غزہ
غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے۔ اس علاقہ کو اسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کی تجارت اور خارجی معاملات بھی آزاد نہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل نے 38 سال قبضہ کرنے کے بعد چھوڑا تو اس کے بعد ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا ہے
اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی میں سُست پیش رفت پر مصر اور حماس کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی پیدا ہوگئی۔ حماس نے مصر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مئی میں آخری لڑائی کے بعد فلسطینی دھڑوں کے ساتھ طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدوں پر عمل درآمد کو روک رہا ہے اور اس میں تاخیر کر رہا ہے۔ ابھی تک صرف دو مطالبات پورے کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک قطر کی طرف سے دی جانے والی مالی امدادکی غزہ تک رسائی، اوردوسرا غزہ کی جنوبی پٹی میں کریم شالوم کراسنگ اور صلاح الدین گیٹ سے سامان کی بتدریج آمد کی اجازت ہے۔ حماس کے اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’الجزیرہ چینل‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے[مزید پڑھیے]
حماس کے رہنما نے حال ہی میں یہ بیان جاری کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہم اب جنگ نہیں چاہتے، عبرانی ڈیلی نیوز پیپر اور ’’لاریپلک‘‘ نے حماس کے رہنما ’’یحییٰ سنوار‘‘ کا جمعہ کو انٹرویو شائع کیا،جس میں انہوں کہا کہ ’’حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے ذریعے غزہ کی سرحد پر سے پابندیاں ختم کرناچاہتی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے ذریعے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے‘‘۔ سنوار نے اٹلی کے صحافی فرنسسکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے شہری ۲۰۰۷ ء سے پہلے ہی (جب کہ غزہ کی سرحدی پٹی پر پابندی نہیں لگی تھی) اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ حماس قیدیوں کے تبادلے کے لیے [مزید پڑھیے]
سرجن ’’مازن قصاص‘‘ ایک مریض کی زخمی ٹانگ کا معائنہ کر رہے تھے، جس کو اسنائپر سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ حالانکہ مازن قصاص کو۱۲ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد اس وقت آرام کے لیے اپنے بستر پرہونا چاہیے تھا،لیکن وہ زخمیوں کے علاج کے لیے واپس اسپتال آگئے تھے۔یہ گزشتہ چار برس میں غزہ کا بدترین خونی دن تھا،اسپتال میں گنجائش سے کہیں زیادہ زخمی علاج کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے ایک زخمی کی پٹی اتاری تو انتہائی بڑا اور گہرا زخم سامنے آگیا، یہ اسنائپر کی گولی کا زخم تھا۔ وہ نرس کو ہدایت دے کر آگے بڑھ گئے۔ مازن کا ۵۰ اور مریض بھی انتظار کررہے تھے۔ ’’گزشتہ روز جنگ کا بدترین دن تھا، مریضوں کا سارا رش ایک ہی [مزید پڑھیے]
غزہ اور خان یونس کے حالات پر اب آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں، فلسطینیوں کی جانب سے۳۰ مارچ سے ’’گھرواپسی‘‘ کے نام سے اسرائیل کی لگائی گئی باڑ کے قریب عظیم مارچ کا آغاز کیا گیا۔ اس مارچ کا مقصدفلسطینیوں کو ان کے گھروں تک واپسی کا حق دلانا ہے جہاں سے انہیں۱۹۴۸ ء میں نکال دیا گیا تھا۔ ۴۳ سالہ صابرین النجار نے جنوبی غزہ میں واقع اپنے گھر میں الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آخری بارانہوں نے اپنی بیٹی کو زندہ کب دیکھا تھا۔صابرین نے کھڑے ہوکر مسکراتے ہوئے استقبال کیا، وہ اپنے رشتے داروں اور دوستوں میں گھری ہوئی تھیں۔ وہ احتجاج کا دسواں جمعہ تھا، جس میں صابرین کی ۲۱ سالہ بیٹی رزان اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ رزان [مزید پڑھیے]
یحییٰ سِنوار شاید اس وقت فلسطین کی سب سے با اثر شخصیت ہیں۔انھوں نے اپنی ۵۶ سالہ زندگی کا بڑاحصہ جیل میں گزارا، چاہے وہ اسرائیلی جیل ہو یا غزہ جیسی کھلی جیل۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر ۶۰ فلسطینی مظاہرین کو ہلاک کیے جانے کے دو روز بعد ۱۶ مئی کو غزہ کے باسی یہ جاننے کے لیے ٹیلی ویژن کے گرد جمع تھے کہ کیا اشتعال اور تشدد کی نئی لہر انھیں ایک اور جنگ کی طرف دھکیل دے گی؟وہ نہ تو فلسطینی صدر محمود عباس کو سن رہے تھے اور نہ ہی حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کو، بلکہ وہ غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو سن رہے تھے جو آنے والے وقت میں پورے [مزید پڑھیے]
فلسطینی، صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی شدید مخالفت کررہے ہیں، مگر اندرونی تقسیم و سیاست کی وجہ سے فلسطینیوں کی مخالفت کے اثرات نہ ہونے کی برابر ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں یاسر عرفات کی موت کے بعد سے فلسطینی قوم تقسیم کا شکار ہے، اس تقسیم نے باہر کے لوگوں کو اپنے ایجنڈے کے تحت فلسطینیوں میں معاملات کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینیوں کا کردار کمزور تھا مگر انہوں نے اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، اس کو یاسر عرفات ’’فیصلہ سازی کی فلسطینی خودمختاری‘‘ کہا کرتے تھے۔ یاسر عرفات نے فلسطینیوں کے بنیادی مفادات پر سمجھوتا کیے بغیر ریاست حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ آزادانہ طرزِ عمل نے ہی ان کو رہنما کا درجہ دیا۔ آج عرفات [مزید پڑھیے]
یہ ایک چھوٹا سا فلسطینی علاقہ ہے جو کہ ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیلی جنگ کے بعد مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ اسرائیل کے قبضے میں آیا تھا۔ بحیرہ روم کے ساحل پر موجود یہ علاقہ رقبے کے لحاظ سے تقریباً امریکی شہر ڈیٹرؤاٹ (Detroit) کے برابر ہے جس کا رقبہ لگ بھگ ۳۶۰ مربع کلومیٹر ہے۔ اس علاقے کا جنوب مغربی حصہ مصر کے ساتھ جبکہ شمالی اور مشرقی حصہ اسرائیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ۱۹۴۸میں اسرائیل کے وجود سے پہلے غزہ ایک پر امن فلسطین کا حصہ تھا۔ مگر اسی سال عرب اسرائیل جنگ کے دوران مصر نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ جوکہ ۱۹۶۷تک قائم رہا۔ جبکہ اسرائیل نے بقایا فلسطین پر عربوں سے جنگ کے بعد اپنا تسلط [مزید پڑھیے]
عرب ریاستوں میں رقابت نے ہمیشہ ہی فلسطین کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ قطر اور چار عرب ریاستوں کے درمیان ایک ماہ سے برقرار کشیدگی کے غیرمتوقع نتائج سامنے آئے اور فلسطین کے دو مخالف گروہ حماس اور غزہ کے سابق سیکورٹی چیف محمد دہلان قریب آگئے ہیں۔ حماس تنظیم غزہ میں اکثریت رکھتی ہے اور اسے قطر کی حمایت حاصل ہے۔ غزہ کے سابق سیکورٹی چیف محمد دہلان ان دنوں متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں، وہ فلسطین پر حکومت کررہی فتح پارٹی کی قیادت کے قریب سمجھے جاتے رہے ہیں۔ حماس نے اس ہفتے تسلیم کیا ہے کہ ان کے نمائندے کچھ عرصے سے محمد دہلان کے کیمپ سے رابطوں میں ہیں اور یہ بات چیت حتمی نتیجے یعنی معاہدے [مزید پڑھیے]
حماس اور مصر کے درمیان برف پگھل رہی ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ مفاہمت کی جانب قاہرہ کی حالیہ پیش قدمی ضرور کسی مفاد کی بنیاد پر ہے۔ النجہہ (An-najah) یونیورسٹی، نابلس کے پروفیسرایراط نے ’’المانیٹر‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’مصر کی حماس سے مفا ہمت کی جانب پیش قدمی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فلسطینی صدر محمود عباس پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے حریف محمد دحلان سے بات چیت کریں اور انہیں اپنا جانشین بننے کے لیے تیار کریں‘‘(یاد رہے کے محمد دحلان کو محمودعباس پارٹی سے نکال چکے ہیں)۔ پروفیسر کہتے ہیں’’آنے والا وقت بتائے گا کہ مصر حماس شراکت داری صرف وقتی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جارہی ہے یا پھر اس کی کوئی [مزید پڑھیے]
گزشتہ موسم گرما میں غزہ پر اسرائیلی حملوں سے تباہ ہونے والے اُنیس ہزار مکانات میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی تعمیر نو ہو چکی ہو۔ ۵ء۳ بلین ڈالر کی امداد کے وعدوں کے چھ ماہ بعد بھی صورتحال مایوس کن ہے اور امدادی رقم کا ایک چوتھائی حصہ ہی غزہ پہنچ سکا ہے۔ غزہ کی اٹھارہ لاکھ کی آبادی میں سے ایک لاکھ لوگ سخت سردی اور بارشوں کا موسم خیموں، ٹرالروں اور تباہ شدہ مکانات کے ملبے پر گزارنے کے بعد بھی بے گھر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اسرائیلی حکومت ہے، جو غزہ کو بہت کم مقدار میں سیمنٹ درآمد کرنے کی اجازت دے رہی ہے، اس کا موقف ہے کہ تعمیراتی مواد فوجی مقاصد اور سرنگوں کی تعمیر [مزید پڑھیے]
یونان کے عظیم فاتح سکندراعظم کی افواج نے بھی غزہ سٹی سے ملحق علاقے کو اِسی طور گھیرا تھا اور اِس علاقے کی افواج کا تین ماہ محاصرہ جاری رکھا۔ بعد میں سکندر کے فوجی غزہ سے مال غنیمت ۶ بڑے جہازوں میں بھر کر لے گئے۔ اِس کے ۱۵۰۰ سال بعد یعنی ظہورِ اسلام کے بعد غزہ پر مسلمانوں اور عیسائیوں نے باری باری حکومت کی۔ کئی صدیوں بعد اِس خطے پر نپولین کا بھی حکم چلا۔
اسرائیل اور فلسطین مصرکے مصالحتی تعاون کے نتیجے میں ۲۶؍اگست کو غزہ میں ۵۰ روز سے جاری جنگ روکنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ اس جنگ میں۲۱ سو فلسطینی شہیدجب کہ ۶۴؍اسرائیلی فوجی اور ۵؍اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی
یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی، یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ قابض اسرائیل جب تک ہم سے لڑنا چاہے گا، ہم اس وقت تک اپنا دفاع کرتے رہیں گے۔ جنگ کے حقیقی نتیجے میں انسانی ہمدردی کے وہ مطالبات شدت سے سامنے ہیں جن کا تعلق جبر و تسلط کے مکمل خاتمے اور ناکہ بندی اٹھانے سے ہے۔
یورپی ممالک اور امریکا کے نزدیک فلسطینیوں کی زندگیوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔ ان کے لیے ہم عرب محض ایک مارکیٹ ہیں، گیس اسٹیشن ہیں اور ان کے لیے ایسے لوگ ہیں جنھیں ’’آپ ہمارے اتحادی اور کاروباری شراکت دار ہیں‘‘ جیسے الفاظ سے بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ایک یہودی لڑکے کی جان بچانے پر اسرائیلی حکومت کی طرف سے دیا جانے والا ایک ایوارڈ ہالینڈ کے ایک باشندے نے اسرائیلی سفارت خانے کو لوٹا دیا ہے۔ ۹۱ سالہ ہنک زنولی کے چھ رشتہ دار غزہ پر اسرائیلی بمباری میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہنک زنولی نے ’’رائٹیس اَمنگ دی نیشنز‘‘ میڈل اسرائیلی سفارت خانے کو لوٹانے کے ساتھ ہی ایک خط بھی دیا ہے جس میں لکھا ہے
1
2
3
»