امریکا اور اتحادی
امریکا اور اتحادیوں کے پاس اب ۲۲ ماہ بچے ہیں، جن میں اُنہیں اپنے فوجی اور تمام ساز و سامان افغانستان سے نکالنا ہے۔ امریکا کے ۶۶ ہزار فوجی افغانستان میں ہیں۔ ان سب کا انخلا ۲۰۱۴ء کے آخر تک ہونا ہے۔ کرنل اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۷۳ ویں ایئر بورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ افغانستان سے فوجی اور سامان نکالنا کس قدر مصیبت کا کام ہے۔ وہ اپنے پیرا ٹروپرز کے ساتھ فارورڈ آپریٹنگ بیس شینک میں ہیں جو افغانستان میں امریکا کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ کرنل رالنگ کے سامنے ۶ میٹر لمبے کنٹینرز کا ایک سمندر سا تھا۔ ان کنٹینرز میں امریکی فوج کا وہ سامان تھا جو گیارہ برسوں کے دوران منگوایا گیا ہے۔ [مزید پڑھیے]
امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے انخلا کی تیاری کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں انخلا مکمل ہونے کی صورت میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے، سب جانتے ہیں۔ طالبان کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ افغانستان میں چالیس سال سے حالات انتہائی سنگین ہیں۔ لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد مغربی طاقتوں نے پاکستان اور دیگر ممالک سے جہادیوں کو فنڈنگ کے ذریعے افغانستان میں متحرک کیا اور بالآخر سوویت افواج کو نکلنے پر مجبور کیا۔ ان چالیس برسوں میں افغان عوام مستقل بنیاد پر غیر یقینی صورت حال کا شکار رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور ان کے ہم خیال ممالک افغانستان سے نکلنے کی تیاری [مزید پڑھیے]
سات اکتوبر ۲۰۱۲ء کو افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی لشکر کشی کو گیارہ سال مکمل ہوگئے۔ اب تک یہ سوال کروڑوں ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر لشکر کشی سے کچھ پایا ہے؟ کیا واقعی افغانستان پر حملہ امریکا اور یورپ کے مفاد میں تھا؟ ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملے میں ۲۹۷۷ افراد ہلاک ہوئے۔ صرف ایک فرم Cantor Fitzgerald کے ۷۰۰ ملازمین ہلاک ہوئے۔ ۳۴۳ فائر فائٹرز مارے گئے۔ ۶۰ پولیس افسران بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صرف ۲۹۱ لاشیں شناخت کیے جانے کے قابل تھیں۔ جن خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، ان میں نصف ایسے تھے جنہیں دفنانے کے لیے کچھ بھی [مزید پڑھیے]
ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بلوچستان پر کنٹرول کے لیے بحری حملے کی تیاری کرلی ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے مکمل ہوشیار رہنا ہوگا۔ اسے اپنی تیاری کا گراف بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بناکر افغانستان میں مستقل تفریق و تقسیم کی بنیاد رکھی۔ غیر پشتون افراد کو پشتونوں کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ نسلی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر نفرت کی بنیاد گہری کردی گئی۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد پاکستان کے لیے گنجائش کم کرکے بھارت کے لیے جگہ بنانا تھا۔ ساتھ ہی یہ امر بھی یقینی بنانا تھا کہ بھارت کے لیے مشرقی سرحد پر دباؤ میں کمی آئے۔ پاکستان کی افواج [مزید پڑھیے]
تعارف: امن وسلامتی کا ماحول ترقی کے لیے اشتراک عمل اور تعاون کی علامت بھی ہے اور اس کے لیے راہیں بھی ہموار کرتا ہے جبکہ جنگ سلامتی کے ماحول کو اور اس کے نتیجہ میں اقتصادی سرگرمی اور سماجی و معاشرتی ترقی کو براہ راست متاثر کرتی ہے اورجنگ میں شریک تمام ہی فریق اس کی غیرمعمولی انسانی و اقتصادی قیمت ادا کرتے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک جانب تیزرفتار اقتصادی ترقی جن میں چین کی مثال نمایاں ترین ہے اور اسی سلسلہ میں باہم تعاون کے متعدد تجربات کا مشاہدہ کیا ہے اور دوسری جانب یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدان بھی بنا رہا ہے جس نے [مزید پڑھیے]
