
میں کیسے بھول جاؤں!
میں ۱۴ جنوری کو ڈھاکا پہنچا اور فضا کو سونگھتا رہا۔ پہلی بار یہاں آیا تھا، اس لیے دل میں ہزار شوق اور ولولے تھے، […]
میں ۱۴ جنوری کو ڈھاکا پہنچا اور فضا کو سونگھتا رہا۔ پہلی بار یہاں آیا تھا، اس لیے دل میں ہزار شوق اور ولولے تھے، […]
میں انجمن ترقی اردو پا کستان کی لائبریری میں مو لو ی نذیر احمد کی کتا بو ں کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ […]
سولہ؍دسمبر ۱۹۷۱ء کا زخم آسانی سے مندمل ہونے والا نہیں تھا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں ایک عظیم ریاست کا دولخت ہوجانااسلامی تاریخ کا […]
ہماری تاریخ کے سینے میں ۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء ایک خنجر کی طرح پیوست ہے، اس لیے ہم اسے فراموش نہیں کر سکتے اگرچہ اسے بھلا دینے […]
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اللہ بھلا کرے‘ ان کی مسلم لیگی رَگ پَھڑکی اور انہوں نے صلاح الدین قادر چودھری کی سزائے […]
بنگلا دیشی حکومت نام نہاد ’’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل‘‘ کی آڑ میں ۱۹۷۱ء کے مبینہ ’’جنگی مجرموں‘‘ کے خلاف یکطرفہ اور ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے […]
بنگلا دیش میں سیکولر اور غیر مذہب پسند دانشوروں کا قتل اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بنگلا دیش کی کوئی واضح شناخت […]
ایک بنیادی سوال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی، مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں، کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟
جوں جوں ایک سچے مقدمے کی گرفت میں عوامی لیگی سازشوں کی گردن دبوچی جانے لگی، توں توں پاکستان میں ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور قتل کرو کا سونامی امڈ امڈ کر آنے لگا۔ اکتوبر ۱۹۶۸ء سے فروری ۱۹۶۹ء تک عملاً پاکستان ایک دہکتے ہوئے احتجاج زدہ ملک کا منظر پیش کر رہا تھا
بنگلہ دیش کے قیام کو ۴۳ سال ہونے کو آئے ہیں مگر اب تک بنگلہ دیشی سرزمین پر بہاری در بدری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کسی کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ حال ہی میں میر پور کے کیمپ میں ۹ بہاریوں کو جلا دیا گیا اور ایک کو گولی مار دی گئی۔ ان ہلاکتوں نے بہاریوں کے مسئلے کو ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔
باغیوں نے منافرت کی جو آگ بھڑکائی تھی، اُس کے شعلوں نے ضلع رنگ پور کے ہر شہر اور ہر قصبے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ سعید پور، لال منیر ہاٹ اور نیلفاماری میں بنگالی باغیوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے غیر بنگالیوں کی تعداد پانچ سے دس ہزار کے درمیان تھی۔ شہید ہونے والوں کی درست تعداد معلوم کرنا یہاں بھی انتہائی دشوار تھا کہ بہت سے غیر بنگالیوں کو قتل کے بعد دریا میں پھینک دیا گیا یا اُن کی لاشیں جلتے ہوئے گھروں میں راکھ ہوگئیں
نواکھلی میں غیر بنگالیوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں تھی مگر وہ مجموعی طور پر بہت اچھے ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ مقامی بنگالیوں سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ غیر بنگالیوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان میں سے بہت سے تو کاروباری اداروں میں ملازم تھے۔ چند ایک کی دکانیں تھیں اور وہ بہت اچھی طرح کام کر رہے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے آغاز ہی سے معاملات کی خرابی شروع ہوگئی تھی اور غیر بنگالیوں کو خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ ۲۱ سے ۲۳ مارچ تک بنگالی باغیوں، ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی سپاہیوں اور انصار نے نواکھلی میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
حالات کے ابتر ہونے سے قبل ریلوے کے اہم مرکز پکسے میں کم و بیش ایک ہزار غیر بنگالی خاندان رَہا کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل ہی میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ پولیس، ایسٹ پاکستان رائفلز اور سول انتظامیہ نے بھی وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب عوامی لیگ کے کارکن بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر طاقت کا مظاہرہ اور ہتھیاروں کی نمائش نہ کرتے ہوں۔ اس دوران متعدد غیر بنگالی نوجوانوں کو ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور غیر بنگالیوں کی دکانیں لوٹ لی جاتی تھیں
بنگالی باغیوں کے ایک گروہ نے ہمارے علاقے پر دھاوا بولا۔ وہ ہمارے گھر تک بھی آئے۔ میرے شوہر، جو ریلوے اسٹیشن پر قلی تھے، اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ باغیوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے شوہر گھر پر نہیں ہیں تو انہوں نے شدید اشتعال کے عالم میں میرے پیٹ پر لات ماری اور مجھے دھکا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے گھر میں موجود ہر کار آمد چیز لوٹ لی
ضلع دیناج پور کے جن علاقوں میں بنگالی باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالی بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارے گئے ان میں ہیلی، جمال گنج، پونچا گڑھ اور چوڑ کائی شامل تھے۔ ان علاقوں میں مارچ ۱۹۷۱ء کے دوسرے نصف سے اپریل ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے تک کم و بیش چار ہزار غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes