شام: اپوزیشن دھڑوں کے اتحاد کا مسئلہ
دنیا بھر میں حکومتوں کے خلاف اٹھنے والی تحریکیں بہت پیچیدہ معاملہ ہوا کرتی ہیں، مگر شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف چلائی جانے والی تحریک سب سے پیچیدہ ہے۔ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ اپوزیشن کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی۔ ملک بھر میں قتل عام جاری ہے۔ حکومت کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے مگر ملک میں سرگرم عمل حکومت مخالف عناصر سے بیرون ملک مقیم رہنماؤں کا رابطہ کمزور ہے یا بالکل نہیں۔ ملک میں سویلین اور فوجی قیادت میں اس حوالے سے رساکشی چل رہی ہے کہ بشارالاسد انتظامیہ کی مکمل ناکامی کی صورت میں ملک کو کون سنبھالے گا۔ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو کنٹرول کرنا اپوزیشن کے لیے دشوار ہوتا جارہا ہے، کیونکہ کوئی باضابطہ مرکزی قیادت نہ ہونے کے باعث کسی کا حکم نہیں چلتا۔ اقوام متحدہ کے ایلچی لخدر ابراہیمی کہہ چکے ہیں کہ اگر حکومت مخالف دھڑے متحد نہ ہوئے اور انہوں نے قیادت کا مسئلہ حل نہ کیا تو شام کو صومالیہ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ اب بیرونی قوتوں کو یہ فکر لاحق ہوئی ہے کہ شام کو مکمل ناکام ریاست میں تبدیل ہونے سے کیسے بچائیں۔ حکومت کے خلاف لڑنے والے شامی دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے بیرونی قوتیں متحرک ہوگئی ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حال ہی میں شامی اپوزیشن کے دھڑوں کا اجلاس ہوا، جس میں سابق رکنِ پارلیمان اور جلا وطن رہنما ریاض سیف نے متحدہ اپوزیشن کے قیام کے لیے تجویز پیش کی، جسے سب نے اتفاق رائے سے قبول کیا اور متحدہ محاذ قائم بھی ہوگیا۔ ریاض سیف کو شام میں اور شام کے باہر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک ۵۰ رکنی کونسل کی تجویز دی جس میں نوجوانوں کو نمایاں نمائندگی دینے کی بات کی گئی۔ یہ کونسل بہت حد تک اس حکومت کے نمونے کے طور پر کام کرے گی جو بشارالاسد انتظامیہ کے ہٹنے یا ہٹائے جانے کی صورت میں شام کا کنٹرول سنبھالے گی۔ یہی کونسل ملک میں اقتدار کی منتقلی اور سیاسی و معاشی نظام کی بحالی کے لیے بھی کام کرے گی تاکہ ملک کے بگڑے ہوئے معاملات کو تیزی سے درست کیا جاسکے۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شام میں اپوزیشن کے کئی گروپ کام کر رہے ہیں اور ہر گروپ چاہتا ہے کہ متحدہ محاذ میں اس کی بات زیادہ سنی جائے، اسے زیادہ نمائندگی دی جائے تاکہ نئی حکومت میں اس کا حصہ بھی زیادہ ہو۔ سیرین نیشنل کونسل کو یہ بات پسند نہیں کہ متحدہ محاذ میں اسے صرف پندرہ نشستیں دی جائیں۔ اب تک سیرین نیشنل کونسل نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں اس کا کردار نمایاں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کونسل کے لیڈر عبدالباسط سیدا نے کئی مواقع پر سیاسی عدم بصیرت کا ثبوت دیا ہے اور اہم فیصلوں میں تاخیر سے بشار انتظامیہ کو غیر معمولی فائدہ پہنچا ہے۔ شام میں حقیقی تبدیلی کی خواہش رکھنے والی بیرونی اور بالخصوص مغربی قوتیں اب تک سیرین نیشنل کونسل سے خاطر خواہ حد تک متاثر نہیں ہوسکیں۔ مغربی قوتوں کے لیے ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ شام میں کس گروپ کی حمایت کریں، کسے فنڈ دیں اور کسے ہتھیار بند کریں۔ کئی گروپ کہنے کو تو بہت کچھ ہیں مگر زمینی حقائق کچھ اور بیان کرتے ہیں۔ مغرب کی بہت سی قوتیں اب بھی شام میں بشارالاسد انتظامیہ کے مخالفین کو کھل کر فنڈ اور ہتھیار فراہم کرنا چاہتی ہیں مگر اس کے لیے انہیں یہ یقین دہانی درکار ہے کہ جنہیں فنڈز دیے جائیں گے، وہ حقیقی اپوزیشن ہوگی اور حکومت کے خلاف اصل آواز وہی ہو، کوئی اور نہیں۔ اپوزیشن کے کئی گروپ میڈیا کے ذریعے اپنا قد بلند کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ سیرین نیشنل کونسل کو اس بات کی زیادہ خوشی ہے کہ مغربی قوتیں اب شامی گروپوں کو ہتھیار دینے کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔ اب تک ہتھیار فراہم کرنے سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔
برطانیہ اب بھی ہتھیار فراہم کرنے کے موڈ میں نہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ اب تک یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ کون سا گروپ حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایسے میں کسی ایک گروپ کی مدد کرنا انتہائی دشوار ہے۔
