
دنیا دہشت گردی سے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے متحدہ امریکا پر حملوں کے بعد آگاہ ہوئی تھی لیکن ترکی میں ستّر کی دہائی ہی سے دہشت گردوں نے اپنے قدم جمانا شروع کر دیے تھے اور اس دہشت گردی نے جنرل کنعان ایورن کی جانب سے ملک میں لگائے جانے والے مارشل لا کے بعد زور پکڑنا شروع کردیا تھا، جس کے بعد دہشت گردی نے ترکی میں ایسے پنجے گاڑے کہ اس سے آج تک چھٹکارہ حاصل نہ کیا جاسکا۔ ترکی کے سابق وزیراعظم اور صدر مرحوم ترگت اوزال نے اور ان کے بعد وزیراعظم تانسو چیلّر نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بڑی سنجیدہ کوششیں کی تھیں لیکن ان کو بھی ترک قومیت پسندوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی ان کوششوں کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔ بعد کی حکومتوں نے دہشت گردی پر طاقت کے بل بوتے پر قابو پانے کی کوشش کی، لیکن تمام ہی حکومتیں اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہیں۔ ترکی کی دہشت گرد تنظیم PKK (پارٹی کارکرئین کردستان یا پھر کردستان لیبر پارٹی) کو طاقت کے ذریعے جتنا دبایا جاتا رہا، یہ تنظیم اتنی ہی زیادہ ابھر کر سامنے آتی رہی۔ ستّر، اَسّی اور نوّے کی دہائی میں یورپی ممالک نے بھی اس دہشت گرد تنظیم کی مکمل طور پر پشت پناہی کی بلکہ اس وقت کے فرانسیسی صدر متراں کی اہلیہ دنیالہ متراں نے کھلے عام دہشت گرد تنظیم PKK کی نہ صرف پشت پناہی کی، بلکہ ان پر اس دہشت گرد تنظیم کو مالی وسائل فراہم کرنے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔ اسی طرح جرمنی اور یورپ کے کئی ایک ممالک نے ترکی میں انتشار کو ہوا دینے کے لیے ترکی کے نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود نیٹو کے اسلحے کو دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرنے پر پابندی عائد بھی کیے رکھی۔ ترکی کے اس مشکل وقت میں اس کے قریبی اور بااعتماد دوست ملک پاکستان نے اسلحہ فراہم کیا تھا۔
(اس دور کے ترکی اور پاکستانی اخبارات اور دستاویزات میں پاکستان کی ترکی کو اسلحہ فراہم کرنے سے متعلق تفصیلی معلومات درج ہیں) نوّے کی دہائی کے آخر میں متحدہ امریکا نے ترکی کی قربت حاصل کرنے کے لیے دہشت گرد تنظیم PKK کے سرغنہ عبداللہ اوجلان کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اس وقت کے ترکی کے وزیراعظم مرحوم بلنت ایجویت نے متحدہ امریکا کے اس یک طرفہ اور اچانک فیصلے پر اپنے شک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں متحدہ امریکا کے دہشت گردوں کے سرغنہ عبداللہ اوجلان کو گرفتار کرکے حکومت ترکی کے حوالے کرنے کے فیصلے کو سمجھنے سے قاصر ہوں‘‘۔ عبداللہ اوجلان کو ۱۵؍فروری ۱۹۹۹ء کو کینیا سے گرفتار کرتے ہوئے ترکی لایا گیا تھا۔ عبداللہ اوجلان کی گرفتاری نے ملک میں وزیراعظم بلنت ایجویت کی مقبولیت میں بے حد اضافہ کردیا اور ۱۸؍اپریل ۱۹۹۹ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ان کی جماعت ڈیمو کریٹک لیفٹ پارٹی کو پہلی پوزیشن حاصل ہوگئی۔ یہ جماعت ترکی کی قوم پرست پارٹی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اسی دوران یورپی یونین کے شدید دباؤ کی وجہ سے نئی مخلوط حکومت عبداللہ اوجلان کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی اور پھر یورپی یونین کے شدید دباؤ کی وجہ سے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔ ملک میں چار دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے نتیجے میں چالیس سے پینتالیس ہزار باشندے ہلاک ہوچکے تھے اور ملک کا مشرقی اور جنوب مشرقی حصہ دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت پسماندہ رہ گیا تھا۔ اسی دوران عام انتخابات میں کُل ووٹوں کے دس فیصد کو حاصل کرنے کی پابندی کی وجہ سے کردوں کی کوئی بھی جماعت پارلیمان میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی، جس کے توڑ کے طور پر کرد باشندوں نے پارلیمان میں اپنی نمائندگی کے لیے آزاد امیدواروں کے طور پر حصہ لیا اور بیس سے زائد امیدوار آزاد ارکان کے طور پر پارلیمان میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔ کرد اراکین پارلیمان نے پارلیمان میں اپنی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے بعد کرد قومیت پسندی کو ہوا دینا اور ان کے ساتھ ناانصافی کیے جانے کا پرچار کرنا شروع کردیا جبکہ اس دوران ترکوں کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی نے ترک قومیت پسندی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا جبکہ برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی قومی اسمبلی میں واحد پارٹی ہے جس میں کردوں کی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی زیادہ تعداد میں کرد اراکین پارلیمنٹ موجود ہیں اور جسے جنوب مشرقی اناطولیہ میں بھاری اکثریت حاصل ہے۔
ایردوان حکومت نے ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا، کیونکہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جب تک ملک مضبوط بنیادوں پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوجاتا، مغربی ممالک اس دہشت گردی کی پشت پناہی کو جاری رکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم کے اراکین کے ساتھ درپردہ مذاکرات کو جاری رکھا تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہوجائے۔ جب دہشت گرد تنظیم کے اراکین کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تو حکومت کو نہ صرف سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی اور قوم پرستوں کی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ایردوان اور ان کی پارٹی پر ملک سے غداری کرنے اور شہدا کے خون کا سودا کرنے کے الزامات عائد کیے گئے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ترکی میں دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سکت اور صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بلاشبہ وزیراعظم احمد داؤد اولو اور صدر ایردوان ہی ہیں۔ ایردوان نے وزارتِ اعظمیٰ کے اختیارات سنبھالنے کے فوراً بعد ہی کرد باشندوں کے دل جیتنے کے لیے کئی اقدامات کیے تھے جن میں سب سے اہم کردی زبان میں نغمے گانے کی اجازت، کردی زبان میں ٹیلی ویژن نشریات، اخبارات اور جرائد شائع کرنے، یونیورسٹیوں میں کردی زبان کے شعبہ جات کے قیام کی اجازت اور سب سے بڑھ کر جیلوں میں کرد قیدیوں کو بغیر ترجمان کے اپنے کرد عزیز و اقارب سے کردی زبان میں بات کرنے کا حق دیا جانا ہے۔
ترکی کی خفیہ سروس MIT اور دہشت گرد تنظیم PKK کے درمیان براہِ راست شروع ہونے والے مذاکرات میں بعد میں حکومتی اراکین بھی شامل ہوگئے۔ آخر کار کرد باشندوں کی جماعت HDP کے وفد کی عبداللہ اوجلان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے جس کے بعد HDP کے نمائندوں اور نائب وزیراعظم یالچین آق دوان اور وزیر داخلہ افکان اعلیٰ کے درمیان مذاکرات میں دس شقوں پر مطابقت پائی گئی، جس کے نتیجے میں HDP کے رکن پارلیمان سری ثریا اؤندر نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے عبداللہ اوجلان کے موسم بہار میں PKK کے ہنگامی کنونشن منعقد کرتے ہوئے ملک میں ہتھیار ڈالنے کی اپیل کرنے سے آگاہ کیا۔
آق پارٹی نے طویل جِدوجہد کے بعد پی کے کے سے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عبداللہ اوجالان سے ملک میں ماہ جون میں ہونے والے انتخابات سے قبل ہتھیار ڈالنے کی اپیل کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس اپیل سے بلاشبہ سب سے زیادہ فائدہ آق پارٹی ہی کو پہنچے گا اور اس سے کردوں کی جماعت HDP کو بھی کچھ حد تک فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ تاہم اس سے نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کو، جس کی سیاست نسل پرستی اور کردوں کی دہشت گرد تنظیم PKK کے خلاف گھومتی رہی ہے، ماضی کے انتخابات کے برعکس مقبولیت میں کمی آنے کا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے اور اسی طرح ری پبلیکن پیپلز پارٹی بھی موسم بہار میں عبداللہ اوجالان کی ہتھیار ڈالنے کی اپیل پر عمل درآمد سے بھی لازمی طور پر متاثر ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۴ مارچ ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply