
سیاسی، جغرافیائی، تزویراتی جمع تفریق سے بالاتر ہر جنگ کی ایک انسانی قیمت ہوتی ہے۔ شام میں ۲۰۱۱ء کے اوائل سے شروع ہونے والی خوں ریز خانہ جنگی اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ انسانی جانوں کو نگل چکی ہے۔ ۲۰۱۱ء میں شام کی آبادی ۲ء۲ کروڑ تھی۔ کِشت و خون کے ساڑھے چار سال بعد منظر یہ ہے کہ ۲ء۱ کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد ۷۶ لاکھ کے لگ بھگ ہے، جبکہ چالیس لاکھ سے زیادہ شامی باشندے اپنی سرزمین چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
شامی جنگ جنگی طریقوں کے استعمال، قتل اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے موجودہ دور کا سب سے تباہ کن تنازعہ ہے۔ روس اور ایران کی طرف سے ملنے والے جدید اسلحے اور جنگی معاونت سے بشار کی خوں آشام حکومت نے اپنے ہی شہریوں کا بے پناہ خون بہایا ہے اور بیرل بموں سے لے کر کیمیائی ہتھیاروں تک کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔
شام میں جاری جنگ کے نتیجے میں پناہ گزینوں کا مسئلہ آج پیدا نہیں ہوا، مگر تین سالہ ایلان کُردی کی ساحل پر بہہ آنے والی ننھی معصوم لاش نے سماجی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں ہلچل مچا دی۔ ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ نے صفحۂ اول پر ایلان کردی کی تصویر لگا کر نیچے یہ الفاظ درج کیے: ’’یہ کسی کا بچہ ہے، یورپ میں سلامتی کی تلاش میں آنے والی فروماندہ انسانیت کی لہر اونچی ہو رہی ہے، کل شکار ہونے والوں میں یہ شامی بچہ بھی شامل ہے، جو اپنے خاندان کی ترکی سے یونان جانے کی کوشش کے دوران ڈوب کر جاں بحق ہوگیا، یورپی یونین میں یہ مسئلہ تعطل کا شکار ہے، ہمارے وزیراعظم انکار کی حالت میں ہیں، ایک عظیم انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ کیا ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے؟‘‘
شامی مہاجرین کے مسئلے پر ہر طرح کی منفی و مثبت بحث کے درمیان یہ تاثر بھی تیزی سے پھیلا ہے کہ یورپی ممالک کھلے دل سے شامی مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں، اور وہاں کے عوام اس مسئلے پر اپنے حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ جبکہ انسان دوستی سے عاری، خود غرض مسلمان حکمران اور باشندے اپنے ہی ہم مذہب مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے سے کترا رہے ہیں۔
مسلم ممالک کا کردار

حقیقت یہ ہے کہ شام میں خونریز لڑائی کے آغاز کے بعد جب لوگوں نے ہجرت شروع کی تو ان میں سے اکثر کی منزل پڑوسی ممالک تھے۔ چار سال تک اور آج بھی شامی پناہ گزینوں کا زیادہ تر بوجھ چار مسلم ممالک اٹھائے ہوئے ہیں۔ شامی مہاجرین کا ۹۵ فیصد صرف پانچ ممالک (ترکی، لبنان، اردن، عراق، مصر) میں پناہ گزین ہے۔ ترکی میں ۳۸ء۱۹ فیصد، لبنان میں ۴ء۱۱، اردن میں ۳ء۶، عراق میں ۳۴ء۲، اور مصر میں ۳۸ء۱، لاکھ شامی مہاجرین موجود ہیں۔ پچھلے چار سال میں اقوام متحدہ نے غربت، وسائل کی کمی، ذاتی مسائل اور عدم استحکام کے باوجود نہایت کثیر تعداد میں شامی باشندوں کو پناہ دینے پر ان ممالک کی توصیف کی ہے، اور وہ مسلسل پوری دنیا سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
ایلان کُردی کی تصویر کے گردش کرنے کے ساتھ ہی مسلم ممالک کی انسان دوستی سے عاری جو تصویر ذرائع ابلاغ (خصوصاً سماجی ذرائع ابلاغ) میں نمودار ہونا شروع ہوئی، اس کے ذمہ دار تمام مسلمان نہیں بلکہ صرف خلیجی ممالک ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعویٰ ہے کہ چھ خلیجی ریاستوں قطر، عمان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت اور بحرین نے شامی مہاجرین کی آبادکاری کے لیے صفر زمین (Zero replaument places) فراہم کی ہے۔ یہی دعویٰ ہیومن رائٹس واچ کا بھی ہے۔ لیکن سعودی وزارتِ خارجہ کے حال ہی میں سامنے آنے والے بیان کے مطابق اس نے ایک لاکھ شامی مہاجرین کو اپنی سرزمین پر پناہ دی ہے اور یہ کہ اس کے خلاف ذرائع ابلاغ میں چلنے والی رپورٹیں جھوٹی اور گمراہ کن ہیں۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات بھی اسی سے ملتا جلتا بیان جاری کر چکا ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق چونکہ وہ ’’میڈیا میں خودنمائی کا طلب گار‘‘ نہ تھا، اس لیے اس نے اس بات کا چرچا کرنے کی کوشش نہ کی اور سعودی حکومت شامی باشندوں کے ساتھ مہاجرین کا سا رویہ رکھنا نہیں چاہتی، اس لیے اس نے ان کو اقامے جاری کر دیے ہیں۔ وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ اردن، لبنان اور دوسرے ممالک میں مہاجرین کی آبادکاری کے لیے سعودی عرب ۷۰۰ ملین ڈالر دے چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے ترجمان نے بلومبرگ کو بتایا کہ کم و بیش ۵ لاکھ شامی سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں مگر وہ بطور مہاجرین مندرج نہیں ہیں اور یہ واضح نہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سعودی عرب کب آئے۔
دعوئوں اور جوابی دعوئوں سے قطع نظر، یہ سچ ہے کہ بطور مہاجر شامی باشندوں کو کسی خلیجی ملک میں پناہ نہیں ملی ہے۔ اس سچائی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان چھ ممالک میں سے کوئی بھی اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین ۱۹۵۱ء کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ (یہ کنونشن مسئلہ مہاجرین پر بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہے۔ اس کے مطابق کوئی ملک کسی مہاجر کو غیر قانونی موجودگی یا داخلے کی کوشش پر سزا دینے کا مجاز نہیں ہے، اگر یہ بات واضح کر دی جائے کہ اپنے ملک میں مہاجر کی زندگی یا آزادی کو حقیقی خطرہ تھا۔ علاوہ ازیں یہ قانون ممالک کو اس بات کا پابند بھی کرتا ہے کہ وہ ایسی صورت میں کسی مہاجر کو اپنے ملک سے بے دخل نہ کریں اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے ساتھ مل کر مہاجرین کی بحالی کے لیے کام کریں) چنانچہ کسی شامی مہاجر کو ان ممالک میں پناہ لینے کے لیے ویزا کی درخواست دینا پڑے گی جس کا موجودہ حالات میں ملنا بہت مشکل ہے۔
