
شام میں جاری خانہ جنگی میں پیش آنے والے بے شمار اندوہناک اورخونچکاں واقعات، جن کی ذمہ داری بڑی حد تک بشارالاسد حکومت پر عائد ہوتی ہے، سے قطع نظر،کسی کو وہاں ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ یہ معاہدہ وہاں جاری انتہائی ہولناک جنگ کے خاتمے کا غالباً آخری موقع تھا۔ اس سے روسی وزیر ِ خارجہ، سرگی لورف (Sergey Lavrov)کے اپنے امریکی ہم منصب، سیکرٹری آف اسٹیٹ، جان کیری کے ساتھ متاثر کن ذاتی تعلقات کا بھی اظہار ہوتا تھا۔ تاہم جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی، اور شامی حکومت کے ایک فوجی بیس، دیرالزور پر امریکی طیاروں کی بمباری سے ساٹھ فوجی ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ بدتریہ کہ اس واقعے نے کچھ سابق رپورٹس کی تصدیق کردی، جن کے مطابق جنگ بندی کے معاہدے پر پینٹاگون خوش نہیں تھا کیونکہ ایسا کرتے ہوئے اسے روسی فوج کے ساتھ رابطہ رکھنا تھا،اور یہ بات پینٹاگون میں موجود افسران کے لیے کسی طور گوارا نہ تھی۔
اگر یہ قیاس درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ امریکی فوج نے اپنی ہی حکومت کی بنائی گئی پالیسی کو نقصان پہنچا کر ایک طرح کی حکم عدولی کا ارتکاب کیا ہے۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ اس حملے نے شامی فوج کے گھیرے میں آئے ہوئے داعش کے جنگجوؤں کو قصبے میں داخل ہونے اور تین سو کے قریب شہریوں کو ہلا ک کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ اس سے پہلے اُن کی راہ میں بشارالاسد کی سرکاری فورسز مزاحم تھیں۔ اس سے دمشق کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل گیا کہ امریکا بھی داعش کی پشت پناہی کررہا ہے تاکہ وہ اسلامی جہادی گروہ اسد حکومت کا تختہ الٹ دے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو اس کے خوفناک مضمرات ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا مغربی میڈیا اس تمام صورت ِحال کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اُس واقعے کو اچھالتا دکھائی دیا، جس میں اقوام متحدہ کے ایک امدادی قافلے پر مبینہ طور پر روسی طیاروں نے بمباری کی تھی۔ عین ممکن ہے کہ یہ حملہ بھی بشارالاسد حکومت کے خلاف لڑنے والی مقامی فورسز نے کیا ہو۔
امریکی موقف ہے کہ دیرالزور کا حملہ جان بوجھ کر نہیں بلکہ حادثاتی طور پر ہوگیا تھا۔ تاہم امریکی فوج ’’حادثاتی طور ہونے والے حملوں‘‘ کا طویل ریکارڈ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر اس نے ۱۹۹۹ء میں بلغراد میں چینی سفارت خانے پر حادثاتی طور پر بمباری کی تھی۔ تاہم ایک مرتبہ پھر ’’حادثاتی طور پر ہونے والے حملے کی تھیوری‘‘ کی تصدیق کرنے میں میڈیا نے کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی، اور جو کچھ بتایا گیا، چپ چاپ مان لیا۔ دوسری طرف اس نے یواین قافلے پر ہونے والے حملے پر زیادہ توجہ دی کیونکہ اس میں مبینہ طور پر ماسکو ملوث تھا۔ یہ بات بھی غلط نہیں کہ جب بھی کوئی جواز پیش کرنا ہو، ماسکو اپنا سب سے بڑا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ روسی وزارت ِ دفاع میں سے کسی نے دعویٰ کیا کہ ہوسکتا ہے حملے کا نشانہ بننے والے قافلے کے پاس خودبخود آگ پکڑنے والی چیزیں موجود ہوں۔ جان کیری نے اس کی سیکورٹی کونسل میں تردید کی تھی کہ قافلے کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ گزشتہ برس، اگست میں روسی وزارت ِخارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے یقین دلایا تھا کہ اُن کے پاس اس بات کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، جو اُنھوں نے اپنے ریڈار سسٹم سے حاصل کیے، کہ یوکرائن کے لڑاکا طیاروں نے جولائی ۲۰۱۴ء میں لاپتا ہونے والے ملائیشیا کے مسافر طیارے کو مار گرایا تھا۔
