یورپ
افریقا وہ برِاعظم ہے جسے دنیا نے کم و بیش ہر دور میں نظر انداز کیا ہے، زیادتیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ پوری دنیا کے انسانوں پر ایک بہت بڑا قرض یہ ہے کہ افریقا کو اُس کا جائز مقام دیا جائے، اُس سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے، عالمی سیاست و معیشت میں اُس کا جائز مقام محض تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اس خطے کے لوگوں کو اُن کے متعلقہ حقوق دیے بھی جائیں۔ دنیا بھر کے پڑھے لکھے لوگ اور مختلف شعبوں کے سرکردہ ماہرین بھی افریقا پر اب تک خاطر خواہ توجہ دینے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کے ممالک میں آبادی کا غیر معمولی تنوّع جنم لے رہا[مزید پڑھیے]
افغانستان میں صدر اور نائب صدر کے فرار ہو جانے کے بعد حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی طرف سے مکمل فتح کے بعد ملک کو اسلامی امارت میں تبدیل کرنے کا اعلان بہت سوں کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ جو کچھ ہوا وہ حیرت انگیز تو خیر اس لیے نہ تھا کہ سبھی کو اندازہ تھا کہ ایسا ہوگا تاہم جس تیزی سے یہ سب کچھ ہوا وہ بہت سوں کے لیے حیرت کا باعث ضرور بنی۔ جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ اعلان کیا تھا کہ طالبان سے کوئی امن معاہدہ یا پھر اقتدار میں شراکت کا معاہدہ ہو یا نہ ہو، وہاں سے امریکی افواج واپس بلالی جائیں گی تب سے طالبان کی عسکری فتح بہت حد تک دائرۂ [مزید پڑھیے]
اگر مصر کی فوجی بغاوت نے ترکی امارات تعلقات کو نقصان پہنچایا تو ۲۰۱۶ء میں ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجے میں تو دونوں ممالک کے تعلقات بالکل ہی ختم ہو گئے۔ناکام فوجی بغاوت کے دو ہفتے بعد ہی ترک خفیہ ایجنسی کے سینئر حکام نے دعویٰ کیا کہ بغاوت کی منصوبہ بندی کے پیچھے اماراتی حکومت کا بھی ہاتھ ہے[مزید پڑھیے]
ترکی اور متحدہ عرب امارات کا آبادی، رقبے اور فوجی طاقت کے حوالے سے آپس میں کوئی جوڑ نہیں، تاہم دونوں ممالک ایک طویل عرصے سے آپس کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور ان کے آپس کے یہ جھگڑے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جغرافیائی و سیاسی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کی محاذ آرائی سے نہ صرف وہ علاقے عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں جہاں سے یورپ کے مفادات وابستہ ہیں جیسا کہ لیبیا،بلکہ اب تو ان کی محاذآرائی سے مشرقی بحیرہ روم یعنی خودیورپ بھی متاثر ہونے لگا ہے۔ ان دو ممالک کی رقابت یورپ کی تفریق کو گہرا کرتی جا رہی ہے۔ یورپی یونین کے ممالک کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ وہ خطۂ [مزید پڑھیے]
چین اور روس بہت تیزی سے ابھر کر ایک بڑے خطرے کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ مغرب کی جمہوریتوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ ان دونوں، قدرے آمرانہ مملکتوں کو ایک خاص حد تک محدود کرنے میں کیوں کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کی الجھن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ چین اور روس جیسے ممالک سے نپٹنے کے لیے بہترین حکمتِ عملی کیا ہوسکتی ہے؟ انہیں چیلنج کرنا، ان سے ٹکرانا، انہیں ایک خاص حد تک رکھنے کی کوشش کرنا؟ کیا صرف معاشی معاملات میں کوئی بڑا قدم اٹھاکر ان دونوں طاقتوں کو دبایا جاسکتا ہے، اپنی مرضی کے حجم کا حامل بنایا جاسکتا ہے؟ اس وقت چین اور روس جو کچھ کر رہے ہیں، کیا ویسا [مزید پڑھیے]
آج نیٹو کو سب سے بڑا چیلنج روس سے نہیں بلکہ اپنے اراکین کی جانب سے درپیش ہے۔ ترکی اور متعدد یورپی اتحادیوں کے درمیان تنازعات ایک بار پھر عروج پر ہیں، جس کی وجہ سے تنظیم کی اجتماعی فیصلہ سازی کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے، اگر ان مسائل کو بروقت حل نہیں کیا گیا تو دنیا کے طاقتور اتحاد کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تازہ ترین واقعہ ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی جانب سے نگورنو کاراباخ پر قبضے کے لیے جنگ کی کھلی حمایت کرنا ہے۔ یہ جنگ روس کے زیر سرپرست ایک معاہدے کے بعد ختم ہوئی۔ اس جنگ میں ترکی کی جانب سے فوجی امداد اور شامی جنگجو بھیجے گئے، اور اپنے نیٹو اتحادیوں کو صرف دکھانے [مزید پڑھیے]
اردو داں حلقے کے لیے جغرافیائی سیاسیات کا موضوع ابھی نیا ہے۔ دنیا میں ہونے والی سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے علم کی اس شاخ، اس کی اصطلاحات، اور اس کے انطباقات سے واقفیت یقینا مفید ہے۔ زیر نظر مضمون میں جغرافیائی سیاسیات کے زاویے سے ایشیا و یورپ میں رونما ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ (’’زندگیٔ نو‘‘)[مزید پڑھیے]
امریکا اور یورپ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ امریکی سیاست آج بھی عدم اتحاد اور بے عقلی پر مبنی رجحانات کا مرقع ہے جبکہ یورپ کی سیاست میں دانش نمایاں ہے۔ امریکی سیاسی قائدین بڑھک مارنے کی سطح سے بلند نہیں ہو پارہے جبکہ یورپ میں حقیقی دانش کا مظہر قرار پانے والے اقدامات سب کے سامنے ہیں۔ امریکا اب تک حقیقی فلاحی ریاست بننے کی منزل سے بہت دور ہے جبکہ یورپ کے متعدد ممالک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ امریکا میں آج بھی سیاست کے نام پر لوگوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔ یورپ میں بنیادی حقوق کی پاس داری اب سیاست دانوں کے لیے اولین ترجیح کا درجہ رکھتی ہے۔ یورپ میں فیصلہ سازی کا مرحلہ اب تھوڑا [مزید پڑھیے]
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر یورپ کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے لیے امریکا نے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا تھا، جسے مارشل پلان کا نام دیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت یورپ کے ۱۸ ممالک کو ۱۲؍ارب ڈالر دیے گئے جو آج کی قدر کے اعتبار سے کم و بیش ۲۰۰؍ارب ڈالر ہوتے ہیں۔ برطانیہ کو مارشل پلان کے تحت کی جانے والی فنڈنگ کا ۲۶ فیصد، فرانس کو ۱۸ فیصد اور مغربی جرمنی کو ۱۱ فیصد ملا۔ مارشل پلان یورپ کو دوبارہ معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اشتراکیت کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بھی تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس اور جرمنی میں اشتراکیوں نے مستحکم ہونا شروع [مزید پڑھیے]
کورونا وائرس کے ہاتھوں جہاں دنیا بھر کی معیشتوں کے لیے الجھنیں پیدا ہوئی ہیں وہیں یورپ کے لیے اچھا خاصا بڑا، خطرناک بحران کھڑا ہوچکا ہے۔ اٹلی اور اسپین کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یورپ کے لیے معیشتی سرگرمیوں اور مالیات کی سطح پر پہلے ہی اچھی خاصی پیچیدگیاں پائی جاتی تھیں، کورونا وائرس کے بحران نے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔ یورپی سربراہانِ مملکت و حکومت نے اس وبا کے دوران کئی بار ملاقاتیں کی ہیں تاکہ معاملات کو درست کرنے کی سمت بڑھا جاسکے۔ کوئی بڑا پیکیج تیار کرنا اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ یہ وقت سوچنے سے کہیں زیادہ عمل کا ہے۔ اٹلی اور اسپین کی معیشت کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ [مزید پڑھیے]
یورپ ایک عجیب موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف امریکا ہے جس سے اس کا اشتراکِ عمل صدیوں پر محیط ہے۔ امریکا کے ساتھ مل کر یورپ نے کم و بیش ڈیڑھ صدی تک پوری دنیا پر بھرپور راج کیا ہے۔ اب یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ یورپ اپنا راستہ بدلنا چاہتا ہے۔ یورپ کے قائدین امریکی پالیسیوں سے غیر معمولی پریشانی اور دقت محسوس کر رہے ہیں۔ امریکا تمام معاملات کو عسکری قوت سے درست کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے اپنی ترقی کی بنیاد اسلحے کی صنعت اور دھونس دھمکیوں پر رکھی ہوئی ہے۔ یورپ اس راہ سے دور ہونا چاہتا ہے۔ امریکا اب تک ’’سخت قوت‘‘ کا دلدادہ ہے مگر یورپ ’’نرم قوت‘‘ کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا ہے۔ ایک طرف انفارمیشن [مزید پڑھیے]
دنیا کی نصف سے زائد آبادی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں مرتکز ہے۔ یہ لوگ دن بہ دن امریکا سے بعید تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بیشتر افراد کے لیے امریکا اقتصادی جنت ہے مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں اس ملک سے ڈر بھی بہت لگتا ہے۔ دن رات امریکا کے بارے میں خدشات پالنا ان کا بہترین مشغلہ ہے۔ بہت سوں کو تو صحیح ڈھنگ سے نیند ہی اس وقت آتی ہے، جب وہ امریکا کو دو چار گالیاں دے چکتے ہیں! ایسا کیوں ہے؟ ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا سے نفرت کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ امریکی پالیسیوں کو ان خطوں میں ہمیشہ شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ کشور محبوبانی نے اپنی کتاب ’’بی یونڈ دی [مزید پڑھیے]
مورخہ ۲۶ نومبر کو برلن میں جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس برلن کی کاربر فاؤنڈیشن کے تحت ایک کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں کہ میرے موبائل فون کی اسکرین پر ایک پیغام ابھرا، مالی میں عسکری کارروائی کے دوران دو ہیلی کاپٹر ٹکرانے سے فرانس کے ۱۳؍فوجی ہلاک ہوگئے۔ جو کچھ ہیکو ماس کی زبان سے نکل رہا تھا، وہ میرے موبائل فون کی اسکرین پر نمودار ہونے والی تفصیلات کے خلاف تھا۔ جرمن وزیر خارجہ نے ٹھوس لہجے میں کہا کہ نیٹو آج بھی مستحکم ہے اور کسی بھی جگہ کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اور یہ کہ جرمن خارجہ پالیسی صورتِ حال کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیٹو کی خرابیوں کے حوالے [مزید پڑھیے]
پریس یعنی صحافت کی آزادی کے حوالے سے امریکا قائدانہ کردار کا حامل نہیں رہا۔ دنیا بھر میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے حوالے سے امریکا نے پریس کی آزادی سے متعلق قائدانہ کردار ادا کرنے میں عشروں تک دلچسپی لی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کردار میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ اس حوالے سے یورپ کو آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ۴ مئی کو نیویارک ٹائمز میں نصف صفحے کا اشتہار شائع ہوا جو اسٹاک ہوم سینٹر فار فریڈم کی طرف سے تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ۱۹۱ ترک صحافی جیلوں میں ہیں، ۱۶۷؍ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جاچکے ہیں جبکہ ۳۴ [مزید پڑھیے]
جنوری ۲۰۱۸ء میں برسلز کا شاندار بوزار تھیٹر تاریخی لمحات سے متعلق عوامی جمہوریہ چین کی ویڈیو کا بیک ڈراپ تھا۔ یہ موقع تھا چینی نئے سال کے جشن کا۔ ایک گلوکار فن کا مظاہرہ کر رہا تھا اور اس کی پشت پر چلائی جانے والی ویڈیو میں چین کی کامیابیوں کو نمایاں طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ ویڈیو میں چین کے پہلے جوہری دھماکے، عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت، پہلے طیارہ بردار جہاز کی تیاری اور دیگر معاملات سے دنیا کو آگاہ کیا جارہا تھا۔ حاضرین میں موجود سفارت کار، فوجی نمائندے اور دیگر حکام دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ سوال یہ نہیں تھا کہ وہ چین کی کامیابیوں کو دیکھ کر متاثر ہو رہے تھے یا نہیں۔ ہوسکتا ہے [مزید پڑھیے]
1
2
3
»