شام اور عرب لیگ: انجام کیا ہوگا؟

مذاکرات اور مصالحت کے امکانات معدوم تر ہوتے جارہے ہیں اور عسکری مداخلت کے لیے صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔

شام میں گیارہ ماہ قبل حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو بیشتر مخالفین اس بات کے خلاف تھے کہ سیکورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں۔ مگر اب تک چھ ہزار سے زائد افراد کی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اب ذہن تبدیل ہوچکا ہے۔ فورسز نے کئی شہروں میں خاصی سفاکی سے کریک ڈاؤن کرکے حکومت کے خلاف پرامن مظاہرے کرنے والوں کو بھون ڈالا ہے۔ شامی اپوزیشن کے جلا وطن گروپ سیرین نیشنل کونسل نے ملک میں محفوظ علاقے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ کونسل نے فورسز سے منحرف ہونے والے فوجیوں پر مشتمل فری سیرین آرمی کی بھی حمایت کی ہے جو فورسز کے خلاف حملوں کی قیادت کر رہی ہے۔ کونسل کے چیئرمین برہان غالیون کا کہنا ہے کہ منحرف فوجی صرف شہریوں کو تحفظ دینے پر مامور ہیں۔ دمشق کے قانون اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن رازان زیتونی کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک کے گیارہ ماہ بعد اب عوام چاہتے ہیں کہ قتل عام کسی نہ کسی طرح روکا جائے۔ امریکا اور برطانیہ میں جارج واکر بش پر اثر انداز ہونے والے کئی تھنک ٹینک شامی حکومت کے خلاف بین الاقوامی کارروائی کی وکالت کر رہے ہیں۔

بیرونی مداخلت کی بات اس لیے بھی کی جارہی ہے کہ عرب لیگ شام کی حکومت کو قتل عام سے روکنے، قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کرنے اور بشارالاسد کو اقتدار سے الگ ہونے پر رضامند کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ عرب لیگ کا ایک مبصر مشن ۲۷ دسمبر کو شام بھیجا گیا۔ اس مشن کی میعاد ایک ماہ تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ مشن قتلِ عام روکنے میں کامیاب ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایک ماہ کے دوران فورسز نے مزید ۲۲۰ افراد کو موت کے گھات اتار دیا۔ (اب مشن کے قیام کی میعاد میں ایک ماہ کی توسیع کردی گئی ہے)۔

عرب لیگ نے ۱۵۰؍ارکان پر مشتمل مبصر مشن جس میں سے ۷۰ فی الحال وہاں پہنچے ہیں، اس وقت بھیجے جب شام کی حکومت نے کریک ڈاؤن میں نرمی کا وعدہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ بشارالاسد انتظامیہ نے شہروں سے ٹینک ہٹانے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ

بھی بھلادیا۔ عرب لیگ کا کہنا ہے کہ ساڑھے تین ہزار قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے جبکہ منحرفین اور مخالفین کہتے ہیں کہ یہ محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ نیو یارک میں قائم گروپ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ شامی افواج نے عوام کو نشانہ بنانے کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ ترک نہیں کیا بلکہ تیز تر کردیا ہے۔ شام کی اپوزیشن نے عرب لیگ کے مبصرین کی غیر جانبداری کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مبصر مشن کے سربراہ مصطفٰی الدابی سوڈان کے سابق انٹیلی جنس چیف ہیں۔ ان پر ۱۹۹۰ء میں دارفر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ عرب پارلیمنٹ نے بھی مبصر مشن کی میعاد ختم کرکے اسے واپس بلانے پر زور دیا تھا۔

شام کے خلاف کسی بھی بین الاقوامی کارروائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ روس ہے جو چاہتا ہے کہ شام کے خلاف کوئی بھی کارروائی اس کی شرائط کے مطابق کی جائے۔ دسمبر کے وسط میں روس کے مندوب نے پابندیوں سے متعلق قرارداد کا مسودہ تقسیم کیا جسے مغربی حکومتوں نے مسترد کردیا۔ روس نے بشارالاسد انتظامیہ کی بساط لپیٹے جانے کی اب تک مخالفت کی ہے۔ اگر مبصر مشن اور دیگر تنظیموں نے شامی حکومت کے خلاف جامع رپورٹس دیں تو روس کے لیے بین الاقوامی پابندیوں کی راہ میں زیادہ دیر تک دیوار بنے رہنا ممکن نہ ہوگا۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۷جنوری ۲۰۱۲ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*