
اقتدار میں شراکت کے طاقتور فارمولے کا تعین ہو جانے کے بعد بھی سوڈان کا سیاسی بحران آسانی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عام انتخابات کم و بیش تین سال دور ہیں۔ ایسے میں فوج اور سیاسی مزاحمتی تحریک کے درمیان جو کچھ طے پایا ہے اُس کے مطابق معاملات کا نمٹایا جانا ناگزیر سا ہوچکا ہے۔ حقیقی سیاسی استحکام کی راہ میں متعدد رکاوٹیں ہیں جو امن و استحکام بحال کرنے کے پورے عمل کو داؤ پر لگا سکتی ہیں۔
سوڈان کے فوجی حکمرانوں اور سیاسی مزاحمتی تحریک کے قائدین کے درمیان اقتدار میں شراکت کی ڈیل کو جمہوریت کی بحالی کی طرف ایک انتہائی اہم قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تجزیہ کار مختلف حوالوں سے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ کئی چیلنج ہیں جو کسی بھی وقت ابھر کر انتخابات کے انعقاد سے قبل پوری صورتِ حال کو یکسر تبدیل کرکے جمہوریت کی بحالی کے عمل کو ختم کرسکتے ہیں۔
افریقی اتحاد کی تنظیم اور ایتھوپیا نے سوڈان کے فوجی حکمرانوں اور سیاست دانوں کے درمیان ۳ جون کو معاہدہ کرایا۔ اس سے قبل دارالحکومت خرطوم میں فوجی ہیڈ کوارٹر کے باہر دھرنے کے باعث فوجی حکمرانوں اور سیاسی قیادت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ تھم گیا تھا۔ اس موقع پر تشدد پھوٹ پڑا تھا جس کے نتیجے میں ۱۰۰ سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
افریقی اتحاد کی تنظیم اور ایتھوپیا کی وساطت سے طے پانے والے معاہدے کے تحت سیاسی تبدیلی اور جمہوریت کی بحالی کی مجموعی مدت تین سال اور تین ماہ ہے۔ یہ معاہدہ ۲۹ سال تک حکومت کرنے والے عمر البشیر کو فوج کی طرف سے ہٹائے جانے کے تین ماہ بعد طے پایا۔ اس سے قبل عمر البشیر کو ہٹانے کے لیے ملک بھر میں بدترین ہنگامہ آرائی ہوئی جس میں بہت سے لوگ مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
معاہدے کے تحت ٹیکنوکریٹس پر مشتمل سویلین حکومت قائم کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ ایک خود مختار کونسل بھی صدارتی منصب کی حیثیت سے کام کرے گی۔ اس دس رکنی کونسل میں پانچ ارکان فوج سے اور پانچ مزاحمتی تحریک سے ہوں گے۔ کونسل کا گیارہوں رکن سویلین ہوگا جسے فریقین مل کر منتخب کریں گے۔ پہلے ۲۱ ماہ اس کونسل کی قیادت فوج کرے گی اور اس کے بعد سویلین نمائندہ ۱۸ماہ قیادت کا فریضہ انجام دے گا۔
فوج نے عمر البشیر کو ۱۱؍اپریل ۲۰۱۹ء کو برطرف کیا تھا۔ تب سے جو ہنگامہ آرائی ہوئی ہے اُن کی غیر جانب دارانہ اور شفاف تحقیقات شروع کرنے کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔
مصر کے الاہرام سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز میں سوڈان سے متعلق امور کے ماہر ہانی رسلان کہتے ہیں کہ سوڈان میں فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے وہ حالات کے تناظر میں بہترین دکھائی دیتا ہے، مگر یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ملک کو حقیقی سیاسی و معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس حوالے سے فریقین کو بہت محنت کرنی پڑے گی، بہت سے معاملات میں فراخ دلی اور ایثار سے کام لینا پڑے گا۔ ہانی رسلان کے مطابق یہ سوال اب تک برقرار ہے کہ فوجی حکمرانوں اور سیاسی قیادت کے درمیان طے پانے والا معاہدہ کیا واقعی ملک کو حقیقی استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کا موقع ہے یا کچھ زیادہ ہی امید کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ کئی چیلنج ہیں جن سے نمٹنا لازم ہے۔ معیشت کا بہت بُرا حال ہے۔ حقیقی معاشی استحکام یقینی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ دارالحکومت خرطوم کے مغرب اور جنوب کے علاقوں میں معاملات کو پرامن طور پر طے کرکے حقیقی استحکام کی راہ ہموار کرنی پڑے گی۔ عمر البشیر کے وفاداروں کی بڑی تعداد نے ریاستی اداروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ان اداروں کو چھڑاکر بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل بنانا ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا فوج معاہدے پر پوری دیانت کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ۲۰۲۲ء میں اقتدار سے الگ ہوکر انتخابات کے ذریعے سیاسی قیادت کو ملک سنبھالنے کا موقع دے گی۔
۱۹۵۶ء میں آزادی کے بعد سے ملک پر بیشتر وقت فوج ہی نے حکومت کی ہے۔ یہ ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے حقیقی سیاسی استحکام کی راہ کا ہموار کیا جانا کسی بھی طور کوئی آسان کام نہیں۔ منتخب حکومتیں مختلف حوالوں سے ناکامی کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ ۱۹۵۸ء، ۱۹۶۹ء اور ۱۹۸۹ء میں فوج نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور سیاسی قیادت کی راہیں مسدود کردیں۔
اس وقت سوڈانی معیشت کی حالت اتنی بری ہے کہ اگر بحالی کے اقدامات میں تاخیر ہوئی اور عوام کو ریلیف نہ ملا تو عبوری مدت کے دوران جمہوریت کی بحالی کا عمل ٹریک سے اتر جائے گا اور معاہدے کی رُو سے جس سیاسی عمل کی بحالی طے کی گئی ہے اس کے دوران بھی عوام کی بدحواسی اور بے چینی معاملات کو مزید بگاڑ دے گی۔
عمر البشیر نے ۲۹ سالہ اقتدار کے دوران قومی معیشت کو مستحکم کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ انہوں نے اپنے رفقا اور اتحادیوں کی کرپشن سے دانستہ صرفِ نظر کرکے اپنے اقتدار کو طول دیتے رہنے پر توجہ مرکوز کی۔ عمر البشیر ہی کے دورِ حکومت میں ۲۰۱۱ء میں تیل کی دولت سے مالا مال خطہ جنوبی سوڈان ملک سے الگ ہوا۔ اس کے نتیجے میں ملک کئی عشروں کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہوا۔
سوڈانی معیشت کو بحال کرنے کے لیے بیرونی فنڈ کی بڑے پیمانے پر ضرورت پڑے گی۔ یہ فنڈ ممکنہ طور پر خلیجی ریاستوں سے آئیں گے۔ معیشت کی بحالی میں غیر معمولی حد تک معاون ثابت ہوکر خلیجی ریاستیں چاہیں گی کہ نئی حکومت ریاستی اداروں میں عمر البشیر کے اثرات ختم کرنے پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرے۔ اب تک واضح نہیں کہ فوج سول سروس، بینکنگ، صحت اور سیکورٹی فورسز سے عمر البشیر کے وفاداروں کو ہٹانے میں کس حد تک دلچسپی لے رہی ہے۔
فوج کا ایک بڑا حصہ اور ملک پر حکومت کرنے والی فوجی کونسل کے متعدد ارکان سیکولر مزاحمتی تحریک کا سامنا کرنے کے لیے ہم خیال لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لیں گے۔ مغربی اور جنوبی سوڈان میں فی الحال باغی خاموش ہیں مگر وہ کسی بھی وقت بیدار ہوکر معاملات کو تلپٹ کرسکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ تجزیہ کار جمہوریت کی بحالی کے راستے کو خاصا پُرخار قرار دے رہے ہیں۔ ایک زمانے سے خرطوم حکومت کے خلاف لڑتے آرہے باغیوں نے سیاسی تبدیلی کے معاہدے کو بے وقت اور انقلاب سے غداری قرار دیا ہے۔ فوج اور سیاسی مزاحمتی تحریک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت پہلے ۶ ماہ کے دوران مغرب میں دارفر کے علاقے اور نوبا کے پہاڑی خطے میں بغاوت کچلنے پر توجہ دی جائے گی۔ خرطوم کے جنوب میں بلو نائل کے علاقے میں بھی باغیوں کی سرکوبی کی تیاری کی جارہی ہے۔
دارفر میں فوج سے لڑنے والی تنظیم دی سوڈانیز لبریشن موومنٹ کے دو دھڑوں نے کہا ہے کہ اقتدار میں شراکت کے وسیع البنیاد معاہدے سے قبل چھاپہ مار گروپوں سے بھی امن معاہدہ کیا جانا چاہیے۔ سوڈان میں مذہب اور نسل و زبان کا تنوع ہے۔ قومی وسائل میں زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کے حوالے سے بغاوتیں واقع ہوتی رہی ہیں۔ قومی وسائل کی تقسیم میں امتیاز برتے جانے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اس امتیاز کو ختم کرنے کے حوالے سے بھی بہت کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ جنوبی سوڈان میں پہلی بغاوت ۱۹۵۵ء میں شروع ہوئی، جو ۱۹۷۲ء تک جاری رہی۔ ۱۹۸۳ء میں شروع ہونے والی دوسری بغاوت کم و بیش دو عشروں پر محیط رہی۔
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اوائل میں دارفر میں بغاوت کے دوران کم و بیش ۳ لاکھ افراد مارے گئے اور ۲۰ لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔ اس بغاوت کے نتیجے میں عمر البشیر اور اُن کے ساتھیوں پر انٹر نیشنل کرمنل کورٹ میں مقدمہ بھی چلایا گیا۔ نوبا کے پہاڑی خطے اور بلو نائل میں بغاوتیں تازہ معاملات ہیں۔ ہانی رسلان کہتے ہیں کہ بیشتر باغی گروپ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں تاکہ مزید خون خرابہ نہ ہو اور اقتدار میں شراکت کا مرحلہ بحسن و خوبی طے ہو۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Sudan’s political transition remains at risk despite power-sharing deal”(“thenational.ae”. July 7, 2019)
Leave a Reply