
عبدالقادر مُلّا شہید کا آخری خط
جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما عبدالقادر مُلّا کو ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو ۱۹۷۱ء کی جنگ میں نظریہ پاکستان کی حمایت پر سزائے موت دی گئی۔ […]
جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما عبدالقادر مُلّا کو ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو ۱۹۷۱ء کی جنگ میں نظریہ پاکستان کی حمایت پر سزائے موت دی گئی۔ […]
میرے والد یہ تک نہ جان سکے کہ ان کی نظرثانی کی درخواست کو کس بنیاد پر مسترد کیا گیا ہے۔ درخواست رد کیے جانے کے فوراً بعد حکومت نے میرے والد کو رات دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دینے کے فیصلے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد انہیں پھانسی دے دی گئی۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر مُلّاکو پھانسی دینے میں کامیاب ہوگئی مگر خیر، یہ نہ سمجھا جائے کہ شیخ حسینہ واجد کی انتقامی سیاست یہاں ختم ہوگئی۔ کئی اور ہیں جو پھانسی کے منتظر ہیں
شہیدِ وطن عبدالقادر مُلاّ کے اہلِ خانہ جب آخری دفعہ جیل میں اُن سے ملے تو انہوں نے وصیت کی:
’’میری شہادت کے بعد تحریکِ اسلامی کے سارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان صبر و استقامت کے ساتھ میرے خون کو اقامتِ دین کے کام پر لگائیں۔ کسی طرح کے بگاڑ یا فساد میں ہمارے وسائل ضائع نہیں ہونے چاہئیں۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔ میجر سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے۔ میجر ریاض بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پُلوں اور راستوں کی نگرانی کر سکیں۔ ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاعِ وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آسکیں تو حاضر ہیں
عبدالقادر مُلّا کی پھانسی کے ہنگام میرے کچھ محترم مہربان اور عزیز دوست، جو حقوقِ انسانی کا مشغلہ کرتے ہیں، لاپتا ہو گئے ہیں۔سوچتا ہوں احباب اپنی کچھ خبر دیں گے یا مجھے ماما قدیر اور آمنہ مسعود جنجوعہ سے درخواست کرنا پڑے گی کہ اپنی تلاشِ گمشدہ کی فہرست میں ہماری اِن معتبر شخصیات کو بھی شامل کر لیں؟جناب آئی اے رحمان، محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترمہ طاہرہ عبداللہ، محترمہ حنا جیلانی، محترمہ فرزانہ باری، جناب اعتزاز احسن، جناب اطہر من اللہ! ہمیں آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے، آپ ہمیں اپنی سلامتی سے مطلع کریں گے یا ہم یہ سمجھ کر چپ رہیں کہ آپ کو بھی کوئی ’خفیہ ہاتھ‘ لے اڑا؟
عبدالقادر ملّا کو پھانسی پر پاکستان کا ’’ ڈالرائزڈ ‘‘میڈیا خاموش ہے۔ غنیمت ہے کہ ان اینکر پرسنز اور کالم نویسوں نے اپنا اظہار مسّرت نہاں ہی رکھا، عیاں نہیں کیا۔ ان حضرات کا مشرقی پاکستان کے المیے کے بارے میں یہ متفقہ موقف رہا ہے کہ وہاں پاکستانی فوج نے جتنے بھی مارے وہ سب شہید تھے اور جو اُدھر والوں نے مارے، وہ سب رائیگاں موت مرے۔ حالانکہ پاکستانی فوج نے جہاں بہت سے بے گناہ مارے، وہیں بھارت سے آنے والی مکتی باہنی کے درانداز بھی مارے۔ لیکن ڈالرائزڈ میڈیا انہیں بھی شہید مانتا ہے
مشرقی پاکستان کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں بنگلہ دیش بنایا گیا تھا۔ پاکستانی فوج کے ساتھ جو پاکستانی اپنے وطن کی حفاظت کے لیے سینہ سپر تھے، اُن میں۲۳سالہ نوجوان عبدالقادر بھی تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن، ڈھاکا یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہر ملک کے ہر شہری پر لازم ہے کہ اپنی سرزمین پر دشمن کے ناپاک قدم برداشت نہ کرے
عبد القادر مُلّا ۱۹۴۸ء میں جوری یا دونگی گاؤں میں پیدا ہوئے، یہ ضلع فریدپور کے تھانہ صدر پور کا حصہ ہے۔ اُن کا خاندان ممتاز مذہبی حیثیت کا حامل تھا ۔ شہید نے جوری یا دونگی پرائمری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اُن کا شمار انتہائی ذہین طلبہ میں ہوتا تھا
اپنے آپ سے یہ سوال کرنا فطری سا ہے کہ کسی بھی ایسے مقدمے کی کارروائی کا فائدہ کیا، جس کا واحد قابل قبول نتیجہ […]
بنگلا دیش میں ۲۰۱۰ء میں عوامی لیگ کی حکومت کی جانب سے قائم کردہ انٹر نیشنل کرائمز ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے سینئر رہنما عبدالقادر […]
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes