
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام شام کے موضوع پر ہونے والے مذاکرات میں ہمیشہ کی طرح ایک نظر انداز کردیا جانے والاموضوع اس تنازع میں متاثرہ خواتین کا ایک غیر معمولی عدم تناسب ہے، جو اس تنازع کے نتیجے میں تشدد اور ہجرت کے مسائل سے دوچارہوئی ہیں۔
پچاس فیصد سے زیادہ شامی مہاجرین، جو کہ پڑوسی ممالک جیسے ترکی، لبنان اور اردن میں پناہ گزیں ہیں، خواتین پر مشتمل ہیں۔
’’یہ انتہائی صدمے سے دوچار خواتین ہیں جنہیں ہر قدم پر جنگ کی انتہائی وحشت کا سامنا ہے، اہل خانہ سے بچھڑنے اور اپنی جان کا خوف لاحق ہے جو انہیں ہر مشکل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتا ہے‘‘۔ یہ بات الجزیرۃ نیٹ ورک سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کرائسس ریسپونس کی ڈائریکٹر تائرانہ حسن نے کہی۔
یہاں تین مہاجر خواتین کی کہانی، جو کہ لبنان میں پناہ گزین ہیں، بیان کی جارہی ہے، یہ کہانی خوف اور محبت، حسن اور ظلم کے بیان پر مشتمل ہے۔
بیچنے کو اب صرف چولہا بچا ہے۔ جینان کی کہانی
ان دنوں جینان اپنے ایک چھوٹے سے اور تقریباً خالی گھر میں رہ رہی ہیں۔ ایک سرد فرش پرقالین کے کچھ چیتھڑے ہیں۔ ایک کونے میں کچھ پرانی چوبی کرسیاں جن پر گرد آلود کشن موجود ہیں۔ ایک ایسی جگہ جہاں ان کے تین بیٹوں کے کھیلنے کودنے کے لیے تو کافی جگہ ہے مگر چھپن چھپائی کا کھیل کھیلنے کے لیے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں۔ جینان چھ ماہ کی حاملہ خاتون ہیں اور چوتھے بچے کی امید سے ہیں۔ ان کے شوہر محمد چار ماہ قبل انہیں چھوڑ کر جرمنی چلے گئے ہیں۔ ان کا ایک ساڑھے تین سال کا بیٹا حسن ایک پیدائشی مرض میں مبتلا ہے اور مستقل علاج کا متقاضی ہے۔
جینان کا کہنا ہے ’’مجھے ہر ماہ ۲۵۰ ڈالر خرچ کرنے ہوتے ہیں اور میرے پاس اب مزید کوئی رقم نہیں ہے۔ میں اب تک اپنا سامان فروخت کرکے گزارہ کر رہی ہوں اور اب تک اپنا فرج اور دیگر سامان فروخت کرچکی ہوں تاکہ خوراک اور بچوں کے لیے دوائی کا انتظام کرسکوں، اب بیچنے کو شاید یہ چولہا ہی بچا ہے‘‘۔ جینان نے خالی کمرہ میں نظر گھمانے کے بعد اپنی بات مکمل کی۔
اس سے قبل ان کے شوہر محمد انہیں ۳۰۰ ڈالر دے کر گئے تھے، اس وعدے کے ساتھ کہ وہ جلد ہی انہیں جرمنی بلالیں گے۔ جب وہ ترکی اور یونان کے راستے جرمنی کے لیے روانہ ہوئے۔ محمد چار سال جنوبی بیروت کے برج البراجنہ کیمپ میں گزارنے کے بعد یورپ کے ایک خوفناک سفرپر روانہ ہوئے تاکہ اپنے خاندان کے لیے ایک پائیدار اور بہتر مستقبل کا سامان کیا جاسکے۔ محمد کا تعلق شام سے ہے جبکہ جینان ایک فلسطینی پناہ گزین مہاجر ہیں۔ ان کی ملاقات برج البراجنہ کیمپ میں ہوئی جب محمد تعمیراتی کام کی تلاش میں لبنان آئے۔ جینان کے والدین کم عمری ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ کچھ دنوں بعد محمد نے جینان کے چچاکو شادی کے لیے پیغام بھیجا۔ اس نے خاصی رقم پس انداز کی تاکہ جینان کو کیمپ کی جسمانی مشقت سے نجات دلاکر ایک راحت افزاء زندگی کی طرف لے جاسکے۔
’’میری ابتدائی زندگی اور بچپن والدین کے بغیر بہت ہی تلخ تھا، میں عمومی طور پر ایک جذبات سے عاری لڑکی تھی۔‘‘ جینان نے اپنی یادیں کریدتے ہوئے کہا ’’لیکن میں چاہتی تھی کہ کوئی ہو جو میرے دل میں ان احساسات اور خواہشات کو زندہ کرے۔ میں محبت کو محسوس کرنا چاہتی تھی۔ میں ایک ایسا خاندان چاہتی تھی جہاں کوئی ہو، جو میرا خیال کرے‘‘۔
دو ماہ کی ابتدائی ازدواجی زندگی میں محمد نے جینان کو تحائف خرید کر دیے، انہوں نے اپنے ماضی کو یاد کیا اور اپنے مستقبل کے لیے کچھ خواب بنے، وہ خواب جہاں ماضی کی کوئی تلخی نہ ہو۔
’’محمد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں وہ سب کچھ تمہیں دینے کی کوشش کروں گا جو تم ماضی میں نہ پاسکیں۔ میں ہر جگہ تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارا خیال رکھوں گا اور میں نے سوچا کہ یہی وہ فرد ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔ واحد چیز جس کا محمد نے مجھ سے تقاضا کیا، وہ حجاب تھا اور میں نے سوچا کہ جب میں اس شخص سے شادی کررہی ہوں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
شادی کے بعد محمد اور جینان درعا، شام آگئے۔ ایک سال بعد بمباری شروع ہوگئی۔
’’درعا میں صورتحال بہت خوفناک تھی۔ بچے مسلسل بمباری سے بہت خوفزدہ تھے اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ کون کسے مار رہا ہے۔ ہم بمشکل اپنی غذائی ضرورت پوری کررہے تھے‘‘۔
پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ واپس لبنان، برج البراجنہ کیمپ چلیں۔ اب محمد جرمنی میں ہیں اور ان کے درمیان صرف سمعی پیغامات کا رابطہ ہے۔ ان کے پیغامات ان کی مایوسیوں کا عنوان ہیں۔ محمد کووہاں کھانوں کی شکایت ہے اور وہ جینان کے ہاتھ کے بنے کھانوں کو یاد کرتا ہے۔ جینان اسے تسلی دیتی ہے مگر وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت پریشان ہے خاص طور پر اپنے آنے والے مہمان کے حوالے سے کہ اس کی دیکھ بھال کیسے ہوگی۔ اس کے خیالات منتشر ہوگئے جب دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک خاتون کمرے میں داخل ہوئیں اور گھر کاجائزہ لیا۔ جینان کی نظریں خوف سے اس عورت کا پیچھا کرتی رہیں۔
خاتون چلی گئیں اور جینان نے اس کے پیچھے دروازہ بند کیا۔ جینان نے بتایا کہ وہ عورت مالک مکان ہے اور یہ بتانے آئی تھی کہ ایک اور خاندان یہ مکان دیکھنے آرہا ہے اور شاید جلد ہی اسے یہ مکان خالی کرنا ہوگا۔ جینان پریشان نظر آتی ہے، اس کے بچوں نے بہت دنوں سے دال چاول کے سوا کچھ نہیں کھایا۔ بعض اوقات ایک وقت کا فاقہ محض اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ آنے والے دنوں کا سامان کیا جائے۔
’’میرے بیٹے کو کل بہت تیز بخار تھا مگر میرے پاس ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ کچھ بیچ کر گھر کا کرایہ ادا کیا جائے مگر اب بیچنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ میں نہیں جانتی میں کہاں جاؤں۔۔۔۔ میرے تین بچے ہیں اور کوئی مجھے نہیں رکھے گا‘‘ جینان نے کہا۔
فون کی بتی روشن ہوئی اور اس کا چہرہ جگمگا اٹھا پریشانی کچھ دیر کے لیے غائب ہوگئی۔ یہ محمد کا پیغام تھا۔
میرا گھر۔ یہ پتھر۔ منتہیٰ کی کہانی
منتہیٰ اور ان کی سہیلیاں رشہ اور مجدلینہ، منتہیٰ کے اپارٹمنٹ میں دوپہر کی چائے پر اکٹھی ہوئی ہیں۔ یہ بیروت کے شمال میں واقع مشہور فلسطینی پناہ گزین کیمپ شطیلہ ہے جو اب جنگ کے آغاز سے شامی مہاجرین کاگھر بن گیاہے۔ منتہیٰ چائے پیش کرتے ہوئے نرم مسکراہٹ اور گرم قہقہہ سے تواضع کرتی ہے۔ یہ سہیلیاں اپنے بچوں کے قصے ایک دوسرے کو سناتی ہیں۔یہ ایک چھوٹا سا دائرہ ان خواتین پر مشتمل ہے جو شام کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے آئی ہیں، اپنے تجربات کا تبادلہ کررہی ہیں، جنگ اور ہجرت کے تجربات۔ ایک غیر ملک میں اپنے گھر کا احساس جہاں انہیں شدید مسائل کا سامنا ہے۔
منتہیٰ درعا سے چار سال قبل آئی تھی۔ ’’میں نے دس دن کے لیے سامان ساتھ لیا جب میں لبنان آئی۔ میرا یہ گمان تھا کہ بس چند دنوں کی بات ہے اور چیزیں معمول پر آجائیں گی لیکن میں تب سے یہیں ہوں‘‘ منتہیٰ نے کہا۔ ان کے شوہر ایک سپر مارکیٹ کے مالک تھے جو بمباری کا نشانہ بن گئی۔ ان کے خاندان کا سب کچھ چھن گیااور ان کے شوہر نے اس نئی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے سخت جدوجہد کی۔
’’میرے شوہر بہت محبت کرنے والے تھے‘‘ اس نے یاد کرنا شروع کیا، ’’ہماری شادی سے قبل وہ اسکول کے باہر میر ا انتظار کرتے تھے جہاں میں پڑھاتی تھی۔ ایک دن انہوں نے میرے پڑوسی سے میرا نمبر لیا اورمجھے فون کیا۔ مجھ سے کہا کیا میں تمہارے بارے میں زیادہ بہتر جان سکتا ہوں‘‘ پھر منتہیٰ ہنس دی۔ ’’میں خوب تیار ہوکر ان کے ساتھ سیر کرتی مگر جب سے جنگ شروع ہوئی میرے شوہر بہت مضطرب اور پریشان رہنے لگے تھے۔ بے چارہ میرا شوہر!! میں ان کے بارے میں بہت پریشان ہوں‘‘۔ منتہیٰ نے کہا۔
’’تمہیں پتا ہے میں ماضی کی یادوں میں نہیں رہنا چاہتی مگر۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھرّا گئی، جب اس نے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی۔
رشہ اور مجدلینہ اس کے دکھ کو بھی بہتر جانتی ہیں۔ وہ یرموک اور الرقۃ سے اسی دوران لبنان آئی تھیں اپنے چند بیگ لے کر، اس امید کے ساتھ کہ واپسی جلد ہوگی۔ تین سال قبل اس نے والدین اور عزیزوں کو آخری بار دیکھا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی ۱۷ سالہ محمد شامی حکومت کی قید میں تھا اور اب نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہے کہ نہیں۔ رشہ اپنے والدین کے بارے میں بہت پریشان ہے، جو شام میں رہ گئے ہیں۔ حفاظتی نقطہ نظر اور غیر یقینی ٹیلی فونک رابطہ کی وجہ سے مہینہ میں ایک یا دو دفعہ ہی بات ہوپاتی ہے۔جب ان کی آواز نہیں سن پاتی اس کے دن بیزاری سے گزرتے ہیں۔ ’’میرے شوہر اور میرے پاس ایک دوسرے کے لیے کوئی وقت نہیں ہے مگر ہم ہر وقت پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔ وہ اپنے والدین اور میں اپنے والدین کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں‘‘۔ رشہ نے بتایا۔
مجدلینہ سوچتی ہے کہ آیا وہ دوبارہ الرقۃ واپس جاسکے گی، جو اَب داعش کا مضبوط گڑھ بن چکا ہے۔ ’’ہم بس واپس جانا چاہتے ہیں۔ شام ہمارا گھر ہے، ہم شامی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ اگر میں اپنے گھر اپنے ملک شام جاسکی تو میں یورپ کے مقابلہ میں شام کو ترجیح دوں گی‘‘ مجدلینہ نے کہا۔
منتہیٰ کا گھر اب وہاں نہیں ہے۔ اسے اب بھی وہ دن یاد ہے جب بمباری سے ان کا گھر تباہ ہوا۔ ان کی خوشدامن نے انہیں ایک ٹیکسی میں ٹھونس دیا تاکہ وہ لبنان چلی جائیں۔ بم بارش کی طرح برس رہے تھے۔ منتہیٰ نے یاد کیا۔ لیکن جب ٹیکسی روانہ ہوئی تو منتہیٰ نے ڈرائیور کو واپس چلنے کو کہا۔ وہ ٹیکسی سے باہر نکلی اور اپنے برباد صحن میں آئی، اس نے اپنے مکان کی شکستہ دیوار کا ایک ٹکڑا اٹھالیا۔ لبنان کے سفر تک وہ ٹکڑا منتہیٰ کے ہاتھ میں تھا۔ وہ ٹکڑا اب بھی منتہیٰ کے ہاتھ میں تھا۔ ’’میں نے اپنا کوئی زیور اپنے ساتھ نہیں لیا، میرے لیے یہ پتھر ہی سب کچھ تھا‘‘۔
لبنان کی عورتیں بہت خوبصورت ہیں۔ ثنا کی کہانی
ہر شام ۲۰ سالہ ثنا بیروت کے پرہجوم علاقہ حرمہ اسٹریٹ پر اپنے تین بچوں کے ساتھ آجاتی ہے جہاں ایک قطار میں دفاتر اور ریستوران موجود ہیں۔ وہ دیوار پر صفائی کے ساتھ کارڈ بورڈ آویزاں کرتی ہے اور بھیک مانگنا شروع کردیتی ہے۔
ثنا ایک ماہ کی حاملہ تھیں جب ان کے شوہر ادلب کے بم دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ ’’مجھے شروع میں بہت شرم آئی۔ میں صرف رات میں آتی تاکہ لوگ میرا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور مجھے شناخت نہ کرسکیں۔ میرے پڑوسی نہیں جانتے میں کیا کرتی ہوں‘‘ ثنا نے بتایا۔
کسی نے ثنا کے بچوں کے لیے کچھ کھلونے چھوڑ دیے۔ اس کے بچوں نے فوراً اشتیاق سے ان کی پیکنگ کھول دی۔ کچھ نوعمر شامی بچے جوتے پالش کے سامان کے ساتھ ایک کونے میں خاموشی سے کھڑے ہیں، دن بھر سیاحوں کی خدمت کرنے کے بعدتھک ہار کر۔ ان میں سے ایک نے ثنا سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسے کوئی کام دلادے گا۔ دو لبنانی خواتین ایک ٹرے میں کچھ سامان خور و نوش ثنا کے بچوں کے لیے لے کر آئی ہیں۔ ثنا کی آنکھیں چمک اٹھیں کہ اس کے بچوں نے کھانا شروع کیا۔ کچھ اوربچوں نے اس کے گرد منڈلانا شروع کردیا اور ثنا نے ان پر چلانا شروع کردیا۔ ’’تم نے کیا سمجھا ہے یہاں کیا ہورہا ہے؟ جاؤ یہاں سے‘‘ ایک اور شامی بچی نے چلا کر جواب دیا ’’تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ تم دیکھ نہیں رہیں؟ میں بھیک مانگ رہی ہوں‘‘۔ جب اس کے بچے ایک کھلونا ٹرک کا پیچھا کررہے تھے، اس کی نگاہوں نے پاس سے گزرتی کچھ خوش لباس خواتین کا پیچھا کیا جن کے جوتوں کی ایڑی سڑک بجاتی جارہی تھی۔ ’’لبنانی عورتیں بہت خوبصورت ہیں، مجھے ان کا لباس اور میک اپ بہت پسند ہے‘‘۔ کچھ توقف کے بعد وہ پھر بولی ’’میں ایک زلف تراش بننا چاہتی تھی۔ ایک بیوٹی سیلون میرا خواب تھا‘‘۔
’’کبھی کبھی میں اداس ہو جاتی ہوں ان خوش لباس لوگوں کو دیکھ کر، ان بچوں کو جو میرے قریب اچھے کپڑوں میں خوشی سے کھیل رہے ہوتے ہیں اور میرے بچے۔۔۔‘‘ آنسو ثنا کی آنکھوں سے چھلک پڑے اور وہ آگے کچھ نہ کہہ سکی۔
“Syrian women share stories of resilience”. (“Al-Jazira.com”. Jan.28,2016)
Leave a Reply