
جرمنی میں ہٹلر کے عنانِ حکومت سنبھال لینے کے بعد، فرینکفرٹ اسکول کے بانی اور علومِ معاشرت کے ماہر محققین، جن میں اڈرنو (Adorno) اور ان کے رفقاء کار شامل ہیں، آزادی کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہجرت کرکے امریکا پہنچے۔ وہاں پر انہوں نے معاشرے کو ضروریات، خواہشات اور خوابوں کے آہنی شکنجے میں جکڑا ہوا پایا۔ ان کے کہنے کے مطابق، یہ آہنی شکنجہ ابلاغِ عامہ اور معشر بازار کاری (Marketing) کی قوتوں کے ذریعے، معاشرے کی سوچ میں، ضروریات، خواہشات اور خوابوں کے حوالے سے ایک یکسانیت (Standardization) پیدا کرکے اُسے ان رجحانات کا غلام بنائے رکھتا ہے۔ ان مشاہدات کے نتیجے میں اڈرنو اور اس کے رفقا کے، آزادی کے خواب چکناچور ہوگئے۔
ان پابند معاشرتی رجحانات کے نتیجے میں جس کا مشاہدہ ان محققین نے کیا، انسانی رویے، ایک طے شدہ اور قابلِ پیش گوئی (Predictable) انداز میں چلتے ہیں، اور انہیں قابو میں رکھنا اور ایک خاص نہج پر ڈالے رکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایسا ماحول آزادیٔ فکر وعمل کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس تجزیے سے میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ اُس زمانے کے کئی یورپی ممالک میں، مثلاً جرمنی اور روس جہاں حریت پسندوں کو آہنی شکنجے میں جکڑا گیا تھا، وہاں امریکا میں فکر، ریشم کی مضبوط زنجیروں سے بندھی ہوئی تھی۔ یہ ۱۹۳۰ء کے عشرے کا ذکر ہے، اب جبکہ ابلاغِ عامہ اور اس کے ساتھ ساتھ بازار کاری کے ذرائع ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، ان کا سحر اور اس کے ساتھ ساتھ اس آہنی شکنجے کی گرفت اور مضبوط ہوگئی ہے، اور اس غالب نظام نے دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بھی متاثر کر دیا ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی اس کی زَد میں ہیں۔ مثلاً سیاست بھی ان جبری عوامل سے باہر نہیں۔ امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی تبدیلیاں جو بظاہر جمہوری یا کسی اور ذریعے سے ہوتی ہیں، لیکن دراصل انہی پوشیدہ قوتوں کے زیرِ نگیں عمل میں آتی ہیں۔
امریکی معاشرے کی صورتحال کا ادراک حاصل کرلینے کے باوجود، اڈرنو اور اس کے رفقا کار، ان حالات کو پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی قوتوں کو یا تو پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہے یا مصلحتاً انہیں مخفی رہنے دیا۔ میں چونکہ سماجی علوم کی شدھ بدھ نہیں رکھتا، اپنی کم مائیگی کے اعتراف کے ساتھ۔ لیکن بغیر کسی مصلحت کے، یہ کہنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ میں بھی ان نظروں سے اوجھل قوتوں کو پوری طرح سمجھنے میں اور بے نقاب کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ بہرحال، ان کے اخفا سے متعلق مخمصے کو میں نے ایک تجریدی انداز سے سمجھنے کی کوشش کی: کیا عجب کہ ان مخفی قوتوں کا وجود چند افراد یا بعض اداروں کی صورت میں نہ ہو، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام، معاشرے میں اس قدر نفوذ پاگیا ہو کہ اس معاشرے کے مختلف اہم افراد اور ادارے اس کے غلام بن کر رہ گئے ہوں۔ یوں معاشرے کی مختلف اکائیاں طوعاً و کرہاً اس استحصالی نظام کے ایسے آلۂ کار بن کر رہ گئے ہوں، جو اس کے تسلسل اور استحکام میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ایک مشین کے پرزوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کا یہ بظاہر مستحکم درخت، سودی نظام کے بَل پر کھڑا ہے، جس کے متعلق خالق کائنات کا فرمان ہے کہ اس کی کوئی جڑ نہیں، تند ہوا کا ایک جھونکا، اسے خس و خاشاک کی طرح اڑا لے جائے گا۔
گرمئی بزم ہے اک رقصِ شرر ہونے تک۔
پاکستان جیسے ممالک میں مغرب کے اس استحصالی نظام کی گرفت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ تاہم پاکستان کے تناظر میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہاں کا نظام ایک بے ڈھنگے طریقے سے اور ایک بے ربط انداز میں چلتا رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ یہاں کوئی مضبوط نظام رائج ہی نہ ہوسکا۔ معاشرے کی یہی کمزوری کسی بیرونی نظریے کے یہاں پر نفوذ کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ یہاں پر لوگ کسی بھی نظام کی قید سے آزاد ہیں۔ گویا نظام کی عدم موجودگی کے بڑے نقص میں مضمر ایک مثبت پہلو بھی رہا ہے۔ بنیادی طور پر آزادیٔ فکر سے بھرپور اس معاشرے میں آزادیٔ عمل کی راہوں کو ہموار کرنے کے لیے، ایک مربوط و مضبوط نظام کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام جو استبدادی نہ ہو، استحصالی نہ ہو، جس میں انسان، انسان کا غلام نہ ہو۔ بلکہ سب ایک بزرگ و برتر ہستی ہی کے غلام ہوں۔ الاسلام ھوا الحل۔
اگر ہم پاکستانی معاشرے کا تجزیہ معاشی طبقات کے تناظر میں کریں، تو ہمیں دیکھیں گے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تمام آلائشیں اور علّتیں ہمیں مراعات یافتہ اشرافیہ میں زیادہ نظر آئیں گی۔ یہی معاشرے کا وہ طبقہ ہے جس کے مفادات کا تحفظ اس نظام میں موجود ہے۔ دوسری جانب معاشی طور پر نچلے اور کسی حد تک درمیانے طبقے کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سے نسبتاً دور، ان طبقوں میں صلاحیتوں کی فراوانی ہے۔آپ نوٹ کریں گے کہ شہروں کے وہ علاقے جن میں ان معاشی طبقوں سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں، وہاں علمی، دینی، سیاسی سرگرمیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔ آزاد ماحول میں ہونے والی یہ سرگرمیاں، معاشرتی ارتقا کے لیے اہم ہیں۔ یہ لوگ باصلاحیت ہیں، لیکن بااثر نہیں۔ آپﷺ نے جو انقلاب برپا کیا اس کے روحِ رواں ایسے ہی کمزور، مگر باصلاحیت لوگ تھے۔ آپﷺ کی تربیت اور نظامِ اسلام کی سازگار فضا نے جنہیں بااثر بھی بنا دیا تھا۔
☼☼☼
Leave a Reply