گزشتہ سے پیوستہ
۳۲۔ ہدیۃ الواعظین: اس رسالے میں حضرت نے وعظ گوئی کے طریقے اور اس کے آداب سے بحث کی ہے۔ اسے بھی ندوۃ العلما کی مجلس انتظامیہ نے شائع کیا تھا۔
۳۳۔ مجموعہ قطعات تاریخ غیرمطبوعہ: حضرت کو تاریخ گوئی کا خاص ذوق تھا۔
۳۴۔ رسالۂ سماع: حضرت نے یہ رسالہ جو کافی ضخیم ہے‘ غناء صوفیہ و مزامیر کے جواز میں لکھا ہے۔ اس خاص بحث میں ایسا مدلل و مبرہن رسالہ کسی زبان میں شائع نہیں ہوا۔ یہ رسالہ قلمی ہے‘ لیکن بہت سے علما نے اس رسالے کا مطالعہ کیا ہے۔ حضرت خود صاحبِ وجد و سماع تھے اور جو کچھ کرتے تھے اس کے جواز کا پورا ثبوت رکھتے تھے‘ لیکن جو لوگ غنا و مزامیر کو مختلف فیہ سمجھ کر اس سے احتیاط کرتے تھے‘ ان کی قدر کرتے تھے اور ان کے اس پرہیز سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ حضرت نے یہ رسالہ صرف ان کے اعتراضات کے جواب میں اور یہ ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ مختلف فیہ مسائل میں نکیر نہیں کی جاسکتی‘ یہ رسالہ نہایت عالمانہ شان سے لکھا گیا ہے‘ باایں ہمہ حضرت سماع کی کثرت کو ناپسند فرماتے تھے۔
۳۵۔ امارت و طاقت تنقیدی: مولانا نے مسئلہ امارت پر بھی ایک اہم کتاب لکھی ہے جس میں اس مسئلہ پر بہت سی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ امیر یا امام بغیر تنقیدی و مادی طاقت کے نہیں ہو سکتا مولانا حکیم عبدالرئوف صاحب دانا پوری ثم کلکتوی صاحب اصح السیر نے ابتداً اس سے اختلاف فرمایا اور اس پر مزید تشفی چاہی‘ حضرت نے اس پر ایک رسالہ بزبان عربی لکھ کر مولانا کے حوالے کیا‘ بعد میں مولانا بھی حضرت کے ہم خیال ہو گئے‘ لیکن نہایت افسوس ہے کہ یہ رسالہ حضرت کے پاس سے کسی نے چوری کر لیا۔ امارت و طاقت تنقیدی کے مسئلہ میں اکابر دیوبند بھی مثلِ حضرت مولانا شرف علی صاحب و مولانا عزیز الرحمن وغیرہ بھی آپ کے ہم خیال ہیں۔
۳۶۔ در زکوٰۃ اموال ظاہرہ و باطنہ: اس رسالے میں فقہی و تاریخی حوالہ جات سے ثابت کیا گیا ہے‘ اموال باطنہ کی زکوٰۃ پر امام کا حق نہیں ہے‘ بلکہ مزکی خود اس کا منتظم ہے۔
۳۷۔ خطبہ بنت ابی جہل: حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ کے متعلق بخاری نے سورابن مخرمہ سے روایت کی ہے کہ سیدہ خاتون جنت کی موجودگی میں آپ ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوئے۔ جب نبی کریمﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے علی الاعلان فرمایا کہ رسول اﷲؐ کی بیٹی اور عدواﷲ کی بیٹی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں‘ علیؓ اگر ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں۔ جب امام علی علیہ السلام کو اس خفگی کا علم ہوا تو اپنا ارادہ فسخ کر دیا۔ حضرت نے اس روایت پر بڑی فاضلانہ بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایسا واقعہ ہی کبھی نہیں ہوا ہے۔ یہ رسالہ بھی غیرمطبوعہ ہے۔
۳۸۔ ایک مختصر رسالہ اس بارے میں بھی لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہ نے قبل حرمتِ شراب‘ شراب استعمال کی تھی یہ بالکل غلط روایت ہے‘ اس کا خلاصہ اخبار ’’منادی‘‘ میں شائع ہوا تھا۔
۳۹۔ تطہیر اہلِ بیت: یہ حضرت کا سب سے آخری رسالہ ہے جو حضرت نے اپنی وفات سے کچھ دنوں پہلے لکھا تھا اور جو اَب تک مسودہ کی شکل میں ہے۔ اس میں اپنے خیال کے مطابق اس بات پر بحث کی ہے کہ آیت تطہیر کا مورد علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ، حسینؓ ہیں۔
۴۰۔ ان کتابوں کے علاوہ وہ رسالے بھی ہیں‘ جن کا خاندان کے درود و وظائف سے تعلق ہے۔ مثلاً کبریت احمر عرف حزب البحر کلاں‘ حزب الجرحیبی‘ عقیدۂ غوثیہ‘ رحمت رحماں‘ تکبیر عاشقان‘ دعاے حیدری وغیرہ۔
۴۱۔ حضرت کے بڑے صاحبزادے مولانا حسن میاں مرحوم نے جتنی تصنیفیں کیں‘ ان میں حضرت کی کاوش کو بڑا دخل رہا۔ مولانا حسن میاں مرحوم کے چھوٹے بڑے بیس رسالے ہیں‘ جن میں تذکرۂ ابوالعجیب سہروردی‘ غم حسینؓ، شہادتِ حسینؓ، العشق‘ ترجمہ سفر نامۂ جاپان‘ علامہ عہدہ‘ میلاد الرسولؐ، ذکرِ رسولؐ، سماع موتیٰ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ حضرت کی تصانیف کی جو فہرست اوپر مندرج ہے‘ ان میں سے بعض سرے سے شائع ہی نہیں ہوئیں اور بعض شائع ہوئیں تو ہاتھوں ہاتھ نکل گئیں۔ حضرت عقیدۂ حنفی مشرب صوفی تھے۔ اعتزال کے خیالات سے متنفر اور ائمہ اہلِ بیت کے بے حد مداح تھے۔
حضرت اور ندوۃ العلماء:
حضرت نے قومی معاملات میں اس وقت سے دلچسپی لی تھی جبکہ عام طور پر علماے کرام صرف درس و تدریس کے مشاغل میں منہمک تھے اور قومی کارکن اس قدر تھوڑے تھے جو انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اور امت مسلمہ میں احساسِ بیداری و برتری پیدا کرنے کا عام تخیل سرے سے مفقود تھا۔ علماے کرام نے تعلیم جدید و قدیم کے درمیان ایک وسیع خلیج کھود رکھی تھی‘ خود علماے کرام کے درمیان باہمی رواداری کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ شرک و بدعت‘ کفر و الحاد کا ایک دوسرے پر فتویٰ دینا معمولی کام تھا نیز نظامِ تعلیم دینی بھی مدت دراز سے ایک فرسودہ عمل تھا‘ شدید ضرورت تھی کہ ایسے علما پیدا کیے جائیں جو مقتیضات زمانہ کے تقاضوں سے آگاہ ہوں‘ اس لیے کہ ورثۃ الانبیاء کی یہ جماعت قومی کشتی کی ناخدا ہے۔ حضرت شاہ سلیمان صاحب صوفی علماء میں پہلے شخص تھے جن کو یہ احساس بے چین کر رہا تھا۔ حضرتؒ کے علاوہ دو چار علما اور تھے جو اس جذبہ میں سرشار تھے۔ حسنِ اتفاق کہ ایک موقعہ پر آپ مولانا احمد حسین صاحب کانپوری کے مدرسہ میں جلسۂ دستار بندی کے لیے مدعو کیے گئے۔ حضرت مولانا محمد علی صاحب کانپوری ثم مونگیری بھی اس جلسہ میں مدعو تھے۔ اختتامِ جلسہ کے بعد حضرت مولانا محمد علی صاحب نے حضرت شاہ سلیمان صاحب کو صبح کی چائے پر مدعو کیا اور مولاناؒ نے شاہ صاحبؒ سے مسلمانوں کی تعلیمی پستی‘ علما کا جمود و غفلت‘ ان کی باہمی جنگ و جدل پھر ان کی شیرازہ بندی اور اصلاح کی اہم ترین اور فوری ضرورت پر گفتگو فرمائی۔ حضرت شاہ صاحبؒ ان تاثرات کو پہلے سے اپنے سینے میں سموئے ہوئے تھے۔ نہایت موثر انداز میں اس اسکیم کی تائید کی اور مزید مشورہ دیا کہ جلسۂ دستار بندی کے سلسلے میں جتنے علما تشریف لائے ہیں‘ سبھوں کو اکٹھا کر کے یہ چیز ان کے سامنے رکھی جائے اور ان سب کی رائیں معلوم کی جائیں۔ یہ رائے مولانا سید محمد علیؒ صاحب کو پسند آئی اور ایسا ہی کیا گیا۔ چنانچہ تمام علما کی رائے سے یہ بات طے ہوئی کہ ایک نمائندہ جلسہ ان مقاصد کے اجرا کے لیے منعقد کیا جائے۔ چنانچہ ۱۳۱۱ھ میں سب سے پہلا جلسہ کانپور محلہ طلاق محل میں ان دو ہستیوں (مولانا شاہ سلیمان‘ و مولانا سید محمد علی صاحبان رحمہ اﷲ) کی موجودگی میں ہوا‘ جس کے صدر استاذ العلما حضرت مولانا لطف اﷲ صاحبؒ تھے اور اسی جلسہ میں دارالعلوم ندوہ کی بنیاد پڑی۔
ندوۃ العلما کے ابتدائی تخیل سے لے کر اپنے آخری دورِ حیات تک مولانا سید شاہ سلیمان صاحبؒ نے اس کی خدمت کی۔ حضرت نے ندوۃ العلما کے لیے سارے جنوبی و شمالی ہند میں دورے کیے۔ کافی مدت تک لکھنؤ کی اقامت اختیار کر لی۔ اصحابِ حل و عقد کے مشورے سے شعبان ۱۳۲۰ھ میں مددگار ناظم امور متفرقات و دفتر ہوئے۔ غالباً مولانا سید محمد علی صاحبؒ حج کو تشریف لے گئے تھے‘ پھر ۱۹۰۳ء میں معتمد شعبہ اشاعت اسلام ہوئے اور کئی ماہ تک ندوۃ العلماء میں (جو اس وقت محلہ گولہ گنج میں تھا) اقامت فرمائی اور اس کی جانب سے نشر و اشاعت کا کام انجام دیتے رہے پھر مختلف حالات میں کبھی ہزہائنس نواب صاحب رام پور‘ ہزہائنس نواب صاحب بھاولپور کے یہاں وفود لے گئے تو کبھی غریب مسلمانوں اور علما و مشائخ میں دورے کیے اور ان کے بچوں کو دارالعلوم ندوۃ العلما میں داخل کرایا اور پورے جوشِ عمل سے ندوۃ کی تشویق دلائی۔ گویا حضرت کی ذات اور ندوۃ العلما لازم و ملزوم تھے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اخبار ’’صدق‘‘ میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ ’’کانفرنس (آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس) کی کامیابی و مقبولیت کا ایک ذریعہ حضرت مولاناؒ کے مواعظ ہی ہوا کرتے تھے یہی حال ندوۃ کا تھا‘ ندوۃ اور کانفرنس کے سالانہ جلسے اور حضرت مولانا کے وعظ لازم و ملزوم تھے‘‘۔
ندوۃ العلما کا کوئی وفد اور کوئی اجلاس ایسا نہ تھا جس میں حضرت کی شرکت لازمی نہ سمجھی جاتی ہو۔ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کے مکاتب (مطبوعہ معارف پریس) اس کے شاہد عدل ہیں۔ ان کے مکاتب بتاتے ہیں کہ جب وہ کسی وفد کی روانگی کے متعلق کوئی تجویز مرتب کرتے تو حضرت شاہ سلیمان صاحبؒ کی شرکت کو لازمی اور طے شدہ حقیقت سمجھتے تھے‘ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا‘ حضرت کسی خانگی ضرورت کی وجہ سے نہ جاسکے تو علامہ شبلی نعمانیؒ بذاتِ خود پھلواری پہنچے۔
ایک عظیم الشان اخلاقی تائید:
حضرت شاہ سلیمانؒ صاحب کی شرکت ندوہ سے اس علمی ادارے کو ایک ایسی عظیم الشان اخلاقی تائید حاصل ہوئی جو خاص اہمیت رکھتی ہے‘ کیونکہ ندوۃ العلماء کے خلاف ایک ایسی جماعت منظرِ عام پر آگئی تھی جس نے نیچریت وہابیت وغیرہ کا الزام لگا کر اسے عام نظروں سے گرا دینا چاہا تھا بلکہ گرا دیا تھا‘ لیکن حضرتؒ کا ندوہ کی تائید کرتے رہنا اس قسم کے پروپیگنڈے کی مجسم تردید ثابت ہوئی‘ حضرت اعتزال کے خیالات سے جس قدر متنفر تھے‘ دنیا اس سے خوب واقف تھی‘ پھر صاحب وجد و حال صوفی تھے۔ آپ کا خاندان قدامت عقیدہ و تہذیب کی یادگار تھا۔ جب قوم کے سامنے حضرت ندوہ کے سپر بن کر پیش ہو جاتے تو نیچریت کا طوفان ختم ہو جاتا اور لوگ مطمئن ہو جاتے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ حضرت کے ذاتی و خاندانی تعلقات کی وجہ سے دوسرے راسخ العقیدہ صوفیہ بھی ندوہ کے اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ حضرت ہی کی تحریک سے بعض مجلسِ انتظامیہ کے رکن بنائے گئے‘ بعضوں نے مجلسِ استقبالیہ کی صدارت کی‘ بعضوں نے اپنی اولادیں ندوہ میں تعلیم کے لیے بھیجیں‘ اس طرح ندوہ کو حضرت نے عوام میں مقبول بنایا۔
پانچ مرتبہ صدارت:
۱۹۲۰ء کی تحریک ترکِ موالات سے پہلے علماے ہند کی سب سے بڑی یا غالباً تنہا جماعت یہی ندوہ تھی۔ قوم و حکومت دونوں پر اس کا اثر تھا‘ حضرت کی خدماتِ ندوہ کی مقبولیت کا اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے پانچ مرتبہ ندوۃ العلما کے سالانہ جلسوں کی صدارت فرمائی‘ آپ کی آخری صدارت ندوۃ العلما کے سب سے شاندار اجلاس منعقدہ مدراس میں ہوئی جس میں (سر عبدالرحیم سابق جسٹس مدراس ہائی کورٹ موجودہ صدر سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی) مجلسِ استقبالیہ کے صدر تھے۔ حضرتؒ نے مسلسل تین چار ماہ مدراس میں صرف کر کے کام کو آگے بڑھایا اور ندوہ کو مدراس سے بہت بڑی مالی امداد دلوائی۔
آخری یادگار خدمت:
حضرت شاہ صاحبؒ پر جب ضعف پیری غالب ہو گیا اور مسلسل دورۂ سفر کرنے کے لائق نہ رہے‘ نیز رجحانات عامہ سیاسی اور جدید تحریکات کی طرف منعطف ہو گئے تو ایک خالص تعلیمی اصلاحی ادارہ کے لیے کسی جوش عمل کا مظاہرہ بہت دشوار تھا لیکن ان حالات میں بھی آپ نے ندوۃ کے مفاد کو ضائع نہ ہونے دیا۔ حضرتؒ لکھنؤ میں رانی قمر زماں بیگم آف نانپارہ کے یہاں مقیم تھے جو حضرت کو نہ فقط اپنا مرشد بلکہ اپنا باپ تصور کرتی تھیں‘ رانی صاحب کو کوئی اولاد نہ تھی‘ اس لیے ان کو اپنی جائیداد کی بڑی فکر تھی اور وہ کسی صحیح مصرف کی تلاش میں تھیں اور اپنی حیات میں ہی اس کا صحیح مصرف متعین کر کے وثیقہ تعمیل کر دینا چاہتی تھیں۔ حضرت سے انہوں نے اپنی رائے ظاہر کی‘ حضرت نے انہیں دارالعلوم ندوہ کے نام وقف کر دینے کا مشورہ دیا اور اپنا پورا اثر و رسوخ صرف کر کے انہیں اس کارِ خیر کے لیے تیار کر لیا۔ حضرت کئی ماہ وہاں مقیم رہے اور جب تک انہوں نے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ ندوۃ کے لیے وقف نہ کیا اور حضرت کو مطمئن نہ کر دیا اس وقت تک وطن تشریف نہ لائے۔ وثیقہ تیار کیا گیا اور معززینِ شہر کی گواہیاں بھی ثبت ہو گئیں‘ صرف باضابطہ رجسٹری باقی تھی کہ رانی صاحبہ کا اچانک انتقال ہو گیا۔ حضرت وطن میں تھے لیکن ساری خبریں مل رہی تھیں۔ رانی صاحبہ کے بعد سخت افراتفری ہوئی۔ ہر طرف سے دعویدار امڈ آئے‘ کوئی فریق بھی ندوۃ کا خیرخواہ نہ تھا۔ نہ یہ چاہتا تھا کہ اتنی زیادہ آمدنی ندوۃ کے حق میں جائے‘ یہاں تک کہ رانی صاحبہ نے جو وثیقہ کیا تھا وہ بھی غائب کرا دیا گیا۔ حضرتؒ نے ضعف پیری کے باوجود لکھنؤ کا سفر اختیار کیا اور حسبِ معمول رانی صاحبہ کی کوٹھی پر مقیم ہوئے‘ جہاں اب رانی صاحبہ موجود نہ تھیں‘ رانی صاحبہ کے معتمدین میں بعض ایسے لوگ تھے‘ جنہیں حضرت سے بیعت تھی اور کوٹھی کے سب لوگوں پر حضرت کا روحانی اقتدار تھا‘ حضرت نے اپنے اثرات کو کام میں لاکر پہلے وثیقہ برآمد کرایا‘ پھر یہ وثیقہ ذمہ دارانِ ندوۃ کے ہاتھوں پہنچا دیا گیا۔ دوسری طرف اکثر ورثا کو اس بات کی طرف مائل کیا کہ وہ ندوۃ کے حق میں مزاحمت نہ کریں۔ حضرت ان کاموں کی تکمیل کے بعد مکان واپس آئے۔ خیال تھا کہ اب مزاحمتوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا لیکن پھر بھی مزاحمتیں شروع ہو گئیں۔ اب اہلِ ندوۃ کے لیے بجز عدالت کے دروازہ کے اور کوئی صورت وصولِ حق کی نہ تھی۔ ندوۃ کی طرف سے مقدمہ دائر کیا گیا۔ اس مقدمہ میں حضرت کی گواہی ناگزیر تھی‘ ضعفِ قوی کی وجہ سے اہلِ ندوۃ نے حضرت کو تکلیفِ سفر نہ دی اور کمیشن کے ذریعہ پھلواروی شریف ہی میں اظہار لینے کی تجویز کی۔ صوبہ بہار کے لیے وہ زمانہ قیامتِ صغریٰ کا تھا۔ زلزلے کے پیہم جھٹکے انسانی ہوش و حواس گم کر چکے تھے‘ خود حضرت کے مکان کا بیشتر حصہ منہدم باختہ و خراب ہو چکا تھا‘ ایسے موقع پر بھی حضرتؒ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ کمیشن کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہو گئے۔ کمیشن آیا اور دو دن تک مسلسل جرحیں ہوتی رہیں اور ہر دن آٹھ دس گھنٹے مسلسل یہ سلسلہ رہا۔ حضرت کی گواہی اتنی موثر اور طاقتور رہی کہ فریقوں کو بالآخر ندوۃ سے صلح کر لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔ اس کمیشن کی کامیاب واپسی کے بعد مولانا ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب ناظم ندوۃ نے اپنے ایک مکتوب گرامی میں مکتوب فرمایا کہ:
’’ندوۃ جناب کے اس احسانِ عظیم سے کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتا‘‘۔
پھر تمام معاملات کے بحسن و خوبی انجام پاچکنے کے بعد جناب ناظم صاحب ممدوح نے اپنے ایک دوسرے مکتوب مورخہ ۱۰ اپریل ۱۹۳۵ء میں تحریر فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ حضرت کو صحت و توانائی عطا فرمائے اور آپ کا سایہ ہم لوگوں کے سروں پر عرصہ دراز تک قائم رکھے۔ مقدمۂ وقف کے حسبِ خواہ فیصلہ سے جس قدر مسرت جنابِ والا کو ہوئی ہے وہ اس خلوص اور سچی ہمدردی کی بنا پر ہے جو جنابِ والا کو ابتداے قیام ندوۃ سے اب تک ہے اور یہ خدمت جنابِ والا کی ندوۃ کے ساتھ ایسی ہے جو ہمیشہ یادگار رہے گی اور ہمیشہ اﷲ تعالیٰ آپ کو اس کارِ خیر کا ثواب دیتا رہے گا۔ ندوۃ کو اس مقدمہ کی رو سے کم و بیش ۲۰ ہزار روپیہ سالانہ کی جائیداد حاصل ہوئی‘‘۔
ندوۃ العلما کے علاوہ حضرت شاہ سلیمان صاحبؒ ایجوکیشنل کانفرنس‘ حمایت الاسلام لاہور‘ ڈھاکہ یونیورسٹی وغیرہ کی بنیادی خدمت میں پیش پیش رہے۔ الغرض ساری عمر امتِ اسلامیہ کی خدمت میں بسر کی۔ وہ مسلمانانِ برصغیر کی تاریخِ حاضرہ کے بنانے میں تھے۔ وہ سب سے پہلے صوفی عالم تھے جن کی وقعت سرسید احمد خاں کے دل میں متمکن ہوئی اور انہوں نے اپنے اخبار ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں ان کے مواعظ شائع کیے اور گو سر سید کے مذہبی خیالات سے وہ بالکل مختلف تھے لیکن تعلیمِ جدید کی ترویج میں وہ ان کے حامی تھے۔ آخرالامر پچاس سال کی لازوال خدمات کے بعد یہ عالم و واعظ شیریں مقال ۲۷ صفر ۱۳۵۴ھ بروز جمعہ مطابق ۳۱ مئی ۱۹۳۵ء کی صبح کو چھ بج کر ۵۵ منٹ پر رفیقِ اعلیٰ سے جاملا اور شاہی مسجد پھلواروی شریف (المعروف سنگی مسجد) کے مشرقی دروازے کے قریب سپردِ خاک کر دیا گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
(’’الندوۃ‘‘۔ مئی ۱۹۴۲ء)
Leave a Reply