
کبھی نہ کبھی تو شام کی خانہ جنگی ، جو اب چھٹے سا ل میں داخل ہو چکی ہے،کا اختتام ہوگا۔ مگر کیسے؟ جیسے۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے دوران ایک دفعہ اسرائیلی وزیرِ خارجہ ابا ایبن نے کہا تھا کہ ’’تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ افراد اور اقوام تب عقلمندانہ روش اختیار کرتے ہیں، جب وہ باقی تمام متبادل راستوں کو استعمال کر چکے ہوتے ہیں‘‘۔
افسوس کی بات ہے کہ شام کے المیے میں ملوث کردار ابھی اس نہج کو نہیں پہنچے۔ایران اور روس سے مدد کی بدولت اب بشارالاسد کی حکومت کو انہدام کا کوئی خطرہ نہیں۔جبکہ سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کی حمایت کی وجہ سے بشار کے متفرق مخالفین بڑے خطوں پر اب بھی قابض ہیں۔اور اگرچہ داعش، جو نہ صرف بشار الاسد بلکہ تمام حکومتوں کی دشمن ہے، کمزور تر ہونے کے باوجود طاقتور ہے، اور یورپ اور امریکا دونوں میں دہشت گرد حملے کرنے کی خوفناک اہلیت کا اظہارکر رہی ہے۔
سیاسی اور سفارتی ڈیڈلاک سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا فوجی حل بھی آسان نہیں ہوگا۔ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات صرف وقت کا ضیاع ثابت ہوئے۔ستمبر میں امریکا اور روس کے درمیان صبر آزما بات چیت کے بعد طے پانے والی جنگ بندی کا اختتام خوفناک خون ریزی پر ہوا۔ ۱۹ ستمبر کو اقوامِ متحدہ کا ایک انسان دوست قافلہ حملے کا شکار ہو کر تباہ ہوا۔ امریکی الزامات کے مطابق یہ روسی یا شامی جہازوں کی کارروائی تھی، جبکہ روسی دعوے کے مطابق باغیوں کے زمینی حملے کی۔
اگلے دن اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ’آج اس ایوان میں ان حکومتوں کے نمائندے بھی موجود ہیں جنہوں نے شامی تنازع میں شامی عوام کے خلاف ہر طرف سے ہونے والے مظالم کونظر انداز کیا ہے، یا ان مظالم میں حصہ لیا ہے، مدد دی ہے، فنڈ دیے ہیں اور ان کے منصوبے بنائے ہیں۔
بیرونی قوتیں
بان کی مون نے جو حقیقت بیان کی وہ ’’پروجیکٹ سنڈیکیٹ‘‘ کے تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کو صحیح ثابت کرتی ہے۔۲۰۱۱ء سے ، جب بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے تھے، امریکا شام میں حکومت کی تبدیلی پر مصر ہے۔روس ،جس نے ستمبر ۲۰۱۵ء میں بشارالاسد مخالف قوتوں پر فضائی کارروائیاں شروع کیں، پُر عزم ہے کہ وہ بشارالاسد کی حکومت کو گرنے نہیں دے گا۔ اور شام مشرقِ وسطیٰ کے دو مرکزی حریفوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ’’پراکسی‘‘ جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ اگر امریکی صدر اوباما نے تنازع کے آغاز میں ہی زیادہ قوت سے کام لیا ہوتا تو شام کی حکومت جلد ہی اعتدال پسند ’’فری سیرین آرمی‘‘ کے ہاتھوں میں آجاتی۔ البتہ اب ایف ایس اے ’’کنارے‘‘ لگ چکی ہے اور اسلامی انتہا پسند اسد کے مرکزی مخالفین ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق جولائی تک جبہتہ الشام، جو مبینہ طور پر سب سے بااثر مخالف گروہ ہے، اور جو خود کو جبہتہ النصرہ کہتا تھا اور شام میں القاعدہ کا حصہ تھا کے لیے نام کی تبدیلی سے خلیجی ممالک (اور روسی دعوے کے مطابق امریکا سے بھی)ہتھیار اور پیسہ لینا بظاہر آسان ہو گیا ہے۔
لیکن کرسٹوفر آر ہل ، جو عراق میں امریکا کے سفیر رہے ہیں، اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے کہ اوباما کا ردِ عمل بہت محتاط تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ’’مداخلت پسندی جو لبرل اور نیوکنزرویٹوز دونوں ہی کی طرف سے تجویز کی جا رہی ہے، ایک دفعہ سے زائد بار تباہ کن ثابت ہوئی ہے، جس میں عراق اور لیبیا شامل ہیں۔
یہ بات درست ہے مگر ہل نے اس سے زیادہ دلچسپ نکتہ اٹھا یا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے علاقائی کرداروں (بشمول اردن کے بادشاہ عبداللہ)کا خیال تھا کہ ۲۰۱۱ء کی ’عرب بہار‘ کے نتیجے میں اسد کی حکومت کا خاتمہ بس کچھ دیر کی بات تھی اور اس طرح ایک عبوری حکومت اور جمہوری انتخابات یقینی امر تھے۔ہل کہتے ہیں کہ یہ تجزیہ غلط تھااور چونکہ اچھے تجزیے کے بغیر اچھی حکمت عملی بھی نہیں بنائی جاسکتی ۔
ہل کہتے ہیں کہ خاص طور پر یہ مفروضہ کہ بشارالاسد کنارے لگ چکے ہیں اورمایوسی کی حالت میں تاریخ کی بے رحم لہر کو محض دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، اوباما انتظامیہ کو مخالف قوتوں میں موجود سنی انتہا پسندوں کو کمتر سمجھنے پر مجبور کرتا گیا۔ حزبِ مخالف کا غلط اندازہ لگانے کے علاوہ اس یقین نے کہ اسد کی حکومت بس گرا ہی چاہتی ہے امریکی حکومت کو ایک اور غلطی کرنے پر مجبور کیا اور وہ غلطی دوسری طاقتوں کے مفادات کو پیشِ نظر نہ رکھنا تھی۔اس کا ایک نتیجہ روس کی مداخلت تھی، جس کا طارطوس اور لاتاکیہ میں اپنے عسکری اڈوں کی حفاظت اور روسی اتحاد کے اندر اسلامی بغاوت کے حوالے سے پریشان ہونا قابلِ فہم تھا۔
یہ بات یقینی ہے، جیسا کہ اسرائیل کے سابق وزیرِ خارجہ شلومو بن آمی نے بھی کہا ہے ، کہ اوباما کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں بالعموم اور شام میں بالخصوص مداخلت سے دور رہنے کی مرکزی وجہ ان غلطیوں کے دہرائے جانے کا خوف تھا جس نے امریکا کو افغانستان اور عراق میں پھنسا کے رکھ دیا۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوتا؟ بن آمی ان لوگوں کی نفی کرتے ہیں جن کے خیال میں روس کی مداخلت اسے ۱۹۸۰ ء کی دہائی کے افغانستا ن جیسے دلدل میں پھنسا دے گی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پیوٹن نے ثابت کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کوئی دلدل ثابت نہیں ہوگی۔ اس کے برخلاف، یہاں تک کہ اگر سیاسی سمجھوتہ نہیں بھی ہوتا تب بھی پیوٹن کی تزویراتی کامیابیاں نمایاں ہیں۔عسکری مداخلت نے نہ صرف بشارالاسد کی حکومت کو گرنے سے بچایا بلکہ روس کے طارطوس اور لا تاکیہ اڈوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جو مشرقی بحرِ روم میں امریکا اور نیٹو کو چیلنج کرنے میں اس کی مدد کریں گے۔
تُرک اور کُرد
امریکا اور روس کئی مہینوں سے اس بات کو یقینی بنائے ہوئے ہیں کہ ان کی فضائی افواج داعش اور دیگرانتہا پسند اسلامی گروہوں پر حملوں کے دوران ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں۔ اس سال فروری اور ستمبر میں وہ جنگ بندی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اگرچہ دونوں دفعہ وہ زیادہ دیر نہیں چلی۔
دیرپا امن معاہدہ تو ایک طرف ،جنگ بندی قائم رکھنے میں مشکل ہی یہ بتاتی ہے کہ شام کے منظرنامے پر صرف یہی دو طاقتیں ہی خارجی کردار نہیں ہیں۔ترکی نے، جوامریکا کا قریبی نیٹو اتحادی ہے، کئی سالوں سے سرحد پار کرکے داعش اور دیگر اسد مخالف گروہوں سے جاملنے والے جہادی جنگجوؤں کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ جولائی ۲۰۱۵ء میں کہیں جاکر ترکی نے امریکی جنگی جہازوں کو اپنی سرزمین سے داعش پر حملے کرنے کی اجازت دی۔
نیٹو کے ایک سابق سیکرٹری جنرل اور یورپی یونین کے ترجمان برائے خارجہ اور سلامتی امور جیویئر سولانا کہتے ہیں کہ ’’ترکی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اہداف اتنے سیدھے سادھے نہیں ہیں، جیسا کہ داعش کو شکست دینا یا بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانا۔ خاص طور پر ترکی چاہتا ہے کہ کرد گروہ جیسا کہ شام کی جمہوری اتحادپارٹی جو ترکی کی کردستان ورکرز پارٹی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہے ، شام میں زمین پر قبضہ حاصل نہ کر سکے، نہ ابھی تنازع ختم ہونے کے بعد کے تعمیراتی عمل کے دوران‘‘۔
سولانا کی بات درست ہے۔مگر اوباما انتظامیہ کا مخمصہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ کردوں کے ایک صدی پر محیط ایک آزاد قومی ریاست کے خواب کے خلاف ہے، کرد ’’پشمرگہ‘‘ شمالی شام میں داعش کے خلاف سب سے مؤثر قوت ہے۔ امریکا میں موجود ایک فاونڈیشن نیو امریکا سے وابستہ تحقیقی ساتھی بارک بارفی کے مطابق اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صرف آگ پر تیل چھڑکا جا رہا ہے۔داعش کو شکست دینے کے لیے ساتھیوں کی تلاش میں (تاکہ امریکا کا تنازع میں اپنا براہ راست کردار کم ہو سکے)، اوباما انتظامیہ متضاد اہداف رکھنے والی پارٹیوں میں پھنس گئی ۔ایک طرف سی آئی اے باغی گروہوں کے ساتھ منسلک رہی، دوسری طرف پینٹاگون کردوں کو تربیت دیتا رہا۔ دوسری طرف امریکی عہدیدار اپنے ترک ہم منصبوں کو داعش سے سرحدی زمین حاصل کرنے پر اکساتے رہے۔ ایک دوسرے کو ختم کرنے کے بجائے ان کوششوں نے نہ ختم ہونے والے تنازعات کو جنم دیا اور شام کی تباہی کو ایک خطرناک سطح پر پہنچا دیا۔
سعودی اور ایرانی
بارفی کا تجزیہ کافی سخت ہے ، شاید بہت سخت۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو ایک ہم آہنگ پالیسی بنانی چاہیے تھی، ایسی پالیسی جوبہت احتیاط کے ساتھ اتحادیوں کو منتخب کرتی اور امریکا کی زیادہ براہِ راست مداخلت پر مشتمل ہوتی۔لیکن یہ کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل۔ خاص طور پر عراق اور افغانستان میں امریکا کی ’’براہِ راست مداخلت‘‘ کے نتائج کے بعد۔
اور سب سے بڑی بات، بہتر اتحادی ہوتے بھی کون؟ سعودی عرب، جو اپنی بنیاد سے ہی امریکا کا اتحادی ہے، بشارالاسد اور داعش دونوں کا مخالف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ داعش کے بیانیے کا اگر سب نہیں تو بہت کچھ سعودی بادشاہت کے اپنے وہابی نظریے کا عکس ہے۔ اور اگرچہ زیادہ تر حمایت سعودی حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ سعودی شہریوں کی طرف سے ملی ہے، شام میں لڑنے والے ۵۰ باغی گروہوں کے اتحاد ’’جیش الاسلام‘‘ کی تخلیق سعودی عرب کا سرکاری منصوبہ تھا، جو ایسے اسلامی نظریے کو فروغ دیتا ہے، جو امریکا کو سخت ناپسند ہے۔
ظاہر بات یہ ہے کہ صرف شام کی قسمت ہی داؤ پر نہیں لگی ہوئی۔ سابق جرمن وزیرِ خارجہ اور وائس چانسلر جوشکا فشر کے مطابق، شام کی خانہ جنگی ایک نئے ’ مشرقِ وسطیٰ‘ کے نمودار ہونے کا اشارہ ہے۔ان کے مطابق پرانے مشرقِ وسطیٰ کے بر خلاف، جس کی قسمت غالب مغربی طاقتیں متعین کرتی تھیں ( جنگِ عظیم اول کے بعد برطانیہ اور فرانس اور ۱۹۴۰ء کے بعد سے اب تک امریکا۔)، نئے مشرقی وسطیٰ میں کوئی خارجی اجارہ دار نہیں ہے جو اسے استحکام دے۔ اور ایک غالب مقامی طاقت کی غیر موجودگی میں ایک خطرناک خلا ابھر چکا ہے۔ فشر کے خیال میں یہ خلا نہ صرف ترکی کے ذریعے پُر ہورہا ہے، بلکہ زیادہ اہم اور دوررس انداز میں سعودی عرب، جو سنی اسلام کا مضبوط سرپرست ہے اور ایران، جو شیعہ اسلام کا علمبردار ہے، کے ذریعے پُر ہو رہا ہے۔ مقامی بالادستی کے لیے ان ممالک کی رسہ کشی لبنان، عراق، شام اور اب یمن کے میدانِ جنگ میں جاری ہے۔
ایران کے مشرقِ وسطیٰ پر غالب آنے کی کوشش کے سعودی نظریے کو حقائق پر پرکھنا چاہیے۔سعودی راہنما جب پڑوسی عراق کو دیکھتے ہیں تو انہیں ایران کے زیرِ اثر شیعہ اکثریتی ملک نظر آتا ہے۔جب وہ لبنان کی طرف نظر کرتے ہیں تو انہیں شیعہ حزب اللہ پر ایران کا تسلط دکھائی دیتا ہے۔ شام میں انہیں بشارالاسد اور ان کی شیعہ سے ملتی جلتی علوی اقلیت کے لیے ایران کی حمایت نظر آتی ہے۔ اور اپنے گھر سے قریب بھی انہیں ہر جگہ ایران کا اثرورسوخ نظر آتا ہے۔ بحرین میں سنی حکومت کے تحت شیعہ اکثریت، یمن میں شیعہ اقلیت اور اپنی ہی بادشاہت میں تیل سے مالا مال قطف خطہ میں شیعوں کی اکثریت۔ اس تناظر میں دیکھیں تو نظر آئے گا کہ ایران کے سپریم راہنما آیت اللہ خامنہ ای مشرقِ وسطیٰ کے غالب حکمران بننے جا رہے ہیں۔لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔مسلمانوں کی ۸۵ فیصد آبادی سنی اسلام پر عمل پیرا ہے اور عرب دنیا مکمل طور پر کبھی بھی عجمی ایران اور اس کے فارسی ورثہ کے ساتھ مطمئن نہیں رہی۔اس سب کے باوجود، غلط یا صحیح، ۳۱ سالہ قائم مقام ولی عہد اور وزیرِ خارجہ محمد بن سلمان کی موجودگی میں سعودی یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں (بحرین اور یمن میں زیادہ براہِ راست کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ) شام کا مستقبل متعین کرنے میں اہم کردار اداکرنا چاہیے۔
ایک نیا سائس پیکو؟
مستقبل میں کیا ہوگا اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ فشر کی طرح کونسل آف فارن ریلیشنز کے صدر اور امریکی وزارتِ خارجہ کے سابق ڈائریکٹر برائے پالیسی پلاننگ رچرڈ این ہاس مقامی صورتِ حال پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چار یا پانچ ممالک اس خطے میں ایسے ہیں جہاں حکومت اپنی ریاست کے قابلِ قدر حصوں پر قابو نہیں رکھتی۔یہ کافی سنجیدہ فہرست ہے۔لبنان دہائیوں سے اس صورتِ حال کا شکار ہے۔ عراق ایک دہائی سے زائد عرصے سے، اور شام، لیبیا اور یمن کی پانچ سال سے زیادہ عرصے سے یہی صورتِ حال ہے۔
