
مولانا مودودیؒ کی تصانیف اور ان کے پیش کردہ پروگرام کا مطالعہ کرنے والے محسوس کریں گے کہ دو امور مولانا کی کاوشوں میں مرکزِ توجہ رہے تھے۔ امت مسلمہ کا تحفظ اور عالم انسانیت کو گمراہی سے نکلنے کی دعوت۔ ان کاموں کی نوعیت عالمی تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اپنے ملک اور خطے کے مسائل سے مولانا نے زیادہ دلچسپی لی۔ قریب ترین ماحول ہندوستان کا تھا۔ یہاں جماعتِ اسلامی کی تحریک کی شکل میں کام کا آغاز ہوا۔ ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تنظیم قائم کی گئی۔ مولانا مودودیؒ نے جماعت کی تشکیل کے بعد اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے بعض اہم باتیں کہیں۔ ایک بات یہ تھی کہ جو کام علمی اور عملی سطح پر انجام دینا ہے وہ ایک شخص کے بس کا نہیں ہے۔ اس کے لیے جماعت کی ضرورت ہے اور اس جماعت میں جو لوگ باضابطہ شامل نہ ہوسکے ہوں، ان سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ تعمیری کاوشوں میں تعاون پیش کریں گے۔
اجتماعی سعی کی ضرورت
مولانا مودودیؒ نے ایسے اہل علم اصحاب کی ضرورت محسوس کی، جو علمی، تحقیقی اور فکری کام کو آگے بڑھائیں اور اس کی ترقی میں حصہ لیں۔ اللہ کے فضل سے برصغیر میں ایسے مخلصین کی خاصی تعداد موجود ہے۔ جماعت اسلامی کے وابستگان، جماعت سے متاثر ہونے والے یا کم از کم اس کے پیغام سے متاثر ہونے والے اہلِ علم کی ایک ٹیم مولانا مودودیؒ کی زندگی ہی میں سرگرم ہوچکی تھی۔ انھوں نے علمی، تحقیقی اور فکری میدان میں نمایاں کام انجام دیے۔ تاہم دو باتیں بہت واضح ہیں۔ ایک یہ کہ ان کاموں کا معیار مولانا مودودیؒ کے معیار سے کم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ سارے کام ہماری ضرورت سے کم ہیں۔ ضرورت کا تعلق، انسانیت کی رہ نمائی اور امتِ مسلمہ کے حال کی درستگی، دونوں سے ہے۔
مولانا مودودیؒ اچھی طرح جانتے تھے کہ فکر اسلامی کے ارتقا کے لیے اجتماعی کام اور ٹیم ورک درکا ر ہے۔ یہ کام سارے اہلِ علم و فکر کا تعاون چاہتا ہے۔ یہ بات تاریخ کے ہر دور میں صحیح تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دورِ اول میں امت میں علمی مزاج عام تھا، علم و تحقیق کا رواج تھا اور جو ضرورتیں، علم و فکر سے متعلق ہیں، وہ پوری ہورہی تھیں، اس کے برعکس دورِ زوال میں ہر ضروری کام کی طرح علمی سرگرمی بھی متاثر ہوچکی ہے۔ جو لوگ محقق اور اہلِ فکر ہیں ان کی تعداد امت میں کم ہے۔
مولانا مودودیؒ کا منشا یہ نہیں تھا کہ لوگ محض ان کی کتابیں پڑھیں اور جو کچھ انھوں نے کہا اس کو جوں کا تو ں مانتے چلے جائیں اور خود کچھ غور نہ کریں، خود علم وفکر اور تحقیق کے دائرے میں کوئی قدم آگے نہ بڑھائیں۔ یہ ان کا منشا نہیں تھا۔ انھوں نے واضح لفظوں میں اس ضرورت کااظہار کیا کہ مخلصین کا پورا قافلہ منظم ہونا چاہیے جو فکری، علمی اور تحقیقی کام کو آگے بڑھائے۔ مولانا مودودیؒ یا دوسرے علما نے جو کچھ کہا اس کو سمجھے، اس کو زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرے، اس بیان کی کمزوریوں کو دور کرے اور جدید تحقیق کے ذریعے امت اور انسانیت کی جو نئی ضرورتیں ہیں ان کو پورا کرے۔
غلط فہمیوں کا ازالہ
آج کی دنیا میں مولانا مودودیؒ کا منفی تعارف بھی کرایا جارہا ہے۔ علمی دنیا میں مولانا مودودیؒ کا پہلا تعارف جس کتاب کے ذریعے سے ہوا، وہ ’الجہاد فی الاسلام‘ تھی۔ اس کتاب میں مولانا مودود یؒ نے جہاد کی ضرورت، اس کی حکمت اور اسلام کی مجموعی تعلیم میں جہاد کے مقام کو بیان کیا ہے۔ جتنی ضروت اس زمانے میں تھی، اس سے زیادہ ضرورت آج ہے کہ جہاد کی مستند تشریح سامنے آئے۔ مولانا مودودیؒ نے بتایا کہ جہاد کی ایک قسم وہ ہے جسے دفاع کہتے ہیں۔ مدافعانہ جہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے، سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ دفاع کی ضرورت کے لیے جہاد ضروری، مناسب اور جائز ہے۔ جہاد کی دوسری قسم وہ ہے جو دنیا کو درست کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاد (دفاعی ہو یا مصلحانہ) حدود اور آداب اور شرائط کے ساتھ ہوگا۔ اس مصلحانہ جہاد کی غرض یہ ہے کہ اللہ کے دین کے راستے کی رکاوٹیں دور ہوجائیں۔ دین کی دعوت اور دین پر عمل کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہوں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مصلحانہ جہاد کرنا، جہاد کا اہم جز ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کی دنیا اس دوسری بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور دنیا کے اس رویے کا اثر خود مسلمانوں پر پڑا ہے۔ بعض لوگ قرآن و حدیث کی تصریحات کے علی الرغم اور ہماری تاریخ کے نمایاں اہلِ علم کے اقوال کے خلاف، جہاد کی غلط تعبیریں کرنے میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں مولانا مودودیؒ کے افکار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ان کی تحریروں میں جہاد کی مکمل اور واضح تشریح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اسلام پر ایمان لائے ہیں تو معقول رویہ یہ ہے کہ اسلام کی جو تعلیمات ہیں اور جیسی ہیں ان کو اسی طرح مان لیں۔ ان کی حکمت اور معقولیت ثابت کرنے کے لیے جواستدلال اسلام پیش کرتا ہے، اسی استدلال کو پیش کریں۔ اسلام پر ایمان کے دعوے کے بعد اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کرنا، یہ کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔ مولانا مودودیؒ نے یہی بات اپنے دور میں کہی اور آج بھی اسے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی دی گئی جہاد کی تعلیم معقول ہے۔ دنیا کی اصلاح کے لیے (پابند حدود و شرائط) مصلحانہ جہاد کی یقینا ضرورت ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اور کوئی نظریہ ایسا نہیں ہے جو بوقت ضرورت مصلحانہ جنگ کا انکار کرتا ہو۔ اسلام نے اس سلسلے میں جو تعلیم دی ہے اس سے زیادہ معتدل، اس سے زیادہ معقول اور اس سے بہتر تعلیم کوئی نہیں پائی جاسکتی۔ مولانا مودودیؒ نے اس سلسلے میں جو کام کیا، اس کا وسیع تعارف از سر نو کرانا چاہیے۔
مولانا مودودیؒ کے تذکرے کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس علمی و تحقیقی تحریک کو فروغ دیا جائے، جس کی ابتدا مولانا مودودیؒ نے کی تھی۔ وہ توقع رکھتے تھے کہ ان کے احباب ان کے کام کی تکمیل کریں گے، ہم سب کو اس توقع پر پورا اترنا چاہیے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ مئی ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply