
روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی کے ادارتی صفحہ پر ۱۰/ اکتوبر ۲۰۱۳ء کو ممتاز صحافی حامد میر کا کالم ’’میرا سلطان‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ’’میرا سلطان‘‘ ایک ترک ڈرامہ ہے جو اردو ترجمے کے ساتھ پاکستان میں بھی دکھایا جارہا ہے اور اکثر لوگ اسے ذوق و شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ حامد میر صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اس ڈرامے کے حوالے سے ترک وفد کے ارکان کے تاثرات اپنے قارئین سے شیئر کیے اور ترکی کے صدر عبداللہ گل کی ناپسندیدگی کا ذکر بھی کیا کہ اس موقع پر عبداللہ گل نے کہا کہ ’’اگر ان کا بس چلے تو اس ڈرامے پر پابندی لگادیں‘‘۔ عبداللہ گل کے یہ الفاظ ان کے تاریخی و سماجی شعور کا پتا دیتے ہیں۔ راقم تاریخ کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے سمجھتا ہے کہ ترک صدر عبداللہ گل کا اس ڈرامہ کے حوالے سے اظہارِ ناپسندیدگی بالکل بجا ہے۔ کیوں کہ اس ڈرامے میں خلافتِ عثمانیہ کے دسویں حکمران ’’سلطان سلیمان اعظم قانونی‘‘ کی زندگی کے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس موقع پر تاریخ کے کچھ اوراق پلٹ کر دیکھ لیے جائیں۔
۱۲۸۸ء میں اناطولیہ میں عثمانی ترکوں نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی جو اناطولیہ سے یورپ کے قلب تک پھیل گئی۔عثمانی حکومت کا آغاز ایک چھوٹی سی ریاست سے ہوا جو بڑھتے بڑھتے تین براعظموں اور سات سمندروں کو محیط ہوگئی۔ عثمانی ترکوں کی یہ حکومت ۱۹۲۴ء تک خلافت کی حیثیت سے قائم رہی۔ سلیم اوّل کی وفات کے بعد ۱۵۲۰ء میں اس کا بیٹا سلیمان ۲۶ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا جسے عثمانی ترکوں کا سب سے بڑا حکمراں یعنی ’’سلیمانِ اعظم‘‘ اور ’’سلیمان ذی شان‘‘ اور ’’سلیمان عالیشان‘‘ (Sulaiman the Magnificient) کہا جاتا ہے۔سلیمان نے اپنی وفات (۱۵۶۶ء) تک تقریباً نصف صدی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ سلطان سلیمان کادور نہ صرف عثمانی تاریخ بلکہ تاریخ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے۔
سلیمان اعظم کا دور عثمانی سلطنت کی توسیع و فتوحات کا دور تھا۔اس نے اپنے وقت کی بڑی طاقتوں سے صف آرا ہوکر نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اسے مزید مستحکم اور طاقتور بنادیا۔ ۱۵۲۱ء میں سلیمان نے ہنگری کے مشہور شہر بلغراد کو فتح کیا۔ بلغراد ایک انتہائی اہم شہر تھا جو دریائے ڈینوب پر اہل یورپ کا دفاعی مورچہ تھا۔ ۱۵۲۲ء میں روڈس کے جزیرہ کا محاصرہ کیا جو پانچ ماہ تک جاری رہا۔ اور جب سلیمان نے دیکھا کہ محصورین کی قوت مزاحمت ختم ہوچکی ہے تو سلطان نے انتہائی فراخ دلانہ شرائط کی پیشکش کی۔ اس نے اہل روڈس کو اس کی اجازت دے دی کہ بارہ دن کے اندر اپنے تمام اسلحہ اور سامان کے ساتھ اپنے جہازوں میں ہی جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اکثریت نے ترکوں کے ماتحت جزیرہ ہی میں رہنا منظور کیا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ پانچ سال کے لیے ان کے ٹیکس معاف کردیے گئے۔ روڈس کی فتح کے بعد ’’بہادر نائٹوں‘‘ (Knights) کی خاندانی روایات کی حامل ڈھالیں (جو ان کے مکانوں پر آویزاں تھیں) ویسے ہی لگی رہنے دی گئیں۔
۱۵۲۶ء میں سلیمانِ اعظم نے ہنگری کی جانب قدم بڑھایا جو اس کی فتوحات میں تیسرا بڑا محاذ تھا۔ ہنگری کو فوجی نقطۂ نظر سے عیسائیوں کی ایک مضبوط طاقت خیال کیا جاتا تھا۔ دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہنگری کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ ۱۵۲۹ء میں سلیمان نے آسٹریا کی جانب پیش قدمی کی۔ آسٹریا جرمنی کی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ سلیمان کے دور میں چارلس پنجم یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی فرڈیننڈ کو آسٹریا کا حکمران مقرر کیا ہوا تھا۔ ستمبر ۱۵۲۹ء کو سلیمان اعظم آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی دیواروں تک پہنچ گیا۔آسٹریا نے ہر دسویں آدمی کو فوجی خدمت کے لیے طلب کرلیا۔ ہمسایہ ریاستوں سے امدادی دستے طلب کرلیے۔ شہرکے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ اپنے دفاع کو مزید تقویت دینے کے لیے شہر کے نواحی علاقے بھی تباہ کردیے تاکہ ترک ان علاقوں سے فائدہ اٹھاکرپایۂ تخت ویانا کو فتح نہ کرسکیں۔ لیکن آسٹریا والوں کی تمام دفاعی تیاریوں کے باجود سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کرلیا۔ فرڈیننڈ محاصرے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔ ۲۷ستمبر سے ۱۴؍اکتوبر ۱۵۲۹ء تک ویا نا کا محاصر ہ جاری رہا۔اگرچہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر (ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف رہنے، موسم کی شدت، ’’ینی چری‘‘ کی حکم عدولی اور اپنی قوت کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کے لیے) سلیمان اعظم کو یہ محاصر ہ اٹھا ناپڑا لیکن اس کی فتوحات نے اب وسطی یورپ میں اپنی آخری حد مقرر کردی تھی۔
سلیمان اعظم کے عہد میں عثمانی ترک خشکی کی طرح سمندروں میں بھی ایک ناقابل تسخیر قوت بن کر سامنے آئے۔ یورپی ممالک کے بحری بیڑے عثمانیوں کے مقابلے میں آنے سے کترانے لگے۔ وینس کی صدیوں پرانی بحری طاقت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ سلیمان کے امیر البحر، خیر الدین باربروسہ نے بحرروم کے علاقے میں پری ویسا کی مشہور بحری جنگ لڑی اور اتحادیوں کو زبردست شکست دے کر اپنی بحری برتری ثابت کردی۔ اپنی بحری طاقت کی بدولت سلیمان نے الجزائر اور طرابلس کے صوبے اور بحر ایجین کے کئی جزیرے فتح کر کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلیے۔
۱۵۳۵ء میں فرانس کے حکمران فرانسس اوّل نے سلیمان اعظم سے دوستی، امن اور تجارت کا معاہدہ کیا، جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کی سطوت و اقتدار کو یورپ میں تسلیم کیا گیا۔ ۱۵۴۷ء میں ایک معاہد ہ ہوا جس میں پوپ، شہنشاہ چارلس، فرانس کا بادشاہ اور جمہوریہ وینس فریق تھے۔ جس کی رو سے فرڈیننڈ نے سلطان کو تیس ہزار دوکات سالانہ بطور خراج ادا کرنے کا وعدہ کیا اور اپنے آقا سلطان کے وزیر کا بھائی کہلوانے پر فخر کیا۔
سلیمان کی سلطنت کی وسعت کا ایک بڑا سبب اس کی فوجی قوت اور نظام تھا۔ مشہور مؤرخ ایڈورڈکریسی (Edward Creasy) لکھتا ہے:
’’سلیمان اپنی فوجوں کے جسمانی آرام اور اخلاقی نگرانی پر جس قدر توجہ دیتا تھا، اس کو اس بے پروائی سے کوئی مناسبت نہ تھی جو اس کے حریفوں کے لشکر میں بد نصیب سپاہیوں کے ساتھ برتی جاتی تھی‘‘۔
سلیمانِ اعظم کا عہد نہ صرف فتوحات کا دور تھا، بلکہ سلطنتِ عثمانیہ اپنی وسعت، قوت، طاقت اور خوشحالی کے اعتبار سے بھی بامِ عروج کو پہنچ چکی تھی۔ سلیمان نے ملکی نظم و نسق کی طرف بھی اتنی ہی توجہ دی، جتنی فتوحات کی طرف دی تھی۔ اس عظیم الشان سلطنت کو اکیس ولایتوں (صوبوں) میں تقسیم کیا۔ ان ولایتوں کو سنجقوں (ضلعوں) میں تقسیم کیا جن کی تعداد ۲۵۰ تھی۔ ہر ولایت اور سنجق کا نظام مقرر کیا، جن کی نگرانی حکومت کے مقرر کردہ افسران کرتے تھے۔ سلیمان نے جاگیرداری نظام کی طرف بھی توجہ دی اور بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی۔
رعایا کے لیے جو قوانین بنائے گئے، انہیں قانونِ رعایا کہا جانے لگا۔ سلیمان نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لیے جو قوانین بنائے تھے، وہ اس کی رواداری اور روشن خیالی کی ایک واضح مثال تھے۔مشہور مؤرخ لارڈ ایورسلے (Lord Eversley)، سلیمان کی قوانین سازی کے بارے میں لکھتا ہے:
’’یہ بات قابلِ غور ہے کہ سلیمان کو ’اعظم‘ کا لقب اس کے یورپی ہم عصروں نے دیا تھا۔ ترکی میں وہ ’القانونی‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کا دور قانون کی تمام شاخوں میں کی جانے والی اصلاحات کے سبب نمایاں ہے، جن کا مقصد عدل کا قیام تھا‘‘۔
سلیمان کا عہد علم وادب کے حوالے سے بھی یادگار ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کا سب سے بڑا شاعر عبدالباقی اُسی دورسے تعلق رکھتا تھا۔ سلیمان اہلِ علم کا نہایت قدر دان اور خود بھی شاعراور مصنف تھا۔ اس کے علمی ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ دورانِ جنگ روزمرہ کے واقعات تحریر کرتا رہتا تھا۔ اس کے یہ روزنامچے سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ کے ایک مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سلیمان کو تعمیرات سے بھی دلچسپی تھی۔ اسی کے عہد میں سلیمانیہ مسجد تعمیر ہوئی جو ترک فن تعمیر کا بے مثال نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ سلطان سلیمان نے قسطنطنیہ، بغداد، قونیہ اور دیگر شہروں میں بھی نہایت خوبصورت اور عالیشان عمارات تعمیر کرائیں۔ قسطنطنیہ میں ایک بڑی نہر بنوائی اور تمام بڑے شہروں میں اسپتال بھی اس کے دور میں تعمیر ہوئے۔
جہاں تک سلیمانِ اعظم کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، اس کی صفات اس کی عظمت کی دلیل ہیں۔ اس کی دانشمندی، منصف مزاجی، فیاضی، نرم دلی اور خوش اخلاقی ضرب المثل تھی۔ اس کی خداداد ذہنی صلاحیتیں، اس کے کردار کی تکمیل تھیں۔ایڈورڈ کریسی نے سلیمان کے کردار کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے:
’’بطور ایک انسان وہ پرجوش اور مخلص تھا اور ہوس پرستی سے باعزت طور پر پاک تھا، جس نے اس کی قوم کے بہت سے لوگوں کو بدنام کر رکھا تھا۔ اس کی شاندار جرأت، فوجی ذہانت، اس کی اعلیٰ مہم جوئی، جو ش و ولولہ، اس کی جانب سے علم و فن کی حوصلہ افزائی، فتوحات اور دانشمندی پر مبنی قانون سازی کو یاد رکھنا چاہیے‘‘۔
ایورسلے تحریر کرتا ہے: ’’اس کی ذاتی زندگی میں کوئی تعیش نہ تھا۔‘‘ماہر ترکیات ڈاکٹر عزیر لکھتے ہیں:
’’اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی۔ وہ اپنے رحم و کرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا۔ انصاف اس کا مخصوص شیوہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ اور مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی۔ رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمحِ نظر تھا‘‘۔
سلطان سلیمانِ اعظم قانونی، حکومت کے فرمانروا کی حیثیت سے بھی اور اپنے کردار کے لحاظ سے بھی، آنے والے حکمرانوں کے لیے عمدہ مثال چھوڑ کرگیا۔
Leave a Reply