
شام میں تشدد کی بڑھتی ہوئی سطح نے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ سرحدی شہر انتاکیہ میں کل تک مال اور مسافر بردار گاڑیوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا۔ آج وہاں اُلو بول رہے ہیں۔ سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کی تجارت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ شام میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن پر جب ترک حکومت نے آواز اٹھائی تو بشارالاسد انتظامیہ نے تجارت ختم کردی۔ انقرہ کے موقف سے چھوٹے تاجروں کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے۔ نقل و حمل کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ شام سے بہت سے لوگ ترکی آتے تھے اور ترکی سے بھی لوگ زیارت کے لیے شام جایا کرتے تھے۔ مگر یہ سب تو اب گزرے ہوئے زمانے کے قصے ہیں۔ نہ وہ تجارت ہے نہ وہ آمد و رفت۔ جہاں رونقیں تھیں وہاں اب سناٹوں کا راج ہے۔ سرحدی علاقوں میں تجارت ۹۵ فیصد کی حد تک گرگئی ہے۔ بعض دکانداروں نے اپنے تمام ملازمین کو جواب دے دیا ہے۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ جب تجارت ہی نہیں ہو رہی تو منافع کہاں سے ہوگا اور تنخواہیں کہاں سے ادا کی جاسکیں گی؟ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ بشارالاسد کو رہنا چاہیے کیونکہ جب یہ شورش نہیں اٹھی تھی تب سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اب جبکہ بشارالاسد انتظامیہ کو گرانے کی باتیں ہو رہی ہیں، سبھی کچھ داؤ پر لگتا دکھائی دیتا ہے۔
ترک حکومت نے شام کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا ہے اس سے صرف ترکوں کے لیے مشکلات پیدا نہیں ہوں گی۔ عیسائی اور علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے بھی کہتے ہیں کہ دمشق سے محاذ آرائی ترک معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اور اس کے آثار بھی نمایاں ہیں۔
انتاکیہ میں کاروبار کرنے والے عیسائی سیمل متیاسوغلو (Cemil Mitya Soglu) کا کہنا ہے عیسائیوں اور علویوں کے لیے شام جنت کی طرح تھا۔ ہمیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ جب بھی کوئی ایسی ویسی بات ہوگی، ہم شام چلے جائیں گے۔ ہمارے لیے سرحدی علاقے ہی موزوں تھے۔ ترکی میں علوی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد دو کروڑ ہے۔ یہ لوگ شام کے علویوں سے نظریاتی اور جذباتی ربط رکھتے ہیں۔ جن سرحدی علاقوں میں علوی آباد ہیں ان میں بشارالاسد کے لیے ہمدری اور حمایت کا پایا جانا حیرت انگیز نہیں۔
سمنداغی قصبے کی چھتیس سالہ اپیک ارات (Ipek Arat) کہتی ہے کہ ہم نے فیس بک کے ذریعے شام کے حالات پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ (ترک وزیر اعظم) رجب طیب اردغان نے شام کی مخالفت کرکے بھیانک غلطی کی ہے۔ ترکی کہتا ہے کہ شام کو کرد باغیوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے اور دوسری طرف شامی حکومت کا کہنا ہے کہ ترکی بھی اپوزیشن کی حمایت اور معاونت سے باز رہے۔
ترکی کے سرحدی علاقوں میں اقلیتوں میں عدم تحٖفظ کا احساس شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں صورت حال تیزی سے بگڑ بھی سکتی ہے۔ شام میں کریک ڈاؤن سے بچ کر بھاگنے والے ترکی جارہے ہیں۔ سرحدی علاقوں میںمختلف النوع آبادیوں کے جمع ہونے سے کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔
(“Tough Times for Turks”… “Guardian” London. April 27th, 2012)
Leave a Reply