
ہمیں یہ توقع تھی کہ اوباما کے آنے سے پاکستان کی افغانستان سے منسلک شمال مغربی سرحدوں پر صورتحال میں بہتری آئے گی اور بھارت کے ساتھ جاری قیامِ امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا وعدہ بھی پس پشت ڈال دیا اور حماس پر اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی آنکھیں بند کر رکھیں۔ اس طرح تڑپتی ہوئی انسانیت کے زخموں پر مرہم نہ رکھ کر انہوں نے دنیا کی نظروں میں اپنا تشخص بُری طرح مجروح کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں نئی حکمت عملی جاری کی ہے جسے Afpak پالیسی کا نام دیا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق ’’افغان جنگ کا محور افغانستان سے پاکستان کی جانب منتقل کرنا ہے‘‘ ۔ جو کہ پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کے لیے ایک انتہائی خطرناک بات ہے۔ اب جبکہ اس حکمت عملی پر سوات اور باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی صورت میں عملدرآمد شروع ہو چکا ہے تو پس پردہ امریکی مقاصد کا تجزیہ کرنا آسان ہو گیا ہے۔
امریکا کی اس پالیسی کو سمجھنے کے لیے امریکی عہدیداروں کے آئے دن کے بیانات کا باریک بینی سے تجزیہ کرنا ضروری ہے، مثلاً اوباما کا یہ کہنا کہ ’’ہماری حکمت عملی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مستقل زوال پذیر کیفیت میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے امریکا کے لیے ضروری ہے کہ ہم غیر عسکری طریقہ کار استعمال کریں اور یہ دیکھیں کہ ہم مذاکرات کے ذریعہ افغانستان میں کیا حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ دو تبدیلیاں نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں۔ افغانستان میں میکنن کو ہٹا کر میک کرسٹل کو امریکی فوج کا کمانڈر مقرر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی طالبان سے روابط قائم ہوئے ہیں اور بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ طالبان کے ساتھ ان کی بات بن جائے گی لیکن بات جہاں آکر رکی ہے وہ طالبان کے راہنما مُلّا عمر کا یہ مطالبہ ہے کہ امریکا اور اس کی اتحادی افواج افغانستان سے نکلنے کا ٹائم فریم دیں پھر ہم بات کریں گے۔ امریکی اب یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ وہ طاقت کے ذریعے فتح یاب نہیں ہو سکتے بلکہ مزید کمزور ہوتے جائیں گے۔ اس پس منظر میں رچرڈ ہالبروک کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ ’’ہمیں تو ابھی تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ہم افغانستان میں جنگ جیت رہے ہیں یعنی ہر ایک نے یہی کہا ہے کہ امریکا جنگ ہار رہا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے امریکا نے افغانستان میں اپنی پالیسی تبدیل کی ہے کہ اب وہاں مذاکرات اور سیاسی عمل سے کام لیا جائے۔ امریکا کی اس پالیسی میں دو بیانات بہت اہم ہیں۔ اب سے چند ماہ پہلے امریکیوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تعریف کی اور کہا کہ ’’افغان پالیسی میں جنرل کیانی کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے‘‘ اور حال ہی میں جو بیان آیا ہے وہ بڑا معنی خیز ہے کہ ’’چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام آپشنز کھلے رکھیں، مثلاً ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ اور بھرپور طریقے سے جنگ میں حصہ لینا اور وہ یہ سمجھیں کہ اس جنگ کا مرکزپاکستان میں ہے‘‘۔ یہ بیان امریکی صدر نے دیا ہے اور بڑا اہم بیان ہے اس لیے کہ اب وہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں لڑنا چاہتے ہیں اور مخاطب ہیں آرمی چیف سے حالانکہ انہیں صدر مملکت، وزیراعظم یا پارلیمنٹ سے بات کرنا چاہیے تھی۔ اس میں کیا حکمت ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس پالیسی کے تحت انہوں نے جوائنٹ آپریشنل کمانڈ کو افغانستان میں متحرک کیا ہے، امریکی اس پالیسی پر عمل کرانے پر اتنے بضد ہیں کہ انہوں نے سوات میں نظامِ عدل کے نفاذ کے معاہدے پر شدید احتجاج کیا اور پھر انہوں نے عیاری سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے صوفی محمد اور فضل اللہ سے اس معاہدے کو ہائی جیک کر لیا، ان کو دبائو میں لاکر ایسے بیانات دلوائے کہ جس کے نتیجے میں سوات کے عوام اور حکومت نے جو کچھ حاصل کیا تھا یکبارگی وہ سارا منظر بدل گیا، یعنی حکومت پاکستان نے فوری طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ فوجی ایکشن ناگزیر ہو گیا ہے اور اس سلسلے میں کابینہ یا پارلیمنٹ سے بھی رجوع نہیں کیا گیا جس نے نظامِ عدل کی منظوری دی تھی۔ جب زرداری صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ہم پر سخت دبائو تھا‘‘۔ یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ جب آپریشن شروع کیا گیا تو اس کی مکمل طور پر تیاری نہیں کی گئی تھی جس کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی شہری بے گھر ہو چکے ہیں اور شدید گرم موسم میں کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں۔ سرحد اور پنجاب میں ان کے لیے کیمپ قائم کیے گئے ہیں جبکہ سندھ حکومت نے ان کو داخل ہونے سے اس خدشے کی بناء پر روکا ہوا ہے کہ کہیں ان کے بھیس میں تخریب کار نہ آ جائیں۔ یہ بات حتمی طور پر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ آپریشن کب ختم ہو گا کیونکہ ہمارے صدر محترم نے امریکا سے واپسی پر یہ بیان دیا ہے کہ ’’ہم وزیرستان میں بھی فوجی آپریشن کریں گے‘‘۔ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس علاقے میں موجود شرپسندوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ بروقت اپنی حکمت عملی تیار کر لیں۔ اب صحیح معنوں میں امریکا کی پالیسی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے یعنی اب یہ جنگ افغانستان کے بجائے پاکستان میں لڑی جائے گی۔ سوات سے شروع ہو کر وزیرستان اور پھر بلوچستان تک یہ آگ بھڑکے گی اور اس کے نتیجے میں جو حالات اور مشکلات پیدا ہوں گی ان کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجھے اس پالیسی کے پیچھے ایک خوفناک سازش نظر آ رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس سازش سے آگہی حاصل کریں اور بہت جلد طے کریں کہ ہم کیسے اور کس طرح اپنے آپ کو اس خوفناک سازش سے بچا سکتے ہیں۔
موجودہ حالات قیامِ پاکستان کے حالات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں جس طرح سے پاکستان بنتے ہی جواہر لال نہرو نے سازشیں کر کے یہاں کے کچھ عناصر کو ورغلایا، جیسے فقیر آف ایپی کو سرمایہ دیا اور بغاوت پر آمادہ کیا تھا اسی طرح سے آج بھارت افغانستان میں امریکا کی حمایت سے اپنی جگہ بنانے کے بعد نہایت عیاری سے ہمارے اپنے لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ کتنا خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکی سینٹر ل کمانڈ کے سیکورٹی ایڈوائزر جنرل کلکرن کا یہ بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ’’افغانستان میں امریکا کے خلاف چلنے والی تحریک کے نتیجے میں پختون ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں جو ہمارے مفادات کے لیے بڑا خطرہ ہیں اور جسے توڑنا نہایت ضروری ہے‘‘۔ آپ دیکھیں کہ پختونوں کے علاقے ہی آج اس سازش کی زد میں ہیں، پشاور شہر میں بم دھماکے اور خود کش حملے اسی سازش کا سلسلہ ہیں۔ یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سازشیں کیسے بنتی ہیں اور کیسے ان پر عمل کیا جاتا ہے اور ہم کیسے ان سازشوں کا خود شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم بے خبری کے عالم میں ان سازشوں کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور یہی ہمارا آج کا المیہ ہے کہ کتنی چالاکی کے ساتھ جنگ کا رُخ پاکستان کی جانب موڑ دیا گیا ہے اور قبائلی علاقوں کو یکے بعد دیگرے ان سازشوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا ہے۔
فوجی آپریشن کو روکنا مناسب نہیں ہے بلکہ اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس آپریشن کے دو بڑے اسباب ہیں، ایک وعدہ خلافی ہے اور دوسرا صوفی محمد اور فضل اللہ کی جانب سے پاکستانی اقدار پر ضرب لگانا۔ آئین پاکستان کو غیر اسلامی اور جمہوریت کو کفر کہہ کر انہوں نے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے جو کہ ناقابل معافی جرم ہے۔ آپریشن کے لیے ہماری فوج نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ بہت صحیح ہے، یعنی بائیں (دیر) کی جانب سے اور دائیں جانب سے بیک وقت آگے بڑھ کر انتہا پسندوں کے فرار کے راستے بند کر دیے اور پھر سوات کی جانب سے پیش قدمی کر کے ان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اب انتہا پسند گھیرے میں آ گئے ہیں اور انہیں آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ بالکل درست حکمت عملی ہے۔ انشاء اللہ فوج یہ کام مکمل کرے گی کیونکہ ماضی میں فوج کو جو بھی ذمہ داری سونپی گئی اس نے ہمیشہ اپنا کام مکمل کیا، لیکن فوجی کامیابی کے بعد سیاسی عمل شروع کرنا ضروری ہوتا ہے جو کہ موجودہ حالات میں نظر نہیں آتا۔ فوجی کارروائی کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل شروع نہ کیا جائے تو ساری کامیابی ضائع ہو جاتی ہے۔
موجودہ حالات میں یہ ضروری نہیں کہ ہم مولوی صوفی محمد یا فضل اللہ سے بات کریں جبکہ وہ ناقابل اعتماد ہو چکے ہیں بلکہ اس وقت جو پچیس لاکھ افراد نقل مکانی کر کے آئے ہوئے ہیں ان میں بہت سی معتبر شخصیات ہیں ان سے رابطہ کریں کیونکہ نظامِ عدل کا مطالبہ تو انہوں نے ہی کیا تھا نہ کہ ان انتہا پسندوں نے جنہوں نے معاہدے کو ہائی جیک کر لیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سے اقدامات کرنا لازم ہیں لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کل بھی غافل تھے اور آج بھی غافل ہیں۔ کوئی سیاسی منصوبہ بندی کی بات نہیں کرتا۔ اگر ہم انتظار ہی کرتے رہے تو پھر وہی ہو گا جو امریکا چاہتا ہے اور صدر پاکستان نے وزیرستان میں فوجی آپریشن کا عندیہ دے کر امریکی خواہش کی تکمیل کا آغاز کر دیا ہے۔
امریکیوں کو یہ علم نہیں کہ طالبان جو افغانستان میں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنے والے لوگ ہیں اور دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ گلبدین حکمت یار کو بھی طالبان نے بات چیت کے لیے بھیجا تھا اور انہوں نے بھی امریکیوں سے یہ سوال کیا تھا کہ پہلے تم یہ بتائو کہ تم افغانستان سے کب نکلو گے۔ افغانستان سے نکلنا تو اب امریکیوں کے لیے لازم ہو چکا ہے لیکن وہاں سے نکلنے سے پہلے پاکستان میں اپنے پیر جمانا چاہتے ہیں۔ یہ بڑی اہم بات ہے اور پاکستان پر قبضہ ان کے لیے اس وقت ممکن نہیں جب تک وہ قبائلی علاقوں کو اپنے قابو میں نہ کر لیں۔ قبائلی علاقوں پر قبضہ کی امریکی خواہش انشاء اللہ کبھی پوری نہیں ہو گی۔ اس کوشش میں ہم نے دیکھا کہ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اب اگر امریکا یہ کوشش کرے گا تو وہ بھی انشاء اللہ ناکام و نامراد ہو گا۔ امریکی افغانستان سے نکلنے میں جس سے چاہیں بات کریں لیکن جب تک واضح طریقے سے یہ اعلان نہیں کرتے کہ وہ کب افغانستان سے جا رہے ہیں تب تک انہیں نکلنے کا محفوظ راستہ نہیں ملے گا۔
{}{}{}
Leave a Reply