اس بحران نے یقینا خلیجی ممالک کی سیاست اور قیادت پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ خلیجی ممالک شام کے قضیے کے معصوم تماش بین نہیں ہیں۔ یہ بشارالاسد کے شدید مخالفین میں سے ہیں، جنہوں نے شامی حکومت کے مخالف، باغی گروہوں کو مالی معاونت اور ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
خلیجی ممالک کے پاس بے پناہ دولت بھی ہے، یہ ممالک بڑی بڑی عمارتوں، پرشکوہ محلات، عظیم مساجد اور وسیع و عریض جامعات (جن کے اپنے ریلوے نیٹ ورکس تک ہیں) کے حامل ہیں۔ یہ عرب دنیا کے امیر ترین ممالک ہیں، جن کے بڑے بڑے عسکری بجٹ ہیں اور یہ لبنان اور اردن جیسے غریب ممالک کے مقابلے میں مہاجرین کو پناہ دینے کی بہت زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب میں تعمیرات کے وسیع ذرائع ہیں اور اس کے پاس ہر سال حج کے موقع پر لاکھوں لوگوں کی رہائش کا انتظام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر بھی خلیجی ممالک کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ایک ٹوئیٹر ہیش ٹیگ ’’شامی مہاجرین کو پناہ دینا خلیج کی ذمہ داری ہے‘‘ گزشتہ ہفتہ کے اندر ۳۳ ہزار بار استعمال ہوا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خلیجی عرب مسلم ریاستوں کے سامنے عالمِ اسلام کی سربراہی کے دعوے کا ثبوت پیش کرنے کے لیے یہ ایک موقع ہے۔ ان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، مقامی آبادی کے روزگار اور سلامتی و دہشت گردی کے حوالے سے خدشات شامی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کی جائز وجہ نہیں بن سکتے۔ بے حسی اور سیاسی ارادے کا فقدان ہی شامی مہاجرین کے مسئلے پر توجہ نہ دینے کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
خلیجی ممالک کے طرزِ عمل نے اُن اسلامی قوتوں کو نئی حیات بخشی ہے، جن کا نظریہ ہے کہ صرف خلافت اور ایک متحد اسلامی ریاست ہی مسلمانوں کے تمام دردوں کی دوا ہے اور جن کے خیال میں اسلامی دنیا کے نام نہاد مسلمان سربراہوں کی ریاستوں کے خلاف صف آرا ہونا ایک مقدس جدوجہد ہے۔ دیگر الفاظ میں مقامی آبادی کے روزگار اور سلامتی کے کم تر خدشات کی بنا پر مہاجرین کے مسئلے سے صرفِ نظر کرکے ان ریاستوں نے کوتاہ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ اس روش کے باعث طویل مدت اور وسیع تناظر میں ان ریاستوں کے مقابلے میں ان قوتوں کے مقدمے کو مضبوطی ملی ہے۔
دوسری جانب ایران کا کردار اور بھی ظالمانہ ہے۔ شام کی جنگ میں ایران اس حد تک ملوث ہے کہ بعض مبصرین اسے شام کے بجائے اب ایران کی جنگ کہنے لگے ہیں۔ ۲۰۱۵ء کے اوائل میں، جب یہ جنگ چوتھے سال میں داخل ہوئی، ایران نے بشار کی جنگی معاونت میں مزید اضافہ کردیا۔ شام کی سرزمین پر ایران کے انٹیلی جنس افسران سے لے کر فوجی تربیت کار تک موجود ہیں۔ ایرانی چھتری تلے کام کرنے والا جنگجو گروہ حزب اللہ، شام میں بشارالاسد کی طرف سے زمینی لڑائی میں مصروف ہے۔ قدس فورس اور پاسدارانِ انقلاب (IRGC) بھی شام میں اتارے جاچکے ہیں۔ زمینی افواج کے علاوہ مشین گنوں، ٹینکوں اور گولہ بارود کی مد میں ایران کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ ایران نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے شام کی جنگ بھڑکانے میں بھرپور حصہ ڈالا ہے، مگر جنگ کے نتیجے میں مہاجرین کی صورت میں جنم لینے والے انسانی المیہ پر مجرمانہ عدم دلچسپی، بلکہ سنگ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تاہم اگر خلیجی ممالک، بشمول ایران، کی پالیسی قابلِ مذمت ہے تو اس پالیسی کی بنیاد پر تمام مسلمان ممالک کو بے حس، ظالم اور انسانیت کا غیر ہمدرد بنا کر پیش کرنا بھی اتنا ہی قابلِ مذمت ہے۔ احساسِ کمتری کی نفسیات کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ایک قسم کے رویے کو جنم دیتی ہے اور وہ ہے خود مذمتی کا رویہ (Self Condem Nation) دنیا بھر میں مسلمانوں کے اندر ایسا طبقہ موجود ہے۔ خود ہمارے ملک میں اس طبقے نے آج یورپ کو نمونہ بنا کر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مسلم ممالک کو نشانے پر لیا ہوا ہے، جبکہ ماضی میں لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دینے پر پاکستان کو ہدفِ تنقید بناتا رہا ہے۔ یہ طبقہ اسلامی اخوت اور بھائی چارے، انسانی ہمدردی اور قربانی کی عظیم مثال قائم کرنے پر پاکستان کی تحسین کرنے کے بجائے افغان مہاجرین کو ایک نفرت انگیز بوجھ بنا کر پیش کرتا رہا ہے اور ان کو پاکستان کے مسائل کی وجہ گردانتا رہا۔ سچ یہ ہے کہ سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک کی اقوام متحدہ کی فہرست میں پہلے تینوں ممالک (بالترتیب ترکی، پاکستان، لبنان) مسلمان ہیں۔ اس فہرست کے پہلے دس ممالک میں کوئی بھی یورپی یا مغربی ملک نہیں ہے۔
یورپ کا حصہ

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے معاملے میں یورپ کہاں کھڑا ہے؟ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۴ء تک پورے یورپ میں ڈیڑھ لاکھ شامی مہاجرین پناہ لے چکے تھے، جن میں سب سے زیادہ جرمنی (۴۱,۰۰۰) اور اس کے بعد سوئیڈن میں (۳۴,۲۰۰) قیام پذیر تھے۔ دراصل یورپ کے لیے مسئلہ مہاجرین میں سنگینی، حال ہی میں پیدا ہوئی جب یورپی یونین کے ممالک بالخصوص یونان، اٹلی اور ہنگری پر مہاجرین کا دبائو بڑھنا شروع ہوا۔ رواں سال کے آغاز سے لے کر اگست تک کم و بیش ساڑھے تین لاکھ مہاجرین یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں یورپی یونین کی سرحدوں پر پائے گئے۔ ۲۰۱۴ء کے پورے سال کے دوران یہ تعداد دو لاکھ ۸۰ ہزار تھی۔ پناہ کی تلاش میں یورپ کی سرحدوں تک پہنچنے والے یہ تمام لوگ شامی باشندے نہیں، ان میں مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقا، افغانستان اور تنازعات میں گِھرے دیگر علاقوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں یہ درماندہ لوگ یورپ کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شام کے پڑوسی ممالک لبنان، ترکی، اردن اور عراق میں مہاجرین کے لیے مزید سمائی اور سکت باقی نہیں ہے۔ شام کی نہ ختم ہونے والی خوفناک جنگ کے نتیجے میں ہر روز کئی ہزار لوگ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ شام کے پڑوسی ممالک اپنی ہمت سے بڑھ کر بوجھ اٹھا چکے ہیں۔ اردن کی کُل آبادی ۶۵ لاکھ ہے، یہاں ۶ لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین مقیم ہیں۔ گویا ہر دس میں سے ایک شخص شامی مہاجر ہے۔ لبنان میں بھی مہاجرین کی تعداد نقطۂ عروج پر ہے اور لبنانی حکومت اب خود اپنے شہریوں کو بجلی کی بِلاتعطل فراہمی اور صاف پانی مہیا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ترکی، جہاں ۱۹؍لاکھ شامی مہاجر پناہ گزین ہیں، حال میں سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں آیا ہے۔ وہاں کی حکومت کُردوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے۔ پچھلے سال ستمبر، اکتوبر میں جب داعش نے شام کے قصبہ کوبانی پر حملہ کیا تھا تو لاکھوں کی تعداد میں کرد مہاجرین کو ترکی نے پناہ دی تھی، لیکن حال میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے بعد شامی کردوں کو ترکی میں بہت سے خوف لاحق ہوگئے ہیں۔ لہٰذا یہ غیر فطری نہیں ہے کہ لوگ دیگر جگہوں کی تلاش میں ہیں۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ جیسے جیسے شام کا مسئلہ طویل اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے، شامی باشندوں کی نگاہ میں اس کے مستقبل قریب میں حل کی امید دم توڑتی جارہی ہے۔ بالآخر گھر لوٹ جانے کی جو آس انہیں کبھی تھی، وہ اب معدوم ہو رہی ہے۔ وہ کسی ایسی سرزمین کی تلاش میں ہیں جہاں معمول کی زندگی گزار سکیں۔ جہاں تعلیم، رہائش اور روزگار میسر ہو۔ اس کے لیے یورپ ایک بہتر انتخاب ہے۔
آزمائش میں مبتلا یہ شامی مہاجرین یورپ میں داخلے کے لیے زیادہ تر دو راستے اختیار کرتے ہیں، ایک مشرقی بحیرہ روم کا راستہ اور دوسرا مغربی بلقانی راستہ۔ مغربی بلقانی راستہ ترکی سے بلغاریہ یا یونان اور پھر زمینی راستے کے ذریعے مقدونیہ، سربیا سے ہوتا ہوا ہنگری کو جاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہنگری سے یورپی یونین کا پاسپورٹ فری زون شروع ہو جاتا ہے، اسے شینگن نظام کہتے ہیں۔ لگسمبرگ کے شہر شینگن میں ۱۹۸۵ء میں ہونے والا یہ معاہدہ سرحدی رکاوٹوں کو ختم کرنے کا معاہدہ ہے۔ شینگن علاقے میں داخل ہونے کے بعد ایک ملک سے دوسرے ملک اسی طرح جایا جاسکتا ہے جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر۔ یورپی یونین کے ۲۸ میں سے ۲۲ ممالک اس نظام کا حصہ ہیں۔ یورپی یونین کی متحدہ نگراں سرحدی فوج فرنٹ ٹیکس ہے جو اس علاقے سے باہر کے باشندوں کو اندر آنے سے روکتی ہے۔
یورپی یونین کا ایک اور نظام جو خاص طور پر یورپ میں آنے والے مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وضع کیا گیا، وہ ڈبلن معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ ۱۹۹۰ء میں طے پایا تھا۔ ۲۰۰۳ء کے بعد ۲۰۱۳ء میں اس کے اندر ترامیم کی گئیں۔ اس کے تحت یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں پناہ کی تلاش میں داخل ہونے والے شخص کی درخواست کی جانچ کا اصول بنایا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے بعد پناہ گزین جس پہلے یورپی ملک میں داخل ہوگا، اس کی درخواست کی جانچ اُسی کی ذمہ داری ہوگی۔ اگر وہ یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک میں داخل ہوا بھی تو اسے واپس پہلے ملک لوٹا دیا جائے گا۔
حال میں پیش آنے والے کچھ المناک واقعات نے مسئلہ مہاجرین اور ان نظاموں پر عملداری کے سوالات کو بے حد نمایاں کر دیا۔ ۲۷؍اگست کو لیبیا سے یورپ آنے کی کوشش میں پانچ سو پناہ گزینوں سے بھری دو کشتیاں بحیرۂ روم کا نوالہ بن گئیں۔ اسی دن ۷۱ شامی باشندے آسٹریا کے اندر ایک بند لاری میں دم گھٹنے سے مردہ پائے گئے۔ ان واقعات سے قبل ہنگری نے مہاجرین کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے یکطرفہ طو رپر ڈبلن اصولوں کو معطل کر دیا تھا اور اپنی سرحد پر ۱۱۰؍میل طویل خاردار تاروں سے بھری متنازع خندق بھی کھودنا شروع کر دی تھی۔ بعدازاں وہ اس پر دیوار تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ اس نے ہنگری سے گزر کر یورپ کے دوسرے ملکوں کو جانے والے شامی مہاجرین کو لینے سے بھی انکار کر دیا۔ انجیلا مرکل چھٹیاں گزار کر اگست کے آخر میں جب فرائض کی انجام دہی کے لیے دوبارہ دفتر آئیں تو انہوں نے کہاکہ یورپ کو ڈبلن اصولوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے صرف شامی مہاجرین کے لیے ڈبلن اصولوں کو معطل کرکے مبصرین کو حیران کر دیا، کیونکہ اس سے پہلے مہاجرین کے معاملے پر ان کا موقف ہچکچاہٹ اور تردّد پر مبنی تھا۔ چند دن بعد ہی ۲ستمبر کو ایلان کردی کی ہلا دینے والی تصویر کے سامنے آنے پر سماجی و عالمی ذرائع ابلاغ میں بھونچال آگیا۔ ہنگری جو اپنی سرحد بند کر چکا تھا، دبائو میں آکر اسے کھولنے پر مجبور ہوگیا۔ انجیلامرکل کی طرف سے محفوظ راستہ دیے جانے کے اعلان کی وجہ سے ہزاروں پناہ گزین، جو ہنگری کے بدحال عارضی خیموں میں لاچار پڑے ہوئے تھے، آسٹریا سے ٹرین پکڑ کر جرمنی کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہی وہ وقت تھا جب انجیلامرکل براعظم یورپ کی ہمدرد ترین خاتون بن کر سامنے آئیں اور ہنگری کے وزیراعظم نے بیان دیا کہ یہ مسئلہ، جرمنی کا مسئلہ ہے۔
اس کے بعد تیزی سے بدلتی صورتحال میں ہزاروں مہاجرین کی مسلسل آمد سے گھبرا کر جرمنی نے اپنے شینگن فرائض کو معطل کرنے کا اعلان کردیا۔ اس نے آسٹریا کے ساتھ اپنی سرحد پر رکاوٹیں لگانا شروع کردیں اور ویانا اور میونخ کے درمیان ریل سروس بند کردی۔ ’’مہاجرین کو خوش آمدید‘‘ کے بعد اب ’’بہت ہوگیا‘‘ کی صدا بلند ہونے لگی۔ جرمن حکام نے کہاکہ صرف اگست کے آخر سے اب تک ۶۳,۰۰۰ پناہ گزین جرمنی آچکے ہیں۔ ہنگری نے مزید آنے والے پناہ گزینوں کو جیل میں ڈالنے کی دھمکی دی۔ چیک وزیر داخلہ میلان چووانیک نے ٹوئٹ کیا کہ یہ مسئلہ جرمنی کی متضاد پالیسی کی وجہ سے خراب ہوا ہے۔ جبکہ جرمنی کے نائب چانسلر نے بیان دیا کہ ہمارے پاس لامحدود گنجائش نہیں ہے۔
یورپی یونین کے راہنما پچھلے دو تین ماہ سے اس مسئلے کے حل کے لیے مشاورتوں میں مصروف ہیں۔ جرمنی اور کچھ مغربی یورپی ممالک ہر ملک پر مہاجرین کو پناہ دینے کا لازمی کوٹہ مقرر کرنا چاہتے ہیں، مگر مشرقی یورپی ممالک اس تجویز کے سخت مخالف ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے ۲۴ ستمبر کو یورپی یونین کی ایک نئی مہاجرین کانفرنس ہونے جارہی ہے۔
