ہر روز شام کو شام کا سرکاری ٹیلی وژن دل دہلا دینے والا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ گولیوں سے چھلنی لاشیں خبروں کے درمیان دکھائی دیتی ہیں اور بعض کے تو سر کا پچھلا حصہ اڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہ لاشیں فوجیوں کی ہوتی ہیں جن کے بارے میں سرکاری ٹی وی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انہیں حکومت کے مخالف ہتھیار بند مجرموں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
ٹی وی پر ایک نوجوان فوجی افسر کی لاش دکھائی گئی جس کی آنکھیں تیز دھار والے ہتھیاروں یا اوزاروں سے نکال لی گئی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اصلی لاشیں ہیں اور ان سیکیورٹی اہلکاروں کی ہیں جنہیں شورش زدہ علاقوں میں قتل کیا گیا۔ ان اہلکاروں کے اہل خانہ کی آہ و بکا دل دہلانے اور طبیعت کو اداس کرنے والی ہے۔ محمد علی، ابراہیم حوص، احمد عبداللہ، ندا الحوشی، باسل علی، حازم محمد علی اور محمد اعلیٰ کو غسل دے کر کفن پہنانے کے بعد تدفین کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ ان کی لاشیں شورش زدہ علاقوں سے دمشق کے ایک ہسپتال لائی گئی تھیں۔ انہیں تارتوز، بنیاس، دمشق اور الیپو کے علاقوں میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ندا الحوشی کی میت جب تدفین کے لیے لے جائی جارہی تھی تب نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کیا جس کا سیکیورٹی اہلکاروں نے منہ توڑ جواب دیا۔
سیکیورٹی اہلکاروں کی میتوں کو دیکھ کر بھی ظاہر ہے کہ دکھ ہی ہوگا مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ میت کے جلوسوں پر فوج نے کئی بار فائرنگ کی ہے جس میں درجنوں افراد مارے گئے ہیں۔ ایک ماہ میں ۳۲۰ سے زائد مظاہرین موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں مگر سرکاری ٹی وی نے اب تک کسی ایک کی بھی لاش یا جنازے کا جلوس نہیں دکھایا۔ مختلف ذرائع کے دعووں کے مطابق شام میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک حکومت کے ۴۰۰ سے زائد مخالفین مارے جاچکے ہیں۔ جنازے کے جلوسوں پر سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کوئی نئی بات نہیں۔
سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی لاشیں اہم ہیں۔ ان لاشوں کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو انہیں حکومت کے مخالفین نے مارا ہے یا پھر پولیس اور فوج کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے لواحقین نے اپنے پیاروں کا بدلہ لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن اب طاقت کا جواب طاقت سے دینا چاہتی ہے۔ اگر حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے کہ مسلح گروہ دمشق اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں تو پھر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شام خانہ جنگی کی راہ پر گامزن ہے۔
شام میں جمہوریت کے حامی یا صدر بشارالاسد کے مخالف اب تک جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کا احوال انٹرنیٹ کے ذریعے ہم تک پہنچتا رہا ہے۔ یو ٹیوب پر بہت کچھ دکھادیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شامی حکومت نے مظاہرین کو طاقت سے کچلنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں حما کے قتل عام کے بعد کسی کے ذہن میں اس حوالے سے کوئی شبہ نہیں رہا کہ شام کی بعث پارٹی حما کے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ اس صورت حال کا ایک اور خطرناک اور قابل افسوس پہلو بھی ہے۔ دراعہ سے ٹیلی فون کے ذریعے بیرونی دنیاکو کچھ بتانے کی جسارت کرنے والوں نے انکشاف کیا کہ حکومت نے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر سخت پہرہ بٹھا رکھا ہے اور یہ کہ سرکاری ٹی وی پر دکھائی جانے والی لاشیں ان سکیورٹی اہلکاروں کی ہیں جنہوں نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا اور اس انکار پر انہیں فی الفور موت کی سزا دی گئی۔ اس گھناؤنے جرم کو بھی مظاہرین کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تاکہ اپنی مظلومیت کا راگ زیادہ آزادی اور آسانی سے الاپا جاسکے۔ حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ دراعہ کے عوام نے مسلح غنڈوں سے دفاع کے لیے فوج کو خود بلایا تھا! اب سوال یہ ہے کہ ایسے دعووئں کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کون کرے؟ شام کی حکومت نے غیر ملکی صحافیوں کو تو ملک میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ آزاد اور غیر جانبدار ذرائع سے کسی بھی بات کی تصدیق دشوار امر ہے۔ وزارت داخلہ نے سیاحت کی وزارت کو مشرق وسطیٰ کے رپورٹروں، تجزیہ کاروں اور فوٹو گرافروں کی ایک جامع فہرست دے رکھی ہے تاکہ کوئی بھی غیر ملکی صحافی سیاح کے بھیس میں پالمراکے مقام پر رومن دور کے آثار کا مشاہدہ کرنے کے بہانے ملک میں داخل نہ ہوسکے!
جو کچھ شام کے ٹی وی پر دکھایا جارہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تاریخ افواہوں سے شروع ہوتی ہے۔ شامی ٹی وی پر دکھایا اور بتایا جارہا ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتے۔ درست ہے، مگر کون سے شہید؟ دراعہ شہر پر فورسز کی کارروائی نے درجنوں جانیں لیں۔ بشارالاسد کے چھوٹے بھائی مہر الاسد کی کمان میں جب فورتھ بریگیڈ نے دراعہ شہر پر ٹینکوں کے ذریعے چڑھائی کی تو وہاں پہلے سے موجود ففتھ بریگیڈ نے، جس کی قیادت رفاعی نامی افسر کر رہا تھا، اپنی توپوں کا رخ فورتھ بریگیڈ کی طرف کردیا۔ یہ تو سرکاری بیان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ففتھ بریگیڈ کے پاس ٹینک نہیں۔ اور اس میں ایئر فورس کے ایسے افسران بھی شامل ہیں جنہیں طیارہ اڑانے کی اجازت نہیں۔ جب فورسز کا یہ حال ہے تو سوچیے کہ شہریوں کا حال کیا ہوگا۔ دمشق سے دراعہ دور ہے اور لبنان کا دارالحکومت لبنان قریب ہے۔ لبنان میں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ قتل و غارت دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ لبنان میں شامی حکومت کے حامی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ سعودی حکومت لبنانی حکومت کے خلاف اٹھنے والے عوامی طوفان کا رخ شام کی طرف موڑ رہی ہے۔ ایک سابق وزیر نے ٹی وی پر تین لاکھ ڈالروں کے ایسے چیک پیش کیے ہیں جن پر سعودی عرب کے سابق وزیر انٹیلی جینس شہزادہ ترکی بن عبدالعزیز کے دستخط ہیں۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ یہ رقم لبنان کے ان سیاست دانوں کو دی گئی تھی جن کا کام شام میں ہنگاموں کی راہ ہموار کرنا تھا۔ جن لبنانی سیاست دانوں پر شام کی ہنگامہ آرائی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے ان میں سابق وزیر محمد بیدون بھی شامل ہیں۔ سعودی شہزادے نے لبنان کے سیاست دانوں کو رقوم دینے سے سے متعلق الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ شام کی مدد سے کام کرنے والی حزب اللہ بھی اس حوالے سے میدان میں نکل آئی ہے اور کم از کم ایک ایم پی احمد فتفت نے بھی لبنان پر کچھ اسی قسم کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ بات اب واضح ہوچلی ہے کہ حزب اللہ لبنان میں خانہ جنگی کی تیاری کر رہی ہے۔
شام کے میڈیا نے اب یہ کہا ہے کہ لبنان کے ایک سیاست دان اوکب صدر کو ایک اسرائیلی انٹیلی جنس افسر کے ساتھ بنیاس سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اوکب صدر لبنان میں خیریت سے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ بنیاس جائیں گے بھی تو زخمی مظاہرین کے لیے خون کا عطیہ دینے۔ بہر حال، اس میں کوئی شک نہیں کہ شام میں بڑھتی ہوئی ہنگامہ آرائی سے لبنان میں خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ لبنان کے سرحدی علاقوں میں لوگ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کہیں لڑائی ان کے دروازے تک نہ پہنچ جائے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ شام کی ملیشیا موومنٹ کے سربراہ علی عائد نے علاوی ماؤنٹین کے علاقے جبل محسن سے نکل کر اپنی تحریک کی کمان بیٹے رفعت کو سونپ دی ہے اور خود لبنان سے ملحق سرحد کے نزدیک ایک شاندار ولا میں رہائش اختیار کرلی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۲۷؍اپریل۲۰۱۱ء)
Leave a Reply