
ایٹمی پروگرام، ایران کو کیسے روکیں؟
قریباً چار سال سے ایران کی جانب سے ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ ایران نے امریکا اور دیگر طاقتوں سے۲۰۱۵ء […]
قریباً چار سال سے ایران کی جانب سے ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ ایران نے امریکا اور دیگر طاقتوں سے۲۰۱۵ء […]
انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنی تمام حامی ملیشیاز سے کہا ہے کہ وہ پراکسی وار (ڈھکی چھپی […]
پچھلے دس سال سے جاری خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشرتی تغیرات نے خطے میں جنگ عظیم اول سے قائم […]
گزشتہ سال کے اختتام پر ایران میں اقتصادی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، جیسے جیسے ان مظاہروں نے شدت اختیار کی سیاسی مخالفین بھی […]
امریکا نے مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی بنیادی پالیسیوں کو تبدیل کردیا ہے۔ آئندہ چند برسوں کے دوران امریکا اور مغرب کی مشرقِ وسطیٰ سے […]
گزشتہ پانچ سال کے واقعات نے امریکا اور عرب دنیا میں اس کے روایتی شراکت داروں کے درمیان تعلقات کو نہایت کشیدہ کر دیا ہے۔ […]
گزشتہ دو برسوں سے امریکا، ایران کے ساتھ علاقائی جنگ بندی پر خفیہ مذاکرات کر رہا ہے۔ اب دو طرفہ معاہدے پر پہنچنے کے بعد، […]
میں ستمبر ۱۹۹۶ء میں ایران گیا تھا۔ اس دورے کی باقی رہ جانے والی یادوں میں سرِ فہرست اس ہوٹل کی لابی کا ایک منظر […]
علی خامنہ ای اب بھی بہت سے معاملات میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حسن روحانی اور جاوید ظریف کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ علی خامنہ ای کو سمجھائیں کہ ایران کو لاحق سب سے بڑا خطرہ امریکا نہیں بلکہ اقتصادی پابندیاں ہیں جن کے باعث معیشت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے اور لوگ پریشان ہیں۔
اس وقت براک اوباما کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکا میں رائے عامہ ایران کے حوالے سے تقسیم ہوچکی ہے۔ حکومتی اور پارلیمانی حلقوں میں ایران پر بحث شدت اختیار کرگئی ہے۔ کانگریس میں اس حوالے سے واضح طور پر دو کیمپ دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کو ایران کے معاملے میں کانگریس سے زیادہ مدد نہیں مل سکے گی
ایران اور چھ بڑی طاقتوں (امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی) کے درمیان ۲۴ نومبر ۲۰۱۳ء کو جنیوا میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد ۲۰ جنوری ۲۰۱۴ء سے شروع ہو چکا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ معاہدہ چھ ماہ کے لیے ہے اور ایران کو متنازع جوہری پروگرام سے مکمل طور پر باز رکھنے کے سلسلے میں طویل المیعاد معاہدے کے لیے آئندہ اجلاس ۱۸ فروری کو ویانا، آسٹریا میں ہوگا
نومبر میں جب ایران اور چھ طاقتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا اور امریکا و ایران کے تعلقات کچھ بہتر ہوئے تو مجھے تہران میں امریکی سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ یہ عمارت اب دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے علامتی حیثیت کی حامل ہے۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میں امریکی سفارت خانے کی عمارت میں سرکاری مہمان کی حیثیت سے گیا کیونکہ اب امریکیوں کے لیے یہ عمارت ممنوع نہیں رہی۔
امریکا اور ایران پہلے سے مشرق وسطیٰ میں مل کر کام کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنے دو چہرے رکھے ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا پردے کے پیچھے۔ ظاہری طور پر امریکا ایران کو مشرق وسطیٰ میں اپنا حریف ظاہر کرتا ہے، جو دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے اور اسرائیل کے لیے خطرہ ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام خطے کی سلامتی کے لیے معاون نہیں ہے۔ ایران کے نزدیک امریکا شیطانِ عظیم ہے، جو ایران اور خطے پر اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ جب کہ اندرون خانہ دونوں نے مل کر خطے میں ایران کو ایک کلیدی کردار سپرد کیا
ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے خطے میں وہ ممالک ضرور پریشان ہیں جن پر اس معاہدے کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور انہوں نے اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں تاخیر بھی نہیں کی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل نے اس معاہدے کو خطے کے لیے خطرناک قرار دیا ہے
بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے حال ہی میں امریکا کا سرکاری دورہ کیا ہے۔ اس دورے سے قبل نیوز ویک کے لیے […]
Copyright © 2023 | WordPress Theme by MH Themes