
کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ (The Wastes of Time) کے دو ابواب آپ ’’معارف فیچر‘‘ کے گزشتہ شماروں میں قسط وار پڑھ چکے ہیں۔ آج ایک اور باب ملاحظہ فرمائیے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک ’’پاکستان‘‘ کے بھارتی حملہ اور عالمی قوتوں کے زور و سازش، اور سب سے بڑھ کر اپنی اجتماعی نالائقی و بے بصیرتی کے نتیجہ میں ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو دولخت ہونے کی یادیں تازہ کیجیے۔ شاید یہ تلخ یادیں ہماری آنکھیں کھول دینے کا سبب بن سکیں۔ (ادارہ)
خانہ جنگی کے دوران بھارت چلے جانے والے دانشوروں، اساتذہ، طلبہ، صحافیوں، ڈاکٹروں اور انجینئروں نے جنوری کے وسط تک وطن واپسی شروع کردی۔ ان میں چاٹگام یونیورسٹی میں شعبہ بنگالی کے سربراہ ڈاکٹر علی احسن اور ڈاکٹر اے آر ملک بھی شامل تھے۔ دونوں میرے دوست تھے اور علی احسن تو میرے کزن بھی تھے اور ان کی پرورش میرے ساتھ ہی ہوئی تھی۔ ان میں سے کسی نے بھی میرے بارے میں پوچھنے یا مجھ سے ملنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ آخر ہم خانہ جنگی کے دوران دو مختلف کناروں پر تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ پروفیسر علی احسن نے کلکتہ میں ریڈیو کی نشریات کے دوران مجھے ذاتی حیثیت میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مجھے جس بات سے زیادہ تکلیف پہنچی وہ ڈھاکا واپسی پر ان کا رویہ تھا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ انہوں نے کسی جواز کے بغیر (یعنی کسی نے ان سے مدد مانگی ہی نہیں تھی) یہ بھی کہا کہ وہ کسی بھی ’غدار‘ کی مدد نہیںکریں گے۔ علی احسن سے ملاقات کے بعد مجھ سے ملاقات کرنے والے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ میرے برے حالات کے لیے چند احباب بھی ذمہ دار تھے جنہوں نے مجھے غلط مشورے دیئے تھے۔ انہوں نے جن دوستوں کے نام بتائے ان سے میرے قریبی تعلقات تھے، بالکل ویسے ہی جیسے پروفیسر علی احسن کے ساتھ تھے۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ ان صاحب نے جو کہانی سنائی تھی وہ سراسر جھوٹ تھی۔ اگر میں یقین کرلیتا تو میرے وہ تمام دوست آج جیل میں ہوتے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال کے تناظر میں خود کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے والی سائڈ پر رکھنے کے لیے پروفیسر علی احسن نے جو کچھ کیا وہ ناقابل فہم تو نہ تھا مگر ہاں حیرت ضرور ہوئی۔ علی احسن سے میری آخری ملاقات مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل میں نارائن گنج میں ان کے برادر نسبتی عبدالعلی کے گھر پر ہوئی۔ انہیں اندازہ تھا کہ حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ سب پاکستان کے لیے کسی طور سودمند نہیں۔ وہ بہت شاطر، بات بات پر بپھر جانے والے اور اصولوں کو خاطر میں نہ لانے والے انسان تھے۔ وہ کانگریس فار کلچرل فریڈم ان پاکستان کے چیف آرگنائزر رہ چکے تھے۔ جب اس امر کی تصدیق ہوگئی کہ کانگریس کی پاکستانی شاخ کو سی آئی اے سے فنڈ ملتے تھے، تب اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ تاہم علی احسن نے بائیں بازو کی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود اپنے ’’کاز‘‘ کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ یہ علی احسن ہی تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد رابندر ناتھ ٹیگور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بعد میں جب صورت حال یکسر بدل گئی تو انہوں نے بھی پلٹا کھایا اور اس بات پر زور دیا کہ مشرقی پاکستان کی تمام جامعات میں بنگالی کو تدریس کا ذریعہ بنایا جائے۔ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کس مزاج کے انسان تھے اور میں بھی جانتا تھا کہ ان سے سب سے آخر میں جس چیز کی توقع کی جاسکتی تھی وہ مستقل مزاجی تھی۔ انہیں کسی بھی معاملے میں موقف اور پینترے بدلنے کا ہنر آتا تھا اور ہوا کے رخ میں کسی بھی تبدیلی کا وہ بہت پہلے اندازہ لگا لیتے تھے۔ مگر خیر اپنے ماضی کو مکمل طور پر مسترد کرنا اور یہ کہنا کہ (متحدہ) پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ یکسر غلط تھا، انتہائی حیرت انگیز تھا۔ میں انہیں اچھی طرح جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ انہیں کسی بھی اصول کی کبھی پروا نہیں رہی۔ مگر پھر بھی ان کے پلٹ جانے سے مجھے بہت حیرت ہوئی۔
میں نے تاریخ اور نفسیات کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں لوگ پریشانی اور مصیبت سے بچنے کے لیے اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور دروغ بیانی سے بھی کام لیتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ہونٹوں پر چپ کی مہر بھی لگا لیتے ہیں۔ مگر بات بات پر چولا صرف موقع پرست اور خود غرض لوگ ہی بدلتے ہیں۔ وہ جس کشتی میں سفر کرتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں۔ میں ان حالات کے بارے میں نہیں جانتا جن کے باعث انہیں فرار ہوکر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے ریکارڈ میں ایسی کوئی بھی بات تھی جو انہیں (پاکستانی) فوج کے غیظ و غضب کا نشانہ بناتی۔ تو کیا انہوں نے اپنے وائس چانسلر ڈاکٹر اے آر ملک کی ایماء پر بھارت میں پناہ لی تھی اور یہ محسوس کرلیا تھا کہ خانہ جنگی ختم کرنے اور ملک کو متحد رکھنے میں فوج کامیاب ہو رہے گی؟
چند ساتھیوں کو اگرتلہ میں پناہ لینے کی تحریک دینے والے ڈاکٹر اے آر ملک ذہنی طور پر ابتدا ہی سے عوامی لیگ کے ساتھ تھے۔ بنگلا قوم پرستی کے نشے میں چُور ڈاکٹر ملک اس خیال کے حامل تھے کہ بنگال باقی پاکستان سے یکسر مختلف تھا اور یہ فرق ثقافتی سطح پر نمایاں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۷۰ء میں کراچی میں ایک موقع پر بحث کے دوران میں نے جب انہیں پاکستانی حکمرانوں پر تابڑ توڑ حملے کرتے دیکھا تو ان سے براہ راست پوچھ لیا کہ کیا وہ بھی ملک کی تقسیم چاہتے ہیں؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے یہ جواب پورے اخلاص سے دیا تھا یا پھر محض مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ گلے شکوے ایک طرف رہے، سچ تو یہ ہے کہ جس حقیقت سے وہ خود بھی انکار نہیں کرسکتے وہ یہ ہے کہ دوسرے ہزاروں بنگالیوں کی طرح ان کی کامیابی بھی پاکستان کی مرہون منت تھی۔ پاکستان میں وہ ایک عام سے سول سرونٹ کی حیثیت سے یا پھر کالج لیکچرر کے منصب سے ریٹائر ہوسکتے تھے۔ مگر وہ تو وائس چانسلر تھے۔ ان کے پاس اعلیٰ سند تھی اور سماجی حیثیت بھی بلند تھی۔ متحدہ ہندوستان میں وہ کیا بنتے؟ ہندوؤں سے براہ راست مسابقت کی صورت میں وہ کسی قابل ذکر مقام تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
عوامی لیگ میں اپنے دوستوں کو پاکستان کے مفادات کے خلاف کچھ بھی کرنے سے باز رہنے کی تحریک دینے کے بجائے انہوں نے غیر ملکی سرزمین میں رہ کر پاکستانی فورسز اور حکومت کے خلاف قوت جمع کرنے کا کام جاری رکھا۔ کیا زوال تھا! کیا المیہ تھا! اور کیا بے بصیرتی تھی! یہ کیسے ممکن تھا کہ تاریخ کا ایک طالب علم جس نے انیسویں صدی میں ہندوؤں کے تسلط میں بنگالی مسلمانوں کے حال زار کے بارے میں کتابیں لکھی تھیں، اس بات پر یقین رکھ سکتا تھا کہ پاکستان سے کٹ کر بنگالی مسلمان بھارتی اثرات کے تحت عمدہ اور معیاری زندگی بسر کرسکیں گے؟ ڈاکٹر عبدالمالک ایسے انسان نہیں تھے جو معاشیات یا تاریخ کا علم نہ رکھتے ہوں یا جن کا موقف اخباری بیانات اور نعروں کا نتیجہ ہو۔ پھر سب کچھ انہیں کیسے بھول گیا اور انہوں نے اپنی تعلیم اور پس منظر کے منافی مؤقف کیسے اپنالیا؟ ان معاملات میں میرے لیے ایسا کچھ بھی نہیں تھا جسے سراہا جاتا۔
علی احسن نے جس نوعیت کا غیر دوستانہ رویہ اپنایا تھا اسی سے ملتی جلتی مثال ڈاکٹر مظفر احمد چوہدری نے بھی قائم کی۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد انہیں ڈھاکا یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ یہ تقرر تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر کیا گیا تھا۔ میری خدمات ختم کرنے کا رسمی اعلان کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ مجھے درمیان سے ایسے ہٹایا گیا جیسے میرا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ جارج آرویل نے اپنے ناول میں جو کچھ لکھا تھا وہ عملی شکل بھی اختیار کرسکتا تھا۔ سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا کہ ڈاکٹر مظفر احمد چوہدری، ابوسعید چوہدری سے چارج لے رہے ہیں، جنہوں نے مارچ ۱۹۷۱ء میں آرمی کریک ڈاؤن سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے اپنے سابق ساتھی ڈاکٹر مظفر احمد چوہدری کو خط لکھ کر وائس چانسلر کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد دینی چاہیے۔ میں نے انہیں خط لکھا جس میں یہ درخواست بھی کی کہ میرے اہل خانہ کو وائس چانسلر کی سرکاری رہائش گاہ سے تمام سامان لے جانے کی اجازت دی جائے۔ میرے خط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ میرے اہل خانہ سے عجلت میں رہائش گاہ خالی کرائی گئی۔ فرنیچر، بہت سے برتن اور کچن کا دوسرا سامان وہیں رہ گیا۔ اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوا میں نے جو کتابیں ۳۵ برس میں جمع کی تھیں وہ بھی وہیں رہ گئیں۔ میرے اہل خانہ نے ڈاکٹر مظفر احمد چوہدری سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے بات نہیں کی۔ جب میری بیٹیاں ان سے ملنے گئیں تو ان کے سیکریٹری نے (جو میرے ماتحت بھی کام کرچکا تھا) بتایا کہ وہ نہیں مل سکتے۔ سیکریٹری نے اس معاملے میں بے بسی ظاہر کی۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں سرکاری رہائش گاہوں کی دیکھ بھال اور مرمت پر مامور انجینئر نے میرے اہل خانہ سے کہا کہ تمام سامان کی فہرست تیار کیے بغیر کچھ بھی لے جایا نہیں جاسکتا۔ یہ معاملہ طول پکڑتا گیا اور تین ماہ گزر گئے۔ جب ڈاکٹر مظفر احمد چوہدری تین ماہ بعد جاب چھوڑنے پر مجبور ہوئے تب کہیں جاکر سامان واپس مل سکا۔ تاہم بہت سی چیزیں (جن میں کتابیں نمایاں ہیں) واپس نہ مل سکیں۔
ایک دن ایک پولیس انسپکٹر آیا اور اس نے پوچھا کہ کیا میں وائس چانسلر کے پرسنل سیکرٹری کے پستول کے بارے میں جانتا ہوں۔ سیکریٹری ہندوستان بھاگ گیا تھا۔ میں انسپکٹر کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ وائس چانسلر کے پرسنل سیکرٹری نے ایک بستر باندھ کر وائس چانسلر آفس کے نگراں کے حوالے کیا تھا جس میں پستول بھی تھا۔ تب کسی نے بستر کو کھول کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں نگران نے بستر کھول کر پستول غائب کردیا ہو۔ ۱۶ دسمبر کے بعد جب سیکریٹری بھارت میں روپوشی ختم کرکے ڈھاکا آیا تو اس نے بستر طلب کیا اور اس میں سے پستول غائب پایا تو شک کی سوئی ان کی طرف گئی جو ’غدار‘ سمجھے جاتے تھے۔ پولیس انسپکٹر سمجھدار آدمی تھا۔ اس نے محض رسمی کارروائی کے طور پر مجھ سے ملاقات کی تھی۔ وہ معذرت کرکے چلا گیا۔ میں نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو کسی کو غداری کے جھوٹے الزام کے تحت مزید مشکلات سے دوچار کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔
ڈھاکا یونیورسٹی کے چند دوسرے ملازمین نے بھی مجھے صرف پریشان ہی نہیں کیا بلکہ میری مشکلات میں اضافے کی شعوری کوششیں بھی کیں۔ رجسٹرار نورالدین بھی ان میں شامل اور نمایاں تھا۔ ۱۷ یا
۱۸ دسمبر کو اس نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ مجھ سے پوچھے بغیر ہی اس نے میری سرکاری رہائش گاہ کو (جسے میں نے اپنے اغوا سے قبل ۱۵؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو عجلت میں چھوڑا تھا) بھارتی افسران کے لیے مختص کردیا ہے۔ رجسٹرار کو معلوم تھا کہ ہم اپنا سامان چھوڑ کر نکلے تھے مگر پھر بھی اس نے سامان کی نگرانی کا اہتمام کیا اور نہ کوئی فہرست بنوائی۔ جیسے ہی اُسے معلوم ہوا کہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور یہ کہ اب میری پوزیشن ایسی نہیں رہی کہ واپس آسکوں یا بحیثیت وائس چانسلر مجھے معافی مل سکے، اُس نے بھارتی فوجی حکام کی جانب سے درخواست موصول ہوتے ہی وائس چانسلر کی سرکاری رہائش گاہ کو بھارتی افسران کے لیے مختص کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوجی افسران کو دوسری بہت سی عمارات میں ٹھہرایا جاسکتا تھا اور پھر یہ کہ مجھے فون کرکے میری مرضی معلوم کرنے سے اُسے کس نے روکا تھا؟ مگر خیر، مجھے ٹیلی فون کرنے کا یہ مطلب ہوتا کہ وہ مجھے وائس چانسلر کی حیثیت سے قبول کر رہا ہے! اور اس کے ذہن میں یہ بات گھر کرچکی تھی کہ میں اب وائس چانسلر نہیں ہوں۔
نورالدین اگرچہ اردو بولنے والا شخص تھا، تاہم اس نے حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے جامعہ کے پاکستان مخالف عناصر کا ساتھ دینا شروع کردیا تھا۔ ایک معمولی گریجویٹ اور پولیس سروس سے برطرف کیے جانے والے شخص نے یونیورسٹی میں ڈپٹی رجسٹرار کے منصب تک یہ کہتے ہوئے رسائی حاصل کی کہ اسے پاکستان مخالف نظریات رکھنے کی سزا دی گئی ہے۔ جامعہ کے بائیں بازو کے عناصر کی ہمدردی حاصل کرتے ہوئے اس نے ایسی فضا تیار کی کہ زیادتی کے ازالے کے لیے اسے رجسٹرار بنادیا گیا۔ اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر ایم او غنی ان لوگوں کو پسند نہیںکرتے تھے جو نورالدین کو رجسٹرار بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنا امیدوار پیش کیا تاہم وہ اس منصب کے لیے منتخب ہونے میں ناکام رہا۔ اب کوئی اور راستہ نہ تھا، اس لیے نورالدین کو عارضی طور پر رجسٹرار بنایا گیا۔ اس معاملے کو اخبار میں اشتہار دینے اور نئے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنے پر موقوف رکھا گیا۔ اس کے بعد میں وائس چانسلر بن کر آگیا۔ میں اس سے وفاداری کی توقع کسی بھی حالت میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ جب پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے تو نورالدین نے محسوس کرلیا کہ اب میں بھی نہیں رہوں گا۔ اس لیے اس نے مجھے اذیت دینے کا سلسلہ شروع کیا۔
جنوری ۱۹۷۲ء میں جب میں نے تنخواہ کے لیے ڈھاکا یونیورسٹی سے رابطہ کیا تو رجسٹرار نورالدین نے طے کیا کہ مجھے صرف ۱۹؍ دسمبر ۱۹۷۱ء تک کی تنخواہ دی جائے گی۔ جس قدر بھی عدم وفاداری اور دشمنی کا مظاہرہ کیا جارہا تھا اسے برداشت کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ نورالدین جیسے لوگوں کے نزدیک میں ایک ایسا انسان تھا جس کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی۔ مجھے کسی نہ کسی طرح مسترد کرنے کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے تھے؟ ۱۹؍ دسمبر کے حملے میں میرا بچ نکلنا ایک ایسا معجزہ تھا جس سے انہیں بڑی تکلیف پہنچی تھی۔ ایسے لوگوں سے کسی بھی بہتری کی توقع رکھنا میرے نزدیک شیکسپیئر اور دانتے سے سیکھے ہوئے سبق سے غداری ہوتی۔ وفاداری، مستقل مزاجی اور وسیع النظری جیسے اوصاف اعلیٰ ظرف کے حامل انسانوں کے اوصاف ہیں اور ہر شخص سے ان کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ غیر معمولی اوصاف ہیں اور غیر معمولی انسانوں ہی میں پائے جاتے ہیں۔ جب ہم کسی کی بے وفائی پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں تو انسانی فطرت کے بارے میں اپنے ہی تصور سے بغاوت کرتے ہیں اور اس شخص کو خواہ مخواہ احترام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کی بے وفائی پر حیرت اس بات کا اعلان ہے کہ اس سے ہمیں کسی نہ کسی سطح پر وفا کی امید تھی جبکہ اس کے مزاج میں ایسا کوئی بھی وصف نہ تھا۔ جس کی سرشت میں وفا نہ ہو اس سے وفا کی امید وابستہ رکھنا، اسے بلاجواز اہمیت اور احترام دینے کے مترادف ہے۔
جنوری ۱۹۷۲ء کے دوران ڈھاکا یونیورسٹی کے ان اساتذہ کی واپسی شروع ہوئی جنہوں نے خانہ جنگی کے دوران جلا وطنی اختیار کرلی تھی۔ ڈاکٹر مظفر احمد چوہدری کا ذکر تو میں کر ہی چکا ہوں۔ دوسرے آنے والوں میں شعبہ سیاسیات کے عبدالرزاق اور نور محمد میاں، شعبہ انگریزی کے ڈاکٹر سرور مرشد اور شعبہ بنگالی کے ڈاکٹر احمد شریف اور ڈاکٹر منیر الزماں شامل تھے۔
کسی زمانے میں عبدالرزاق سے میرے قریبی تعلقات قائم تھے۔ وہ مجھ سے کافی سینئر تھے۔ جب میں نے ۱۹۳۸ء میں ڈھاکا یونیورسٹی سے بحیثیت طالب علم وابستگی اختیار کی تب عبدالرزاق لیکچرر تھے۔ وہ مسلم لیگ کے حامی تھے اور قائد اعظم کے زبردست مداح۔ ’’مسٹر ایم اے جناح‘‘ ہمارے درمیان ہم آہنگی کی بنیاد بن گئے۔ ہم نے عبدالرزاق کو مسلم علیحدگی پسندی کے نظریے کا ستون بنالیا۔ استاد اور شاگرد کے رشتے سے کہیں بڑھ کر ہمارے درمیان دوستی کا رشتہ پروان چڑھا۔ وہ ایک اچھے دوست تھے جنہیں قدرت نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ کارڈز اور شطرنج کھیلنے میں خاصی مہارت رکھتے تھے اس لیے انہیں دوست بھی تیزی سے مل جاتے تھے۔ لباس کے معاملے میں غیر روایتی انداز ترک کرنے کا رجحان انہیں مزید نمایاں کرتا تھا۔ ان کی وضع قطع اور بات کرنے کا انداز سبھی کچھ ان کے لیے نئے مداح پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا رہتا تھا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ مختلف موضوعات پر عمدگی سے بولتے تھے۔ اس خوبی نے ہمیں ان کا گرویدہ کر رکھا تھا۔
۱۹۴۰ء یا ۱۹۴۱ء میں جب مسلم لیگ کے حامی طلبہ نے اپنا ترجمان شائع کرنا چاہا تو اس کے ایڈوائزری بورڈ میں عبدالرزاق بھی شامل تھے۔ ہمارے اس جریدے کا نام ’’پاکستان‘‘ تھا۔ عبدالرزاق کبھی کبھی ہمارے لیے لکھتے بھی تھے۔ ویسے ہمارے لیے ان کے مشورے اور اخلاقی و نفسیاتی حمایت ان کی تحریروں سے زیادہ اہم تھی۔ ۱۹۴۳ء میں جب ایک جنونی ہندو نے اس پندرہ روزہ کے منیجر نذیر احمد کو شہید کردیا تب عبدالرزاق نے خصوصی شمارے کے لیے ایک دل گداز تحریر قلم بند کی تھی۔
۱۹۵۰ء میں جب وہ انگلینڈ سے واپس آئے تب میں نے ان کے رویے میں تبدیلی محسوس کی۔ مگر پھر میں خود بھی ۱۹۵۲ء میں پی ایچ ڈی کے سلسلے میں یورپ چلا گیا اور دو سال بعد واپسی ہوئی۔ اس دوران مجھے اندازہ نہ ہوسکا کہ عبدالرزاق کی سوچ اور رویے میں کس حد تک تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی نظریات میں تبدیلی آتی گئی، ہاں ہماری دوستی برقرار رہی۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ایک دن عبدالرزاق میرے پاس آئے اور مجھے بنگالی قوم پرستی اور علیحدگی کی جانب مائل کرنے کی کوشش کی۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان اپنے قیام کے مقاصد میں ناکام ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی پاکستان کے قائدین، بالخصوص ایوب خان اور ان کے رفقا، نے بنگالیوں اور پاکستانیوں کے لیے مل کر رہنا ناممکن بنادیا تھا۔ عبدالرزاق نے یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمانوں کے پاس واحد راستہ یہ بچا تھا کہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان سے علیحدگی کے لیے کام کریں اور اپنی ریاست تشکیل دیں۔ میں نے جواب میں یہ کہا کہ محض ۱۷ سال کی کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان کو سزائے موت سنانا کسی بھی اعتبار سے قرین انصاف نہیں۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ برطانوی راج کے دوران ۲۰۰ برسوں میں متحدہ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اور تلخی کے علاج کے لیے ہی پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پھر ہم یہ بھی بھول گئے تھے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے ۷۰۰ سالہ عہدِ اقتدار میں بھی دونوں اقوام (مسلمانوں اور ہندوئوں)کے درمیان واضح اختلافات رونما ہوتے رہے تھے۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جاتا کہ پنجابیوں کے بارے میں ان کے تمام دلائل درست تھے اور اگر یہ بھی فرض کرلیا جاتا کہ مشرقی پاکستان کے عوام سے روا رکھی جانے والی نا انصافیوں سے متعلق ان کے تمام اعداد و شمار بھی درست تھے تب بھی کوئی شخص دو سو سال کی تاریخ کو ۱۷ سال کے تجربے پر کیونکر نچھاور کرسکتا تھا؟ میں نے اس نکتے پر زور دیا کہ پاکستان کو مکمل طور پر ناکام قرار دینے سے قبل اسے کام کرنے کے لیے کچھ وقت تو دیا جائے۔
یہ آخری موقع تھا جب عبدالرزاق اور میں نے کھل کر تبادلہ خیال کیا تھا۔ ڈیڑھ سال بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اب وہ مجھ سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس حقیقت کو چھپانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ ان کے طرزِ عمل سے مجھے شدید دکھ پہنچا۔ میرے تو خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ سیاسی اختلاف کو عبدالرزاق ہمارے ذاتی تعلقات پر اثر انداز ہونے دیں گے۔ میں نے سوچا کہ اس صورت حال کو میں جس حد تک برداشت کرسکتا ہوں، کرنا چاہیے۔ ہم ایک ہی یونیورسٹی میں کام کرتے تھے۔ ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ ہمارا آمنا سامنا نہ ہو۔ میں نے محسوس کیا کہ جب بھی ہم ساتھ ہوتے تو وہ مجھے غلط ثابت کرنے پر پوری قوت صَرف کردیتے تھے۔
آرمی کریک ڈاؤن کے بعد میں نے سنا کہ عبدالرزاق روپوش ہوگئے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں جب میری خدمات راج شاہی یونیورسٹی سے ڈھاکا یونیورسٹی منتقل کردی گئیں تب بھی عبدالرزاق روپوش ہی تھے۔
میں آج بھی یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ عبدالرزاق اپنی ہی تحقیق کیوں کر بھول گئے! اس تحقیق ہی کی بنیاد پر ایک عرصہ پہلے انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا تھا کہ وہ متحدہ ہندوستان میں رہنے پر مسلم ملائیت کے ہاتھوں سر قلم کر دیے جانے کو ترجیح دیں گے۔
شیکسپیئر نے کہا تھا کہ سڑے ہوئے پھول، کانٹوں سے زیادہ بدبو دار ہوتے ہیں۔ یہ بات مجھے اس وقت درست معلوم ہوئی جب ۱۹۷۳ء میں دہلی یونیورسٹی نے عبدالرزاق کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا! یہ ڈگری پاکستان توڑنے کے سلسلے میں ان کی کوششوں کے اعتراف کے طور پر دی گئی۔ کس قدر حیرت انگیز ’’کلائمیکس‘‘ تھا یہ! عبدالرزاق کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کے لیے جو تقریب منعقد کی گئی اسی میں مشہور آرٹسٹ زین العابدین کو بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔
عبدالرزاق نے جب روپوشی ترک کی اس کے کچھ ہی دن بعد میں نے سنا کہ میرے کزن قمرالاحسن کو بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ ان کی رہائی سے مجھے ایک گونہ راحت محسوس ہوئی۔ اب کم از کم ایک پڑھا لکھا اور پختہ عمر کا انسان تو تھا جو میرے اہل خانہ کے لیے سہارا ثابت ہوسکتا تھا۔ جب مکتی باہنی کی جانب سے حملوں کا خطرہ گھٹ گیا تو میرے دوسرے کزن منظور الاحسن نے خود کو قانون کے حوالے کردیا۔
عید الاضحٰی نزدیک آ رہی تھی۔ میری ہوسپٹلائزیشن کے بعد یہ پہلا بڑا تہوار تھا۔ ہم جن حالات سے دوچار تھے ان میں تہوار کی خوشی منانے، نئے کپڑے خریدنے اور اچھا کھانا بنانے کے بارے میں سوچنا بھی دشوار تھا۔ بچوں کی خوشی کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ عید الاضحٰی کی خوشی کسی نہ کسی حد تک منائی جائے تاکہ انہیں حالات کی نزاکت کا احساس نہ ہو اور صدمہ نہ پہنچے۔ میری بیٹیوںکی عمریں آٹھ اور دس سال تھیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہم کس المیے سے دوچار ہوئے ہیں۔ میرا استدلال یہ تھا کہ جہاں تک ممکن ہو، ہم انہیں صدمے سے بچانے کی کوشش کرتے رہیں۔
عید الاضحٰی میرے لیے، فطری طور پر، خاصا افسردہ دن ثابت ہوا۔ کچھ بھی کھانے یا پینے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ میں نے اپنے اور اپنے جیسے دوسرے ہزاروں افراد کے مقدر کے بارے میں سوچا جنہیں مکتی باہنی نے ہلاک کردیا تھا یا جو جیلوں میں سڑ رہے تھے۔ میں ان معاملات پر جس قدر سوچتا گیا، میرا ملال بڑھتا ہی گیا۔
یونیورسٹی اور کالجوں کو فروری کے اوائل میں دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا جاچکا تھا۔ جب ہوسٹلوں میں رہنے والے طلبہ کی ڈھاکا واپسی شروع ہوئی تو شہر کا ماحول بھی گرم ہوتا گیا۔ میں ہسپتال میں اپنے کیبن سے محسوس کرسکتا تھا کہ گرمی بڑھتی جارہی تھی۔ لمبے بالوں اور گھنی داڑھی والے طلبہ کے گروپ، جن میں بہت سے مکتی باہنی میں بھی رہے ہوں گے، اب میڈیکل کالج کی راہداریوں میں دکھائی دینے لگے تھے۔ جہاں تک میں اندازہ لگا سکتا تھا، میرے بارے میں ان کا رویہ خاصا غیر دوستانہ، مخاصمانہ اور جارحانہ تھا۔ جس ڈاکٹر نے روزانہ نصف گھنٹے کے لیے نیچے کی منزل پر جاکر ایکس رے ٹریٹمنٹ لینے کا مشورہ دیا تھا، اسی نے اب مجھے یہ مشورہ دیا کہ میں کیبن ہی میں رہوں کیونکہ میرے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ یہ غالباً ۲۹؍ جنوری کی بات تھی کہ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ اب جبکہ میں چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا ہوں تو وہ مجھے ڈسچارج کرنا چاہتا ہے۔ اعلیٰ حکام کی جانب سے اس پر خاصا دباؤ تھا کہ مجھے جلد از جلد ڈسچارج کردیا جائے مگر وہ اس معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ٹالتا رہا۔ اب دباؤ حد سے بڑھ گیا تھا۔ اب میں چلنے پھرنے لگا تھا اس لیے وہ مجھے ہسپتال میں مزید رکھنے پر اصرار نہیں کرسکتا تھا۔ پھر یہ بھی ناقابل تردید حقیقت تھی کہ طلبہ کی واپسی پر میڈیکل کالج ہاسپٹل میں میرا رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ میرے پاس ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں نے اگلے پیر تک رہنے کی اجازت چاہی مگر یہ بھی ممکن نہ تھا۔ اسی دن میرا ڈسچارج سرٹیفکیٹ بنادیا گیا اور میں سینٹرل جیل منتقل کیے جانے کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔
پولیس نے بتایا کہ مجھے رات کے وقت ہسپتال سے جیل منتقل کیا جائے گا۔ میرے اہل خانہ آخری بار مجھ سے ملنے آئے۔ رات نو بجے پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ تیاری مکمل نہیں ہوسکی، اس لیے اب مجھے اگلی صبح جیل بھیجا جائے گا۔
میں اس رات سو نہ سکا۔ ۲۰؍ دسمبر ۱۹۷۱ء سے میں ہسپتال میں زیر علاج تھا۔ اور اس دوران مجھے وہ تمام سہولتیں میسر رہیں جو ایک مریض کو ملا کرتی ہیں۔ میرے اہل خانہ مجھ سے روزانہ ملاقات کرسکتے تھے۔ میرے لیے، ناشتے کے سوا، کھانا گھر سے آتا تھا۔ اب میرے لیے جیل کی زندگی شروع ہونے والی تھی، جس کا مجھے کچھ بھی اندازہ نہ تھا۔ میں رات بھر سونے کی کوشش کرتا رہا، مگر خیالات ذہن پر اس طرح سوار تھے جیسے شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا ہو۔ میں ایک پَل کے لیے سو نہ سکا۔ شدید بے چینی کے باعث ایک موقع پر کیبن کا ماحول اس قدر گرم محسوس ہوا کہ میں نے پنکھا آن کردیا، مگر اس سے کوئی فرق نہ پڑا۔
رَمنا پولیس پوسٹ کے جس سب انسپکٹر کے ذمے مجھے جیل منتقل کرنے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی، وہ ۳۰؍ جنوری کو صبح آٹھ بج کر تیس منٹ پر حاضر ہوگیا۔ میں جس حالت میں تھا، اسی میں رخصت ہوا، شیو کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ جس وین میں مجھے سوار کیا گیا، اسے ۱۰۹۔ ناظم الدین روڈ سے بھی گزرنا تھا جہاں ہمارا گھر تھا۔ میری درخواست پر وین کو وہاں چند لمحات کے لیے روکا گیا تاکہ اہل خانہ مجھے الوداع کہہ سکیں۔ میں اس موقع پر بہت شکستہ حالت میں تھا۔
[پروفیسر سید سجاد حسین کی انگریزی کتاب “The Wastes of Time” جس کا ایک باب ابھی آپ نے پڑھا ہے، ان شاء اللہ عن قریب اردو میں ’’شکستِ آرزو‘‘ کے نام سے شائع ہو کر دستیاب ہوگی۔]
☼☼☼
Leave a Reply