
شام میں جاری خانہ جنگی کو ۷ سال بیت چکے ہیں اور حالات جس طرف اشارہ کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ حکومتی افواج اور باغیوں کے درمیان ایک آخری معرکہ بس ہونے کو ہے۔ حکومتی افواج نے ایران اور روس کی مدد سے باغیوں کے زیر اثر کئی علاقوں کا قبضہ واپس لے لیا ہے۔اب وہ باغیوں کے آخری گڑھ ادلب پر فیصلہ کن حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ حالات ایک انسانی المیے کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
ادلب میں تقریباََ ۳۰ لاکھ لوگ مقیم ہیں، جن میں آدھے سے زیادہ وہ بے گھرافراد ہیں جن کا تعلق شام کے دیگر علاقوں سے ہے۔جیسے جیسے شام میں باغیوں کے علاقوں پر حکومت کا قبضہ ہوتا وہاں پھنسے ہزاروں عام شہری ادلب کا رُخ کرتے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق صوبے کی ۱۶ لاکھ سے زیادہ آبادی کا انحصار غذائی امداد پر ہے۔ یہ صوبہ شامی حزب اختلاف کا گڑھ ہے ۔یہاں کئی عسکری دھڑے بھی موجود ہیں۔ان میں سب سے زیادہ طاقتور ھیئۃ تحریر الشام ہے، یہ گروپ ماضی میں القاعدہ سے بھی وابستہ رہ چکا ہے۔
گزشتہ سالوں میں ادلب کے سینکڑوں شہری حکومت اور روس کے فضائی حملوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ادلب میں محصور شہریوں کے بارے میں خدشات بڑھتے جارہے ہیں، کیوں کہ ترکی مزید شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے پر تذبذب کا شکار ہے۔
شام میں تعینات اقوام متحدہ کے نمائندے Staffan de Mistura نے اپیل کی ہے کہ ادلب میں محصور عام شہریوں کو حکومت کے زیر اثر علاقوں تک ایک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے۔ اس طرح کی کئی اپیلیں اس وقت بھی کی گئی تھیں، جب حکومتی افواج حمص، حلب، دمشق اور دیگر علاقوں سے باغیوں کا قلع قمع کر رہی تھیں، اس وقت بھی ان اپیلوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔
بشارالاسد اور ان کے اتحادی ادلب میں بھی کسی قسم کے سمجھوتے اور مفاہمت کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کا موقف ہے کہ وہ ادلب کو ہزاروں ’’دہشت گردوں‘‘ سے ’’آزادی‘‘ دلا رہے ہیں۔ میری رفیقِ کار Louisa Loveluck کے مطابق شامی فوج فضا سے پمفلٹ گرا رہی ہے، جن میں باغیوں اور ان کے حامیوں سے ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا ہے۔ اُن پمفلٹ پر لکھا ہے کہ ’’آپ اور آپ کا خاندان کب تک خوف اور پریشانی کے عالم میں رہیں گے‘‘ اور ’’ آخر کب تک آپ کی اولاد اپنے مستقبل سے نا اُمید رہے گی‘‘۔
دوسری جانب روس بھی اپنے موقف پر اڑا ہوا ہے ۔ روسی وزیر خارجہ Sergei Lavrov نے ادلب میں موجود باغیوں کو ناسور قرار دیا ہے۔ روس کی بحری افواج بھی بحیرہ روم میں جنگی مشقوں کی تیاری کر رہی ہیں۔ رائٹرز کے مطابق یہ مشقیں مغربی ممالک کی جانب سے شام کی حکومتی افواج پر ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے روسی اور ایرانی ہم منصبوں کے ساتھ رابطہ کیا ہے تاکہ جنگ بندی کو برقرار رکھا جائے۔شامی بحران کے آغاز کے بعد سے صدر ایردوان کاموقف نمایاں طور پر تبدیل ہوا ہے۔شامی بحران کی ابتداء کے وقت ترکی نے بشار الاسد کی بے دخلی کی حمایت کرتے ہوئے باغیوں کا ساتھ دیا تھا۔تجزیہ کاروں کی رائے میں ترکی کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ اس نے شام کے معاملے میں غلط قدم اُٹھایاتھا۔گو کہ ترکی اب بھی ادلب میں موجود باغیوں پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے، لیکن ترکی نے بشار الاسد کے اتحادیوں کے ساتھ بھی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
International Crisis Group سے تعلق رکھنے والے Joost Hiltermann کا کہنا ہے کہ’’ روس کی کوشش ہے کہ ترکی بشارالاسد حکومت کے ساتھ تعلقات بحال کرلے۔ ترکی کو کرد علیحدگی پسندوں سے محفوظ رہنے اور مزید شامی مہاجرین کے بوجھ سے بچنے کے لیے روس کی مدد درکار ہے، جس کی وجہ سے ترکی کو مجبوراََ بشار الاسد سے صلح کرنی ہوگی‘‘۔
جیسا کہ Louisa Loveluck نے بتایا کہ ترکی چھوٹے باغی گروپوں کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائل کر کے ھیئۃ تحریر الشام جیسے بڑے گروپ کو تنہا کر سکتا ہے۔ ادلب کی قسمت کا دارومدار روس اور ترکی پر ہے۔گو کہ شام میں دونوں ممالک مخالف فریقین کی حمایت کر رہے ہیں، شامی بحران کا پُرامن حل دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ اس معاملے پر سفارتی کوششوں کا اختتام ۷ ستمبر کو تہران میں ہونے والے اجلاس میں ہوگا، جس میں ایرانی حکام بھی شرکت کریں گے۔ ان سفارتی کوششوں کا جو بھی نتیجہ نکلے، شامی عوام کے لیے مستقبل کے امکانات تاریک نظر آتے ہیں ۔شام کی حکومت ملک سے باہر مقیم مہاجرین کو شام واپس آنے کی دعوت دے رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ شام میں مہاجرین کی واپسی کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں۔ مہاجرین حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائیوں سے خوف زدہ ہیں۔لبنان میں مقیم ایک شامی مہاجر نے گارجین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم اپنے پڑوسیوں کے ڈر سے واپس نہیں جاسکتے۔وہ ہماری مخبری کریں گے اور ہمیں غدار کہا جائے گا۔نتیجے کے طور پر ہم بغیر کسی جرم کے جیل میں سڑ رہے ہوں گے۔میرا علاقہ حکومتی فوج اور بدمعاشوں کی آماج گاہ بن چکا ہے، میں آخر کیسے واپس جا سکتا ہوں‘‘۔
شاید اس کے ذہن میں شامی فوج کے میجر جنرل جمال الحسن کا وہ بیان تھا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’ایک ایسا شام جس میں ایک کروڑ شامی اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں، اُس شام سے بہتر ہے جہاںتین کروڑوحشی رہتے ہوں‘‘۔ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ ملک سے ہر طرح کی بغاوت کو ختم کردیں گے۔ادلب میں محصور ہزاروں افراد اس آخری لڑائی کے منتظر ہیں۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Syria’s last rebel stronghold braces for the regime’s wrath”.(“Washington Post”. August 31, 2018)
Leave a Reply