شیخ الاسلام پر دباؤ
ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ کاظم موسیٰ آفندی کو شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔ وہ چونکہ یونین اینڈ پروگریس کمیٹی کے رکن تھے، اس لیے ان کے عملے کے تمام ارکان کمیٹی کے براہِ راست قابو میں تھے۔ شیخ الاسلام کے علاوہ کمیٹی کے چھ عسکریت پسند ارکان کو بھی وہاں پلانٹ کیا گیا تھا۔ وہ مذہبی امور کے حوالے سے ہدایات جاری کر رہے تھے اور اسلام کو کمیٹی کے مفادات کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ جب بہاری آفندی کو مذہبی امور کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تو انڈر سیکرٹری ابو العلاء (Ebu’l-Ulla) نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ یونین اینڈ پروگریس کمیٹی سے تعلق کی بنیاد پر بہاری آفندی خود کو سب سے برتر سمجھتے ہیں اور کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔
کمیٹی نے شیخ الاسلام کے عملے پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ وہ کسی بھی نوع کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ ایک طرف تو انہیں حکومت کے سیاسی پروگرام کی حمایت کرنی تھی اور دوسری طرف انہیں کسی بھی حیثیت میں اسلام کی کوئی خدمت بجا لانے کی اجازت نہ تھی۔ معمولی ملازم سے چیف جسٹس تک سبھی کو یہ باضابطہ تحریری عہد کرنا پڑتا تھا کہ ’’وہ اپنے منصب پر کام کرتے ہوئے، شیخ الاسلام کی ماتحتی میں خدمات کی انجام دہی کے دوران کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ اور نہ ہی کسی کلب کی رکنیت حاصل کرے گا‘‘۔ تحریری عہد میں یہ بھی درج تھا کہ ’’خلاف ورزی کی صورت میں کوئی بھی سزا قبول ہوگی‘‘۔
اگست ۱۹۱۳ء میں اس تحریری عہد یا ضمانت پر تمام مفتیان، فوجی شرعی عدالتوں کے ججوں اور شیخ الاسلام کے تمام ماتحت ملازمین نے دستخط کیے۔ ملک میں مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام اعلیٰ حکام آمریت کی زد میں آگئے۔ ۱۹۱۸ء میں جب حکومت کا خاتمہ ہوا تب مذہبی امور سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام اور دیگر ملازمین کی شکایات سنی جانے لگیں۔ شیخ الاسلام اور ان کے ماتحت عملے کو جبر کے تحت ریاستی اداروں کی بات ماننے اور اسلام کے خلاف جانے پر مجبور کیا گیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی ترکی میں کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ جن چند علما نے اس صورتِ حال کے خلاف آواز بلند کی ان میں مصطفی صابری آفندی بھی شامل تھے۔ انہوں نے ’’درسِ عبرت‘‘ کے زیرِ عنوان ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے انور پاشا کے دور میں روا رکھی جانے والی نا انصافی کی صرف ایک مثال پیش کی۔ یہ بغداد کے چیف جسٹس (قاضی القضاۃ) وہبی آفندی کا خط جو انہوں نے شیخ الاسلام کو لکھا تھا۔ وہبی آفندی سلطان عبدالحمید ثانی کے مخالفین میں سے تھے۔ خط میں انہوں نے لکھا: ’’میں نے سلطان عبدالحمید ثانی کے خلاف آواز اٹھائی۔ میں اُن لوگوں میں سے نہیں جن کے بارے میں کلج زادے (Kiliczade) نے کہا تھا کہ یہ لوگ موٹی عقل کے علما ہیں۔ میں نے سلطان کی مخالفت ۱۳ سال تک کی۔ اس کے بعد مزید تین سال چھ ماہ دس دن نظربندی کی مشکلات رہیں، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جو لوگ کسی بھی نوعیت کے جابرانہ نظام کے خلاف کچھ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے جہالت بہترین طریقِ کار نہیں۔ میں نے فلسفہ بھی پڑھا اور مذہبی علوم بھی حاصل کیے۔ میں نے علوم کی دنیا کے جدید ترین رجحانات پر بھی دسترس کے حصول کی کوشش کی اور قدیم بھارت کی دانش کلیلہ و دمنہ (Kalila wa Dimna) بھی پڑھی۔ یونانی زبان کا اعلیٰ ادب بھی میری نظر سے گزرا۔ فارسی میں مجھے گلستان، فرینچ میں لا مزریبل (وکٹر ہیوگو) اور عربی میں الفارابی کا سیاسی فلسفہ پڑھنے کا موقع ملا۔ میری طرف سے اطاعت کے اظہار پر غور کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ میں کیا ہوں، کیا جانتا ہوں۔ قرآن میں بھی اللہ نے ہدایت کی ہے کہ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘ (الحجرات: ۴۹)
’’اس معیار کو پیش نظر رکھا جائے تو کسی بھی شرعی عدالت کا کوئی بھی جج کسی سے کوئی بات سن کر یا محض ایک آدھ شخص کی گواہی کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دے سکتا یا کوئی بھی فیصلہ جاری نہیں کرسکتا۔ محض ایک گورنر کی شکایت کی بنیاد پر شرعی عدلیہ کے سات ججوں کو فارغ کردیا گیا ہے۔ ایک سب ڈویژن جج پر بھی آرا چل گیا ہے۔ یہی گورنر کسی بھی ایک معمولی سے کلرک کو بھی برطرف کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اگر گورنر اپنی بات پر بضد بھی رہتا تو حکومت اپنے طور پر فیصلہ کرسکتی تھی اور اپنے موقف پر قائم رہ سکتی تھی۔ لیکن شرعی عدلیہ کے سات جج فارغ کردیے گئے۔ اور کوئی انکوائری بھی نہیں کی گئی‘‘۔
’’ماضی میں کسی گورنر کو برطرف کرنے کے لیے شیخ الاسلام کا ایسا فیصلہ درکار ہوا کرتا تھا، جس کی وزیر اعظم اور شرعی عدالت کے ایک جج نے توثیق کی ہو۔ اور اب حالت یہ ہے کہ گورنر کے کہنے پر تفتیش کے بغیر ہی شرعی عدالت کے کسی بھی جج کو برطرف کیا جاسکتا ہے۔ شیخ الاسلام کے ادارے پر سو سال کے دوران جہلا کے کنٹرول کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ آج شیخ الاسلام کے ادارے کو انتہائی پستی اور ذلت کا سامنا ہے۔ شرعی عدلیہ کے جج عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ جب شیخ الاسلام کے منصب پر آپ کو فائز کیا گیا تو یہ امید جاگی کہ اب اس ادارے کا وقار کچھ بحال ہوگا اور دین کے حوالے سے عمدہ کارکردگی کی راہ ہموار ہوگی۔ مگر یہ امید اب تک بار آور ثابت نہیں ہوئی۔ تین چار ماہ کے دوران شرعی عدلیہ کے آٹھ ججوں کو برطرف کیا جاچکا ہے۔ کرپشن تو انکم ٹیکس، ریکارڈ آفس اور دیگر سرکاری محکموں میں بھی پائی جاتی ہے مگر ان اداروں کی کرپشن پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ مذہبی اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے سب تیار رہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ میں کسی کو سرکاری منصب پر فائز کرنا اچھا نہیں سمجھتا اور جب فائز کردیتا ہوں تو پھر اسے ہٹانا یا برطرف کرنا اچھا نہیں سمجھتا۔ اگر حکومت شرعی عدلیہ کے ججوں کو برطرف کرنا چاہتی تھی تو اس کے لیے کوئی طریقِ کار طے کیا جاسکتا تھا۔ بغداد میں برطرف ججوں کی کمی نہیں۔ ان میں سے بعض کو معمولی اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر برطرف کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند ایک پر تو قتل کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے اور کسی بھی قسم کا ثبوت دینے سے گریز کیا گیا ہے۔ کیا میں آپ سے یہ استدعا کرسکتا ہوں کہ صورتِ حال کو درست کریں اور وہ اپنی ساکھ داؤ پر لگانے کے خطرے کے ساتھ؟‘‘
جن لوگوں نے حکومت کی مخالفت کی ان کا یہی انجام ہوا۔ برطرف کیے جانے والے ججوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب یونین اینڈ پروگریس کمیٹی کی حکومت ختم ہوئی تب لوگوں نے نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی۔ یہاں ہم اسلامک پبلی کیشنز اسیسمنٹ بورڈ کے چیف سیکرٹری بابن زادے عبدالقادر آفندی کا شیخ الاسلام کے نام خط پیش کر رہے ہیں۔
’’جناب عالی! میں بھی حکومت کے عتاب کا نشانہ بنا ہوں۔ پہلے مجھے سنوپ بھیجا گیا۔ واپسی پر چار مقدمات میں الجھایا گیا۔ اور شاید یہ سب کچھ بھی کافی نہ تھا، اس لیے انہوں نے فوج میں خدمات کی انجام دہی کے دوران میرا گھر لوٹ لیا۔ سابق حکومت کے دور میں میری تنخواہ میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ میں استدعا کرتا ہوں کہ مجھے اسیسمنٹ بورڈ میں ملازمت دی جائے۔ اور اگر ایسا ممکن ہو تو پھر مجھے اسی بورڈ میں چیف سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے صلے میں دو ہزار کرش کی ادائیگی کرائی جائے۔‘‘ یہ خط ۱۲؍مارچ ۱۹۱۹ء کو لکھا گیا۔
جنگ ختم ہوئی مگر مشکلات ختم نہ ہوسکیں!
۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو سلطان واحد الدین (محمد ششم) کی حکومت قائم ہوئی۔ پہلے انہوں نے شریعت کے تحت حلف اٹھایا اور عہد کیا کہ شریعت کے منافی کوئی بھی اقدام نہیں کریں گے۔ انہوں نے پارلیمان کے تمام ارکان سے بھی ایسا ہی حلف اٹھوایا۔ سلال بائر نے لکھا کہ اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ اپنے بدترین زمانے میں بھی چند ایسی باتوں کو نہیں بھولتے جو ان کے وجود کا حصہ رہی ہوں۔
سلال بائر یونین اینڈ پروگریس کمیٹی کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ فری میسن بھی تھا۔ وہ بہت چالاک تھا۔ اپنی چالاکی ہی کی بدولت وہ نہ صرف یہ کہ کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی سے بچا رہا بلکہ ترکی کو سیکولرازم کی طرف لے جانے میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔ آئیے، اب ذرا پارلیمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔
سلطان واحد الدین نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’معزز ارکان! میں نے ۳ جولائی ۱۹۱۸ء کو اپنے بھائی محمد ہان پنجم کے انتقال پر سلطنت اور خلافت کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ میں نے ایک ایسی حکومت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی ہے جسے پارلیمنٹ کا اعتماد بھی حاصل ہے اور جس پر اعتماد کا اظہار کرنے والا فرمان بھی جاری کیا جاچکا ہے۔ یہ فرمان قانون کی عملداری اور عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہے۔ میں نے فوج میں خوراک اور کپڑوں کی قلت دور کرنے اور ساتھ ہی ساتھ جنگ کے دائرے سے باہر آنے کے طریقوں پر غور کرنے کی بھی ہدایت کی ہے‘‘۔
تقریر ان الفاظ پر ختم ہوئی ’’اللہ ہمیں تمام مصائب سے بچائے اور مشکلات میں بھی اختلافات سے دور رہنے اور مل کر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔
نئی پارلیمنٹ ۲۳۶؍ارکان پر مشتمل تھی اور افتتاحی سیشن میں ۱۳۱؍ارکان حاضر تھے۔ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے ۲۵؍ارکان بھی تھے جنہوں نے حسب روایت غیر ضروری سوالات پوچھ کر معاملات کو الجھانے کی کوشش کی۔ ایوان میں خواہ کوئی معاملہ زیر بحث ہو، اقلیتی ارکان بے ڈھنگے سوال کرکے معاملات کو الجھانے ہی کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح کنفیوژن پیدا کرکے سیاسی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف قوم جنگ سے بیزار ہوچکی ہے اور چاہتی ہے کہ معاملات کو درست کرنے، معیشت میں استحکام پیدا کرنے اور معاشرتی بگاڑ دور کرنے کے حوالے سے اقدامات جلد از جلد ثمر بار ثابت ہوں۔
