
دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ انتشار اور عدم استحکام کا شکار کوئی علاقہ ہے تو یقینی طور پر وہ مشرقِ وسطیٰ ہے اور مشرق وسطیٰ میں انتشار اور عدم استحکام کا محور و مرکز اس وقت شام بنا ہوا ہے کہ جس میں دنیا اور خطے کی تمام چھوٹی بڑی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف چومکھی لڑائی میں مصروفِ عمل ہیں اور تقریباً سبھی قوتیں اس بات کی بھی دعویدار ہیں کہ وہ داعش کے خلاف مصروفِ جنگ ہیں اور انہی میں سے بعض داعش اور بشارالاسد حکومت دونوں کے خاتمے کی خواہش کا شدید اظہار کررہی ہیں۔ البتہ بشار حکومت کا خاتمہ ان قوتوں کی اولین ترجیح ہے۔
مشرق وسطیٰ کے اس جاری قضیے میں سبھی قوتیں (امریکا، اسرائیل، ترکی، مغرب، روس، ایران اور چین و دیگر) اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ اس قضیے میں کون کس کا حریف اور کون حلیف ہے، کون انتشار کو فروغ اور کون امن و استحکام کا آرزومند ہے اور اس قضیے سے سب سے زیادہ کون مستفید ہورہا ہے۔ اس پر بات کرنے سے قبل اس قضیے کے پس منظر اور خطے سے متعلق امریکی عزائم کو سمجھنا لازم ہے۔
یوں تو مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی اہداف کی فہرست زیادہ طویل نہیں ہے تاہم اس خطے سے متعلق امریکا کے تین بنیادی اہداف رہے ہیں۔ اول: تیل (امریکی تیل کی کمپنیاں ۱۹۲۰ء یعنی عالمی جنگوں کے دورانیہ میں ہی مشرق وسطیٰ میں متحرک ہو چکی تھیں)، دوئم: اسرائیل کا تحفظ (جس کا قیام ۱۹۴۸ء میں عمل میں آیا اور اس کی مدد و تحفظ امریکی پالیسی کا خاصہ ہیں)۔ سوئم: پورے خطے کا اسٹریٹجک کنٹرول (خطے پر اسٹریٹجک کنٹرول کی پالیسی دوسری جنگ عظیم کے بعد ترتیب پائی۔ جس کا مقصد کسی بھی بڑی قوت کو خطے میں اثر قائم کرنے سے روکنا اور کسی بھی مقامی قوت کو نہ ابھرنے دینا) دوسری جنگ عظیم میں امریکا جب عالمی طاقت کے طور پر ابھر کے سامنے آیا اور اگست ۱۹۴۴ء میں اینگلو امریکن پٹرولیم معاہدے پر دستخط ہوئے تو اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ نے برطانوی سفیر سے کہا کہ فارس کا تیل تمہارا، عراق اور کویت کا تیل ہم آپس میں بانٹیں گے جبکہ سعودی عرب کا تیل ہمارا ہوگا۔ اس وقت امریکا نے باقاعدہ طور پر سعودی عرب میں اپنے قدم جمائے اور اسے اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کے تحفظ کا زینہ بنایا۔ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ سعودی عرب کے ذریعے ہی قائم کیا۔ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے جب فلسطین کی تقسیم اور اسرائیلی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا تو امریکا پہلا ملک تھا کہ جس نے اسے تسلیم کیا اور دفاعی و معاشی مدد سے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ بلاشبہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکی مورچہ تھا جس کے خلاف اس وقت شام، ایران، عراق، مصر اور یمن نے آواز اٹھائی۔ اسی طرح ۱۹۵۱ء ایران میں جب ڈاکٹر مصدق نے اینگلو ایران آئل کمپنی کو قومی تصرف میں لیا تو امریکا نے مداخلت کرکے ڈاکٹر مصدق کو ہٹا کر رضاشاہ پہلوی کو بحال کیا۔
۱۹۷۹ء خطے سمیت پوری دنیا کے لیے اس حوالے سے اہم ثابت ہوا کیونکہ انقلاب کے نتیجے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی رضاشاہ پہلوی کو رخصت ہونا پڑا اور خطے میں اعلیٰ پیمانے پر تبدیلیوں کا عمل شروع ہوا۔ ایران کے انقلاب کو ختم کرنے کے لیے اگلے نوسال صدام حسین کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی گئی۔ امریکا اس جنگ میں بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ وہی وقت تھا جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف دنیا کے چالیس سے زائد ملکوں سے لڑاکا افراد فاٹا اور افغانستان میں داخل کیے جارہے تھے۔ ان غیر ریاستی عناصر کو سعودی عرب، پاکستان اور امریکا کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان تینوں ممالک اور ان کے اتحادیوں کی کوششوں سے سوویت یونین بالآخر ٹوٹ گیا۔ افغانستان سے سوویت انخلاء کے بعد یہی غیر ریاستی عناصر طاقتور ہوئے۔ نائن الیون کا واقعہ جو آج بھی اپنے دامن میں کئی طرح کے سوالات سموئے ہوئے ہے، برپا ہوا تو امریکا نے افغانستان کو تہس نہس کرکے طالبات حکومت کا خاتمہ کیا۔ دوسری جانب ایران کے خلاف ناکامی کے بعد امریکا نے ۱۹۹۱ء میں عراق پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا اور نوفلائی زون قائم کرکے کئی طرح کی پابندیاں عائد کردیں اور وقفے وقفے سے بمباری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ۲۰۰۳ء میں عراق کی بربادی کے ساتھ ہی صدام حکومت کا خاتمہ ہوا، مگر اس حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی غیر متوقع طور پر وہ شیعہ اکثریت برسراقتدار آئی، جسے صدام نے قابو کیا ہوا تھا۔ عراق میں اس تبدیلی کے ساتھ ہی ایران سے لبنان تک شام و عراق کے ذریعے ایسی قوس بنتی چلی گئی جوکہ اسرائیل مخالف تھی۔ نتیجے میں حزب اللہ کی صورت میں اسرائیل کو اپنی ہی سرحد پر ہمہ وقت خطرے سے دوچار بھی ہونا پڑا اور حزب اللہ اسرائیل ٹکراؤ میں اسرائیل کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ یعنی امریکا نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے جو جنگ شروع کی، اس کا نتیجہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی بلاک کی مضبوطی کی صورت میں برآمد ہوا۔ دوسری جانب طالبان کے خاتمے کا نعرہ لے کر امریکا افغانستان میں آیا جبکہ طالبان آج بھی افغانستان میں ایک مسلمہ حقیقت ہیں اور افغانستان کے ایک بڑے حصے پر ان کی عملداری ہے۔
۲۰۰۶ء میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس اور اسرائیلی وزیراعظم اولمرٹ نے پریس کانفرنس میں نیومڈل ایسٹ پراجیکٹ کا اعلان کیا، جس میں لبنان پر اسرائیل کے فضائی حملوں کو درست قرار دیا گیا۔ اسی پریس کانفرنس میں کونڈولیزارائس نے کہا کہ ’’ہم عدم استحکام اور بدامنی کی لہر تخلیق کریں گے۔ جو لبنان اور فلسطین سے شروع ہو کر شام عراق فارس، خلیج، ایران پاکستان سے افغانستان تک ہوگی‘‘۔ جون ۲۰۰۶ء میں کرنل رالف پیٹر نے مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ بھی جاری کیا، جو مستقبل میں مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم کا پتا دیتا تھا۔ عراق اور افغان جنگوں نے بڑے معاشی بحران کو جنم دیا جو کہ ۲۰۰۷ء میں امریکا سے شروع ہوا اور ۲۰۰۸ء میں یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے کر دیگر خطوں تک پھیلتا گیا۔ معاشی دباؤ اور سیاسی عدم استحکام نے عرب دنیا کے نوجوانوں کو اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھایا۔ جس میں سوشل میڈیا کا اہم کردار تھا۔ عرب بہار کے نام پر تیونس سے جو لہر شروع ہوئی اس نے متعدد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ عرب بہار میں نیولبرلز نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوشنما نعرے سے مسلح افرادی مداخلت کا اصول اپنایا اور خطے میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ نتیجے میں صومالیہ، یمن، لیبیا، مصر، عراق اور شام کی موجودہ صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ میں غیر ریاستی عناصر کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کا تجربہ تیونس، لیبیا وغیرہ میں تو کامیاب رہا ماسوائے شام کے۔ جہاں اب کئی دہشت گرد گروہ، خطے کے ممالک اور بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف مصروفِ جنگ ہیں۔
شام کا بعینہٖ وہی قصہ ہے جو کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا، ہم بخوبی جانتے ہیں کہ القاعدہ کس نے بنائی۔ کس نے دنیا کے ۴۳ ممالک کے جنگجوؤں کو فاٹا اور افغانستان میں اکٹھا کیا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بعد میں انہی غیر ریاستی عناصر کو کس نے دہشت گرد قرار دیا اور انہیں مختلف ملکوں میں برآمد کیا۔ افغانستان کی طرح شام کی حکومت کے خلاف بھی دنیا بھر سے جنگجوؤں کو اکٹھا کرکے شام و عراق میں داخل کیا گیا۔ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ عراق تخلیق کی جس میں صدام فوج کے بکھرے ہوئے سپاہیوں اور جرنیلوں کو اکٹھا کیا گیا۔ القاعدہ عراق کو بعد ازاں دو حصوں میں تقسیم کرکے القاعدہ عراق اور النصرہ دو گروہ تخلیق کیے۔ یہ سوال اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کس نے یہ تخلیق کی، کون ان دونوں گروہوں کو مدد فراہم کرتا رہا؟ اسی النصرہ کو شام میں داخل کیا گیا، جہاں اس کے فعال ہونے کے بعد شام کی حکومت نے اس پر پابندی عائد کی۔ بشارالاسد حکومت کے خلاف جو جدوجہد سب سے مقبول ترین قرار پائی، درحقیقت وہ النصرہ اور القاعدہ عراق کی شامی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں تھیں، وگرنہ عوامی سطح پر لاکھوں تو کجا ہزاروں شامی عوام کا ایک بھی ایسا احتجاجی مظاہرہ سامنے نہیں آیا جوکہ بشارالاسد حکومت کے خلاف ہو۔ بشارالاسد اور اس سے پہلے حافظ الاسد نے تمام قبائل کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اقتدار میں شراکت داری کی بنیاد پر ایک مضبوط سیاسی نظام ترتیب دیا ہوا تھا اور شام میں یہ صرف علوی اقلیتی حکومت نہیں تھی، اس لیے بشارالاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنا آسان نہیں تھا۔ پہلے امریکا نے چند غیر ریاستی مسلح گروہوں (القاعدہ، النصرہ) کو تخلیق کیا پھر قطر اور سعودی عرب پر ان کی مالی سرپرستی کا بوجھ ڈال کے مسلکی بنیاد پر ان میں وہابی سلفی فکر کو داخل کیا۔ مقصد یہی تھا کہ اگر سیاسی بنیادوں پر قیامِ امن اور استحکام کی راہ ہموار ہو بھی جائے تو مسلکی بنیاد پر جنگی ماحول برقرار رہے۔
شام کا قضیہ جب اپنے عروج پر تھا اور لاکھوں شامی افراد ہجرت کرکے تارک الوطن ہوئے تو ان لوگوں نے بھی اپنی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے بجائے ان قوتوں کو اس قضیے کا ذمہ دار قرار دیا کہ جن کی مداخلت کے باعث خطہ جنگی زون میں تبدیل ہوا۔ القاعدہ عراق کو ۲۰۰۸ء میں پہلے (ISIL) پھر ۲۰۱۳ء میں (ISIS) یعنی داعش میں تبدیل کیا۔ صاحب علم آگاہ ہیں کہ القاعدہ کس نے تخلیق کی اور اسی کے بطن سے داعش کا جنم کس نے کرایا۔ ایران سے لبنان تک حزب اللہ کی سپلائی لائن توڑنے اور اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والی قوت کو توڑنے کا سب سے زیادہ خواہش مند کون ہے۔ کونڈولیزارائس کے یہ جملے بھی ریکارڈ پر ہیں کہ لبنان و فلسطین سے افغانستان تک بدامنی، عدم استحکام کی لہر کون تخلیق کرے گا۔ داعش کے قیام اور فعال ہونے کے بعد امریکا نے طے یہ کیا کہ اب براہ راست فوجی مداخلت جس کی روس اور چین نے شدید مخالفت کی تھی، اب اس کی ضرورت نہیں رہی چنانچہ مختلف متحارب گروہوں کو علاقائی طاقتوں سے نتھی کردیا۔ نتیجے میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوئے مگر ایران اور ترکی اور سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہوئے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نیٹو سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ سرخ خطرہ ختم ہوا، اب گرین (اسلام) باقی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس کے بعد وہ تمام ملک و شہر تباہی و بربادی سے دوچار ہوئے جو ماضی میں مسلمانوں کے جاہ و حشمت کے مراکز تھے۔ بغداد تباہ ہوا، دمشق تباہ ہوا، انقرہ پر اثر قائم کیا جبکہ اسلامی دنیا کے مرکز (مکہ و مدینہ) پر تسلط کا یہ عالم ہے کہ امریکی مہم جوئیوں کے خطیر اخراجات کا بڑا حصہ سعودی عرب ادا کرنے پر مجبور ہے۔ یہ امر بھی خطرے سے خالی نہیں کہ جس داعش کے ذریعے خلافت کے قیام کا نعرہ لگایا گیا، اس داعش کا ہدف بھی بغداد و دمشق ہیں اور یہاں خدانخواستہ کامیابی کی صورت میں مکہ و مدینہ۔
امریکا دعویدار ہے کہ اس نے داعش کے خلاف ۶۵ ملکی اتحاد تشکیل دیا ہے۔ سعودی عرب اسی مقصد کے لیے ۳۹ ملکی اتحاد کی تشکیل کا دعویدار ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر داعش کا معاون و مددگار کون ہے۔ روس، ایران اور چین جوکہ بشارالاسد حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، پہلے سے ہی داعش کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ روس جب اسی داعش پر بمباری کرتا ہے کہ جس کے خلاف ۶۵ ملکی اور ۳۹ ملکی اتحاد تشکیل دیے گئے ہیں تو مغرب، امریکا اور ان کے اتحادی احتجاج کرتے ہیں۔ اگر حقیقی معنوں میں داعش کا خاتمہ ہی مقصود ہے تو روس، ایران، چین کی شمولیت سے ان اتحادوں میں شامل ممالک کی تعداد بڑھائی بھی جاسکتی تھی، مگر قرائن بتاتے ہیں کہ ہدف داعش یا دہشت گردوں کا خاتمہ اور امن و استحکام کا قیام نہیں بلکہ اسرائیل کے تحفظ، تیل پر تسلط اور من چاہی شرائط پر اتحادیوں کو تیل کی ترسیل اور اسٹریٹجک کنٹرول رکھنے کے لیے طویل مدت تک خطے کو بدامنی اور سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار رکھنا ہے۔
ترکی جو کہ شام کے قضیے میں پوری طرح شامل ہے، طیب ایردوان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت سے پہلے ایران اور روس کے خلاف تھا۔ فوجی بغاوت کے بعد ترکی کی پالیسی میں تبدیلی واقع ہوئی اور حال ہی میں روس، ایران اور ترکی کے مابین شام کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ جس کے تحت تینوں ممالک امریکی قیادت میں لڑنے والی نیٹو افواج کے جنگی طیاروں کو شام کے محفوظ علاقوں (Safe Zones) میں پرواز کرنے سے روکیں گے۔ تینوں ملک یہ اقدام شام کے پناہ گزینوں کو گھر واپس لانے اور ان تک امدادی سامان پہنچانے کی غرض سے اٹھا رہے ہیں کیونکہ محفوظ علاقوں میں نیٹو کے جنگی طیاروں کی پرواز اس میں مخل ہوتی ہے اور بمباری سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔
شام اور افغانستان دونوں جگہوں پہ روس اور چین مل کر امن و استحکام کے لیے کوشاں ہیں، جبکہ امریکی انڈسٹریل ملٹری کمپلیکس اپنے اتحادیوں سے مل کر موجودہ حالات کو طول دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، کئی مسلم ممالک اس حوالے سے امریکا و اسرائیل کو مضبوط جبکہ چند ان کے خلاف قیام کیے ہوئے ہیں۔ بڑے اسلامی ممالک کا امریکا و اسرائیل سے جاری تعاون اور اس تعاون کے نتیجے میں اندرونی استحکام کی خواہش، افغانستان کی طرز پر عراق و شام میں افرادی مداخلت اور اپنی توقعات کے مطابق نتائج کی تمنا یہی ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے ماضی سے یہی سیکھا ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مشرق وسطیٰ ہو یا ایشیا، علاقائی ممالک آگے بڑھیں اور لے دے کی بنیاد پر قیام امن کی راہ ہموار کریں اور بیرونی جارح قوتوں کی مداخلت کی حوصلہ شکنی کریں۔ چین، روس، ایران اور ترکی مل کر اس خطے کو پُرامن اور مستحکم کرسکتے ہیں اور پاکستان کو اس ابھرتی ہوئی نئی قوت کے ساتھ مل کر امن کی کوششوں کا حصہ بننا چاہیے۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ پورا مشرق وسطیٰ جہادی نعروں کی گونج میں آتش و آہن سے تباہ ہو رہا ہے اور اس پورے خطے میں داخلی و سیاسی حوالے سے مستحکم اسرائیل پُرامن ہے، جس کی چوکھٹ پر آگ لگی ہو، اس کا یہ اطمینان ناقابلِ فہم ہے۔
(مضمون نگار وزارتِ خارجہ پاکستان کے سابق سیکرٹری جنرل ہیں اور متعدد پالیسی و تحقیقی اداروں سے منسلک ہیں)
(بشکریہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۱۹ مئی ۲۰۱۷)
Leave a Reply