یورپ میں جو مسئلہ مہاجرین ہے، اس کی کئی جہتیں ہیں۔ اس مسئلے نے یورپ کے دونوں نظاموں شینگن اور ڈبلن پر ضرب لگائی ہے۔ اس نے یورپ کے انضمام اور ہم آہنگی، وحدانیت اور یکجہتی کو چیلنج کیا ہے۔ سرحدی رکاوٹوں کو ختم کردینے کی جو منزل یورپ نے صبر آزما مراحل کے بعد حاصل کی ہے، اس کے انہدام کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ یورپ کے اندر سیاسی رجحانات اور قومی مفادات کی تقسیم کی لکیریں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔
مثال کے طور پر جرمنی کا ڈرامائی طور پر دلاور بن کر سامنے آنا اور پھر پیچھے ہٹ جانا جرمنی کی اندرونی سیاست اور سماجی حرکیات کی پیچیدگی کا عکاس ہے۔ مضبوط شخصیت کی مالک انجیلامرکل پچھلے دس سال سے جرمنی کی چانسلر ہیں اور بہت مقبول ہیں۔ جرمنی میں اگلے سال مارچ میں ریاستی (صوبائی) انتخابات ہونے والے ہیں جبکہ ۲۰۱۷ء میں وفاقی انتخابات متوقع ہیں۔ قوی امکان ہے کہ انجیلاچوتھی باری کے لیے بھی انتخاب لڑیں گی۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جرمنی میں مجموعی طور پر رائے عامہ مہاجرین کی دادرسی کرنے کے حق میں تھی۔ جرمنی جہاں فرانس کے مقابلے میں بائیں بازو کا طبقہ بہت مضبوط ہے، ولیم قیصر اور ایڈوولف ہٹلر کے بدصورت جرمنی کو پسند نہیں کرتا۔ انجیلامرکل نے انہیں ایک بہتر چہرہ فراہم کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس سے بھی زیادہ قابل غور سچائی یہ ہے کہ جرمنی کی شرح پیدائش خطرناک حد تک کم درجے پر پہنچ چکی ہے اور وہاں بوڑھے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چند سال پہلے جب سرخ اشارہ ملنا شروع ہوا تو جرمنی کے رہنمائوں نے جرمنی میں خوش آمدید کے عنوان سے آسان مہاجرت کا ایک نظام تراشا۔ اس کے تحت انتہائی ہنرمند افراد کو جرمنی کی افرادی قوت اور ٹیکس دہندگان کی قلت پوری کرنے کے لیے جرمنی میں جگہ دی گئی۔ شامی مہاجرین سے بھی جرمنی یہی کام لینا چاہتا ہے۔
دوسری طرف یورپ کی سابق مشرقی، اشتراکی ممالک کا مہاجرین کے ساتھ رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر رویہ نہایت معاندانہ ہے، جیسے سلواکیہ نے کہا ہے کہ ہم ۲۰۰ شامی مہاجرین کو پناہ دیں گے مگر وہ تمام عیسائی ہونے چاہئیں، کیونکہ ہمارے پاس مساجد نہیں ہیں۔
بعض مبصرین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ شامی باشندے معاشی مہاجر (Economic Migrant) نہیں، پناہ گزیں (Refugee) ہیں۔ لہٰذا بین الاقوامی قانون کے مطابق یورپ انہیں پناہ دینے کا پابند ہے۔ مگر اصطلاحوں کی اس لڑائی میں یورپ کے راہ نمائوں کا اصرار ہے کہ چونکہ یہ لوگ ترکی یا دیگر ممالک سے گزر کر آرہے ہیں (جہاں وہ بطور مہاجر مندرج ہیں) چنانچہ انہیں محفوظ (Safer) نہیں بلکہ بہتر (Better) زندگی کی تلاش ہے۔ اس دلیل کے پیچھے یورپ کا خودغرض مفاد مخفی ہے۔ یورپ کو ہنرمند، کام کرنے کے قابل توانا افراد درکار ہیں۔
دریں اثنا انسانی ہمدردی کی فضا میں یورپی ممالک کی جانب سے مختلف بیانات سامنے آئے ہیں۔ جرمنی نے کہاکہ ہم اس سال کے آخر تک آٹھ لاکھ اور اس کے بعد ہر سال پانچ لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دیں گے۔ فرانس نے اگلے دو سال میں چوبیس ہزار، برطانیہ نے پانچ سال میں بیس ہزار، ناروے نے ۲۰۱۷ء تک آٹھ ہزار شامی مہاجرین کو قبول کرنے کا عندیہ دیا۔
انسانی ہمدردی کی پکار کہیں سے بھی اٹھے، قابل قدر ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ سائیکس پیکوٹ معاہدے (فرانس اور برطانیہ کے درمیان جنگ عظیم اول کے بعد عرب سرزمین کی بندر بانٹ کا معاہدہ) سے لے کر شام کی حالیہ جنگ تک یورپ نے مشرقِ وسطیٰ کی بربادی میں جتنا حصہ ڈالا ہے، اس کے آگے یہ اعلانات بے معنی ہیں۔ جو محنت یورپ نے اس خطے کو بگاڑنے میں کی ہے، اس المیے کا حل یورپ سے کم ازکم اتنی ہی محنت کا متقاضی ہے۔
شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد یورپی اقوام اور امریکا بشارالاسد مخالف ’’غیر اسلام پسند‘‘ باغی گروہوں کو اسلحہ فراہم کرتے رہے۔ یورپی اقوام ۲۰۱۱ء سے اب تک شام کے باغی گروہوں کو ۸۲ ملین ڈالر جبکہ امریکا ۷ء۷ بلین ڈالر دے چکا ہے۔ اور اب یہ تمام ممالک وہاں بیک وقت باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے اور داعش پر بمباری کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنی ہی مکروہ پالیسیوں کے نتیجے میں تخلیق پانے والے دہشت گرد گروہ داعش پر بمباری کرنے میں مغربی اقوام ہر روز کئی ملین ڈالر خرچ کر رہی ہیں۔ اس سال کے آغاز میں ایک نئی تباہ کن پالیسی کے طور پر امریکا نے داعش سے لڑنے والے گروہوں کو بھی اسلحہ و امداد فراہم کرنا شروع کردی ہے۔ حالیہ مسئلہ مہاجرین کے دوران فرانس کا یہ مضحکہ خیز بیان سامنے آیا کہ ہم مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے شام میں داعش پر مزید بمباری کریں گے۔
دوسری جانب بحیرۂ روم کے تزویراتی محلِ وقوع پر نظریں جمائے روس شامی حکومت کی بقا کے لیے ۵ء۱؍بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرچکا ہے اور چین کے ساتھ مل کر بشارالاسد کے خلاف پے درپے قراردادیں ویٹو کرتا رہا ہے۔ شام کے الائو میں اربوں ڈالر کی آتشی سرمایہ کاری کرنے والے ان تمام ممالک کو نتیجتاً جنم لینے والے مہاجرین کے المیے سے غرض نہیں ہے۔
تلخ سوالات
مسئلہ مہاجرین کی بحث میں پیچھے چلے جانے والے بعض سوالات زیادہ تلخ اور جواب کے زیادہ طلب گار ہیں۔ ۳ سالہ ایلان کردی اُن بدقسمت لوگوں میں سے تھا جو ہجرت کی کوشش کے دوران میں بحیرۂ روم کا شکار ہوگئے۔ مگر وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے بھی تھا جو شام کے مقتل سے بچ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ شام میں محصور ابھی بھی موجود لاکھوں ایلان کردوں کو کون بچائے گا؟ وہاں اب تک مارے جانے والے ہزاروں بچوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟
آج جب شامی جنگ کی انسانی قیمت ’’مہذب دنیا‘‘ کے ادا کرنے کی باری آئی ہے تو ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی ایلان کردی کی دلخراش تصویر کی ضرورت پڑتی رہے گی؟
شام کا مسئلہ یہ بھی پوچھ رہا ہے کہ کیا سلامتی کونسل میں براجمان اقوامِ متحدہ کے خود ساختہ پانچ عالمی راہنمائوں کی معزولی کا وقت نہیں آگیا؟
Leave a Reply