقیقت میں یہ صدیوں پرانی صلیبی جنگ کا ہی تسلسل ہے۔
مسلمانوں کے پاس موجودہ دور کی اس صلیبی جنگ کا کوئی جواب نہیں۔ کوئی صلاح الدین ایوبی بھی نہیں جو مسلمانوں کی قیادت کرے۔ کئی صدیاں گزر جانے کے بعد اب وہ کمزور پڑگئے ہیں۔ مسلمانوں نے قرآن پاک میں درج اللہ تعالیٰ کے احکامات نظرانداز کر دیے، جس میں کہا گیا ہے کہ امت مسلمہ اور اسلام کے دفاع کے لیے مسلمانوں کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔
مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں کو یہ تو بتا دیا کہ مدد اللہ پاک سے مانگی جائے۔ لیکن قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کی یہ تاکید نظرانداز کردی کہ مسلمان دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہیں تو ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ مسلمان اللہ پاک کے اس حکم کی تعمیل نہیں کررہے۔ درحقیقت، بیشتر یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کا ظلم و ستم سہنا ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
آج کسی مسلمان ملک کے حکمراں کی یہ جرأت نہیں کہ وہ مغرب کو چیلنج کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مسلمان سمجھتے ہیں کہ مغرب برتر ہے اور ان کی تقلید کی جانی چاہیے۔ ان کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھنے کی کوشش بے سود ہے۔ مسلمانوں کے کسی ایک ملک میں بھی مغرب کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔
مسلمان ملکوں کی جانب سے حمایت و مدد کی آس دم توڑ گئی تو مایوسی اور غصے سے بھرے بعض مسلمانوں نے مغرب سے انتقام لینے کے لیے خود کو پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی مرضی کے اسلام کو پھیلایا اور نوجوان مسلمانوں پر اثرانداز ہوکر انہیں اس مقدس جنگ میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار کیا۔
تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام اور مسلمان بھائی بہنوں کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر جان دینے سے انہیں شہادت کا درجہ اور روز آخرت جنت ملے گی۔ ان حالات میں جب مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں اور ناانصافی کا بازار گرم ہو تو مسلم نوجوانوں کو اس بات پر قائل کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ مغرب سے لڑائی مقدس جنگ ہے۔
مغرب کے خلاف جنگ میں فتح اتنی آسانی سے ممکن نہیں لیکن دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے انتقام لینا بہت آسان ہے۔ اسی لیے نام نہاد جہادی امریکی صحافی کا سر قلم کرنے جیسی سفاکانہ کارروائیوں کے لیے تیار رہتے ہیں اور اس کی ویڈیو جاری کرکے سب کے سامنے بھی لاتے ہیں۔ میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ اسلام کسی معصوم کا سر تن سے جدا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح سنیوں کی جانب سے اہل تشیع افراد کا قتل عام یا شیعوں کے ہاتھوں اہل سنت کا قتل کسی طرح اسلامی نہیں۔
یہ دونوں فرقے ایک دوسرے کو غیرمسلم سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے لڑتے رہے ہیں۔ لیکن ان دنوں جو نفسانی خواہشات کے لیے خون بہایا جارہا ہے، اس کا آغاز صہیونیت اور اسرائیلی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد سے ہوا۔ یہودیوں اور ان کی حمایت کرنے والے مغرب کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد مسلمان ایک دوسرے کے ہی خلاف ہوگئے ہیں۔ کبھی ان کے ہاتھ کوئی مغرب والا لگ جائے تو سارا غصہ اس پر نکال دیتے ہیں۔
جب تک اسرائیل کی ریاست موجود ہے اور فلسطینیوں کو آزاد ریاست کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، یہ معاملہ اسی طرح اتار چڑھاؤ کے ساتھ دہائیوں اور صدیوں تک چلتا رہے گا۔
فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلی ریاست کا قیام ہی وہ وجہ ہے جس کے باعث ستر برس میں مسلمانوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ فلسطینیوں کی جدوجہد دبانے کے لیے یہودیوں نے انہیں دہشت زدہ کیا۔ اس کے نتیجے میں دیگر ملکوں کے مسلمان بھی فلسطینی جدوجہد کا حصہ بنے۔ انہوں نے جنگ تو نہیں چھیڑی لیکن دہشت گردی کی کارروائیوں کا سہارا لیا اور جواب میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔
مغرب نے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت کی اور وہ اب بھی جاری ہے۔ تو اس کا حل کیا ہے؟ مسلمانوں، خاص طور پر فلسطینیوں کو مزید دیوار سے لگانا یا ظلم و ستم میں اضافہ قطعاً کوئی حل نہیں۔ ایسا فلسطین والوں کو انصاف دینے اور حسن سلوک سے ہی ممکن ہے۔
میں یہ مضمون چیچنیا (شیشان) میں تحریر کر رہا ہوں۔ چیچن جانبازوں نے روس سے آزادی کی جنگ لڑی۔ وہ ایک بے مصرف جنگ تھی۔ چھوٹے ہتھیاروں سے لیس تیس لاکھ چیچن کا مقابلہ بیس کروڑ آبادی کے ملک روس کی بڑی فوجی قوت سے تھا۔ اس جنگ میں چیچنیا اور اس کے دارالحکومت گروزنی کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔ جنگ کے بعد روس نے چیچنیا اور گروزنی کی تعمیر نو کے لیے ایک کھرب ڈالر مختص کیے۔ آج وہاں روسی فوج کی گولہ باری اور بمباری سے تباہی کا نام و نشان تک نہیں۔ گروزنی سمیت تمام متاثرہ علاقوں کی مکمل تعمیر نو کی گئی اور آج چیچن باشندے ایک بار پھر اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا اور آزادی سے اپنی عبادات انجام دے رہے ہیں۔ کثرت سے مسجدیں اور دینی مدرسے موجود ہیں۔ مذہب اسلام پر اب کمیونسٹ دور کی کوئی پابندی نہیں۔ چیچنیا اب بھی روسی فیڈریشن کی ایک ریاست ہے لیکن مذہب اور دیگر معاملات میں خودمختار ہے۔ روس سے چیچنیا کے تعلقات بھی دوستانہ ہیں۔
چیچنیا کی داستان سے شاید کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم وستم بند کیا جائے۔ صلیبی جنگ روکی جائے۔ تہذیبوں کے تصادم کا لیبل لگانا بند کیا جائے۔ بزور طاقت حکومتیں تبدیل نہ کی جائیں۔ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کو اسلحے کی فراہمی روکی جائے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں رفتہ رفتہ شدت پسندوں کے لیے ہتھیار اٹھانے کی وجہ باقی نہیں رہے گی۔
اللہ پاک فرماتا ہے کہ: ’’مسلمانوں کے دشمن وہ ہیں جو ان سے لڑتے ہیں اور ظلم و ستم ڈھاتے ہیں‘‘۔ مسلمان کبھی اس سے جنگ نہیں کرتا جس نے حملہ نہ کیا ہو۔ یہی اسلام کا طریقہ ہے، جب تک اسلام پر جنگ مسلط نہ کی جائے، پُرامن رہو۔
جو مسلمان سختی سے اسلامی طریقوں پر عمل کریں اور غیرمسلموں کے ساتھ پُرامن طریقے سے رہنا چاہیں، صرف وہ قابل اعتبار ہوسکتے ہیں اور مسلمانوں پر ظلم و ستم ختم ہونے کے بعد انہیں قبول بھی کیا جائے گا۔
(مترجم: سیف اﷲ خان)
“Stop postulating the clash of civilizations”. (“counterpunch.org”. Sep. 17, 2014)
Leave a Reply