
یہ ۱۹۴۵ء کا واقعہ ہے، میں اُن دنوں سرسہ ہائی اسکول میں، جو اَب بھارت میں ہے، ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ طلبہ اور اساتذہ میں غیر مسلموں کی اکثریت تھی اور جب کبھی ہمیں پڑھانے کے لیے مسلمان اساتذہ آتے، تو ہم اُن سے جلد مانوس ہو جاتے۔ انہی دنوں ریاضی کے استاد جناب نظام الدین آئے اور اُن سے ایک تعلق سا پیدا ہوگیا۔ وہ اردو ادب کے بھی نہایت اچھے شناور تھے اور اپنے گھر پر سیاسی حالات پر گفتگو بھی کرتے تھے۔ ایک اتوار کی صبح اُن کے یاد فرمانے پر میں اُن سے ملنے گیا۔ انہوں نے چولہے پر چائے کا پانی رکھا ہوا تھا۔ پانی ابلنے کے انتظار میں ہمارے درمیان حالاتِ حاضرہ پر باتیں شروع ہو گئیں۔ دوسری جنگِ عظیم ختم ہو چکی تھی، ہندوستان میں آزادی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا اور عام انتخابات کے چرچے شروع ہو گئے تھے۔ استادِ محترم نے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان بننے کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں۔ پھر شاعری اور ادب پر گفتگو شروع ہوگئی۔ میں نے پوچھا، آپ کی نظر میں اِس وقت مسلمانوں میں سب سے اچھے انشا پرداز کون ہیں۔ انہوں نے بے اختیار کہا: ابوالاعلیٰ مودودی، جن کی تحریریں قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہیں اور ذہنوں میں طوفان اٹھا دیتی ہیں۔ موجوں کی روانی ہے اُن کے الفاظ اور اسلوب میں۔ مَیں وہاں سے اٹھا تواپنے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن کے کمرے میں چلا گیا، جو باقاعدگی سے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ منگوایا کرتے تھے۔ میں نے اُسے پڑھنا شروع کیا جس میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کا سلسلہ چل رہا تھا۔ حافظ صاحب نے پڑھنے کے لیے ’’خطبات‘‘ اور ’’سلامتی کا راستہ‘‘ دیے۔ مجھے اُن کے مطالعے میں ایک لطف محسوس ہونے لگا اور میرا ذہن کھلتا چلا گیا۔
پاکستان بنا، تو ہمارا خاندان ہارون آباد کے راستے دسمبر ۱۹۴۷ء میں لاہور پہنچا۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی جناب گل حسن لاہور میں تعینات تھے اور گورنمنٹ چوبرجی کوارٹرز میں رہتے تھے۔ ہم نے وہاں سکونت اختیار کی۔ دو چار دنوں کے بعد میں نے اِچھرے کا راستہ دریافت کیا، جہاں مولانا مودودی کی رہائش گاہ تھی۔ بار بار بھٹک جانے کے بعد سرِشام ذیلدار پارک پہنچ گیا اور کسی رکاوٹ کے بغیر مولانا سے ملاقات ہو گئی۔ مجھ پر شادیٔ مرگ کی سی کیفیت طاری تھی۔ انہوں نے بڑی شفقت سے پوچھا، کس علاقے سے آئے ہو؟ تو میں نے کہا، ہم سرسہ ضلع حصار سے آئے ہیں۔ انہوں نے جناب حکیم عبداللہ کا حال معلوم کیا جو انبالہ ڈویژن کے امیر جماعت اسلامی تھے۔ میں ابھی ملاقات کے نشے سے سرشار ہی تھا کہ مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ رحمن پورہ کی مسجد میں آنے والی شام سے مولانا درسِ قرآن شروع کرنے والے ہیں۔ میں اگلے روز پاپیادہ اِس چھوٹی سی مسجد میں پہنچ گیا، جہاں مغرب کی نماز کے بعد ایک خوبصورت نوجوان دریاں بچھا رہا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ نوجوان عبدالوحید خاں ہیں۔ اپنی قسمت پر ناز تھا کہ مجھے مولانا کا افتتاحی درس سننے کا شرف حاصل ہوا۔ چند ماہ بعد درس کا یہ سلسلہ ٹیمپل روڈ کی مسجد میں منتقل ہوگیا۔ انہی دنوں کشمیر کا مسئلہ ایک ہیجان انگیز مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ اُس کے ہندو راجہ نے ریاست جموں میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا اور بھارت نے اپنی فوجیں سری نگر ایئرپورٹ پر اُتار دیں۔ اِس پر قبائلی علاقوں کے خوددار پٹھان اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے چل نکلے تھے۔ ایک صبح مولانا درسِ قرآن کے بعد حاضرین کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ ایک صاحب نے پوچھا آپ کی جہادِ کشمیر کے بارے میں کیا رائے ہے۔ مولانا نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق اعلانِ جہاد کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان اور جہاد کا حکم نہیں دیا ہے، اِس لیے ابھی جہاد فرض نہیں ہوا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام ریاست سے ماورا جنگی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا۔ اُن کے اِس موقف پر حکومت کی طرف سے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور بعض علما نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ مگر میں آج کے تناظر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مولانا نے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی حوصلہ شکنی کرکے ہم پر بہت بڑا احسان کیا تھا اور اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے باخبر کر دیا تھا۔ ہم ایک عشرے سے جن دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں اور ۴۵ ہزار افراد کی قربانیاں دے چکے ہیں، وہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ہی تو ہیں، جو اَب ریاست کے قابو میں نہیں آرہے ہیں۔
انہوں نے ۱۹۵۰ء میں ہم پر ایک اور عظیم احسان کیا تھا اور مسلم امہ کی بہت بڑی خدمت سرانجام دی تھی۔ اُن کی قیادت میں جماعت اسلامی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، جو بعد میں بہت بڑے تنازع کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ دراصل اِس فیصلے کی پشت پر یہ فلسفہ اور نظریہ کارفرما تھا کہ یہ جماعت سیاسی اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے اور اِس کی تمام تر سرگرمیاں کھلی کتاب کی طرح ہوں گی۔ اِس اعلان سے اُن تمام شکوک و شبہات کی جڑیں کٹ گئی تھیں، جو مغرب اسلامی تحریکوں کے بارے میں جنگجوئوں کے طور پر پھیلاتا رہتا تھا۔ اخوان المسلمون جس کی بنیاد امام حسن البناء نے اسکندریہ میں رکھی تھی اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی دعوتِ عام دیتے تھے، اِس میں ایک ایساگروہ پیدا ہو گیا جو طاقت کے ذریعے اسلامی انقلاب لانے کے حق میں تھا۔ اِس گروہ میں جمال عبدالناصر بھی شامل تھا جو فوج میں کرنل تھا۔ اِس گروہ نے اسلامی انقلاب کے نام پر شاہ فاروق کو اقتدار سے بے دخل کیا اور سیاہ و سپید کا مالک بن جانے کے بعد اخوان المسلمون ہی کو جبر و تشدد کا نشانہ بنایا۔ مولانا مودودی تاریخ کے گہرے مطالعے اور قرآن و حدیث کی تفہیم سے اِس نتیجے تک پہنچے تھے کہ سلامتی کا راستہ جمہوریت کا راستہ ہے اور طاقت کا استعمال تشدد اور خونریزی کے دروازے کھولتا ہے، جو پھر کبھی بند نہیں ہوتے۔
۵۳۔۱۹۵۲ء میں قادیانیوں کے خلاف ہنگامے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جماعت اسلامی نے اپنے آپ کو اِن ہنگاموں سے الگ تھلگ رکھا اور مسئلے کو سنجیدگی اور حقیقت پسندی سے حل کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ لاہور میں حالات قابو سے باہر ہو گئے، تو مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ مولانا نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع کیا، جس میں تاریخ کی روشنی میں پوری صورتحال کا جائزہ اور حل پیش کیا گیا تھا۔ جماعت کی قیادت گرفتار کرلی گئی اور مولانا کو سزائے موت سنا دی گئی۔ وہ بڑی سج دھج سے مقتل کی طرف گئے اور عزیمت و استقامت کا کوہِ گراں ثابت ہوئے۔ انہوں نے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ زندگی اور موت کے فیصلے آسمانوں میں ہوتے ہیں۔ میری زندگی ہے تو حکمراں الٹے بھی لٹک جائیں تو میرا بال بیکا نہیں کرسکتے۔ انہوں نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اُن کی عظمتِ کردار کے آگے فوجی جنتا کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے اور موت کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی تھی، جو پہلی دستور ساز اسمبلی کے تحلیل ہو جانے کے باعث کالعدم قرار پائی تھی۔ میں نے اِس موقع پر بے اختیار کہا تھا:
وہ اور ہی ہوں گے کم ہمت، جو ظلم و تشدد سہہ نہ سکے
شمشیر و سناں کی دھاروں پر، جو حرفِ صداقت کہہ نہ سکے
اک جذبِ حصولِ مقصد نے، یوں حرص و ہوا سے پاک کیا
ہم کفر کے ہاتھوں بِک نہ سکے، ہم وقت کی رَو میں بہہ نہ سکے
جس بات پہ تم نے ٹوکا تھا اور دار پہ ہم کو کھینچا تھا
مرنے پہ ہمارے عام ہوئی، گو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے
تھے تم سے زیادہ طاقت وَر، پر چشمِ فلک نے دیکھا ہے
توحید کا طوفاں جب اٹھا، وہ مدِمقابل رہ نہ سکے
الطافؔ محبت چیز ہے کیا، اِ ک سوزِ دروں ایک جذبِ نہاں
وہ آخرِ شب کی آہیں بنیں، جو آنکھ سے آنسو بہہ نہ سکے
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۲۷ ستمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply