
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے وسط میں جب لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی نے مغرب کے طور طریقے اپناتے ہوئے معیشت کو قدرے آزاد کیا اور بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی تب مغرب بہت خوش ہوا۔ امریکا اور یورپ کے بیشتر اخبارات نے کرنل قذافی کی ’’اصلاحات‘‘ کو سراہا، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انہوں نے لیبیا پر اسی طور حکمرانی جاری رکھی جس طور کرتے آئے تھے۔ اس میں طاقت کے استعمال کا عنصر نمایاں تھا۔ مخالفین کو کسی بھی حال میں برداشت نہ کرنے کا کلچر لیبیا میں تبدیل نہ ہوسکا۔ ایوان ہائے اقتدار میں جو کچھ ہوتا رہا تھا وہی ہوتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ معمر قذافی نے طاقت کے استعمال کا جو رجحان پروان چڑھایا وہ اب تک اپنی بہار دکھا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ ہو یا یورپ، اسٹرانگ مین یا مردِ آہن کے حوالے سے نئے رومانس کی باتیں عام ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا معاملہ یہ رہا ہے کہ مطلق العنان حکمران اپنا اقتدار بچانے کے لیے جو کچھ کرتے تھے اسے وقت سے بہت پہلے اصلاحات قرار دے کر ان تمام حکمرانوں کی انا کے غبارے میں ہوا بھری جاتی تھی۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ پرنالے جہاں گرتے آئے تھے وہیں گرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جو کچھ کر رہے ہیں اس کے حوالے سے بھی مغربی پریس میں ستائش آمیز مضامین اور رپورٹس ہی شائع کی جارہی ہیں۔ جو کچھ محمد بن سلمان نے اب تک کیا ہے اس پر تنقید برائے نام ہوئی ہے یعنی بالکل سرسری انداز سے۔
دنیا بھر میں جمہوریت ایک طرف رہ گئی ہے اور مرد ہائے آہن میدان میں دکھائی دے رہے ہیں۔ مصر میں جنرل فتح السیسی، روس میں ولادیمیر پوٹن، فلپائن میں راڈریگو ڈیوٹرٹ اور خود امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔ یہ سب اپنے اپنے مزاج کے مطابق حکومت کر رہے ہیں۔ امریکا میں جمہوری روایات کی جڑیں گہری ہیں مگر اس وقت صدر ٹرمپ اپنی مرضی کے مطابق چل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ رجحان طاقتور ہوتا جارہا ہے۔ ہر بڑے ملک میں جمہوری روایات کو کچل کر مطلق العنان حکمران آگے آرہے ہیں۔ اہم فیصلوں میں پارلیمان کو زحمتِ کار دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ روس میں تمام اختیارات ولادیمیر پوٹن کی ذات میں مرتکز ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہی حال مصر اور فلپائن کا ہے۔ امریکا میں بھی کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت ابھر رہی ہے کیونکہ صدر ٹرمپ نے اب تک بیشتر فیصلے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیے ہیں۔
دنیا بھر میں مطلق العنان حکمران ایک بار پھر کیوں فیشن بنتے دکھائی دے رہے ہیں؟ اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ مغرب کو یہی اچھا لگتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر بڑے ملک سے کسی ایک شخصیت کے ذریعے ڈیل کرے۔ پارلیمان بیچ میں ہو تو معاملات اٹک جاتے ہیں۔ ہر بڑی طاقت چاہتی ہے کہ معاملات تیزی سے نمٹائے جائیں اور معاشی امور کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی نہ ہو۔ جمہوری روایات والے معاشروں میں سب کچھ پارلیمان کے ذریعے طے پاتا ہے اور اس میں خاصا وقت لگتا ہے۔ مطلق العنان حکمران اپنی مرضی کے مطابق پورے نظام کو چلاتے ہیں۔ ان سے کوئی بھی معاہدہ بہت تیزی سے طے پاتا ہے کیونکہ وہ اپنے چند مشیروں کے سوا کسی سے بات نہیں کرتے۔ مغربی دنیا چاہتی ہے کہ کسی بھی بڑے ملک سے کسی ایک شخصیت کے ذریعے ڈیل کرے۔ اور دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ مطلق العنان حکمرانوں کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں۔ ایک طرف تو وہ قومی معیشت کو زیادہ مستحکم نہیں کر پاتے اور دوسری طرف بنیادی حقوق کے حوالے سے بھی ان کی کارکردگی شرمناک رہتی ہے، اور یوں معاشروں میں انتشار غیر معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں مصر میں جمال عبدالناصر، الجزائر میں حواری بومدین اور شام میں حافظ الاسد مطلق العنان حکمرانوں کی حیثیت سے ابھرے اور انہوں نے ملک کو مضبوط کرنے کے دعوؤں کے ساتھ کام شروع کیا۔ انہوں نے چند ایک ایسے اقدامات ضرور کیے جن کی مدد سے ملک کو مستحکم کرنا کسی حد تک ممکن ہوسکا مگر انقلابی لہر جلد ختم ہوگئی۔ زمینی حقائق نے جب معاملات کو اپنی گرفت میں لیا تو جو کچھ ترقی جیسا دکھائی دے رہا تھا وہ غائب ہوگیا اور طاقت رہ گئی۔ ان حکمرانوں کے پاس طاقت کے استعمال کے ذریعے اقتدار کو طول دینے کے سوا کوئی راستہ نہ بچا۔ آج تینوں ممالک کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ ہے مرد ہائے آہن کی کارکردگی۔
مصر میں حسنی مبارک اور شام میں حافظ الاسد نے کسی جواز کے بغیر حکمرانی جاری رکھی، جس کے نتیجے میں صرف انتشار پیدا ہوا، خرابیوں نے جنم لیا۔ مصر اور شام دونوں ہی کو بالآخر تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔ حسنی مبارک اور حافظ الاسد نے معاملات کو جوں کا توں رکھنے کے لیے طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ دونوں ممالک میں بنیادی حقوق کچلنے کا سلسلہ ایسا چلا کہ اب صرف خرابیاں باقی رہ گئی ہیں۔
مطلق العنان حکمرانی صرف عرب دنیا کا وتیرہ نہیں۔ جنوبی امریکا کی بھی یہی کہانی ہے۔ وینزویلا میں ہیوگو شاویز کی حکمرانی بھی اسی نوعیت کی تھی۔ انہوں نے پورے ملک کے معاملات کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا اور جس طور چاہا اسی طور حکمرانی کی۔ کیوبا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ فیڈل کاسترو نے اپنی مرضی کو حکومت کا نام دیا۔ ان دونوں ممالک کا جو حال ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتدا میں ترکی کو بھی تبدیل ہونا پڑا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی۔ انقلاب کو بنیادی نکتہ بنایاگیا۔ پورے ملک کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی اور بہت کچھ بالجبر کیا گیا۔ مگر چند ہی عشروں میں انقلابی لہر مکمل طور پر ختم ہوگئی اور صرف انتشار رہ گیا۔ اس کے بعد فوجی حکمرانی کا دور شروع ہوا۔ سبھی جانتے ہیں کہ ترکی میں فوج کا اقتدار کس قدر مستحکم تھا۔ کئی عشروں تک فوج ترکی کے معاملات پر چھائی رہی۔ اس دوران مشکلات ہی مشکلات رہیں۔
سنگاپور، متحدہ عرب امارات اور قطر کی مثالیں عجیب ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں غیر جمہوری حکومتوں نے عوام کو بہت کچھ دیا ہے۔ ترقی بھی ہوئی ہے اور عمومی سطح پر خوشحالی کا دور دورہ بھی رہا ہے۔ مگر ہمیں چند ایک امور کا خیال رکھنا پڑے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان تینوں ریاستوں کا رقبہ بہت کم ہے اور آبادی بھی۔ دولت زیادہ ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی کے لیے بلند تر معیارِ زندگی ممکن بنانا آسان رہا ہے۔ اور پھر معاملہ قائدین کا بھی ہے۔ تینوں ریاستوں کو ایسے قائدین ملے جنہوں نے عوام کا بھلا سوچا اور ملک کی ترقی یقینی بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی۔ باقی ساری دنیا میں ایسا نہیں ہے۔