یہ بات اب بہت سے سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ صدر اوباما نے پندرہ ماہ میں افغانستان سے تیس ہزار فوجی نکالنے کا اعلان کرکے طالبان کے ہاتھ مضبوط کردیئے ہیں اب وہ زیادہ منظم ہوکر بھرپور قوت سے حتمی فتح کی کوشش کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اوباما نے نومبر ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخابات سے صرف چھ ہفتے قبل تک افغانستان سے تیس ہزار فوجی نکالنے کا اعلان کرکے جرنیلوں کو مطمئن کیا ہے نہ امن پسندوں کے دل کی آواز پر کان دھرا ہے۔ ہاں اپنے سیاسی مفادات کا انہوں نے عمدگی سے خیال رکھا ہے۔ اگر انہوں نے اس سے زیادہ تعداد میں افواج نکالنے کی بات کی ہوتی تو جرنیل ناراض ہو جاتے کیونکہ قندھار اور ہلمند میں حاصل [مزید پڑھیے]
نیٹو کے مقاصد سرد جنگ سے پہلے اور بعد، تقابلی جائزہ: اگر ہم نیٹو کے قیام کے مقاصد کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ روسی استعمار کے خاتمے کے بعد یورپ میں معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے وجود کے جواز عدم جواز کی بحث جاری رہی۔ جیسے پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ یورپی ممالک کا یہ دفاعی اتحا د بنیادی طور پر روسی کیمونزم کے خلاف بنایا گیا تھا تا کہ ممکنہ روسی جارحیت کا موثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔ ایک خفیہ مقصد جرمنی کے زوال کی نگرانی بھی تھا۔ روسی خطرے کے خاتمے سے اس دفاعی معاہدے کی حیثیت ختم ہو گئی اور دفاعی مبصرین نے نیٹو کے وجود [مزید پڑھیے]
افغانستان میں امریکا کا کردار خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کا انداز دوسری جنگِ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کے بعد تین غیرفیصلہ کُن جنگوں جیسا ہے۔ جوں جوں افغان جنگ طوالت اختیار کرتی جارہی ہے، امریکی عوام میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ کل تک افغانستان سے انخلا کی حکمتِ عملی پر زور دیا جارہا تھا۔ اب زور انخلا پر ہے، حکمتِ عملی پر نہیں۔ امریکا نے افغانستان میں بنیادی طور پر اس لیے قدم رکھا تھا کہ القاعدہ کو تقویت بہم پہنچانے والے طالبان کو سبق سکھایا جاسکے، جس نے اسامہ بن لادن کی قیادت میں نائن الیون کے حملے کیے تھے۔ بعد میں افغانستان کی تعمیرِ نو کا کام بھی سنبھال لیا گیا۔ مگر اب اندازہ ہو رہا ہے کہ افغان [مزید پڑھیے]
افغانستان میں طالبان کی بھرپور مدد القاعدہ نے اس تیقن کی بنیاد پر کی ہے کہ مسلم دنیا میں قابض افواج کے خلاف جدوجہد کی صورت میں حکومتوں کی تبدیلی کے لیے انہیں زیادہ حمایت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان کے مقتول صحافی سلیم شہزاد نے اپنی حالیہ کتاب ’’انسائڈ القاعدہ اینڈ طالبان‘‘ میں القاعدہ کے سوچنے اور کام کرنے کے ڈھنگ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے، وہ بہت حد تک حقیقت سے قریب ہے کیونکہ سلیم شہزاد کا القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ قائدین سے قریبی رابطہ تھا اور وہ ان کے طریق کار کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ سلیم شہزاد کی کتاب ’’انسائڈ القاعدہ اینڈ طالبان‘‘ ۲۴ مئی ۲۰۱۱ء کو شائع ہوئی۔ اس کی اشاعت کے تین دن بعد [مزید پڑھیے]
افغانستان پر ۲۰۰۱ء میں امریکی قبضے کے ساتھ ہی ہماری قومی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہو گئے تھے جو اب انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں کیونکہ افغانستان پر قابض شکست خوردہ قوتیں اب ’پاکستان میں اپنی من پسندحکومت اور فوجی تعاون اور مدد کی خواہش مند ہیں تاکہ انہیں افغانستان سے پرامن طور پر نکلنے کی ضمانت مل سکے اور پسپائی کے بعد پاکستان میں محفوظ ٹھکانہ بھی مل سکے۔‘ ماضی میں امریکا کے لیے پاکستانی فوج‘ عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کے تعاون سے پاکستان میں اپنی مرضی کے حکمران لانا آسان تھا لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا کیونکہ عوام اور ہمارے اداروں کے مزاج بدل چکے ہیں۔ اییٹ آباد پر حملہ اور مہران نیول بیس پر دہشت گردی جیسی پرفریب [مزید پڑھیے]
خلاصہ: نیٹو (معاہدہ شمالی اوقیانوس) ۱۹۴۹ء میں بننے والی ایک ایسی تنظیم ہے جس میں امریکا اور کینیڈا سمیت تمام مغربی یورپی ممالک شامل ہیں۔ اپنی ابتدا سے لے کر اب تک یہ تنظیم کئی بار توسیع کے مراحل سے گزر چکی ہے۔ نیٹو ایک ایسا فوجی اتحاد ہے جو امریکا کی سرپرستی میں پوری دنیا میں فوجی حکمرانی کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیٹو تنظیم کی وجہ سے یورپ میں امن کو استحکام حاصل ہوا اور یورپی ممالک کو اپنی سلامتی کے مسائل سے بے فکری حاصل ہوئی۔ اور ان ممالک نے اپنے وسائل تعمیر و ترقی کے لیے وقف کر دیے۔ گو کہ وہ مقاصد پورے ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے اس تنظیم کاوجود عمل میں آیا۔ [مزید پڑھیے]
لیبیا کے معاملے میں جو کچھ ہوا ہے اور نیٹو نے جو ریسپانس دیا ہے اس سے اس آئرش کسان کی کہانی یاد آ جاتی ہے جس سے کسی نے ڈبلن کا راستہ پوچھا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ڈبلن کا راستہ میرے کھیت سے تو بہر حال شروع نہیں ہوگا! نیٹو نے لیبیا میں جو فضائی آپریشن کیا ہے اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر ۱۹۷۳ء منظور کی ہے۔ اس قرارداد کے تحت لیبیا میں نو فلائی زون قائم کیا جانا ہے اور عوام کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قرارداد میں معاملات کو قذافی کی مذمت تک محدود رکھا گیا ہے۔ کسی [مزید پڑھیے]
مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال نے مغربی طاقتوں کے لیے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ترجیحات بھی بدل دی ہیں۔ انہیں بہت سے معاملات میں نئے سرے سے سوچنا پڑا ہے۔ مغرب کو مشرق وسطیٰ میں زیادہ ملوث ہونا پڑا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کو یکسر فراموش یا نظر انداز کردیا جائے۔ ۲۰۰۳ء میں جب عراق کی صورت حال بگڑی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کو نظر انداز کردیا تھا اور پھر اس کا نتیجہ بھی بھگتا۔ افغانستان میں نیم دلی سے کچھ کرنے کے بجائے زیادہ طاقت اور جوش کے ساتھ بہت کچھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ فروری میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا [مزید پڑھیے]
پاک امریکا تعلقات میں غیر معمولی سرد مہری در آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے خفیہ ادارے اب ایک دوسرے کو مزید رعایتیں دینے اور صورت حال کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ افغانستان سے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے انخلاء کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے اور اِسی مناسبت سے اتحادیوں پر دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان سے عسکری انخلاء کے بعد وہ اس ملک اور خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوتا رہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بھارت کو اہم مقام دینا چاہتا ہے مگر پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک ایسے کسی بھی منظرنامے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں بھارت کو افغانستان کے بیشتر [مزید پڑھیے]
موسمِ گرما کی شروعات افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نیا امتحان لے کر آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ ذرائع کے مطابق امریکا اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان کے دور دراز علاقوں سے اپنی افواج کا انخلاء شروع کر کے انہیں بڑے بڑے عسکری اڈوں میں مجتمع کر رہا ہے اور ان کی جگہ افغان فوج کو تعینات کرنے کے مراحل کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جولائی میں باقاعدہ امریکا اور اس کے صلیبی اتحادیوں کا انخلاء شروع کر دیا جائے گا۔ ایک ایسے موقع پر جب گرمیوں کی آمد پر افغان طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں پر نئے جان لیوا حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں امریکی جاسوس [مزید پڑھیے]
1
2
3
»