۱۹؍ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو احمد عزت پاشا نے پارلیمنٹ کے سامنے اپنی حکومت کا پروگرام پیش کیا۔ ’’ہماری حکومت مذہب، نسل یا نظریے کی بنیاد پر کوئی بھی امتیاز برتے بغیر تمام شہریوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ ہم مملکتی اور انتظامی امور میں اقلیتوں کی بھرپور شراکت یقینی بنانے کے لیے آئین میں ضروری ترامیم کریں گے‘‘۔
ان کے بعد آرتین آفندی پارلیمنٹ سے مخاطب ہوئے۔ ’’سلطنتِ عثمانیہ کے آئین میں ایک شق ایسی ہے جو کسی بھی یورپی آئین میں موجود نہیں۔ قرآن میں اللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب کو اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔ اگر کہیں کوئی قدغن ہے بھی تو اسے ختم کیا جانا چاہیے تاکہ ہر شخص اپنی مرضی کی زندگی بسر کرسکے، اپنے خیالات کا اظہار کرسکے۔پریس پر پابندی ختم کی جانی چاہیے۔‘‘
آرتین آفندی بہت ذہین تھے۔ انہوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کے زرّیں اصولوں اور اعلیٰ تعلیمات کو خوب سراہا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادی بہت اچھا اصول ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کلیسا اور سائناگوگ کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نجی تعلیمی اداروں کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دینے کی وکالت کی، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ پرائیویٹ اسکولوں کو سیاسی مقاصد کے لیے عمدگی سے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ پریس کی آزادی کا معاملہ ان لوگوں کے حق میں تھا جو ترکی میں اسلام کو پنپتا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پریس تقریباً مکمل طور پر غیر مسلموں کے ہاتھ میں تھا۔ اگر حکومت پریس کے معاملات میں دخل دینے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اخبارات اور جرائد آسانی سے سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے کی پوزیشن میں آسکتے تھے۔ آرتین آفندی اور ان کے ہم خیال افراد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مکمل طور پر کامیاب رہے۔ اگر ان کی بھرپور کامیابی کا اندازہ لگانا ہے تو آج کے ترک پریس پر نظر ڈالیے۔
آرتین آفندی نے آئین کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا جسے وہ انتہائی ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ’’آئین میں ایک دفعہ ایسی بھی ہے جو حکومت کو مخصوص حالات میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اختیار دیتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ہمارے باغ میں کانٹے کی طرح ہے۔ اسے جڑ سے اکھاڑ کر کچرے کے ڈھیر میں پھینک دینا چاہیے۔ ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اختیار ایک ایسا ہتھیار ہے جسے حکومت کے ہاتھ میں دینا انتہائی خطرناک ہے۔ کیا آئین میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اختیار یونہی رہنے دینا اچھی بات ہے؟ مارشل لا کسی بھی حالت میں پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر نافذ نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔
قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے آرتین آفندی نے کہا کہ ’’قصاص میں بھی زندگی ہے۔ کسی بھی قاتل کو سزائے موت دینا یقیناً بہت اچھی بات ہے مگر کسی کو بے بنیاد الزام کی بنیاد پر موت کے منہ میں دھکیل دینا بھی تو کوئی پسندیدہ بات نہیں‘‘۔
آرتین آفندی نے ہنگامی حالت نافذ کرنے کے اختیار کو چیلنج کرکے دراصل یورپی طاقتوں کی ہم نوائی کی۔ ملک شدید عدم استحکام سے دوچار تھا۔ اقلیتوں کو عیسائی یورپ کی حمایت حاصل تھی۔ حکومت کے لیے لازم ہوگیا تھا کہ ہنگامی حالت نافذ کرکے اقلیتوں کی ریاست مخالف سرگرمیوں کا قلع قمع کرتی۔ آرتین آفندی اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ ہنگامی حالت نافذ کرنا حکومت کے لیے ناگزیر ہے، اس لیے اُنہوں نے حکومت کے اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانے کی غرض سے ہنگامی حالت نافذ کرنے کے اختیار پر حملہ کیا۔ پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کرکے انہوں نے ہنگامی حالت کے نفاذ کو مشکل بنانے کی تجویز پیش کی۔ انہیں اندازہ تھا کہ پارلیمنٹ کے غیر مسلم ارکان کے ساتھ مل کر وہ ہمیشہ حکومت کے اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے قرآن کے حوالے بھی خوب استعمال کیے۔ ناکافی شواہد کی بنیاد پر سنائی جانے والی سزائے موت کی مخالفت ان کا اصل مسئلہ نہ تھی۔ ان کا اصل مسئلہ ان غیر مسلموں کو شرعی قوانین سے تحفظ فراہم کرنا تھا، جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
آرتین آفندی کے بعد ترابزان (Trabzan) سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ حافظ محمد بے نے پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا ’’کابینہ نے ہنگامی حالات میں حکومتی فرائض عمدگی سے ادا کیے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جنگ کے زمانے میں جو مظالم ڈھائے گئے اور جو نا انصافی روا رکھی گئی، اس کے تدارک کے لیے کابینہ نے کچھ بھی نہیں کیا۔ ان مظالم میں (جن میں قتل و غارت بھی شامل ہے) یونین اینڈ پروگریس کمیٹی کے ارکان کے علاوہ فوجی بھی ملوث ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں جب بھی مظالم سامنے آئے تو ترکوں ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ جن لوگوں نے یہ مظالم ڈھائے ہیں انہیں تلاش کرکے سزا دی جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بلغاروی، سرب یا یورپ کی کسی اور نسل سے تعلق رکھنے والا فرد بھی کوئی جرم کرتا ہے تو الزام ترک نسل کے لوگوں پر دھر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ مزید نہیں چل سکتا۔ جو بھی غلط کام کرے اسے تلاش کرکے سزا دی جائے۔ وہ ترکوں کو وحشی اور غیر مہذب قرار دیتے ہیں۔ (ایوان میں زور و شور سے احتجاج کی آوازیں ابھرتی ہیں۔) دوسری نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے بہت کچھ کرتے ہیں اور الزام ترکوں پر دھرتے ہیں۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ اب اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ترکی کی حدود میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ان میں سے صرف پانچ فیصد میں ترک ملوث ہیں۔ باقی ۹۵ فیصد جرائم کا ارتکاب غیر ترک افراد کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ کہنا بہت افسوسناک لگ رہا ہے مگر کیا کریں کہ سچ یہی ہے‘‘۔
اسپیکر نے کہا کہ کسی بھی نسل یا قوم کے بارے میں لاعلمی کی بنیاد پر بہت سی ایسی باتیں کہی گئیں جو ناگوار ہیں۔ ترکوں کے بارے میں آپ نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ واپس لیں۔