یہ درست ہے کہ تمام حکومتیں ہی دروغ گوئی سے کام لیتی ہیں، لیکن اس میدان میں کچھ کا پلڑا دوسروں سے بھاری رہتا ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمارا مغربی میڈیا اس دورغ گوئی کا ساتھ کیوں دیتا ہے؟ وہ اس پروپیگنڈے کا آلہ کار کیوں بن جاتا ہے۔ اس کی سب سے افسوسناک مثال ایک انتہائی قابل ِ احترام اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کا عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا پروپیگنڈا کرنا تھا (بعد میں اخبار نے اس پر معذرت کی تھی)۔ اس کی ایک وجہ انٹیلی جنس اداروں کے افسران کا میڈیا سے رابطے میں رہنا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی پیش کش کے عوض بھی میڈیا کسی موقف کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ بعض اوقات میڈیا سے منسلک افراد کو جان بوجھ کر ایسی معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو وہ سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی چالاکی سے حاصل کی ہیں۔ وہ نہیں سمجھ پاتے کہ اُنہیں کوئی آلہ کار بنا رہا ہے۔ اسی طرح کوئی میڈیا گروپ اپنے حریف گروپ پر سبقت لے جانے کے لیے بھی اس کھیل میں شریک ہوسکتا ہے۔ جرمنی کے ایک سینئر ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ عمل دخل مالی مفاد کا ہوتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے آزاد صحافی جو ملکی مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کا باریک بینی سے کھوج لگانے میں بہت فعال ہوتے ہیں، بیرونی معاملات میں وہ لکیر کے فقیر ثابت ہوتے ہیں۔ وہ خارجہ پالیسی کی خامیوں کو منظر ِعام پر لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
میں اس کا الزام ’’منفی تاثر سازی‘‘ (Demonization effect) کو دیتا ہوں۔ افراد کی طرح معاشرے بھی باقی دنیا کو دوٹوک، یکطرفہ اور من پسند زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہ اجتماعی تعصب، نفرت اور ناپسندیدگی کی لکیرکو گہرا کردیتا ہے جو حکومت نے اپنی پالیسیوں سے کھینچی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے جاپان ایک خراب مثال پیش کرتا ہے۔ یہاں روایتی اور اجتماعی سوچ کی پیروی نہ کرنے والوں کو ’’احمق اور آؤٹ سائیڈر‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
’’نیویارک ٹائمز‘‘ جیسا اخبار بھی طویل عرصے تک ایک نوجوان کی تصویر شائع کرتا رہا، جو چینی فورسز کے ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہونے کی وجہ سے ’’ٹینک مین‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم AP کے فوٹوگرافر، جیف وائیڈنر کا کہنا ہے کہ جس ٹینک مین کا چرچا ہوا، وہ کوئی راہگیر تھا جو شاپنگ بیگ لے کر ٹینکوں کے آگے سے گزرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اُس دن ٹینک شہر میں داخل نہیں ہورہے تھے، بلکہ شہر سے نکل رہے تھے۔ گویا نیویارک ٹائمز کی رپورٹنگ کے برعکس اس میں آمریت کے خلاف مزاحمت والی کوئی کہانی نہیں تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ نیویارک ٹائمز مضامین میں ہونے والی چھوٹی موٹی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرکے اگلے دن ان کی تصحیح کرتا ہے، لیکن اس نے بیجنگ کا منفی تاثر ابھارنے والے اس غلط فوٹو کی اشاعت پر کبھی معذرت نہیں کی۔
اسی طرح مغربی میڈیا روس کا منفی تاثر پوری شدومد سے ابھارنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس پر موجودہ دور میں یوکرائن پر جارحیت کا الزام ہے، لیکن کیا جرمنی اور فرانس بھی برابر کے قصور وار نہیں، جنھوں نے Minsk معاہدے میں ۲۰۱۵ء میں مشرقی یوکرائن کے حوالے سے ماسکو کے موقف کی تصدیق کی تھی۔ تاہم ہم ان ممالک کی طرف تنقید کا رخ نہیں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ماسکو نے پرامن طور پر روسی زبان بولنےوالے کریمیا کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ علاقہ اس نے ۱۹۵۴ء میں صرف انتظامی طور پر یوکرائن کے حوالے کیا تھا۔ جو مغربی میڈیا کریمیا پر روسی قبضے پر ہلکان ہوگیا تھا، اُسے نیٹو کی بلغراد پر وحشیانہ بمباری دکھائی نہ دی، اور نہ ہی اسے نیٹو میں شامل انقرہ کی شمالی سائپرس میں ترکی کی حامی ریاست قائم کرنے کے لیے نسلی بنیادوں پر مخالین کا صفایا کرنے کی مہم دکھائی دیتی ہے۔ ماسکو کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے اپنے ایک دو مخالفین کو ٹارگٹ کرکے ہلاک کرنے کا بہت چرچا کیا جاتا ہے، لیکن سی آئی اے کے انہی اقدامات سے غمازی برتی جاتی ہے۔ سی آئی اے کی طرف سے کیوبا کے فیڈل کاسترو کو ہلاک کرنے کی پیہم کوشش کو صرف مذاق ہی سمجھا جاتا تھا۔ دراصل ہمار ے میڈیا کا دوستوں اور دشمنوں کے لیے رپورٹنگ اور تاثر سازی کا معیار یکساں نہیں ہے۔
“Syria’s civil war and bias in western media”. (“Japan Times”. Sept. 28, 2016)
Leave a Reply