لیبیا، قطر اور سعودی عرب سے ہتھیار ترکی کے ذریعے شام کے حکومت مخالف عناصر تک پہنچ رہے ہیں۔ ترکی نے شام سے ملحق سرحد پر پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس بیٹریز نصب کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ شام کی حکومت کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ شام کے اپوزیشن گروپ یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ انہیں شامی فضائیہ کے حملوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
شام کے بیشتر اپوزیشن گروپ اب تک یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ کس کی بات مانی جائے اور کس کی مسترد کی جائے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں کسی پر زیادہ بھروسا نہیں۔ امریکا تمام معاملات میں اپنی بات زیادہ سے زیادہ منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ شام کے اپوزیشن گروپوں پر دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ ریاض سیف کی تجویز کو من و عن قبول کرلیا جائے۔ دوسری طرف برطانیہ اور دیگر ممالک فنڈ اور ہتھیاروں کی فراہمی کا وعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ شام کے بحران کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور بہتر یہ ہے کہ بشارالاسد کو سیاسی پناہ کا حق دے کر اقتدار سے الگ کردیا جائے۔
ریاض سیف کی تجویز قبول کرلی گئی ہے مگر اس کے باوجود اپوزیشن کے سیاسی اور عسکری دھڑوں کے درمیان خلیج پاٹنا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ لڑنے والوں کو سیاسی کارکنوں اور کمیٹیوں سے تعاون پر آمادہ نہیں کیا جاسکا اور بیشتر منحرفین نے سیاسی ونگ کے بجائے عسکری ونگ پر انحصار بڑھا دیا ہے اور اس کے نتیجے میں زیادہ خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ریاض سیف شامی فوج سے برسرپیکار گروپوں کے سربراہوں سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں مگر یہ بہت مشکل کام ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فورسز کے خلاف لڑنے والے گروپوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان میں بھی قیادت کا فقدان ہے۔ مغربی سفارت کار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ میدان میں جاکر لڑنے والوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے سیاسی عزم کی خاصی کمی ہے۔
منحرف گروپوں کو متحد کرنا زیادہ مشکل نہ ہو، اگر یہ طے ہو جائے کہ کس کی مدد کرنی ہے۔ مگر یہ کہنے کی حد تک ہی آسان ہے۔ واشنگٹن میں قائم سیرین سپورٹ گروپ حکومتِ امریکا سے مل کر کام کرتا ہے۔ یہ گروپ چاہتا ہے کہ شام میں فورسز سے لڑنے والے عسکری گروپ صوبائی سطح پر قائم کی جانے والی کونسلوں کی چھتری تلے آ جائیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایک کونسل بنائیے تو کئی دوسرے گروپ معرض وجود میں آجاتے ہیں۔ سیرین سپورٹ گروپ کے لاوے ساکا کہتے ہیں کہ گروپوں کو ایک چھتری تلے لانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ سب کچھ ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر طے پا رہا ہے۔
فاروق بٹالین جیسے چند بڑے عسکری گروپوں نے ابھر کر چھوٹے گروپوں کو اپنے میں ضم کرلیا ہے۔ فاروق بٹالین نے حمص میں فروغ پایا اور اس کے بعد وہ ادلب اور رقہ جیسے شہروں تک بھی پھیل گئی۔ یہ بٹالین اب چھوٹے گروپوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ اس میں ضم ہو جائیں۔ دوسری طرف چند انتہا پسند اسلامی گروپ بھی ابھرے ہیں۔ ان میں جبہۃ النصرۃ نمایاں ہے جس نے چند خود کش حملوں کی ذمہ داری کا دعوی بھی کیا ہے۔ فاروق بٹالین کے ابو صالح کہتے ہیں کہ انتہا پسند اسلامی گروپوں کو ہم زیادہ پسند نہیں کرتے مگر خیر، ان کے ساتھ مل کر کام کیا جاسکتا ہے۔ رقہ میں دونوں گروپوں نے مل کر کام کیا ہے۔
چند ہفتوں کے دوران مجموعی طور پر تعطل کی سی کیفیت رہی ہے۔ بشارالاسد انتظامیہ سرکاری اسلحہ خانے کو منحرفین کے خلاف بے دریغ استعمال کرتی آئی ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اس پر بھی تھکن طاری ہے۔ حلب کے لیے فوج کی سپلائی لائن کمزور پڑچکی ہے اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ فوج کے بہترین یونٹس کو دمشق طلب کرلیا گیا ہے۔ دارالحکومت کے نواحی علاقوں سے منحرفین نے دباؤ بڑھادیا ہے جس کے نتیجے میں شہر کے وسط (یعنی حکومت کی طاقت کے مرکز) کو بچانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ گولہ باری اور بمباری کے باوجود اب تک منحرفین کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ کئی ماہ میں پہلی بار ان کے گولے بھی شہر کے وسطی علاقے تک پہنچے ہیں جو اب تک محفوظ سمجھا جاتا رہا ہے۔
(“Syria’s Opposition: Get Your Act Together or We won’t Help”… “Economist”. Nov. 10th, 2012)