ہاس کہتے ہیں کہ ان تمام ممالک میں جنگجو گروہ، غیر ملکی لڑاکا گروہ، دہشت گرد تنظیمیں اور دیگر مسلح گروہ مقامی حاکمیت حاصل کرچکے ہیں۔ اور کردوں کی ناتمام قومی امنگیں (جن کی بڑی تعداد ترکی، عراق، شام اور ایران میں قیام پذیر ہے) معاملات کو اور الجھا دیتی ہیں۔اس کے ساتھ سا تھ یہ غیر حل شدہ مسئلہ بھی موجود ہے کہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے سیاسی اہداف کے ساتھ کس طرح مصالحت کرائی جائے۔
یہ بات واضح ہے کہ ایک صدی پہلے برطانیہ کے سر مارک سائس اور فرانس کے فرانکوئس جارج پیکو نے مشرقِ وسطیٰ کی جو قومی سرحدیں ترتیب دی تھیں، وہ اگر مٹ نہیں رہیں تو معدوم ضرور ہو رہی ہیں۔درحقیقت اگر داعش جیسی تنظیم ، جس کے قبضے میں عراق سے شام تک کی سرزمین ہے ، کمزور بھی ہوتی ہے ، تب بھی ہاس کی بات درست ہے کہ کسی بھی سطح کی کوشش خطے کی بنیادی حقیقت کو بدل نہیں سکتی، یعنی سرحدیں معنویت کھو چکی ہیں اور حکومتوں کا اختیار بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ نقشے پر موجود ممالک کو اکٹھا کرکے اور ان کے درمیان سرحدوں کو بامعنی بناکر مشرقِ وسطیٰ کو واپس لانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی، کیونکہ علاقائی، مذہبی، قبائلی، نسلی اور نظریاتی وابستگیاں قومی شناختوں سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔
لیکن اس حقیقت پسندی کا یہ مطلب نہیں کہ سیاست دان اور سفارت کار آرام سے بیٹھ جائیں۔بین آمی کہتے ہی کہ شام میں ایک حل، جو روس نے پیش کیا ہے، وہ وفاقی نظام کا ہے۔ روسی جس زمینی تقسیم کی بات کررہے ہیں۔ وہ ایک ایسے نظام کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس تناظر میں بشارالاسد کے علوی مغربی زمین پر،جو شمال میں لاتاکیہ سے جنوب میں دمشق تک پھیلی ہوئی ہے، حکومت کر سکتے ہیں، اور شمال مشرق میں ایک خودمختار شامی، کردی علاقہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ باقی ملک سنی مخالفین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔
کیا مجرموں کو سزا ملنی چاہیے ؟
بین آمی کی رائے شام کو پہلے والی صورتِ حال پر بحال کرنے سے یقیناَ زیادہ قابلِ غور ہے اور عراق اپنے خودمختار کرد علاقے کے ساتھ پیروی کرنے کے لیے ایک مثال ہے۔ مگر ۱۱ ملین شامی، جو تنازع سے پہلے کی آبادی کا نصف ہے، اپنے گھروں سے نکالے جاچکے ہیں۔ چار لاکھ کے قریب قتل ہو چکے ہیں، پورے پورے شہر تباہ ہو چکے ہیں، اور عیسائی اور دوسری اقلیتیں جن کو پہلے بشارالاسد کی سیکولر حکومت میں تحفظ حاصل تھا، اب داعش اور دیگر اسلامی جہادی گروہوں کے رحم و کرم پر ہیں۔متاثرین اور مجرموں کے درمیان انصاف کے بغیر کیا کوئی حل ممکن ہے؟
ہیومن رائٹس واچ کے بانیوں میں سے ایک آریے نیئر بضد ہیں کہ جنہوں نے زیادتیاں کی ہیں ان سے حساب لیا جانا چاہیے، بشمول شامی حکومت کے جو سب سے زیادہ زیادتیا ں کرنے کی مجرم ہے۔ نیئر کہتے ہیں کہ چار سال پہلے ان کی جانب سے شام پر ایک عرب ٹریبونل بنانے کی پکار بے سود ثابت ہوئی۔ صاف طور پر بہت سی عرب حکومتوں کو یہ خوف تھا کہ شام کے لیے قائم ہونے والی عدالت ایک مثال بن سکتی ہے، جو بعدازاں خطے میں دیگر جگہوں پر بھی جرائم کا حساب لینے کی کوشش کر سکتی ہے۔یمن کی جنگ میں ہونے والے مظالم یا مصری صدر عبد لفتح السیسی کی طرح کی ظالم حکومتوں کی طرف سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ہوتے ہوئے ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
لیکن نیئر ناامید ہونے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سچائی کمیشنز‘ کچھ بھی نہ ہونے سے بہتر ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ جنگی جرائم میں ملوث افراد کو صرف نشانہ بنانے سے مجرمانہ سزائیں نافذ نہیں ہو سکیں گی۔لیکن اس طرح کم ازکم ایک طرح کی جواب دہی ہوگی۔ اور یہ اقدام بعد میں مجرموں پر گرفت کی بنیاد بن سکے گا۔ یہ جاننے کے بعد کہ کس نے کون سا جرم کیا، ممکن ہے مجرموں کو سزا دینے کے لیے ٹریبونل بنانے کے مطالبے کو بڑھا دے۔ مزید یہ کہ ان کو نمایاں کرنے سے جنہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی، ان دیگر لوگوں کو عبرت ہو سکتی ہے جو مستقبل میں خود کو انسانی حقوق کا مجرم نہیں دیکھنا چاہتے۔
مگر کم ازکم ان حکمرانوں کے لیے جن کی جسمانی بقا طاقت میں رہنے پر منحصر ہے ، اس قسم کی دھمکی بے فائدہ ہے (مثال کے طور پر سوڈان کے صدر عمر البشیر بے فکری سے اپنے انسانیت کے خلاف جرائم کی وجہ سے جاری ہونے والے بین الاقوامی گرفتاری وارنٹ کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں) اگرچہ انسانی حقوق کے ساتھ وابستگی متقاضی ہے کہ آواز اٹھائی جائے، لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ایسا کرنا بشارالاسد کو حلب کو نقشے سے مٹانے کی کوشش سے باز رکھے گا۔ ۲۰۱۱ء میں لیبیا میں ’ حفاظت کی ذمہ داری‘ والے نظریے کے اجرا کی طرح کوئی نظریہ بھی جاری نہیں ہو رہا جو اقوامِ متحدہ نے ۲۰۰۵ء میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بنایا تھا اور جس کا مقصد مظالم کو روکنا تھا۔ تو اگر جوزف اسٹالن کے الفاظ میں کہا جائے تو ’ ’ہیومن رائٹس واچ کو کتنی ڈویژنز ملی ہیں؟‘‘
ایک وسیع تر منظر نامہ
یہ پورا منظر ہمیں دوبارہ دو مرکزی خارجی کرداروں کی طرف لے جاتا ہے یعنی امریکا اور روس، جیسا کہ نیو امریکا کی صدر اینے مارے سلاٹر کہتی ہیں کہ یہ دونوں مختلف گروہوں کو مدد دے رہے ہیں اور یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کثیر الفریقی تنازع میں ان کے اتحادی آگے بڑھتے رہیں یا کم از کم اپنی زمین پر قائم رہیں۔
اگرچہ یوکرین کے اوپر دونوں ممالک کے اختلافات شام پر ان کے مذاکرات کو یقیناً تلخ بناتے ہیں، سلاٹر اس موضوع سے اعراض کرتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شام کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک وسیع تر کوشش کی ضرورت ہے۔ان کے مطابق ’ ایسے ممالک کا اتحاد کار آمد ہو سکتا ہے جو ابھی براہِ راست تنازع میں ملوث نہیں۔ایسا اتحاد جرمنی، بھارت، جاپان، برازیل اور مصر پر مشتمل ہو سکتا ہے اور بشارالاسد کے مرکزی مددگار صدر ولادی میر پیوٹن کو یہ باور کراکے کہ ان کا وقار داؤ پر ہے، سنجیدہ مذاکرات کے لیے اسد پر دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
سلاٹر کی تجویز دلچسپ ہے لیکن کیا اس سے کوئی نتیجہ برآمد ہوگا؟ جیسا کہ وہ خود کہتی ہیں کہ بہت سے ممالک کی حکومتیں کہیں گی کہ شام کا مسئلہ انہیں براہِ راست متاثر کرنے سے بہت دور ہے۔درحقیقت جیسا کہ برنارڈ ہنری کہتے ہیں کہ حال ہی میں شام میں ظلم اپنی انتہائی حدوں سے بڑھ جانے کے خطرے کے باوجود، یورپ کے لیے موجودہ خطرات پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے سے شروع ہوتا ہے اور یورپی لیڈر اپنے ہی مسئلوں میں الجھے ہیں۔
اسلام کے لیے جنگ
سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر پورا اتفاق رکھتے ہیں کہ شام کا مسئلہ ہم سب کو متاثر کرتا ہے۔بالآخر اب وہاں اصل تنازع سیکولرزم (ڈکٹیٹر شپ کے تحت ہی سہی) اوراسلامی قوتوں کے درمیان ہے جو معتدل سے لے کر انتہا پسند تک کی قسموں میں موجود ہیں۔ اور یہ تنازع شام تک ہی محدود نہیں۔پاکستان سے لے کر کیلیفورنیا تک میں حملوں کی مثال دے کر بلیئر کہتے ہیں کہ اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو ایک مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، ایسی حکمتِ عملی جس میں طاقت، سفارت اور تعمیر ایک مستحکم دنیا حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
ٹونی بلیئر تعمیری روش کی بات کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مشرقِ وسطیٰ اور اسلام ایک تبدیلی کے عمل میں ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اصولوں کی حکمرانی اور مذہبی برداشت والا معاشرہ بننے کے عمل میں ہے اور اسلام اپنی اصل جگہ یعنی ترقی اور انسانیت کا دین بننے کے ۔اس تناظر سے دیکھیں تو مشرقِ وسطیٰ کی افراتفری بالعموم اور شام کی تباہی بالخصوص اعراض برتنے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے، جس میں ہمارے بنیادی مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
یہ بات اس پورے سال کے درمیان مزید واضح ہوئی ہے اور اسی طرح بلیئر اسرائیل فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرنے میں بھی حق بجانب ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا ہونا نہ صرف بذاتِ خود بہتر ہوگا بلکہ اچھے بین الاقوامی اور بین المذہبی تعلقات کو بھی فروغ دے گا اور قوت کے ساتھ پُر امن بقائے باہمی کے نظریے کو زندہ کرے گا، جو پُر امن بین الاقوامی فضا کا اصول ہے۔
لیکن پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ قریب میں کوئی اسرائیل فلسطینی معاہدہ نظر نہیں آتا، نہ ہی سعودی عرب اور ایران میں کوئی مصالحت ہوتی دکھائی دیتی ہے اور حالیہ جنگ بندی کے فوراََ ختم ہو جانے کے بعد روس اور امریکا مزید دور ہو چکے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جوکردار شام کی تباہی کو روک سکتے ہیں ، ان میں سے اب بھی بیشتر دانشمندانہ کردار ادا کرنے کے لیے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Syria’s shattered mosaic”. (“project-syndicate.org”. oct 7th 2016)
اچها تجزیہ.
مسائل ایسے سائل ہیں کہ ٹالے سے نہیں ٹلتے
مسائل کو تو ہر صورت میں حل کرنا ہی پڑتا ہے