امریکی صدر براک اوباما
امریکا کئی مشکلوں کے بعد یہ بات سمجھ چکا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ مگر براک اوباما کی سوچی سمجھی بے نیازی مسائل کو اور بڑھا رہی ہے۔ مئی کا آخری پیر تھا، جب براک اوباما نے آرلنگٹن قومی قبرستان میں سفید سنگِ مرمر سے بنے اسٹیج پر کھڑے ہو کر مختصر تقریر کرتے ہوئے اس حوالے سے کافی کچھ بتا دیا کہ وہ امریکی عسکری قوت کا استعمال کن معنوں میں کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’آج ۱۴؍برس بعد آنجہانی فوجیوں کو یاد کرنے کا یہ پہلا دن آیا ہے، جب امریکا کسی بڑی زمینی جنگ میں ملوث نہیں ہے‘‘۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد جو کبھی ایک لاکھ سے زائد تھی، اب اس کے دسویں حصے [مزید پڑھیے]
میں ستمبر ۱۹۹۶ء میں ایران گیا تھا۔ اس دورے کی باقی رہ جانے والی یادوں میں سرِ فہرست اس ہوٹل کی لابی کا ایک منظر ہے جہاں میں مقیم تھا۔ لابی کے مرکزی دروازے کے اوپر جلی حروف میں ’’مرگ بر امریکا‘‘ تحریر تھا۔ یہ تحریر کسی بینر پر یا برش سے دیوار پر نہیں لکھی گئی تھی بلکہ ٹائلوں پر کندہ کرکے دیوار میں جڑ دی گئی تھی۔ اسے دیکھ کر جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا، وہ یہ تھا کہ ’’واہ! انہوں نے تو اپنی اس پالیسی کو دیوار میں چُن دیا ہے۔ اب یہ اتنی آسانی سے تو مٹنے والی نہیں‘‘۔ اس دورے کے لگ بھگ ۲۰ برس بعد جب مجھے رواں ماہ امریکا اور تہران حکومت کے درمیان ایرانی جوہری [مزید پڑھیے]
نائن الیون کے تیرہ سال بعد امریکی صدر ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوا اور قوم کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں نئے دُشمن کے خلاف نیا محاذ کھولا جارہا ہے۔ یہ کوئی ایسا اعلان نہیں تھا جس کی براک اوباما نے توقع کی ہو۔ اُنہوں نے قوم کو بتایا کہ نئی جنگ چھیڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اس وقت براک اوباما کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکا میں رائے عامہ ایران کے حوالے سے تقسیم ہوچکی ہے۔ حکومتی اور پارلیمانی حلقوں میں ایران پر بحث شدت اختیار کرگئی ہے۔ کانگریس میں اس حوالے سے واضح طور پر دو کیمپ دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کو ایران کے معاملے میں کانگریس سے زیادہ مدد نہیں مل سکے گی
امریکی صدر براک اوباما کی بیٹیاں مالیا اور ساشا وقت سے پہلے بڑی ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اور وقت کے یوں تیزی سے گزرنے کا صدر اوباما کو بھی افسوس ہے کیونکہ اس راہ میں بہت کچھ چھوٹ گیا ہے۔ صدر اوباما نے جب پہلی بار صدارت کا منصب سنبھالا تھا، اس سے پہلے وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ تعطیلات گزارنے ہوائی آئے تھے، تب مالیا اور ساشا بہت چھوٹی تھیں اور ہر وقت اپنے والد کے ساتھ ساتھ رہتی تھیں۔ ساحل پر سیر کے دوران یا پھر ڈولفن شو میں وہ ایک لمحے کو بھی براک اوباما سے الگ رہنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ تب سے اب تک پانچ بار کرسمس گزری ہے اور اب دونوں بیٹیاں خاصی قد آور ہوگئی ہیں۔
شام میں تنازع برپا ہونے کے آغاز ہی سے امریکا کے صدر بارک اوباما نے اس تنازع کے لیے دو مختلف پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ ایک پالیسی کے تحت وہ امریکا کے مفادات کے تحفظ اور طاقت کے استعمال کے حوالے سے منضبط انداز میں سرگرمِ عمل رہے، تو دوسری پالیسی کے تحت انہوں نے بشارالاسد کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر جوابی اقدامات کیے۔ تاہم بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی تفریق برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ امریکی حکومت شام پر حملہ کرنے کے لیے تیاریاں کررہی ہے تو مذکورہ دونوں طرف مختلف نقطۂ نظر اور طریق کار کی باہمی کشمکش بھی جاری ہے۔ ایک طرف تو امریکی عوام اور دنیا کو قائل کیا جارہا ہے کہ فوجی کارروائی [مزید پڑھیے]
امریکا نے اب باضابطہ اعلان کیا ہے کہ شام کے باغیوں کو ہتھیار فراہم کیے جائیں گے۔ اس اعلان نے امریکا کو اسلامی دنیا کے ایک بڑے قضیے میں براہِ راست ملوث کردیا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس امریکی اعلان یا فیصلے پر شدید ردعمل دکھائی دیتا ہے۔ شام کے باغیوں کی مدد کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ شام کی فوج ان پر وحشیانہ مظالم ڈھاتی آئی ہے مگر بڑی طاقتوں کا یوں کھل کر سامنے آ جانا، معاملات کو خطرناک حد تک لے جاسکتا ہے۔ شام کی صورتِ حال نے عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر کا قد بھی چھوٹا کردیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے تمام دوست سُنّی ہیں اور تمام دشمن [مزید پڑھیے]
دنیا نے غم و اندوہ کے ساتھ ہمارے زمانے کے ایک زبردست انقلابی رہنما ہوگو شاویز کی موت کا مشاہدہ کیا۔ ہوگو شاویز جو کہ وینزویلا کے صدر جمہوریہ تھے ۵ مارچ ۲۰۱۳ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ جو لوگ حقوقِ انسانی اور جمہوریت کے قدر دان ہیں، جن میں امریکی حکومت بہرحال شامل نہیں ہے وہ ہوگو شاویز کی کمی کو بہت ہی شدت سے محسوس کریں گے۔ امریکی برِاعظم میں امریکی بالادستی اور تسلط پسندی کے خلاف جنگ کرنے والے ایک عظیم رہنماکی حیثیت سے ان کی شناخت تھی۔ ہوگو شاویز نے اپنے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ ’’ہم سبھوں کویہ جان لینا چاہیے کہ ہمارے وطنِ عزیز وینزویلا کے خلاف استعماری خطرہ زندہ اور پسِ پردہ ہے۔‘‘ جونہی کہ [مزید پڑھیے]
افغانستان میں نیٹو افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے مختلف طریقے ہیں۔ کئی زاویوں سے اس جنگ کے اثرات کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے تاکہ عوامی حمایت برقرار رکھنے کے لیے طریقے سوچے جاسکیں۔ نیٹو افواج کو افغانستان میں دس برسوں کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک بڑی مشکل ’’اپنوں‘‘ کے حملے بھی ہیں۔ افغان فوج اور پولیس کے بہت سے اہلکار آئے دن نیٹو افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس ان حملوں میں ۳۵؍افراد مارے گئے تھے مگر اس سال یہ رجحان مزید پختہ ہوا ہے اور اب تک ۴۵ نیٹو فوجی اور اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ ۶۹؍اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ [مزید پڑھیے]
امریکی صدارتی امیدوار مٹ رومنی سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی خطرناک خارجہ پالیسی کو زندہ کر رہے ہیں جس میں دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا کہ کون دوست ملک ہے اور کون دشمن ملک اورصرف امریکا ہی کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ کون کیا ہے۔ بدقسمتی سے مٹ رومنی کے نظریات سے آج کی دنیا کی حقیقت مختلف ہے۔ واحد سپرپاور کی پرانی دنیا ختم ہو چکی ہے اور اب چین اور بھارت نئی طاقتوں کے طور پر دنیا کے افق پر نمودار ہو چکے ہیں۔ علاقائی قوتوں میں برازیل، انڈونیشیا، جنوبی افریقا اور سعودی عرب نے عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے تمام [مزید پڑھیے]
امریکی پالیسی سازوں نے مصر کے حوالے سے اپنے کارڈ عمدگی سے کھیلے ہیں۔ اب تک معاملہ یہ ہے کہ نئی مصری حکومت سے ان کے بہتر تعلقات ہیں اور جمہوریت کی جڑیں مستحکم کرنے کے حوالے سے امریکی اقدامات کو زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں اور دوسری طرف عسکری قیادت سے بھی امریکی معاملات اچھے رہے ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے منصب سنبھالنے کے فوراً بعد مصر کا دورہ کیا تھا اور وہاں خطاب کے دوران جمہوری اقدار کے فروغ پر زور دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی کہا تھا کہ مصر میں جمہوری اقدار کے فروغ کو روکنا کسی بھی طور پسندیدہ عمل قرار نہیں دیا جائے گا۔ امریکا نے دنیا بھر میں جمہوری اقدار کے فروغ کے حوالے [مزید پڑھیے]
خلیج فارس میں جنگی تیاریاں غیر معمولی درجے کو چھو رہی ہیں۔ امریکی بحری بیڑا آچکا ہے۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کے ساتھ تنازع عالمی سطح پر سفارت کاری کے حوالے سے جو کشیدگی پیدا کرچکا ہے وہ اب طاقت کے مظاہرے تک آ پہنچی ہے۔ امریکا ایک بار پھر طبل جنگ بجا رہا ہے اور ایران کو صاف محسوس ہو رہا ہے کہ پینٹاگون اس کی ثابت قدمی اور اولوالعزمی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ متعدد رپورٹس سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا نے خلیج فارس میں غیر معمولی پیمانے پر جنگ کی تیاریاں کرلی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملے کے بعد سے ایسی تیاریاں امریکا نے خطے میں کہیں نہیں کیں۔ امریکا نے بحری اور بری افواج [مزید پڑھیے]
صدر آصف علی زرداری کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس میں شریک ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ کے سانحے پر نہ تو معافی مانگی، نہ ڈرون حملے روکے اور نہ ہی عسکری امداد کی روکی ہوئی رقوم جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ نہ صرف یہ، بلکہ یہ امریکا ہی تھا جس نے نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان پر نیٹو رسد بحال کرنے کی شرط عائد کی۔ عجلت میں طلب کیے جانے والے ایک اجلاس میں کابینہ نے اعلان کیا کہ نیٹو رسد کھولنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور صدر شکاگو جاکر نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ شکاگو میں ایک حیرت انگیز اعلان پاکستانی صدر کا منتظر تھا۔ صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ [مزید پڑھیے]
بارک اوباما نے ۲۰۰۸ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسی باتیں کی تھیں جن سے اشارہ ملتا تھا کہ ان میں بعض امور کے حوالے سے غیر معمولی بصیرت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے مسلم دنیا سے تعلقات بہتر بنانے، عالمگیر سطح پر جوہری پھیلاؤ ختم کرنے، افلاس کو ہر حال میں مٹانے اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی راہ مسدود کرنے کی بات کی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے دنیا بھر میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے پر بھی زور دیا تھا۔ جو کچھ اوباما کے ذہن میں تھا وہ ذہن ہی میں رہا۔ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں پہنچنے کے بعد اوباما پر مختلف امور کا دباؤ اس قدر رہا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی خواب کو اب تک [مزید پڑھیے]
امریکا اور اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کارروائی کا عندیہ کئی مواقع پر دیا ہے۔ دونوں ہی چاہتے ہیں کہ ایران جوہری پروگرام ختم کرے اور جوہری ہتھیار بنانے کے ارادے سے باز آ جائے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ایران کے خلاف اس حوالے سے کوئی بھی کارروائی غیر ضروری، بلکہ نقصان دہ ہوگی۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے خلاف جنگی جنون کو کسی نہ کسی حد تک کنٹرول کیا ہے مگر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے حالیہ دورۂ امریکا نے ایک بار پھر ایران کے خلاف جنگ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ معاملات تصادم کی طرف تیزی سے جاتے ہیں، انہیں تصادم سے بچانے میں البتہ بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم [مزید پڑھیے]
1
2
3
…
5
»