بڑی ریاستوں میں کسی بھی مطلق العنان حکمران کو اپنی خواہشات کے مطابق کام کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بڑی آبادی اور بڑے رقبے میں اپنی مرضی کے مطابق بہت کچھ کرنا کسی بھی فرد کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جنرل فتح السیسی نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے تو لیا ہے مگر وہ معاملات کو بہتر طور پر چلانے اور ملک کو حقیقی ترقی سے ہم کنار کرکے عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں اب تک ناکامی سے دوچار دکھائی دیے ہیں۔ یہی حال روس اور دیگر بڑی ریاستوں کا ہے۔ روس کا رقبہ اتنا زیادہ ہے کہ پوٹن کے لیے اپنی مرضی کے مطابق تمام معاملات کو درست کرنا انتہائی دشوار ہے۔ وہ ایک خاص حد تک ہی جاسکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مصر کے تمام معاملات حسنی مبارک کی ذات میں سمٹے ہوئے تھے۔ مغرب کے لیے ایک فرد سے ڈیل کرنا آسان ہوتا ہے، اس لیے وہ حسنی مبارک کے ذریعے مصر کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے رہے۔ انہوں نے حسنی مبارک کی ذات میں اپنے لیے ایک ایسا حکمران دیکھا جو تمام معاملات ان کی مرضی مطابق چلانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ جنرل فتح السیسی نے بھی مغرب کی مرضی کے تابع رہنے کی کوشش کی ہے مگر اب تک پورے ملک پر ان کی گرفت زیادہ مضبوط نہیں۔ انہوں نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ زیادہ قابل رشک نہیں۔ جو کچھ حسنی مبارک نے کر دکھایا اس کے مقابلے میں جنرل فتح السیسی کچھ زیادہ کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیے مگر ہاں، انہوں نے مذہبی قیادت سے دہشت گردی کے حوالے سے دو ٹوک انداز سے کچھ کہنے میں ضرور کامیابی حاصل کی ہے۔
مغربی قیادتوں کو دنیا کے ہر خطے میں مطلق العنان حکمران پسند ہیں۔ ان سے بات کرنا اور معاملات طے کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکا اور یورپ کے مقابلے میں جمہوریتیں کمزور لیڈر پیدا کرتی ہیں۔ امریکا اور یورپ میں جمہوریت کی جڑیں گہری ہیں۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کیا درکار ہے، کیسے حکمران چاہئیں۔ دوسری طرف دنیا بھر میں جمہوری طرزِ حکمرانی کے ڈھانچے کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ طاقتور اور باشعور لیڈر ابھر کر سامنے نہیں آتے۔ ایسے میں معاشرے ترقی بھی نہیں کر پاتے اور اپنی بات بہتر انداز سے بیان کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ لیبیا اور یمن اگر اپنے موجودہ بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو ان کے معاملات مطلق العنان حکمرانوں ہی کے ہاتھ میں آئیں گے اور یوں مغرب کے لیے ان سے ڈیل کرنا پھر آسان تر ثابت ہوگا۔ اور ان دونوں ممالک میں خون خرابہ ختم کرنے کے لیے لازم ہے کہ تمام معاملات ایک فرد کے ہاتھ میں ہوں۔ ملک بھر میں کسی حد تک استحکام اسی صورت قائم کیا جاسکتا ہے۔ مگر خیر، حقیقت یہ ہے کہ مطلق العنان حکمران ملک کو حقیقی استحکام سے کبھی ہم کنار نہیں کرسکتے۔ ان کی لائی ہوئی ترقی عارضی ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام اقدامات کی بقا یقینی بنانے کے لیے طاقت کا بے محابا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں صرف خرابیوں کو راہ ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مطلق العنان حکمرانوں کے اقدامات سے معاشرے صرف انتشار کی طرف جاتے ہیں۔ اپنے حقوق چھن جانے پر لوگ مشتعل رہتے ہیں، انقلابی سوچ پروان چڑھتی رہتی ہے اور موقع ملتے ہی لوگ اس سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں حقیقی، قابل رشک اور قابل تقلید استحکام شاذ و نادر ہی پیدا ہو پاتا ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان جو کچھ کر رہے ہیں وہ بہت سوں کے نزدیک سعودی عرب کے لیے زہر قاتل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی معاشرہ غیر معمولی خرابیوں سے دوچار رہا ہے۔ بہت کچھ ہے جو طاقت کے ذریعے دبایا جاتا رہا ہے۔ محمد بن سلمان نے سرمایہ کاروں کو دعوت دے کر ملک کو اس حوالے سے ایک جنت نشان ملک بنانے کی کوشش شروع کی ہے۔ وہ خواتین اور نوجوانوں کو حقوق دینا چاہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں چند ایک مثبت تبدیلیاں ضرور آئیں گی۔ جو کچھ محمد بن سلمان کر رہے ہیں، وہ ایک ناکام ہوتے ہوئے سعودی عرب سے تو یقیناً بہت بہتر ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغرب کو محمد بن سلمان کی شکل میں ایک ایسا راہنما دکھائی دے رہا ہے، جو اس کے سب سے بڑے مسئلے اسلام کو حل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ جنرل فتح السیسی نے بھی مسلم انتہا پسندی کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے مگر اب تک زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ خادم حرمین شریفین کی حیثیت سے محمد بن سلمان کو زیادہ کامیابی ملنے کی توقع ہے۔ وہ اب تک یہی ثابت کرتے آئے ہیں کہ باضابطہ بادشاہت ملنے پر وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کریں گے اور مغرب ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے گا۔
وہابی ازم کسی زمانے میں نرم خوئی کا نام تھا۔ ایران میں انقلاب کی آمد کے بعد سعودی عرب کے وہابی ازم نے سخت گیری شروع کی۔ اس کے نتیجے میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ ملک میں سخت تر قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ اب بہت سے لوگ یہ سوچ کر سکون کا سانس لے رہے ہیں کہ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر معروف و منکر کا محکمہ گرفتار نہیں کرسکے گا۔ محمد بن سلمان نے بہت سی چھوٹی چھوٹی پابندیاں ختم کی ہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔
مغربی قائدین کو بہرحال یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ محمد بن سلمان نے اب تک جو کچھ کیا ہے، اس کی پشت پر طاقت ہے۔ وہ اپنے بیشتر اقدامات طاقت کے ذریعے نافذ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر وہ قدرے معقول طریقے سے، جمہوری انداز اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھتے تو مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ مغربی قیادتوں کو دیکھنا ہوگا کہ محمد بن سلمان اس راستے پر آگے کیسے بڑھتے ہیں۔ جو کچھ محمد بن سلمان کرنا چاہتے ہیں وہ اگر عوام کی زندگی میں دکھائی نہ دیا تو ان کے چاہنے والوں کو دکھ بھی ہوگا اور مکمل تبدیلی کے واقع نہ ہونے کی قیمت بھی انہی کو ادا کرنا پڑے گی۔ سعودی معاشرے کو مکمل تبدیل کرنا انتہائی دشوار عمل ہے۔ ایسا کرنے میں کامیابی کی صورت میں بھی محمد بن سلمان اور ان کے حامیوں کو بہت کچھ جھیلنا پڑے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Strongmen are weaker than they look”. (“Foreign Policy”. MARCH 2, 2018)
Leave a Reply