حافظ محمد بے نے کہا ’’ٹھیک ہے، میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جنگ کے زمانے میں ترکی کی حدود میں بہت سے لوگوں نے جرائم کا ارتکاب کیا اور ظلم کی حد تک پہنچنے سے بھی باز نہ رہے۔ بہتوں نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر بھی مظالم ڈھائے۔ مگر یہ سارے کرتوت ترکوں کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔ کابینہ کو چاہیے کہ پارلیمنٹ کو یقین دلائے کہ جن لوگوں نے جرائم اور مظالم کا ارتکاب کیا ہے انہیں شناخت کرکے کیفر کردار تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ جن لوگوں نے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے، ان میں سے بہت سے اب تک آزاد گھوم رہے ہیں۔ جب تک انہیں سزا نہیں دی جائے گی، لوگوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ ترک اب تک تو خاموش رہے ہیں مگر مزید خاموش نہیں رہیں گے۔‘‘
استنبول سے تعلق رکھنے والے ایک رکن سیفک بے نے کہا ’’مسٹر محمد بے! ہم خاموش نہیں رہے، ہم نے شکایت بھی کی ہے‘‘۔
حافظ محمد بے نے کہا ’’محترم خاموش رہیے۔ مداخلت سے گریز کیجیے اور اپنی باری آنے ہی پر بولیے۔ ہم اگر خاموش رہے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارا معاملہ یونان، بلغاریہ اور سربیا سے خاصا مختلف ہے۔ یہ ممالک اگر تباہ بھی ہو جائیں تو دوبارہ بن جائیں گے کیونکہ ان کی مدد کرنے والے موجود ہیں۔ ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ ہم اگر ایک بار برباد ہوئے تو پھر تعمیر نو کا راستہ نہیں ملے گا۔ ہمیں تو اندازہ ہے کہ ہم اگر گر پڑے تو اپنے دو پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونا انتہائی دشوار ہوگا۔ ہم تو اس لیے خاموش رہے کہ اتحاد اور یگانگت برقرار رہے۔ اس سے زیادہ ہمیں کچھ بھی درکار نہ تھا۔ مگر کچھ لوگوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا۔ جیسا کہ علی کمال بے نے کہا، کچھ لوگ تو آزادی کے نام پر ملک کو فروخت کرنے کے درپے تھے۔ ہم نے متعلقہ اتھارٹیز سے کہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ جب تک جنگ رہے گی، ہم کوئی بھی کارروائی نہیں کرسکیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ جنگ کے بعد ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا تاکہ ان کے کرتوتوں کا حساب لیا جاسکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بے گناہوں کو بخش دیا جائے اور صرف مجرموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بالخصوص ان لوگوں کو کسی بھی حالت میں معاف نہ کیا جائے جو قتل و غارت میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ترک قوم معصوم ہے اور دنیا کو بھی یہ بات معلوم ہونی چاہیے۔ ہمیں کابینہ کی طرف سے یہ ضمانت چاہیے کہ تمام مجرموں اور بالخصوص قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔‘‘ (ایوان میں تالیوں کا شور گونجا۔)
اس طویل بحث کے بعد التوا کی چند تحاریک پیش کی گئیں مگر اسی دوران اقلیتی ارکان کے ایک گروپ نے حکومت پر شدید عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ اسپیکر نے بتایا کہ خرالم پیتی آفندی (Haralampiti Efendi) نے ایک پٹیشن پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے جس امن معاہدے کی منظوری دی ہے وہ قطعی ناقابل قبول ہے۔ اس حوالے سے کابینہ اور حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے۔
لازستان سے تعلق رکھنے والے رکن ضیاء ملا نے کہا ’’جن لوگوں نے اس پٹیشن پر دستخط کیے ہیں ان کے نام سنائے جائیں‘‘۔
اسپیکر کے کہنے پر سیکرٹری محمود بے نے نام پڑھ کر سنائے جن میں توکیدیدیس، اروزوغلو، یارگی یاوانادی، خرالم پیتی، وانگل، یامپو، دامیت راکی فیدو اور اینانیوس شامل تھے۔
یہ تمام کے تمام غیر مسلم تھے اور انہیں حکومت کی تشکیل محض اس لیے پسند نہ تھی کہ اس میں ترک مسلمانوں کی پوزیشن بہت مستحکم تھی۔ ان ارکان کو یہ پسند تھا کہ انتشار کی کیفیت برقرار رہے، ملک طوائف الملوکی کی زد میں رہے۔ مگر خیر، اپنی سی کوشش کے باوجود یہ لوگ ناکام رہے اور حکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔ ایوان میں موجود ۱۳۱ میں سے ۱۲۱؍ارکان نے اعتماد کا ووٹ دیا۔
۲؍ نومبر ۱۹۱۸ء کو ازمیر کے رکن وانگل، کیٹلکا کے توکیدیدی اور ایدین کے ایمانویل ایدی نے ایک پٹیشن پیش کی جس میں کہا گیا کہ جنگ کے زمانے میں یونانی اور آرمینیائی نسل کے لوگوں کو قتل کیا گیا اور گھروں سے نکال کر سامان لوٹ لیا گیا۔ وزیر داخلہ علی فتحی بے نے اس پٹیشن کا نہایت نرمی اور شائستگی سے جواب دیا۔ حافظ محمد بے اور فواد ہلوسی بے کو یہ نرمی ناقابل قبول لگی اور انہوں نے اس پر احتجاج بھی کیا۔ ایمانویل ایدی نے پٹیشن میں جو زبان استعمال کی اس نے ترک ارکان پارلیمنٹ کو مشتعل کردیا۔
حافظ محمد بے نے کہا کہ ترک نسل کے لوگوں پر سنگین الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں ہم چپ نہیں رہ سکتے۔ الزامات کا جواب دینا لازم ہے۔
الیاس سامی بے نے کہا کہ الزامات کا جواب دینا تو حکومت ہی کا فرض ہے مگر اس نے تسلی بخش جواب نہیں دیا جس کے پیش نظر لازم ہے کہ ہم پٹیشن کا جواب دیں۔ اقلیتی ارکان نے الزام عائد کیا ہے کہ ترکوں نے دس لاکھ یونانی اور آرمینیائی لوگوں کو قتل کیا اور یہ کہ چار ہزار سال کی مدت میں صرف یونان ہی اس خطے میں تمدن کی واحد علامت ہے۔ اگر ریکارڈ درست نہ کیا گیا تو ہماری تاریخ مسخ ہو جائے گی۔ ایمانویل ایدی نے کہا کہ ان کی پٹیشن میں لفظ ’’صرف‘‘ شامل نہیں۔
الیاس سامی اور حافظ محمد بے نے کہا کہ اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ لازم ہے کہ ریکارڈ درست کردیا جائے۔ اسپیکر نے پھر کہا کہ جواب دیا جاچکا ہے اور جو جواب دیا گیا ہے وہ پارلیمانی طریق کار کے مطابق ہے۔ مگر کئی دوسرے ارکان نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ترک نسل پر عائد کیے جانے والے الزامات کا بھرپور اور تسلی بخش جواب دیا جائے۔ رستو بے نے کہا کہ ہم پر سنگین الزامات عائد کیے جارہے ہیں جن کا جواب دینا لازم ہے۔ انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر انتہائی سنگین اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پارلیمانی طریقے سے جواب دیا جاچکا ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ نے اس معاملے پر بحث کی تو بہت سے دوسرے اہم معاملات پڑے کے پڑے رہ جائیں گے۔ ارکان کا مشتعل ہونا اور شدید ردعمل ظاہر کرنا بجا مگر اس وقت کسی اور معاملے پر بحث نہیں کی جاسکتی۔ رستو بے نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کا طریق کار ہمیں اس نکتے پر بحث کی اجازت نہیں دیتا تو پھر بحیرۂ اسود کے علاقے میں آرمینیائی اور یونانی نسل کے لوگوں کے ہاتھوں ترکوں کی شہادت کے معاملے پر بات ہونی چاہیے۔
پارلیمانی کارروائی کی ان جھلکیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانی کو کن مشکلات کا سامنا تھا اور کس طور ترکی کو سیکولر سانچے میں ڈھالا گیا۔ اس دور میں جو کچھ ہوا اس کا خمیازہ ترک قوم کو اب تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔
Leave a Reply