
پانچ ہزارسال سے مستقل آباد شہر حلب کا مشرقی حصہ بالآخر اپنے مکینوں سے خالی ہوگیا۔ اور اپنے پیچھے ہزاروں سال کی ثقافت پر مشتمل کھنڈرات کا لامتناہی سلسلہ چھوڑ گیا، جس میں ہزاروں شہریوں کی لاشیں بھی دفن ہیں۔ کچھ دن میں ان کھنڈرات کا ملبہ صاف کردیا جائے گا اور نئے سرے سے ایک نئے شہر کی تعمیر ہوگی۔اس کے مکین کون ہو ں گے، اس کا ابھی کوئی اندازہ نہیں ہے۔ نیا شہر نئے مکینوں کی آمد کے ساتھ ایک نئی ثقافت کا مظہر بن جائے گا اور پرانے مکین کسی کیمپ کے مستقل باشندے بن کر رہ جائیں گے ۔ واضح رہے کہ پور ا حلب ابھی خالی نہیں ہوا ہے، ریاست کے مغربی حصے کو ابھی ایک تاریخ رقم کرنے کا انتظار ہے، شہریوں کے مکمل انخلا کے بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف اصطلاحیں استعمال کی ہیں کسی نے اسے سقوط کہا، کسی نے انخلا اور کسی نے اسے آزادی سے تعبیر کیا۔
دنیا کے ماہرین نے اپنے اپنے نظریے سے اس شہر کی تباہی کی تاویلات کی ہیں۔ روس ایران اورلبنان کی حزب اللہ نے اسے آزادی قرار دیا ہے جب کہ امریکا، ترکی اور سعودی عرب نے اسے سقوط قرار دیا ہے۔ ماہرین کی رائے میں یہ امریکا اور یورپ کے اوپر ایران اورروس کی فتح ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ روس نے افغانستان اورعراق میں امریکا کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ شام میں لے لیا ہے۔ مسلم دنیا میں اسے شیعوں اور سنیوں کے مابین ایک جنگ تصور کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ شیعہ مملکت ایران نے شام میں بسنے والی ۵۸فیصد سنی آبادی کو مسلکی بنیادوں پر تہہ و تیغ کرنے کا جو بیڑا اٹھایا تھا روس کی مدد سے وہ کامیاب ہوگیا۔ کامیابی اور ناکامیابی کے سہرے چاہے جس کے سر بندھیں تلخ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ۵سال میں شام کی کل سوا دو کروڑ کی آبادی میں سے سوا کروڑ آبادی خانما برباد کردی گئی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ۶ لاکھ لوگ قتل کیے جاچکے ہیں اور ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ دنیا بھر کے کسی نہ کسی کیمپ میں بھکاریوں کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ شام کے عظیم الشان شہر حلب، ادلب، ہما، حمص کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں اور عام شہری زندگی مفقود ہوچکی ہے اور اس بنیاد پر اقوام متحدہ نے قضیہ شام کو اس صدی کا سب سے بڑا بحران قرار دیا ہے۔ حیر ت کی بات یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سال سے جاری اس بحران کو عالمی ادارے سب سے زیادہ بھیانک اور ہلاکت خیز تو قرار دے رہے ہیں، لیکن اس ہلاکت خیزی کو روکنے کے لیے مؤثر اور وافر اقدامات کسی بھی عالمی ادارے نے نہیں کیے۔ شام جلتا رہا اور اقوام متحدہ قراردادیں پاس کرتا رہا۔ چار سال میں آٹھ قرار دادیں پاس کرکے جنگ بندی کی باربار کوشش کی گئی لیکن ہر بار یہ جنگ بندی چوبیس گھنٹے سے زیادہ مؤثر نہ ہوسکی۔ واضح رہے کہ ہر مرتبہ یہ عارضی جنگ بندی سامانِ رسد متاثرین تک پہنچانے کے لیے محفوظ راہداری کے حصول کی خاطر کی گئی تھی اورجنگ بندی کی مدت کبھی بھی ایک ہفتے سے زیادہ طے نہیں کی گئی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ دنیا میں قیام امن کی دہائی دینے والا سب سے بڑا عالمی ادارہ شام میں پائیدار امن کے لیے فریقین کو کبھی آمادہ نہیں کر سکا۔
مارچ ۲۰۱۱ء میں تیونس سے شروع ہونے والے بہار عرب نامی عوامی انقلاب نے اس خطے کے ۱۷؍ممالک کو ایک ساتھ متاثر کیا تھا۔ یہ انقلاب احیائے جمہوریت کے نعرے کے ساتھ شروع ہو ا تھا۔ یہ وہی جمہوریت ہے جس کا تقاضا عالمی ادارے ہر ملک سے بااصرار کرتے رہے ہیں، اسی جمہوریت کو پُرامن عوامی زندگی کا مژدہ جانفزا قرار دیا جاتارہا ہے اور اسی جمہوریت کو مہذب دنیا کی بہترین حکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔لیکن کتنا عجیب تماشہ ہے کہ کسی خطے میں اگر عوام ڈکٹیٹر شپ اور شہنشاہیت کا جوّا اپنے گردن سے اتارکر پھینکنے کے لیے بر سرپیکار ہو جائیں یہی عالمی ادارے ان کی اس خواہش کا احترام کرنے کے بجائے ان پر ایک لامتناہی جنگ تھوپ دیتے ہیں اور پھر اسے خانہ جنگی کا فرضی نام دے کر اور دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر نہتے بے قصور عوام کے قتل عام کو اپنے لیے جائز قرار دے دیتے ہیں۔ شام کی شورش اس سازش کا تازہ ترین نمونہ ہے جو یہ ظاہر کرتاہے کہ عالمی طاقتیں دنیا بھر میں محض اپنی ’’خلافت‘‘ کے قیام کے لیے کوشاں ہیں اور اس غرض سے انہیں جمہوریت، سیکولرازم، سوشلزم وغیرہ وغیرہ جیسے افکار ونظریات سے مطلق دلچسپی نہیں ہے۔ کبھی الجزائر میں، کبھی فلسطین میں اورکبھی مصر میں جمہوری طریقوں سے چُنی ہوئی جماعتوں کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر حکومتیں چھین لی جاتی ہیں۔ اور کہیں خاندانی وراثت کے نام پر جاری شہنشاہیت کو قبول کرکے یہی قوتیں ان کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم رکھتی ہیں۔کہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ چُنی ہوئی حکومتوں کو فوج کے ذریعے بے دخل کرکے اپنی مرضی کے حکمراں مسلط کردیے جاتے ہیں۔ شام کامعاملہ ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔ انسانی تاریخ نے ظالم حکمراں پہلے بھی بہت دیکھے ہیں لیکن ایسا شاید پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک جابر حکمراں اپنے ہی ملک کی ۶۰فیصد آبادی کو ملک بدر کر دے یا قتل کردے اور ملک پر اس کا قبضہ محض ۳۰ فیصد رہ جائے تب بھی عالمی برادری نہ صرف یہ کہ اسے ملک کا جائز حکمراں تسلیم کرے بلکہ اس کے جبر کو فروغ دینے کے لیے اپنی اپنی عسکری قوتوں کا بھی بے دریغ استعمال کرے۔
خطے کے دیگر ممالک کی طرح شام میں بھی چند جمہوریت پسند اپنے ملک میں آمریت کے خاتمے کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوئے تھے اور دمشق کی سڑکوں پر اپنے مطالبے کی حمایت میں چند نعرے لکھے تھے، بس اسی قصور میں ان جمہوریت پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا اور ان میں سے ایک کو انتہائی اذیت دے کر قتل کیا گیا اور سڑک کے چوراہے پر ٹانگ دیا گیا اس کے بعد عوامی اشتعال میں اضافہ ہوا اور درعا کے عوام مظاہرین کی صورت میں سڑکوں پر نکل آئے، ان مظاہرین کے ہاتھوں میں نہ بندوقیں تھیں، نہ میزائل اورنہ ہی بم، بلکہ عام مظاہرین کی طرح اپنے مطالبے لکھی ہوئی تختیاں ہاتھوں میں اٹھائے نعرے بلند کرنے والوں کی بھیڑ تھی۔ لیکن تیونس اور مصر کے انجام سے خوفزدہ شام کے حکمراں بشارالاسد کو یہ پُرامن مظاہرے بھی گوارا نہیں ہوئے اور اپنی حکومت بچانے کی خاطر اپنے والد کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے ان مظاہرین کا بے دریغ قتل عام کردیا گیا، جس نے اشتعال کو مزید ہوا دی اور پورے ملک میں حریت پسند سڑکوں پر آگئے۔ فوج کے بڑے حصے نے بغاوت کی۔ بشار کا ظلم جیسے جیسے بڑھتا گیا تحریک بھی ویسے ویسے بڑھتی چلی گئی، اُس وقت اس تحریک میں صرف شام کے شہری شریک تھے۔ نہ امریکا تھا نہ روس، نہ عرب نہ ایران اور نہ ہی دہشت گرد تنظیم ان کے پیچھے تھی۔ لیکن مظاہرین کی سرکوبی کے لیے جب جہازوں سے بم برسانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تب قریب کی غیر ملکی قوتوں نے بھی ان مظاہروں کو ہائی جیک کرلیا اور یہاں سے اس خونین کھیل کا آغاز ہوتاہے۔ مظاہرین کا مطالبہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ اور جمہوریت کے احیا کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آج مہذب دنیا میں اسے عوام کا جائز ترین مطالبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن اسے سازش کے سواکیا کہا جاسکتا ہے کہ شامی شہریوں کے اس مہذب ترین مطالبے کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیاگیا۔
اس حقیقت سے شاید کم ہی لوگ واقف ہوں گے کہ اس مطالبے کو اُس وقت قبول کرلیا جاتا تو تیونس اور مصر کی طرح اسلام پسندوں کا انتخابات میں جیت جانا شام میں بھی یقینی تھا اور اسرائیل کے منہ پر واقع شام میں اسلام پسندوں کا حکمراں بن جانا اسرائیل کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین میں حماس کے بعد اگر اسرائیل کی تیسری سرحد پر واقع شام میں بھی اسلام پسند حکمراں ہوجاتے تو اسرائیل چاروں طرف سے گھر جاتا، یہی وہ بڑا خطرہ تھا جس نے امریکا کو اسرائیل کے تحفظ کی خاطر مجبور کردیا کہ وہ بشارالاسد جیسے جابر حکمراں کو قائم رکھے اور جمہوریت پسندوں کو منشتر کرکے ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے ہتھیار تھمادے اور القاعدہ اور طالبان جیسی تنظیموں کو بھی شام میں سرگرم کردے۔ امریکا کی یہ حکمت دو اغراض پر مشتمل تھی۔ ایک تو یہ کہ اعلان کیے بغیروہ بشار الاسد کی حمایت کرتے رہیں اور دوسری جانب کوئی پسندیدہ متبادل حاصل ہونے تک ملک میں خانہ جنگی کو جاری رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ سال تک قضیہ کا حل سامنے نہیں آیا اور آج بھی شام بدستور جل رہا ہے۔ اور اب یہ ملک دونوں عالمی طاقتوں کے شطرنج کی ایک بساط بن چکا ہے، جہاں امریکا اور روس اپنے اقتدار کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ایران، عرب، ترک اورکرد، اس کھیل کے مہرے ہیں اور شامی عوام مقتول پیادے ہیں۔ شہہ ومات کے اس کھیل میں پہلی فتح روس اور ایران کے حصے میں آتو گئی ہے لیکن آخری فتح کس کے حصے میں جائے گی، یہ دیکھنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔
آج کی صورت حال یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی تمام تر عسکری قوتوں کے باوجود شام کے محض ۳۰فیصد حصے پر ہی بشارالاسد کا قبضہ ہے، جب کہ شمالی شام کے ۳۰ فیصد حصے پر جمہوریت نواز مسلم عسکری گروپ آج بھی قابض ہے اور کسی بھی عالمی ادارے نے ان گروہوں کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا ہے، جب کہ بقیہ ۴۰فیصد حصے پر دنیا کی بدنام ترین دہشت گرد تنظیم داعش کا قبضہ ہے، جس کی راجدھانی شام کا شہر الرقہ بتایا جاتا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جسے گزشتہ سال پیرس میں ہوئے حملے کے بعد فرانس کے جہازوں نے یہ کہہ کر حملہ کیاتھا کہ وہ داعش کا نام ونشان مٹا دیں گے، لیکن ۱۳۲ فرانسیسی شہریوں کے قتل کے انتقام میں الرقہ کے ۵۰۰ شہریوں کو بم سے اڑا دینے کے بعد فرانس کے جہاز بھی چپ چاپ واپس آگئے اور داعش اپنی جگہ پھلتا پھولتا رہا۔
دنیا کے مہذب شہریوں، جمہوریت پسندوں، انصاف پسندوں اور حریت پسندوں کو بلالحاظ تفریق مذہب وملت عالمی اداروں سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے اگر وہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے معاملے میں ہی سنجیدہ ہیں تو داعش کے مقبوضہ ۴۰فیصد شام کو آزاد کرانے کے لیے روسی، ایرانی، امریکی، فرانسیسی، جرمنی، عربی اور ہندوستانی فوجوں نے الرقہ کو آزاد کیوں نہیں کرایا۔ اور کس بنیاد پر حلب کو منتخب کیا گیا کہ جہاں نہ صرف یہ کہ داعش کا کوئی تصرف نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حزب اختلاف کے مزاحمت کار حکمراں تھے۔ دنیا کو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ان مزاحمت کاروں نے بشارالاسد اور ان کے حلیفوں کے جدید ترین ہتھیاروں کے مقابلے میں محض چند فرسودہ بندوقوں اور کارتوسوں کے ذریعے اپنے شہر کی حفاظت کی تھی۔ گزشتہ پانچ سال میں تمام فوجیں مل کر بھی حلب کے ان مزاحمت کاروں کو زمینی جنگ میں شکست دینے میں ناکام رہی تھیں۔ مہلک ترین ہوائی حملوں کے ذریعے ہی ان مزاحمت کاروں کو حلب سے بے دخل کرنے میں کامیابی مل سکی ہے۔
سقوطِ حلب بجا ئے خود ایک سوال بن گیا ہے۔ آیا شام کی جنگ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے، یا اسلام کے خلاف غیر اسلام کی معرکہ آرائی کا میدانِ کارزار ہے۔ کیا حلب کی حزب اختلاف کا خاتمہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ بالآخر شام میں داعش اور بشارالاسد کے سوا کوئی حزب اختلاف باقی نہ رہے اور اس صورت میں ایک دہشت گرد کے مقابلے ایک جابر حکمراں کو جاری رکھنے کا جواز حاصل ہو جائے؟
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل بھارت کے صدر ہیں )
An eye opener article