
آخر ایک ایسا ملک جو اتنے سالوں سے عالمی سیاست‘ صنعت‘ مالیات اور فوجی طاقت پر چھایا ہوا ہے‘ اس کی اس ساری طاقت کی کوئی بنیادی وجہ تو ضرور ہو گی۔ ذیل میں اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔ دنیا میں پُرآسائش اور سہولتوں سے بھری ہوئی زندگی گزارنے والی امریکی قوم کو واحد سپر پاور کا مقام حاصل ہے۔ ایک امریکی شہری کی اوسطاً فی کس آمدنی ۴۰ ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ لیکن دوسری طرف ہر امریکی شہری ۲۴ ہزار ڈالر کا مقروض بھی ہے۔ اس وقت امریکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ ۷ء۷ کھرب ڈالر ہے جو موجودہ صدر بش کے اقتدار میں آنے سے پہلے ۳ء۵ کھرب ڈالر تھا۔ اگرچہ امریکا کے اثاثے اس قدر ہیں کہ وہ اس طرح کی باتوں سے لڑکھڑانے والا نہیں لیکن خطرات ہر جگہ موجود ہیں۔ اس وقت امریکا کے بجٹ کا خسارہ ۵۲۱ ارب ڈالر ہے جو آئندہ دس سالوں میں ۳ء۱ کھرب ڈالر ہو جائے گا۔ امریکی معیشت روز بروز کے بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات سے تنگ آچکی ہے‘ اسی لیے دہشت گردی کے لیے شروع ہونے والی جنگ کی بنیاد دہشت گردی کو روکنا کم اور رقم اکٹھی کرنا زیادہ ہے۔ (سابق) سوویت یونین اپنے معاشی بحران کے ہی باعث نہ ٹھہر سکا۔ اب امریکی اپنی معاشی طاقت کو بڑھتی ہوئی کمزوری سے بچانے کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ دیکھیے اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
۱۷۷۶ء میں امریکا برطانوی نو آبادیاتی نظام کو ختم کر کے متحدہ ہائے امریکا کی شکل میں سامنے آیا۔ ۱۷۸۳ء میں فرانس میں معاہدہ پر دستخط کے بعد کئی ریاستوں نے امریکا کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ ۱۸۶۱ء سے ۱۸۶۵ء کا دور امریکا کے لیے بہت نازک رہا۔ خانہ جنگی نے امریکا کو بہت سے مسائل سے دوچار کیا لیکن جلد ہی امریکیوں نے متحدہ ہائے امریکا کو نئی سوچ سے بلند کیا اور پہلی جنگِ عظیم میں امریکیوں نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ۱۹۳۰ء کے شدید معاشی دبائو نے امریکا کو بہت متاثر کیا لیکن دوسری جنگِ عظیم میں ایک بار پھر امریکا نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر پوری دنیا پر اپنی برتری کو ثابت کر دیا۔ امریکا کا کل رقبہ ۹۶۳۱۴۱۸مربع کلو میٹر ہے جس میں امریکا کی پچاس ریاستیں اور کولمبیا شامل ہیں۔ امریکا کے ایک طرف کینیڈا اور دوسری طرف میکسیکو ہے۔ امریکا کی آبادی تقریباً ۲۹ کروڑ ۵۷ لاکھ ۳۴ ہزار ہے۔ امریکا میں اوسط عمر ۷۸ سال ہے۔ امریکا کا جمہوری نظام سخت بنیادی اصولوں پر استوار ہے۔ آئین پر عمل درآمد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ملک کا آئین ۱۷ ستمبر ۱۷۸۷ء سے لاگو ہے۔ ملکی آئین اور قانون کی بنیاد برٹش کامن لاز ہی ہیں۔ ملک اور حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے جو سینٹ کی منظوری سے اپنے وزرا کا انتخاب کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کا تقرر صدر کرتا ہے جسے صرف غیرشائستہ رویہ کے باعث ہی معطل کیا جاسکتا ہے ورنہ وہ تاحیات جج ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر امریکا نے ملک کے سارے نظام کو اس قدر ایک دوسرے سے منطبق کیا ہوا ہے کہ ہر شعبہ دوسرے کی تقویت کا باعث بنتا ہے اور ہر شہری جو ملک کے لیے سروس دے رہا ہے‘ ہر طرح کی پریشانی سے آزاد ہوتا ہے۔ محاذ پر لڑنے والے فوجی کو یہ فکر نہیں کہ اگر وہ نہ رہا تو قوم اس کے پیچھے کچھ کرے گی یا نہیں۔ ایک تحقیق کرنے والے سائنسدان کو اس قدر سہولت ہے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی کوشش رائیگاں نہ جائے گی۔ اسی لیے کسی بھی ملک میں کھڑا امریکی رعب سے بولتا ہے کہ وہ امریکی ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کو اس کی قوم کا تعاون حاصل ہے۔ امریکی افواج اس وقت پوری دنیا میں برسرِ پیکار ہیں تو اس کا فوجی سسٹم ہی صرف لڑائی نہیں لڑ رہا ہوتا بلکہ پینٹاگون میں سوچنے والے لوگوں کی آئندہ کی منصوبہ بندی سے لے کر سیاسی اور خارجی منصوبہ بندی تک ایک پورا ڈرامہ تخلیق اسی وقت ہوتا ہے جب یہ سارے مل کر کام کریں۔ ایک جگہ پر بھی اگر کسی کا کردار کمزور رہ جائے تو پوری کہانی برباد ہو سکتی ہے۔ پینٹا گون ہر چار سال بعد امریکا کی دفاعی پالیسی کو ازسرِ نو ترتیب دیتا ہے جس میں امریکا کی ضرورت‘ عالمی امن میں کردار وغیرہ پر غور کیا جاتا ہے‘ جس میں دنیا میں امریکی پالیسی کو لاگو کرنے اور اس کے لیے سیاسی‘ خارجی‘ مالیاتی اور دفاعی پالیسی مرتب کرنا ہوتا ہے۔ پینٹا گون کے ڈیٹابیس میں دنیا کے ہر ملک کے بارے میں تحقیقی ڈیٹا موجود ہے جو لمحہ بہ لمحہ سٹیلائٹ کی اطلاعات‘ سی آئی اے کی رپورٹس اور دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ پینٹا گون کے پاس وہ ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے جو امریکی کمپنیاں دنیا بھر میں ٹھیکوں اور پروجیکٹس کی تعمیر میں مقامی طور پر حاصل کرتے ہیں۔ حال ہی میں پینٹا گون نے ۲۴ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں امریکی پالیسی کو بیان کیا گیا ہے۔ پینٹا گون کا بجٹ ۴۰۰ بلین ڈالر سالانہ ہے جو امریکا کو ہر سطح پر معلومات کا خزانہ فراہم کرتا ہے۔ اس حالیہ رپورٹ میں نہ تو نیٹو کا ذکر ہے اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ پینٹا گون کی اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکا کے لیے جو ملک کام نہیں کرے گا وہ امریکا کا دشمن ہو گا کیونکہ امریکا اپنے ملکی مفاد پر کوئی ضرب نہیں آنے دیتا۔ یہ پالیسی کی شروعات ہے۔
امریکی معیشت کی ترقی کی شرح کو آئیڈیل تو نہیں کہا جاسکتا لیکن صنعتی زرعی اور مالیاتی نظام کی مضبوطی نے امریکا کو کسی بھی معاشی جھٹکے سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ۲۰۰۵ء کے بجٹ کا حجم ۴ء۲ کھرب ڈالر ہے جس میں خسارہ ۵۲۱ ارب ڈالر کا ہے۔ اس قدر وسیع دفاعی اخراجات والے ملک کی معیشت کو دنیا بھر سے جو خوراکیں مل رہی ہیں‘ ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ۷۰ء کی دہائی میں تیل کی قیمتوں نے جو بحران پیدا کیا تھا‘ اس کا حل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ امریکی معیشت کے سارے بحران بھی آجائیں تو عراق اور کاغستان کا تیل اسے روک لیں گے۔ ان دونوں ممالک میں بالترتیب ۳۰ اور ۵۰ ارب بیرل تیل ہے جو یقینا امریکا کی بدحال ہوتی معیشت کو سنبھالا دیتی رہیں گی۔ یہاں پھر وہی بات سامنے آگئی کہ پینٹا گون میں بننے والی پالیسیوں کو معاشی امداد کے طور پر کارآمد بنانے کے لیے دہشت گردی کا ایک ایسا طوفان برپا کیا گیا ہے کہ ان کی فوج کے لیے ہر راستہ کھل گیا ہے۔ اب وہ کسی بھی ملک پر دہشت گردی کا خطرہ ڈال سکتے ہیں اور اس کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔ امریکی اپنی صنعت‘ زراعت‘ مالیات‘ کلچر اور دوستی کی قیمت وصول کر کے اسی ملک کو اسی کے وسائل غائب کر کے غیرجانبدار اور کمزور بنانے کی بنیادی امریکی پالیسی پر عملدرآمد کرا سکتے ہیں۔ یقینا یہ بات ثابت ہے کہ امریکا نے اپنے ہر شعبہ کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ امریکا کی صنعت کی بنیاد بھی اسی طرح ترتیب دی گئی ہے جو کہ اس کے نظریہ کو مدد دے۔ امریکا ہمیشہ خلیج پر حکمرانی کے لیے کوشاں رہا ہے۔ اس لیے امریکا کی پیٹرولیم ڈھونڈنے کی صنعت بہت ترقی یافتہ ہے۔ یہ صنعت کویت‘ سعودی عرب اور برونائی پر چھائی ہوئی ہے جو اب عراق اور کاغستان پر آہستہ آہستہ چھا جائے گی۔ امریکا کی صنعت سٹیل‘ گاڑیوں‘ طیارہ سازی‘ ٹیلی کمیونکیشن‘ کیمیکل‘ الیکٹرانکس‘ فوڈ پروسیسنگ‘ اشیائے صرف‘ لکڑی کی مصنوعات اور کان کنی پر مشتمل ہے جو دنیا میں اپنی ٹیکنالوجی کے لحاط سے چھائی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی ضروری اشیا ہیں‘ ان کو دوسرے ممالک سے کوٹہ کے تحت منگوایا جاتا ہے جبکہ امریکی مصنوعات پر پابندی لگانے کی کسی ملک کی ہمت نہیں ہوتی۔
سیاسی حربے صنعتی ترقی اور خارجہ پالیسی ان سب کو لاگو کروانے کے لیے امریکا کو ایک ایسی فوج کی ضرورت تھی جو پوری دنیا پر کسی وقت بھی فوری طور پر حملہ آور ہو سکے۔ اسی لیے امریکی طیارہ بردار جہاز پوری دنیا کے سمندروں میں ہر وقت تیار حالت میں کھڑے رہتے ہیں۔ امریکا کے دس سے زائد طیارہ بردار جہاز خلیج‘ کوریائی‘ پانیو‘ ملائیشیا کے ساحلوں‘ مصر کے قریبی سمندروں اور یورپ سبھی جگہ موجود ہیں۔ مثلاً خلیج فارس میں ونسن کا فلیٹ موجود ہے‘ اسی طرح ملائیشیا کے ساحلوں کے قریب نمٹز (Nimitz) کا پہرہ ہے۔ رونالڈ ریگن Pacific Ocean میں کھڑا ہے تو جارج واشنگٹن Atlantic میں کھڑا ہے۔ کئی طیارہ بردار جہاز دوسرے ممالک سے مشترکہ مشقوں اور خیرسگالی کے دوروں کے لیے ہر وقت تیار حالت میں گشت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی تربیتی جہاز امریکا میں تیار حالت میں کھڑے رہتے ہیں۔ طیارہ بردار جہاز ایٹمی ایندھن سے چلتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ ممالک ہمیشہ دنیا پر راج کرتے ہیں جو سمندروں پر راج کرنا جانتے ہیں۔ امریکی بحری قوت بہت ہی منظم اور مضبوط ہے۔ اس کی لڑاکا فورس میں طیارہ بردار جہازوں کے علاوہ ایٹمی اور روایتی آبدوزیں‘ فریگیٹ لڑاکا بحری جہاز‘ کیروز اور تباہ کن جہاز دیگر لڑاکا اسپیشل ٹیکنالوجی کے حامل جہاز موجود ہیں۔ ان کی صحیح تعداد ٹیکنالوجی اور طاقت کا کسی ملک میں ڈیٹا موجود نہیں بلکہ یہ ٹیکنالوجی کسی بھی ملک کو برائے فروخت نہیں ہوتی اور اس ساخت کے جہاز فروخت کے لیے پیش کیے جائیں تو وہ ایکسپورٹ کوالٹی ہوتے ہیں جس کی ٹیکنالوجی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ امریکی بحریہ کی سب سے بڑی فورس زمینی افواج کے دستوں کو ایک سے دوسری جگہ پہنچانے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے‘ اس کا مظاہرہ امریکی کئی بار کر چکے ہیں۔ جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تھا تب وسیع پیمانے پر افواج کو ایک جگہ سے دوسر ی جگہ محفوظ طریقے سے تیزی سے پہنچانے کا جو تجربہ ہوا تھا اس کے بعد امریکی تیز رفتار ردِعمل کی فورس (Rapid Reaction Force) چند گھنٹوں میں دنیا کے کسی بھی علاقہ تک افواج کو پہنچا سکتے ہیں کیونکہ سمندر کے اہم راستوں کا کنٹرول پہلے ہی امریکا کے ہاتھ میں ہے‘ اس لیے اسے روکنے والا کوئی نہیں۔
امریکی فضائیہ کی بمباری نے جب کویت کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور اس کے بعد سابق یوگو سلاویہ کے معاملے میں صرف فضائی بمباری کی وجہ سے جنگ کا توازن خراب ہوا تو فضائیہ کو بہت اہم کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ نظریاتی سطح پر فضائیہ اکیلے جنگ نہیں جیت سکتی لیکن مضبوط فضائیہ جنگ کا پانسہ ضرور پلٹ سکتی ہے۔ امریکی فضائیہ ملکی دفاع کے لیے تربیت نہیں دی گئی بلکہ اس کا مقصد حملہ آور ہونا ہے۔ امریکی بی ۵۲ بمبار‘ بی ون بمبار اور بی۲ بمبار بہت بلندی سے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے کسی علاقہ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ فضا میں طیاروں کی ری فیولنگ کا خصوصی اہتمام موجود ہے۔ اس کے علاوہ کارگو طیاروں کی وسیع رینج موجود ہے جو افواج اور محدود سطح پر ابتدائی جنگ کے لیے ہتھیار یعنی توپیں ہلکے ٹینک اور ہیلی کاپٹر وغیرہ چند گھنٹوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچا سکتے ہیں۔ اٹیک اور لڑاکا طیاروں کی وسیع رینج موجود ہے جو ہر جگہ امریکی فوج کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک پر قبضہ کے لیے زمینی افواج کا پوری طرح تیار اور مسلح ہونا اشد ضروری ہے۔ امریکی افواج نے جب عراق پر حملہ کیا تو امریکا کے پاس عراق کے ہر گلی کوچے کا نقشہ موجود تھا۔ سٹیلائٹ سے ہدایات لیتے ہوئے امریکی فوجی ہر طرح کی لڑائی کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ توپوں‘ ٹینکوں‘ بکتر بند گاڑیوں اور میزائلوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ چند گھنٹوں میں دشمن تک جا پہنچیں۔ ایک سپر پاور کی اسلحہ اور ہتھیاروں کی لمبی فہرست کو زیرِ بحث نہیں لایا جاسکتا کیونکہ ایک تو فہرست بہت طویل ہوتی ہی اور دوسرا یہ سرکاری فہرست اصل وسائل سے بہت کم دکھائی جاتی ہے۔
امریکا دنیا میں اپنی طاقت کو ثابت کرنے کے لیے ایک بہت بڑے منصوبے پر عمل پیرا ے۔ یہ منصوبہ بندی صرف چند ممالک تک محدود نہیں بلکہ یہ عمل پوری دنیا کے لیے بنایا گیا ہے۔ ۳۰ مئی ۲۰۰۰ء میں امریکی وزارتِ دفاع نے ایک رپورٹ جاری کی تھی‘ جس میں امریکا کی اگلے بیس سال کی حکمتِ عملی بیان کی گئی تھی جسے نیو یارک ٹائمز نے شائع کر کے ساری پالیسی عام کر دی۔ اس پالیسی کے مطابق امریکی طاقت کو ہر ملک پر لاگو کرنا اصل مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں دوست یا دشمن پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ طاقت اور وسائل کو اپنے ہاتھ میں کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق امریکیوں نے روس اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کو آپس میں مخالف بنانے پر دس سال اور کروڑوں ڈالر صرف کیے ہیں تاکہ کرغزستان اور دیگر ریاستوں کے تیل اور قدرتی وسائل پر قبضہ کیا جاسکے۔ ایک ہزار میل لمبی پائپ لائن کے لیے افغانستان پر قبضہ کیا گیا ہے تاکہ طالبان جیسی حکومتیں کسی بھی لمحہ پر مسئلہ نہ بن سکیں۔ افغانستان میں کابل اور مزار شریف پر امریکی کنٹرول ہے اور افغانستان کو بیس کیمپ بنایا جارہا ہے۔ امریکا نے یہاں پر امریکی میزائل پروگرام کے تحت میزائل نصب کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ چین کو گھیرنے کے لیے افغانستان کے علاوہ نیپال جیسے ملک کو آگے کیا جارہا ہے۔ نیپالی اخبارات کے مطابق مہاراجہ نیپال اور ان کے خاندان کی موت کا اصل سبب خاندانی لڑائی نہیں بلکہ امریکا کی نیپال پر طاقت جمانے کی سازش تھی جو کامیابی سے چل رہی ہے۔ نیپال کی امداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور نیپال کے کئی نوجوان افراد کو امریکا میں تعلیم کے لیے ویزے دیے جارہے ہیں۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں کرغیزستان ۵۰ ارب بیرل کا تیل لیے بیٹھا ہے‘ یہاں امریکی افواج نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اسی طرح ازبکستان میں بھی نیا شہر صرف امریکی افواج کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔ چار طیارہ بردار جہاز بحیرہ عرب میں کھڑے ہیں جو پاکستان میں موجود امریکی ایئربیس کے ساتھ مل کر آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سعودی عرب‘ قطر‘ کویت‘ اومان اور متحدہ عرب امارات میں امریکی افواج موجود ہیں۔ امریکیوں کی کامیابی کا اصل راز یہ ہے کہ وہ ہر ملک کے دوست کے روپ میں آکر اس دوست کی تمام اچھائیوں‘ برائیوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور اسے اسی کی بنیاد پر اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی پہلے ڈیٹا بیس دیتی ہے جسے سامنے رکھ کر پالیسی مرتب دی جاتی ہے پھر اس ملک پر جدید میڈیا سے یلغار ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس پر حملہ اور قبضہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد صنعت کے بل بوتے پر وسائل ہڑپ کر لیے جاتے ہیں۔ چین ابھی تک دنیا کا واحد ملک ہے جس نے امریکا کو اپنے سسٹم میں کسی صورت گھسنے نہیں دیا اور اسی لیے پینٹا گون کی سب سے سخت رپورٹ بھی چین کے خلاف آئی ہے وگرنہ سب ملک اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی لیے امریکا کامیاب سپر پاور ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply