پاک امریکا تعلقات
کسی کو بیک وقت پاکستان اور بھارت کا ایجنٹ کہنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سوں کو اُن کے خیالات یا موقف کی بنیاد پر بیک وقت پاکستان اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’’ولسن سینٹر‘‘ میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین اس حوالے سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ ٹرپل ایجنٹ کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ اُنہیں افغانستان کا بھی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے ٹاک شو ’’دی ریویو‘‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مائیکل کگلمین نے کہا ’’میں جو کچھ کہتا ہوں اگر واقعی اُس پر قائم ہوں تو پھر مجھے یہ بھرپور تاثر دینا چاہیے کہ میں کوئی اچھا کام کر رہا ہوں۔ [مزید پڑھیے]
سوال: عمران خان پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔حکومت سے باہر ہوتے ہوئے کیا آپ کو لگتا ہے اس سے ملک میں جاری جاگیردارانہ سیاست کا تسلسل ٹوٹے گا؟ جواب: وزیراعظم کے سوا اہم حکومتی عہدوں پر تعینات تقریباََ تمام ہی افراد ماضی میں کسی نہ کسی حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔ وزیراعظم ان پرانے سیاست دانوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو ماضی کی حکمران جماعتوں کے ساتھ رہے ہیں۔ موجودہ کابینہ شروع میں چھوٹی اور فعال تھی۔ لیکن اب کابینہ میں نئے افراد کااضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نئے نئے کام کر رہی ہے۔ جیسے کہ سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کرنا۔ لیکن حکومت کو غیر ملکی وفود کی نقل و حرکت کے لیے گاڑیوں کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کی اب تک [مزید پڑھیے]
تیرہ سال پہلے جب امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ صدر پرویز مشرف کے پاس اپنی پتلون کی عقبی جیب میں ایک فہرست سمیت پہنچا اور اس نے بتایا کہ وہائٹ ہاؤس کے ایک حالیہ اجلاس میں صدر بش نے اس بات پر ناراضی اور مایوسی کا اظہار کیا کہ اس فہرست میں شامل زیادہ تر دہشت گرد امریکا کے ایک اتحادی پاکستان کی سرزمین میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اجلاس کے شرکا کے مطابق مشرف نے اس معاملے پر توجہ دینے کا وعدہ کیا اور ایک ماہ سے کم عرصے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی ISI نے اس فہرست کے سب سے اہم فرد کو گرفتار کرلیا۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے سابقہ اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ’’سچائی تو یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی [مزید پڑھیے]
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے۲۰۱۸ء کے اپنے پہلے ٹویٹ میں پوری شدت اور تیقن سے پاکستان کے متعلق اپنے عزائم کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ غیر ملکیوں نے امریکا کو محض اپنے مفادات اور تفریح طبع کے طور پر لے لیاہے۔ہم نے پاکستان کو گذشتہ ۱۵ سالوں میں ۳۳ بلین ڈالر سے زیادہ امداد فراہم کی، لیکن اس کا صلہ اس نے ہمیں جھوٹ اور بے وفائی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہم جن دہشت گردوں کے خلاف افغانستان میں بر سرپیکار ہیں، پاکستان انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہاہے۔ لیکن ایسا اب نہیں چلے گا۔ مورخہ ۴ جنوری کوامریکا نے اعلان کیا کہ اگرپاکستان نے طالبان اور افغانستان کے دیگر دہشت گردوں کو اپنی سرحدوں سے نکال باہر کرنے کی سنجیدہ [مزید پڑھیے]
آپ توقعات کم رکھیں تو مایوس نہیں ہوں گے‘‘ بھارت کے ناجائز مطالبات کے جواب میں امریکی پالیسی سازوں کا یہ جواب ایک معمول ہے، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے نئی دہلی کے حالیہ دورے پر بھی بھارتی قیادت کو یہی مشورہ دیا گیا ہوگا، وزیراعظم نریندر مودی کے گرم جوش استقبال، گاندھی سمرتی کی خوشگوار مثالیں اور روشن مستقبل کے وعدوں کے باوجود امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے، بھارت کی ٹرمپ انتظامیہ سے وابستہ توقعات کو حقیقت پسند بنانے کی کئی وجوہا ت ہیں،قطع نظر اس بات کے کہ امریکی صدر یا وزیر خارجہ کیا کر سکتے ہیں، امریکا کی پاکستان کے لیے کوئی نئی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہوگی، ۲۱؍اگست کو [مزید پڑھیے]
جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغان جنگ کے حولے سے اپنی پالیسی ازسر نو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اور امریکی حکمت عملی میں یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ افغانستان میں کتنی فوج رکھی جانی چاہیے۔واشنگٹن اپنی حکمت عملی کے تحت آہستہ آہستہ افغانستان میں اپنی فوج میں اضافہ کر رہا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں امریکا اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔دفاعی سیکرٹری Jim Mattis، جنھیں صدر ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے فیصلے کرنے کی اجازت دی ہے،ان کا کہنا ہے کہ جولائی کے اختتام تک نئی حکمت عملی سامنے آجائے گی۔ اگر افغانستان میں کسی حکمت عملی کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو امریکا کو افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان،جو کہ افغان طالبان [مزید پڑھیے]
امریکا اور پاکستان کے تعلقات خواہ کچھ رہے ہوں، مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ پاکستان کی سلامتی کو غیر معمولی حد تک استحکام بخشنا امریکا کے لیے ناگزیر ہوگیا۔ ایک طرف تو دفاع مستحکم کرنا تھا اور دوسری طرف معاشی امداد بھی بڑھانی تھی۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد پاکستان کو دفاع اور ترقی کی مد میں غیر معمولی امداد سے نوازا۔ حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۲ء کے بعد سے اب تک امریکا نے مختلف مدوں میں پاکستان کو کم و بیش تیس ارب ڈالر دیے ہیں۔ اس بھرپور امداد کا ایک بنیادی مقصد افغانستان میں استحکام پیدا کرنا بھی تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کچھ کرنے کے قابل [مزید پڑھیے]
چودہ فروری ۲۰۱۳ء کو جاری کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں عوام کا اعتماد سویلین حکومت پر سے اٹھ چلا ہے۔ گیلپ سروے میں ۹۲ فیصد رائے دہندگان نے امریکا کے لیے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ۵۵ فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ مغربی معاشرے سے بڑھتا ہوا اختلاط مزید خرابیاں لائے گا۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ مارچ اور اکتوبر ۲۰۱۲ء میں ۲۳ فیصد پاکستانی ہی سویلین حکومت کے حق میں تھے۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں منتخب جمہوری صدر آصف علی زرداری کے منصب پر فائز ہونے کے چند دنوں بعد سویلین حکومت کی حمایت کرنے والے پاکستانی ۵۴ فیصد تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سویلین حکومت کے لیے عوام کی حمایت [مزید پڑھیے]
شام میں فرقہ وارانہ جنگ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا منطقی انجام ابھی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ سنی اکثریت والے ملک میں بالآخر سنی عنصر جیت جائے گا اور آخر میں شام کے گرد ایک علوی اکثریت والی ایک سیٹلائٹ ریاست معرض وجود میں آ جائے گی۔ شام کے بحران نے ملک کی سرحدوں کے اندر اور اطراف فرقہ واریت کو ہوا دی ہے۔ شام کی سنی اکثریت کی حمایت اور مدد کرنے پر شام کی حکومت نے ترکی کے خلاف کرد برتن کو ہلا دیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ ملیشیا نے اب تک دفاعی طرز عمل اختیار کیا ہے مگر وہ اندرونی اور بیرونی طور پر اپنی بات منوانے کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہے۔ لبنان میں فرقہ واریت [مزید پڑھیے]
امریکا میں صدارتی انتخاب کا موسم ہے۔ ایسے میں صدارتی امیدوار زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوئی بھی وعدہ کرسکتے ہیں، انہیں کوئی بھی لالی پاپ دے سکتے ہیں۔ جو ممالک امریکا سے تعلقات کی بحالی کے خواہاں ہیں انہیں اس صورت حال میں محتاط رہنا چاہیے۔ پاک امریکا تعلقات کو بہت جلد مکمل بحالی کی حالت میں لانے کے حوالے سے بہت سے دعوے کیے جارہے ہیں مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مفاہمت کی چند یاد داشتیں برسوں تک پروان چڑھنے والی بدگمانیوں کو دور نہیں کرسکتیں۔ پاک امریکا تعلقات کی مکمل بحالی کے بارے میں پُرامید ہونے سے قبل ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس معاملے میں فریق کون ہیں۔ ایک طرف صدر اوباما [مزید پڑھیے]
سلالہ چیک پوسٹ کے سانحے پر امریکا کو پاکستان سے معذرت کرنے میں سات ماہ کیوں لگے؟ شاید اس لیے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات دنیا میں اپنی نوعیت کے پیچیدہ ترین ’’دوستانہ‘‘ تعلقات ہیں جو باہمی تباہی کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔ ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کی تھی تب بہت سے اختلافی امور زیر غور رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی تعلقات قابل رشک نہیں تھے اور فریقین کو مختلف معاملات میں ایک دوسرے سے شکایات تھیں۔ جب امریکی صدر نے پاکستانی آرمی چیف کو بتایا کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ پاکستان مستحکم اور متوازن ہو تب جنرل کیانی نے [مزید پڑھیے]
صدر آصف علی زرداری کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس میں شریک ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ کے سانحے پر نہ تو معافی مانگی، نہ ڈرون حملے روکے اور نہ ہی عسکری امداد کی روکی ہوئی رقوم جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ نہ صرف یہ، بلکہ یہ امریکا ہی تھا جس نے نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان پر نیٹو رسد بحال کرنے کی شرط عائد کی۔ عجلت میں طلب کیے جانے والے ایک اجلاس میں کابینہ نے اعلان کیا کہ نیٹو رسد کھولنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور صدر شکاگو جاکر نیٹو سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ شکاگو میں ایک حیرت انگیز اعلان پاکستانی صدر کا منتظر تھا۔ صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ [مزید پڑھیے]
اسامہ بن لادن کے قتل میں معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان نے ۳۳ سال قید اور جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ امریکا نے جواب میں پاکستان کی امداد میں ۳۳ ملین ڈالر کی کٹوتی کردی ہے۔ چلیے اب پاکستان کو اندازہ ہو جائے گا کہ اُس ڈاکٹر کو سزا دینے کا کیا انجام ہوسکتا ہے جو ہمارے (امریکی) اُن خفیہ اداروں کی معاونت پر مامور تھا جو مختلف ہتھکنڈوں سے قیدیوں کو ایذائیں دیتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی آزاد دنیا کے لیے کام کر رہا تھا۔ اب ذرا ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ موجودہ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا (Leon Pannetta) نے سی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے شکیل آفریدی کو خریدا تھا اور اب صدر براک اوباما اسے [مزید پڑھیے]
افغانستان پر امریکا کی سربراہی میں لشکر کشی ہر مرحلے پر متنازع اور قابل تنقید رہی ہے۔ یورپ نے بہت جلد اندازہ لگالیا تھا کہ امریکا نے اسے اپنے ساتھ دلدل میں کھینچ لیا ہے۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے افغانستان سے انخلا کے لیے دباؤ بڑھایا تو امریکا کو ڈیڈ لائن کا اعلان کرنا پڑا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ انخلا کے معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور جامع منصوبہ بندی سے اب تک گریز کیا جارہا ہے۔ کسی بھی سربراہ کانفرنس میں ایجنڈے پر کئی نکات ہوسکتے ہیں مگر کسی ایک نکتے ہی پر غیر معمولی توجہ کا ارتکاز ممکن ہے۔ حال ہی میں شکاگو میں منعقدہ نیٹو سربراہ کانفرنس کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ [مزید پڑھیے]
پاکستان کے حوالے سے امریکا کو نئی پالیسی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکا اور پاکستان کے تزویراتی مفادات ایک دوسرے سے یکسر متصادم ہیں، ہم آہنگ نہیں۔ اور جب تک پاکستان کی فوج اسٹریٹجک امور کی نگران رہے گی، دونوںممالک کے مفادات متصادم ہی رہیں گے۔ جب تک پاکستان میں حقیقی سویلین حکمرانی قائم نہیں ہو جاتی اور آزاد خارجہ پالیسی ترتیب دینے کے قابل نہیں ہو جاتی تب تک ہمیں پاکستانی فوج کی آرزوؤں اور امنگوں کو لگام دینا ہوگی۔ سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیکل مولن نے گزشتہ ماہ سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا تھا کہ امریکا جن افغان عسکریت پسندوں پر قابو پانا چاہتا ہے انہیں پاکستان میں [مزید پڑھیے]
1
2
3
»