مودی کا سونامی
خبر ہے کہ بھارت کے تاریخی شہر اور مغل سلطنت کے پایہ تخت آگرہ سے ذوالفقار احمدبھٹو انتخاب ہار گئے ہیں۔پاکستانی قارئین یا پیپلز پارٹی […]
خبر ہے کہ بھارت کے تاریخی شہر اور مغل سلطنت کے پایہ تخت آگرہ سے ذوالفقار احمدبھٹو انتخاب ہار گئے ہیں۔پاکستانی قارئین یا پیپلز پارٹی […]
لالو پرشاد یادیو نے ۲۳ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ایڈوانی کو راتھ یاترا میں جانے سے روک کر اور […]
عوام نے کانگریس سے بدظن ہوکر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بھرپور مینڈیٹ دیا تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرسکے اور اس کے پاس یہ جواز نہ ہو کہ اس کے پاس تو کوئی اختیار تھا ہی نہیں۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک کانگریس کا زوال انقلاب سے کم نہ تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کی کارکردگی سے بددل ہوکر لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیے۔ یہ کوئی انقلاب نہیں تھا بلکہ محض جذباتیت تھی۔
بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان کی حلف برداری کی تقریب جس شاندار انداز سے اور جتنے بڑے پیمانے پر منعقد کی گئی، اُسے دیکھتے ہوئے تو یہ کسی وزیر اعظم کی حلف برداری سے کہیں زیادہ کسی شہنشاہ کی تاج پوشی کی تقریب دکھائی دے رہی تھی۔ نریندر مودی نے جس طور انتخابی مہم پر اربوں روپے خرچ کیے، حلف برداری کی تقریب بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کا امکان ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُنہیں وزیراعظم بننا بھی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ کوئی ہے جو مودی کو وزیراعظم بننے سے روک سکے؟
ایسا نہیں ہے کہ عوام نے ووٹ دے کر ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی راہوں میں پھول بچھائے ہیں۔ اس کا راستہ بہت کٹھن ہے۔ دہلی میں اس کی حکومت خاصی کمزور ہے کیونکہ اکثریت معمولی سی ہے۔ کانگریس نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے ہاتھوں شکست کھائی ہے۔ وہ تین بار دہلی پر حکومت کرچکی ہے مگر اب اسے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے ریاستی اقتدار کے ایوان سے باہر کردیا ہے
ہندوستانی رزمیے مہا بھارت میں قابلِ احترام بزرگ غازی بھیشم پتامہ باوقار اور معزز خاتون دروپدی کو سرِعام برہنہ کیے جاتے ہوئے دیکھ کر بھی […]
Copyright © 2024 | WordPress Theme by MH Themes