
شام کے شہر حلب میں فضائی حملے میں تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے نکالے گئے شامی بچے عمران دقنیش کی تصویر کی دنیا بھر میں شہ سرخیوں کے ساتھ تشہیر کی گئی ہے۔ شامی المیے کے مشابہ کوئی اور نہیں ہے اور عمران کی تصویر اس کی ایک علامت ہے۔خون آلود چہرے والا عمران بڑی خاموشی سے ایمبولینس میں ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ وہ صدمہ زدہ ضرور ہے مگر اپنے گردوپیش سے بالکل بھی آگاہ نظر نہیں آتا کیونکہ اس کی آنکھیں بالکل بے حس وحرکت ہیں۔اسی چیز نے اس کی تصویر کو لافانی بنا دیا ہے۔
نرس کے بقول، بچے نے جب تک اپنے والدین کو نہیں دیکھا، اس نے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکایا تھا۔ ’’وہ صدمے میں تھا۔ اس نے ماں اور باپ کے بارے میں پوچھا، اس کے سوا ایک لفظ نہیں بولا۔جونہی اس نے انھیں دیکھا تو چلانا شروع کردیا‘‘۔
شام کو اس کے حال پر چھوڑ دینا، دوسری عالمی جنگ کے بعد المناک ترین ہے۔ ۱۹۹۵ء میں بل کلنٹن نے بوسنیا میں مداخلت کی تھی اور میلاسووچ کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ انھوں نے سرب لیڈر کے سامنے دو تجاویز رکھی تھیں: ’’طاقت کے ذریعہ امن کا نفاذ کریں یا امن منصوبے کی شرائط کو تسلیم کریں‘‘۔اس کے بعد ڈیٹن معاہدہ معرض وجود میں آیا اور جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
امریکا نے کوسوو میں بھی یہی کچھ کیا تھا۔ یکے بعد دیگرے وائٹ ہاؤس میں اقتدار سنبھالنے والی انتظامیہ دنیا میں امن کو برقرار رکھنے کے اصول پر سختی سے عمل پیرا رہی ہے، اور یہ اصول اس ذمہ داری پر مبنی تھا کہ امریکی ’’بالادستی‘‘ کو برقرار رکھا جائے۔
امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ ان کے بالوں کی زیادہ تر گرے رنگت کا سبب شام کے بارے میں وہ اجلاس ہیں، جن میں وہ شریک ہوئے تھے۔عمران دقنیش اور ایلان کردی کی تصاویر تاریخ کا حصہ بن جائیں گی اور یہ اس بات کی بھی نشانی ہیں کہ عالمی برادری اور امریکا کی بے عملی کی وجہ سے شام میں بحران کے آغاز کے بعد سے قریباً ایک کروڑ ستر لاکھ شامی اندرون اور بیرون ملک دربدر ہیں۔وہ مہاجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور کم وبیش تین لاکھ مارے جاچکے ہیں۔
فواد عجمی نے شام کے حوالے سے اوباما پر تنقید کرتے ہوئے درست ہی کہا ہے کہ ’’آپ کسی شخص کو یہ مت کہیے کہ وہ جہنم میں جائے جب تک کہ آپ اس کو وہاں بھیجنے کا انتظام نہیں کردیتے‘‘۔
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ ۲۱؍اگست ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply