سقوطِ ڈھاکا
میں ۱۴ جنوری کو ڈھاکا پہنچا اور فضا کو سونگھتا رہا۔ پہلی بار یہاں آیا تھا، اس لیے دل میں ہزار شوق اور ولولے تھے، طلبہ سے ملاقاتیں ہوئیں، کئی سرکاری افسروں کے ’’درشن‘‘ بھی کیے۔ سیاست دانوں کے ہاں جانا بھی ہوا اور عام آدمیوں سے ملنا بھی۔ پورے ڈھاکا میں شیخ مجیب الرحمن کے عظیم الشان جلسۂ عام کا چرچا تھا، ہر شخص کی زبان پر تین روز پہلے منعقد ہونے والے اس اجتماع کا ذکر تھا۔ سیاسی سرگرمیوں سے پابندی ہٹنے کے بعد ڈھاکا میں شیخ صاحب کا یہ پہلا خطاب تھا اور اسے ان کی ’’پالیسی اسٹیٹمنٹ‘‘ کی حیثیت حاصل تھی۔ ۱۱ جنوری کو شائع ہونے والے ایک عوامی لیگی انگریزی ہفت روزہ نے آٹھ کالمی شہ سرخی لگائی ’’مجیب آج [مزید پڑھیے]
میں انجمن ترقی اردو پا کستان کی لائبریری میں مو لو ی نذیر احمد کی کتا بو ں کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ اچا نک میری نظر ایک کتاب ’’چاٹگام تا بو لان‘‘پر پڑی جو سید حسین احمد نے لکھی ہے۔ سید حسین احمد شعبہ انگریزی گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا ایک ایسا اندوہ ناک واقعہ ہے جو ایک حساس دل میں ہمیشہ جاگزیں رہے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ اس واقعے اور اس کے تذکرے کو زیادہ سے زیادہ زندہ کیا جائے چونکہ اس واقعے کو دانستہ طور پر بھلایا جارہا ہے، اس لیے اس کتاب کے مندرجہ جات کو آپ کے سامنے رکھتا [مزید پڑھیے]
سولہ؍دسمبر ۱۹۷۱ء کا زخم آسانی سے مندمل ہونے والا نہیں تھا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں ایک عظیم ریاست کا دولخت ہوجانااسلامی تاریخ کا ایک ہولناک واقعہ تھا، جو ہماری روح کے اندر پیوست ہو گیا اور ہماری نفسیات پر نہایت گہرائی سے اثر انداز ہوا۔ سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ جس نے قائداعظم کی مدبرانہ اور بااصول قیادت میں پاکستان حاصل کیا، اُس کی تخلیق ۱۹۰۶ء میں ڈھاکا میں ہوئی تھی اور ۱۹۴۰ء میں مسلمانانِ ہند کے عظیم الشان اجتماع میں بنگال کے وزیراعظم جناب اے کے فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی، جو قائداعظم کی زیرِ صدارت منظور ہوئی تھی۔ اِس میں برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا گیا [مزید پڑھیے]
ہماری تاریخ کے سینے میں ۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء ایک خنجر کی طرح پیوست ہے، اس لیے ہم اسے فراموش نہیں کر سکتے اگرچہ اسے بھلا دینے کی عجب عجب کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ وطن کا دولخت ہو جانا کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ہندوئوں اور انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی تھی۔ انگریز آئے تو ہمارے علمائے حق نے سر جھکانے سے انکار کیا، اُنھیں پھانسیاں دی گئیں اور اُنھیں کڑی سزائیں دے کر کالا پانی بھیج دیا گیا۔ مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء میں اپنے وجود کو زنجیروں سے آزاد رکھنے کے لیے آزادی کی جو جنگ لڑی، اس میں ناکامی کے بعد اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اور اُن کے لیے تعلیم، روزگار [مزید پڑھیے]
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اللہ بھلا کرے‘ ان کی مسلم لیگی رَگ پَھڑکی اور انہوں نے صلاح الدین قادر چودھری کی سزائے موت پر زباں کھولی‘ بنگلا دیش کی ریاستی دہشت گردی پر احتجاج کیا اور وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں یہ مسئلہ اٹھانے کی خواہش ظاہر کی۔ بنگلا دیش میں دار و رسن کی رسم دو ڈھائی سال قبل ڈالی گئی۔ سارے ہی مجرم وہ تھے جن پر پاکستان سے وفاداری کا الزام تھا‘ مگر پاکستان کی سابقہ اور موجودہ حکومت نے مجرمانہ غفلت اور خاموشی کو بہترین پالیسی سمجھا‘ لہٰذا قاتل حسینہ کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور یہ سلسلہ چل پڑا۔ زیادہ تر نے یہی سوچا کہ یہ بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ ع تجھ کو پرائی [مزید پڑھیے]
بنگلا دیشی حکومت نام نہاد ’’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل‘‘ کی آڑ میں ۱۹۷۱ء کے مبینہ ’’جنگی مجرموں‘‘ کے خلاف یکطرفہ اور ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں کو پھانسیاں دے رہی ہے۔ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور بنگلا دیش جماعت اسلامی کے مزید کئی رہنماؤں کو سزائے موت اور عمرقید جیسی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ وزیراعظم شیخ حسینہ اپنی اس کارروائی پر بضد ہیں اور کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ اس موقع پر ہم ۱۹۷۴ء میں دہلی میں سہ ملکی معاہدے کا متن پیش کر رہے ہیں۔ اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے اپنے ہی مشرقی حصے کی علیحدگی قبول کی تھی، اُس کی آزاد ریاستی حیثیت مان لی تھی اور شیخ مجیب الرحمن کو بنگلا دیش کا [مزید پڑھیے]
بنگلا دیش میں سیکولر اور غیر مذہب پسند دانشوروں کا قتل اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بنگلا دیش کی کوئی واضح شناخت متعین کرنے کا مسئلہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ بھارت کی وزارت داخلہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں پالیسی ڈاکیومنٹ جمع کرائے جانے کا خیر مقدم کرنے کے سوا چارہ نہیں، جس میں اُن ہزاروں ہندو بنگالیوں کو بھارتی شہریت دینے کی اجازت طلب کی گئی جنہیں مشرقی بنگال (بنگلا دیش) سے پہنے کپڑوں، خالی ہاتھ نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کے بعد بھارت سے بہت سے ہندو بنگالیوں کو گن پوائنٹ پر واپس بنگلا دیش بھیجا گیا۔ ایسے ہی ایک ہندو بنگالی سے میں نے پوچھا تھا کہ اب [مزید پڑھیے]
ایک بنیادی سوال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی، مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں، کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟
جوں جوں ایک سچے مقدمے کی گرفت میں عوامی لیگی سازشوں کی گردن دبوچی جانے لگی، توں توں پاکستان میں ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور قتل کرو کا سونامی امڈ امڈ کر آنے لگا۔ اکتوبر ۱۹۶۸ء سے فروری ۱۹۶۹ء تک عملاً پاکستان ایک دہکتے ہوئے احتجاج زدہ ملک کا منظر پیش کر رہا تھا
بنگلہ دیش کے قیام کو ۴۳ سال ہونے کو آئے ہیں مگر اب تک بنگلہ دیشی سرزمین پر بہاری در بدری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کسی کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ حال ہی میں میر پور کے کیمپ میں ۹ بہاریوں کو جلا دیا گیا اور ایک کو گولی مار دی گئی۔ ان ہلاکتوں نے بہاریوں کے مسئلے کو ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔
باغیوں نے منافرت کی جو آگ بھڑکائی تھی، اُس کے شعلوں نے ضلع رنگ پور کے ہر شہر اور ہر قصبے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ سعید پور، لال منیر ہاٹ اور نیلفاماری میں بنگالی باغیوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے غیر بنگالیوں کی تعداد پانچ سے دس ہزار کے درمیان تھی۔ شہید ہونے والوں کی درست تعداد معلوم کرنا یہاں بھی انتہائی دشوار تھا کہ بہت سے غیر بنگالیوں کو قتل کے بعد دریا میں پھینک دیا گیا یا اُن کی لاشیں جلتے ہوئے گھروں میں راکھ ہوگئیں
نواکھلی میں غیر بنگالیوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں تھی مگر وہ مجموعی طور پر بہت اچھے ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ مقامی بنگالیوں سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ غیر بنگالیوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان میں سے بہت سے تو کاروباری اداروں میں ملازم تھے۔ چند ایک کی دکانیں تھیں اور وہ بہت اچھی طرح کام کر رہے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آغاز ہی سے معاملات کی خرابی شروع ہوگئی تھی اور غیر بنگالیوں کو خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ ۲۱ سے ۲۳ مارچ تک بنگالی باغیوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی سپاہیوں اور انصار نے نواکھلی میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
حالات کے ابتر ہونے سے قبل ریلوے کے اہم مرکز پکسے میں کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالی خاندان رَہا کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ پولیس، ایسٹ پاکستان رائفلز اور سول انتظامیہ نے بھی وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب عوامی لیگ کے کارکن بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر طاقت کا مظاہرہ اور ہتھیاروں کی نمائش نہ کرتے ہوں۔ اس دوران متعدد غیر بنگالی نوجوانوں کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور غیر بنگالیوں کی دکانیں لوٹ لی جاتی تھیں
بنگالی باغیوں کے ایک گروہ نے ہمارے علاقے پر دھاوا بولا۔ وہ ہمارے گھر تک بھی آئے۔ میرے شوہر، جو ریلوے اسٹیشن پر قلی تھے، اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ باغیوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے شوہر گھر پر نہیں ہیں تو انہوں نے شدید اشتعال کے عالم میں میرے پیٹ پر لات ماری اور مجھے دھکا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے گھر میں موجود ہر کار آمد چیز لوٹ لی
ضلع دیناج پور کے جن علاقوں میں بنگالی باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالی بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارے گئے ان میں ہیلی، جمال گنج، پونچا گڑھ اور چوڑ کائی شامل تھے۔ ان علاقوں میں مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے نصف سے اپریل ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے تک کم و بیش چار ہزار غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا
1
2
3
»