
بی جے پی کے لیے ’’ریمائنڈر‘‘
مہا راشٹر اور ہریانہ میں حالیہ اسمبلی انتخابات نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا مارچ کسی حد تک روک دیا ہے۔ یہ حزب اختلاف کے لیے […]
مہا راشٹر اور ہریانہ میں حالیہ اسمبلی انتخابات نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا مارچ کسی حد تک روک دیا ہے۔ یہ حزب اختلاف کے لیے […]
ہندوستان میں لوک سبھا الیکشن کا آغاز بس دو دن بعد ہونے والا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن کے اعلان سے دو روز قبل […]
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اب خوب اندازہ ہوچلا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران بالاکوٹ حملے کو کسی […]
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بار پھر مندر کی سیاست شروع کردی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ اس سے قبل بی جے پی چاہتی ہے کہ عام ہندوؤں کے جذبات کو اپیل کرنے والی باتیں کرکے ووٹ بینک کو کسی نہ کسی طور برقرار رکھا جائے۔ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت کو مختلف نعروں کے ذریعے ایک طرف دھکیلا جاتا رہا ہے۔ جن اہم معاملات کو بنیاد بناکر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے، اُن میں رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کا معاملہ بھی نمایاں ہے۔
[مزید پڑھیے]
ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کا مر حلہ اُس وقت پورا ہو گیا، جب ۱۱؍مارچ ۲۰۱۷ء کو اس کے نتائج کا […]
خبر ہے کہ بھارت کے تاریخی شہر اور مغل سلطنت کے پایہ تخت آگرہ سے ذوالفقار احمدبھٹو انتخاب ہار گئے ہیں۔پاکستانی قارئین یا پیپلز پارٹی […]
لالو پرشاد یادیو نے ۲۳ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ایڈوانی کو راتھ یاترا میں جانے سے روک کر اور […]
بھارت میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے ایک بار پھر مرکز میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقتصادی لحاظ سے دو اہم صوبوں مہاراشٹرا اور دہلی سے متصل ہریانہ میں صوبائی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ان نتائج میں سب سے قابلِ رحم حالت کانگریس کی ہوئی ہے، جو دونوں صوبوں میں تیسرے نمبر پر چلی گئی۔
حد یہ ہے کہ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے بھی ۶۵ کروڑ نے بی جے پی کو حمایت سے نہیں نوازا۔ اس وقت بی جے پی نے جو حکومت بنائی ہے، وہ بھارت کی تاریخ میں سب سے غیر مقبول اور غیر نمائندہ ہے۔ اس صورت حال کا ایف پی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاملات کو بگاڑا گیا ہے، انتخابی سیٹ اپ سے کھلواڑ کی گئی ہے۔
مئی ۲۰۱۴ء میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی واضح کامیابی جہاں نئے حالات کی صورت گری کرتی ہے، وہیں انتخابی نتائج کئی حوالوں سے بھارت کی ایک دوسری تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔
انتخابات سے قبل اور دوران جن ایشوز کو بڑے زور و شور اور قوت کے ساتھ سامنے لایا جا تا ہے، کامیابی کے بعد وہی ایشوز پسِ پشت چلے جاتے ہیں اور عمارت جن بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہے، اُن ہی بنیادوں کو ڈھیر کرنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔ لہٰذا یہ مقولہ صحیح ٹھہرا کہ سیاست میں جو دِکھتا ہے وہ حقیقت نہیں اور جو پس پردہ ہے وہ سامنے نہیں آتا
بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کا امکان ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُنہیں وزیراعظم بننا بھی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ کوئی ہے جو مودی کو وزیراعظم بننے سے روک سکے؟
تین اطراف سے بنگلہ دیش کو گھیرے ہوئے بھارت کے لیے بنگلہ دیش پر اپنی مرضی مسلط کرنا آسان ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت کے عام انتخابات بنگلہ دیش کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات کے بطن سے بنگلہ دیش کے لیے بہت سے منفی اور مثبت اثرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
بھارت میں پارلیمانی انتخابات کا عمل شروع ہونے ہی والا ہے۔ حسبِ معمول رائے عامہ کے جائزوں کا سیلاب آگیا ہے، تاہم گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل نے سٹنگ آپریشن کرکے ان جائزوں کا پول کھول دیا۔ اس وقت ملک میں ۲۰ بڑی پروفیشنل مارکیٹ ایجنسیاں، مختلف میڈیا اداروں کے ساتھ مل کر رائے عامہ کے جائزے پیش کر رہی ہیں۔ ان میں سے ۹ کا، جس طرح پول کھول دیا گیا ہے، اس سے رائے عامہ کے جائزے اپنی اعتباریت کھو چکے ہیں۔
چند دن بعد ہونے والے الیکشن کی خوبیوں میں ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ ملک میں ایک نئی پارٹی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے جو گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں موجود نہیں تھی۔اس پارٹی کی فی الوقت ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ یہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے خلاف آواز اٹھا تی نظر آرہی ہے۔ وہیں دوسری طرف دیگر ریاستی پارٹیوں سے بھی اس کا اشتراک نہیں ہوا ہے۔اس لحاظ سے یہ پارٹی اپنی شناخت بنانے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں یہ کیا کردار ادا کرسکے گی۔ ’
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes