ڈونلڈ ٹرمپ
۲۰۱۶ء میں جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، بھارتی اپوزیشن کانگریس کی صدر سونیا گاندھی علاج کے سلسلے میں امریکا میں تھیں۔ واپسی پر جب وہ پارلیمان کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے آئیں، تو وقفہ کے دوران مرکزی ہال میں کئی صحافی اور سیاستدان ان کی خبر و خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے ارد گرد جمع تھے۔ مختلف موضوعات کے علاوہ امریکی سیاست بھی زیر بحث تھی۔ چونکہ وہ امریکا سے تازہ وارد ہوئی تھیں، اکثر افراد ان سے متوقع امیدواروں، اور ان کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ بزنس مین ڈونالڈ ٹرمپ کے نہ صرف ریپبلکن پارٹی کی [مزید پڑھیے]
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان ہونے والے صدارتی انتخابات سخت تنازع اور کشمکش کا شکار ہیں۔ اگر حالیہ امریکی تاریخ کی روشنی میں بات کی جائے تو یہ انتخابات سب سے زیادہ نتیجہ خیز انتخابات میں سے ایک ہوں گے۔ اس بار ہونے والی انتخابی مہمات کے دوران پُرجوش ماحول سے ہٹ کر بات کی جائے تو کئی ریاستوں میں رائے دہی کے طریقہ کار کو درپیش قانونی چیلنجز سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکا کو سیاسی ہنگامہ آرائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اب جبکہ صدارتی انتخابات میں محض دو ہفتے ہی رہ گئے ہیں، تو امریکا اور دنیا بھر میں ان انتخابات کے حوالے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کیا انتخابات [مزید پڑھیے]
امریکا میں صدارتی انتخاب ہونے کو ہے۔ نومبر میں پولنگ ہوگی۔ ہر صدارتی انتخاب سے قبل امریکا میں کم و بیش ۶ ماہ تک بھرپور بحث و تمحیص کی جاتی ہے۔ صدر کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اُس کے دوبارہ انتخاب یا کسی اور امیدوار کے صدر بننے کی صورت میں ممکنہ کارکردگی کے حوالے سے بھی اندازے لگائے جاتے ہیں، رائے دی جاتی ہے۔ اب کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران اِس نکتے پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری میعاد کے لیے صدر منتخب نہ ہوسکے تو کیا ٹرمپ اِزم بھی ختم ہوجائے گا؟ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ صدارتی انتخاب نہیں بلکہ ٹرمپ اِزم کے لیے ریفرنڈم ہے۔ اس بحث میں [مزید پڑھیے]
دنیا کو آگے چل کر سلامتی کے حوالے سے جو چند بڑے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اُن میں ایک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو حساس ہتھیاروں اور آلات کی ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی شامل ہے۔ آج کی دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے جانے والے ہتھیاروں اور متعلقہ ساز و سامان کے حوالے سے مسابقت سے عبارت ہے۔ ہتھیاروں کو زیادہ سے زیادہ جدید اور کارگر بنانے کے معاملے میں یورپ نے بھی بہت محنت کی ہے مگر امریکا اس معاملے میں سب پر بازی لے گیا ہے۔ آج بھی سب سے زیادہ پیچیدہ اور کارگر جدید ہتھیار امریکا ہی بنارہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ فروخت کرنے والے ادارے لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ اور ریتھیون جیسے بڑے اداروں [مزید پڑھیے]
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نام نہاد ’’صدی کی ڈیل‘‘ پر ردعمل کوئی حیران کن نہیں۔اسرائیلیوں نے اس کو ایک عظیم اقدام قرار دے کر قبول کر لیا ہے لیکن اس کی تفصیل منظرعام آنے تک توثیق نہیں کی ہے۔فلسطینیوں کا مؤقف پیشگوئی کے عین مطابق تھا۔انھوں نے اس کی تفصیل جاننے سے پہلے ہی اس کو مسترد کردیا۔انھوں نے یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ امن منصوبہ بنیامین نیتن یاہو کو جیل جانے سے روکنے کا حربہ ہوسکتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں۔اس طویل عرصے کے دوران میں برسوں برسراقتدار رہنے والے عرب نظاموں کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے، لیبیا میں معمر قذافی اور عراق میں صدام حسین کی [مزید پڑھیے]
جولائی ۲۰۱۹ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے فلسطین اسرائیل مذاکرات ’’جیسن گرین بلوٹ‘‘ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سہ ماہی اجلاس برائے مشرق وسطیٰ میں شرکت کی۔اس موقع پر انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے جو بیان دیا، اس نے شرکا کو حیران کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’امریکا، اسرائیل فلسطین مسئلہ پراب مزید بین الا قوامی اتفاق رائے کے ’’افسانے‘‘ کا احترام نہیں کر سکتا۔ گرین بلوٹ نے اپنی گفتگو کے دوران سلامتی کونسل کی اس قرارداد(قرارداد ۲۴۲) کو بھی تنقید نشانہ بنایا، جس کے تحت اسرائیل نے مصر اور اردن سے معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے معاہدے کے ان مبہم الفاظ پر بھی تنقید کی،جن کی [مزید پڑھیے]
امریکا میں بہت جلد شائع ہونے والی کتاب ’’اے وارننگ‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک سال قبل ٹرمپ انتظامیہ کے افسران نے اجتماعی طورپر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس فیصلے پر عمل کرنے سے انہوں نے اس لیے گریز کیا کہ ایسی صورت میں ایک کمزور حکومت مزید کمزور ہو جاتی اور ملک کو درپیش مسائل کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ اشاعت سے قبل ہی حاصل ہونے والے مسودے کے مطابق مصنف نے، جس کا نام دینے کے بجائے ’’ٹرمپ انتظامیہ کا ایک افسر‘‘ بتایا گیا ہے، یہ بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی اعتبار سے اس منصب کے اہل نہیں۔ وہ انتہائی سفاک مزاج کے ہیں اور قوم کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک سال [مزید پڑھیے]
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات کئی بار برملا کہی ہے کہ امریکا کو دُور افتادہ خطوں میں لاحاصل جنگوں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی حکام افغانستان سے فوجیوں کو خاموشی سے نکال رہے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکا نے ایک سال کے دوران افغانستان سے دو ہزار فوجیوں کو چپ چاپ نکال لیا ہے۔ یہ خاموش انخلا کابل حکومت کے علم میں ہے اور اس حوالے سے باضابطہ دستاویزی کارروائی بھی کی گئی ہے۔ یہ انخلا اس اعتبار سے حیرت انگیز ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ان سے کسی باضابطہ معاہدے کی منزل بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے ٹاپ کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر نے ایک [مزید پڑھیے]
میڈیلین البرائٹ امریکی سیاستدان اور سفارت کار ہیں۔ وہ پہلی خاتون امریکی سیکرٹری کے عہدے پر متمکن رہیں۔ ان کی کتاب Fascism: A Warning سے تلخیص شدہ اس مضمون میں دنیا کے مختلف خطوں میں فسطائی علامات کی حامل حکومتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاپولسٹ سیاسی جمہوریتوں اور فسطائی حکومتوں کے مابین بہت باریک فرق ہوتا ہے۔ ان دونوں نظاموں کے مابین قربت آسان ہوتی ہے۔ فسطائی حکومت کا قیام مشکل بھی ہوسکتا ہے اور یہ کسی ایک برے واقعے یا بحران کے نتیجے میں ایک دم بھی وجود میں آسکتی ہے۔ وہ واقعاتی حوالوں کی بنا پر دو ایسے ممالک کی نشاندہی کرتی ہیں جو فسطائی نظمِ ریاست سے قریب تر ہیں۔ وہ اسی ضمن میں امریکی حکومت کا [مزید پڑھیے]
وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات پر بھارت کی نظریں ضرور تھیں لیکن جو کچھ صدر ٹرمپ نے کہا بھارتیوں کو اس کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ صدر ٹرمپ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ بھارتی وزیرِاعظم نے جاپان میں ۲ ہفتے پہلے ہونے والی ملاقات میں ان سے کشمیر کے تنازع پر ثالثی کی درخواست کی۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش دسمبر ۲۰۱۶ء میں بھی کی گئی تھی لیکن اس وقت یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بھارتی حکومت ثالثی کی متمنی ہے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنی ڈیل میکنگ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ حل کروا سکتے ہیں۔ اس [مزید پڑھیے]
صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے لیے جو عزائم رکھتے ہیں اس کی ایک مثال ماہ اپریل میں جنرل سیسی کے مطالبے پر اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی صورت میں منظر عام پر آئی۔ ۹؍اپریل کو جنرل سیسی نے اپنے امریکا کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا دیرینہ مطالبہ دوبارہ پیش کیا اور بدلے میں فلسطین سے متعلق (Deal of the Century) صفقۃ القرآن کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ جس کے نتیجے میں ۳۰؍اپریل کو امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی باضابطہ کارروائی کا آغاز کر رہی ہے اور جلد ہی اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست [مزید پڑھیے]
جس وقت صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ آئی، جس میں انہوں نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے کی بات کی تھی، ہم لوگ اسرائیلی وزیراعظم کے گھر پر تھے، یہ ایک بڑا سرپرائز تھا۔ ہم یروشلم کے مقدس مقامات کے دورے پر امریکی وزیر ِخارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ تھے اور دن کے آخر میں کام ختم کرنے سے پہلے ان کے اور نیتن یاہو کے بیان کے منتظر تھے۔ ان دونوں نے پریس کانفرنس میں آنے میں خاصی دیر لگا دی، جس پر ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آیا صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ نے انہیں بھی بری طرح چونکا دیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ مسٹر نیتن یاہو کے لیے ایک خوشخبری تھی اور ہم سے بات کرتے [مزید پڑھیے]
امریکی کانگریس کے ایوانِ زیریں ایوانِ نمائندگان کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے سلسلے میں تحقیقات کا حکم دیا جانا طے ہوچکا ہے۔ اب صرف موزوں موقع کا انتظار کیا جارہا ہے۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے محکمۂ انصاف کا مکمل اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تھی اور یہ عمل انصاف کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے قوانین و قواعد سے انحراف اور بدعنوانی کے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں آئین ہی کو داؤ پر لگانا پڑے۔ ری پبلکن پارٹی [مزید پڑھیے]
سال ۲۰۱۵ء میں بین الاقوامی مذاکرات کے دوران امریکی سفارتی ٹیم کی قیادت میں مذاکرات کے نتیجے میں ایران سے جوہری معاہدہ طے پایاتھا۔ مذاکرات کے دوران بہت کم ہی ایرانی وفد نے متوقع جوہری معاہدے کے دیر پا ہونے کے بارے میں سوال کیا۔ری پبلکن کی اکثریت اس معاہدے کی مخالف تھی اور ان کی نظریں ۲۰۱۶ء کے انتخابات پر لگی تھیں۔ ایرانی پریشان تھے کہ اگر مخالفین وائٹ ہاؤس میں آگئے تو معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا۔ میں جواب میں اس جیسا ہی سوال کرتی تھی کہ کیا ہوگا اگر ایرانی شدت پسند جوہری معاہدے کی مخالفت کرکے اقتدار میں آجائیں، عام طور پر یہاں آکر بحث ختم ہوجاتی تھی۔ میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا تھا کہ معاہدے کو سب سے بڑا [مزید پڑھیے]
اس وقت عالمی تجارت کے حوالے سے امریکا کا شدید اور مضبوط ترین حریف صرف چین ہے۔ امریکا نے چین پر بھی تجارت کے حوالے سے دباؤ ڈال کر مختلف معاملات میں رعایتیں یقینی بنائی ہیں۔ چین سے تجارت میں امریکی خسارہ ۳۷۵؍ارب ڈالر سے زائد ہے۔ چینی حکام نے مذاکرات کے دوران بتایا ہے کہ وہ مختلف آؤٹ لیٹس سے بات چیت کرکے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ۲۰۲۰ء تک امریکا کا تجارتی خسارہ ۲۰۰؍ارب ڈالر تک آجائے۔ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ چینی حکومت اپنے ہاں صنعتی اور تجارتی اداروں کو مختلف مدوں میں دی جانے والی اعانت ختم کردے تاکہ انہیں تجارتی معاملات میں برتری حاصل کرنے کا موقع نہ ملے۔ ایک مدت سے چینی ادارے امریکا میں ہائی ٹیک [مزید پڑھیے]
1
2
3
»