
سوڈان میں صدارت، پارلیمان اور مقامی حکومتوں کے لیے حال ہی میں انتخابات ہوئے۔ رجسٹرڈ ووٹر تقریباً ایک کروڑ ۳۰ لاکھ تھے لیکن ووٹ ڈالنے کی شرح بہت کم رہی۔ ۱۶؍امیدواروں نے موجودہ صدر عمر البشیر کے خلاف انتخاب لڑا جن کے بارے میں قومی انتخابی کمیشن نے ۲۷؍اپریل کو اعلان کیا کہ وہ ۹۴ فیصد ووٹ لے کر ایک اور پانچ سالہ دور کے لیے کامیاب ہوگئے ہیں۔
عرب اور افریقی ممالک کے مبصرین نے انتخابات کو بے ضابطگیوں سے پاک قرار دیا، مگر متعدد مغربی حکومتوں نے انہیں نمائندہ انتخابات تسلیم نہیں کیا۔ ان حکومتوں کا اشارہ سوڈانی حکومت اور قبائلی علاقوں میں موجود اس کے مخالفین کے مابین قومی مذاکرات کا وعدہ پورا نہ ہونے کی طرف تھا جس پر ’’سوڈان کی پکار‘‘ نامی اعلامیے میں اتفاق کیا گیا تھا۔
اس رائے دہندگی کا ابتدائی دہائیوں میں ہونے والے انتخابات سے دور کا بھی تقابل نہیں، جب سوڈان عرب دنیا کے مسابقتی پارلیمانی انتخابات کرانے والے بانی ممالک میں شامل تھا۔ ۱۹۵۳ء کے انتخابات (جو بعد ازاں قومی تشخص پر ریفرنڈم میں تبدیل ہوگئے، جس کے نتیجے میں سوڈان کو یکم جنوری ۱۹۵۶ء میں برطانیہ اور مصر سے آزادی ملی)، ۱۹۵۸ء اور ۱۹۶۸ء کے انتخابات (نتیجتاً ایک جماعت سے دوسری جماعت کے پاس حکومت جاتی رہی) اور ۱۹۶۵ء اور ۱۹۸۶ء کے انتخابات (نتیجتاً طویل فوجی ادوار کے بعد مخلوط حکومتوں کے ساتھ پارلیمانی جمہوریت بحال ہوئی) کو افریقا اور عرب دنیا کے دیگر انتخابات کے برعکس عالمی سطح پر شفاف اور آزادانہ قرار دیا گیا۔
نیشنل یونینسٹ پارٹی، اور نیشنل اُمہ پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے انضمام سے وجود میں آنے والی ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی، جس کے بیشتر حامی بالترتیب انصار اور خاتمیہ جیسے بڑے مذہبی فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں، انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتیں تھیں۔
ان میں سے ہر جماعت کو تمام انتخابات میں ۳۰ سے ۴۰ فیصد کامیابی ملی جبکہ باقی حصہ چھوٹی جماعتوں کا تھا جن میں بنیاد پرست نظریاتی جماعتیں (کمیونسٹس اور اخوان المسلمون) اور جغرافیائی گروہ (مشرق میں بیجا کانگریس، وسطی علاقے میں نیوبا ماؤنٹینز فیڈریشن، مغرب میں دارفور کی گروہ بندیاں اور جنوب میں سوڈان افریقی قومی یونین کے ساتھ جنوبی فرنٹ) شامل ہیں۔
پارلیمانی طرز کی حکومتوں کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے اتحاد بنانے پڑتے ہیں۔ بدقسمتی سے شفاف اور آزادانہ انتخابات سے مستحکم حکومتیں قائم نہیں ہوئیں جس کی بڑی وجہ سوڈان میں موجود نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم ہے۔ اس بڑے ملک میں ۵۹۷ قبائل ہیں جو ۴۰۰ کے قریب بولیاں بولتے ہیں اور ان کی تقریباً ۲۰۰ مذہبی وابستگیاں ہیں۔
دیرینہ ذاتی دشمنیاں رکھنے والے اجنبی ساتھیوں کے مابین سمجھوتوں کی مسلسل ضرورت نے سوڈان کی داخلی سیاست کو اسرائیل، لبنان اور رجب طیب ایردوان سے پہلے کے ترکی جیسا بنا دیا ہے۔ امیر ممالک کا پارلیمانی نظام بدگمانیوں کا حامل ہوسکتا ہے، لیکن چوتھی دنیا کی سرحدوں کو چھوتے سوڈان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے حالات کہیں زیادہ اہم اقدامات کے متقاضی ہیں۔ جب ابراہیم عبود نے نومبر ۱۹۵۸ء میں، جعفر نُمیری نے ۱۹۶۹ء اور عمرالبشیر نے ۱۹۸۹ء میں فوجی مداخلت کی تو سیاسی شعور رکھنے والے عوام نے انہیں خوش آمدید کہا، حتیٰ کہ دانشوروں نے بھی سر جھکا دیے۔
شاید ذہنوں میں ترکی میں گیارہ ماہ کی فوجی مداخلت (۶۱۔۱۹۶۰ء) ہو، مگر بہرحال آمروں کو اتنے عرصے کوئی نہیں دیکھنا چاہتا تھا، جتنے عرصے وہ اقتدار میں رہے۔ کسی حد تک منافقت کے ساتھ سہی، مگر بحرانی ادوار میں مخصوص ہنگامی حالات کو سنبھالنے کے سوا فوجی حکومت اور آمریت کو سیاسی شعور کے حامل سوڈانی پسند نہیں کرتے۔ اگر کبھی فوج حکومت میں اپنا قیام بڑھاتی ہے تو اس کے خلاف ناراضی بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔
یہ بات نُمیری اور عبود کے لیے درست تھی اور عمرالبشیر کی نیشنل کانگریس پارٹی کی حکومت سے متعلق بھی یہ احساس اجاگر ہوتا رہا ہے۔ ایک دہائی قبل کچھ مبصرین سمجھتے تھے کہ عمرالبشیر انتخاب ہار جائیں گے، لیکن بیرونی قوتوں، خصوصاً امریکی حکومت کے دباؤ اور جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے بہت سے سوڈانیوں کو ان کے حق میں نکلنے پر مجبور کردیا۔ دیگر معاملات کے علاوہ ان پر دارفور میں نسل کشی کا جھوٹا الزام بھی لگایا گیا۔ خوش قسمتی سے نسل کشی ہوئی ہی نہیں تھی اور اس امر کا اعتراف افریقی یونین اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بھی کیا۔ ’’دارفور کو بچاؤ‘‘ جیسے مغرب کے حمایت یافتہ گروپوں کی غلط بیانی مہم کا الٹا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے سوڈانی جو عمرالبشیر کے آمرانہ طرزِ حکومت سے نالاں تھے، ۲۰۱۰ء میں ان کی حمایت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ نتیجتاً وہ اُن انتخابات میں ۶۸ فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے، جو بصورتِ دیگر وہ ہار سکتے تھے۔
اب سالِ رواں کے انتخابات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اندرونی طور پر عمرالبشیر کے لیے ایک طرح کا جواز موجود ہے جس کے ساتھ ایک امید بھی ہے کہ شاید ان کی بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ ہوجائے۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے اور اپنے ساتھ دیگر چھوٹے گروپوں کو ملانے میں بھی کامیاب ہوگئی ہے۔
لہٰذا ایک بار پھر سیاسی قوتیں منقسم ہیں۔ حکومت اور اس کی قومی انٹیلی جنس سروس ۴۴ مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی عمل میں شرکت کو جواز بناتی ہے جبکہ بہت سے مخالفین ووٹ ڈالنے کی غیر معمولی طور پر کم شرح کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انتخابات مناسب نمائندگی سے محروم تھے۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ ۱۹۶۵ء میں خاتمیہ کی پی ڈی پی نے بھی غیر منطقی جواز سامنے لاکر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ دراصل وہ خود کو بروقت تیار نہیں کرپائی تھی اور انتخابات کے بعد شرمناک نتائج سے بچنا چاہتی تھی۔
بدقسمتی سے بہت سے سوڈانی گروہ نظام کے اندر کام کرتے ہوئے اسے بہتر کرنے کے بجائے یہ چاہتے ہیں کہ اس کا بائیکاٹ ہی کردیا جائے۔ وہ اپنے حامیوں کو اپنے مؤقف کی درستی پر قائل تو کرلیتے ہیں مگر بالآخر ان کے حصے میں شکست ہی آتی ہے۔ اسی گمراہ کن پالیسی نے ماضی کی ایک اہم جماعت پی ڈی پی کا خاتمہ کردیا اور عین ممکن ہے کہ یہی کچھ اس سال حزبِ اختلاف کے موجودہ گروپوں کے ساتھ بھی ہوجائے۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Sudan after the elections”.
(“The Arab Weekly”. May 1, 2015)
Winston Ross
Leave a Reply