ایران
۲۰۲۱ء وداع ہونے کو ہے، تاریخ میں اس سال کو خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں بڑی سیاسی، سفارتی اور جیوپولیٹیکل تبدیلیوں کی وجہ سے یاد کیا جائے گا۔ ہر مسئلے کے لیے باہر سے مدد لینے کے عادی خلیجی ممالک اب ایک دوسرے سے بات چیت پر آمادہ ہیں، اس بڑی تبدیلی کی وجہ درحقیقت عراق اور افغانستان سے امریکی فوجی انخلا بنا۔ ۲۰۱۱ء کی عرب بہار کے کھنڈروں سے شام کے صدر بشارالاسد اور لیبیا کے سابق مردِ آہن معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی ایک بار پھر ابھر کر سیاسی منظرنامے پر آچکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ کہلوانے والا لبنان معاشی تباہی کی المناک داستان بن چکا ہے، ایران اپنے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کی قیادت میں جوہری پروگرام[مزید پڑھیے]
اسرائیلی قائدین ایک بار پھر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے ۲۰۱۳ء میں بھی کیا تھا۔ تب بھی ایران کو جوہری ارادوں کے حوالے سے سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی مگر خیر، کچھ کیا نہیں تھا۔ اب سیاسی، سماجی، معاشی اور تزویراتی حالات بہت مختلف ہیں اس لیے اسرائیل کی دھمکی کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ۲۰۱۵ء میں جامع ایکشن پلان کی تیاری سے دو سال قبل اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کا انتباہ کیا تھا۔ تب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا تھا ’’ہماری گھڑیاں اس بار مختلف رفتار سے چل رہی ہیں۔ امریکا بہت دور ہے۔ ہم ایران سے بہت نزدیک ہیں اور اس [مزید پڑھیے]
ایرانی خبر رساں ایجنسی ’’تسنیم‘‘ نے اطلاع دی ہے کہ آذربائیجان نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے منسلک ایک مسجد اور ملک میں ان کے نمائندے کا دفتر بند کر دیا ہے۔ آذربائیجانی حکام نے حکومت کے کہنے پر مسجد اور دفتر کو سیل کیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق، سید علی اکبر اوغناجاد کا دفتر مسجد کے اندر واقع ہے۔ وہ ۱۹۹۶ء سے خامنہ ای کے نمائندے کے عہدے پر فائز ہیں۔ سرکاری حکام نے اس اقدام کی وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ باکو میں کورونا کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے کئی مساجد اور دفاتر کو عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بندش باکو اور تہران کے درمیان گزشتہ ماہ سے جاری [مزید پڑھیے]
ایران کے وزیر خارجہ سعید خاتب زادہ کے مطابق امریکا اور مغربی ممالک نے طالبان کے انتقام کے خوف سے انتہائی عجلت اور خوف میں کابل سے اپنا سفارت خانہ خالی کیا ہے، لیکن ایران خاموش اور پُر سکون بیٹھا ہے۔ کابل اور ہیرات میں ایران کا سفارت خانہ نہ صرف کھلا ہے بلکہ پوری طرح کام کررہا ہے۔ طالبان کے افغانستان پر قبضے پر ایران کا مؤثر موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب گامزن ہے اور یہ وہی طالبان ہیں جو کبھی ماضی میں ایران کے دشمن کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ۲۳ برس قبل طالبان اور ایران کے درمیان جنگ کی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی، جب طالبان نے ۱۱؍ایرانی سفارت[مزید پڑھیے]
ایک زمانے سے ایران کے جوہری پروگرام کو بہانہ بناکر پورے مشرقِ وسطیٰ کو شدید سیاسی و عسکری عدم استحکام سے دوچار رکھنا مغرب کے پسندیدہ مشاغل میں شامل رہا ہے۔ یہ مشاغل مجبوری کی حالت میں ہیں کیونکہ گھٹتی ہوئی طاقت کے پیش نظر ایسا بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو چین، روس اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتوں کے اثرات کا دائرہ محدود رکھنے میں معاون ثابت ہو۔ ایران کا جوہری پروگرام کس منزل میں ہے اور وہ اس محاذ پر کیا کرسکتا ہے، اس بارے میں پورے یقین سے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغرب جو بھی راگ الاپتا ہے دنیا اُسے سن کر جھومتی ہے، اور جو کچھ وہ کہتا ہے اُس پر [مزید پڑھیے]
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے گزشتہ ماہ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کے دوران اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ایران اور بھارت مل کر خطے میں عمومی طور پر اور افغانستان میں خصوصی طور پر امن و استحکام یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے نئی دہلی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ ۵؍اگست کو دو روزہ دورے پر تہران گئے جہاں انہوں نے ایران کے نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت اب بھی خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے حوالے سے ایران کے ساتھ مل [مزید پڑھیے]
امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل، سخت گیر مذہبی رہنما، موت کمیٹی سے جڑی بدنامی، اہل تشیع طبقے کے لیے اہم اور مقدس ترین ہستی کے روضے کے منتظم، حجۃ الاسلام کا درجہ رکھنے والے اور ملک کے چیف جسٹس، ابراہیم رئیسی ایرانی صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوئے تو دنیا بھر کی توجہ کا مرکزبن گئے۔ ایران کے روایتی حریف اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینٹ نے تو بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری نیند سے بیدار ہو اور دیکھے کہ وہ کس کے ساتھ معاملات کر رہی ہے، ایران میں بننے والی جلادوں کی حکومت کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی نہیں ملنی چاہیے۔ آخر ابراہیم رئیسی کی شخصیت میں ایسا کیا ہے جس سے ان کے حریف اتنے خائف ہیں اور ان [مزید پڑھیے]
۱۲ جنوری کو نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں ہونے والے ایک پروگرام کے دوران امریکا کے سبکدوش ہونے والے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی تقریر کے دوران الزام لگایا تھا کہ القاعدہ ایران کو اپنے مرکزی اڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اور ایران اور القاعدہ کا تیس سالہ تعاون حالیہ برسوں میں بلندی کی نئی سطحوں کو چھو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’۲۰۱۵ء میں تہران نے القاعدہ کو نیا ’’آپریشنل ہیڈ کوارٹر‘‘ بنانے کی اجازت دی ہے۔ اور اب یہ دہشت گرد تنظیم ایرانی ریاست کی نگرانی میں کام کر رہی ہے‘‘۔ پومپیو امریکا کے پہلے رہنما یا سیاسی تبصرہ نگار نہیں ہیں جنہوں نے ایران پر القاعدہ کی حمایت کا الزام لگایا ہو۔ تاہم اس مرتبہ الزامات [مزید پڑھیے]
متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرکے سفارتی تعلقات قائم کرلیے جانے کے بعد اب مسلم دنیا یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ سعودی عرب اس راہ پر گامزن ہوتا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں بھی بعض حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے لیے نرم گوشے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ایک بار پھر مخصوص مغرب نواز ذہنیت کے حامل بعض تجزیہ کار کام پر لگ گئے ہیں۔ بات اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کی صورت میں ملنے والے فوائد سے متعلق استفسار سے شروع ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے تو ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ کہیں گاڑی [مزید پڑھیے]
یکم اور دو اگست ۱۹۵۳ء کی شب بارہ بجتے ہی ایک امریکی تہران میں واقع سی آئی اے کے سیف ہاؤس سے باہر نکل آیا۔ اس نے موقع کی مناسبت سے بند گلے کی سیاہ قمیص اور سلیٹی رنگ کی پتلون پہن رکھی تھی، جب کہ پاؤں میں گیوہ نامی نرم ایرانی جوتے تھے۔ مکان کے باہر سیاہ رنگ کی عام سی کار کھڑی تھی۔ امریکی اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ یہاں ایک کمبل پڑا تھا، جو اس نے اپنے اوپر ڈال لیا اور گاڑی کے فرش پر لیٹ گیا تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے۔ جلد ہی گاڑی ایک بڑی عمارت کے احاطے میں پہنچ گئی۔ پورچ میں ایک دبلا پتلا شخص کھڑا تھا جس نے گاڑی رکتے ہی اس کا دروازہ [مزید پڑھیے]
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کا پہلا تاثر یہ ہے کہ اسرائیل ایک عرب ملک کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ایک علامتی رکاوٹ کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا، عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کی کو ئی سرحد موجود نہیں۔حال ہی میں بحرین بھی اس معاہدے کا حصہ بن گیا ہے۔بظاہر متحدہ عرب امارات نے اس معاہدے سے وہ حاصل کرلیا جو دوسرا کوئی ملک حاصل نہیں کرسکا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ وقتی طور پررک گیا اورانتہائی جدید ترین امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہوگئی، جس میں ایف۔۳۵ لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ ابوظہبی نے امریکاکے ساتھ بھی اپنے تعلقات مضبوط بنالیے، قطع نظر اس کے کہ اگلے امریکی انتخابات کون جیتتا ہے۔ لیکن اس معاہدے [مزید پڑھیے]
چھ جولائی کو ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اشارہ دیا کہ چین کے ساتھ ایک ۲۵ سالہ ساجھے دار سمجھوتے کو آخری شکل دی گئی ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس معاہدے کی حتمی نقل کے ۱۸ صفحات بھی فوراً میڈیا کے ہتھے چڑھ گئے۔ اگر یہ صفحات اصلی ہیں تو پھر یہ وہی سمجھوتہ ہے جس کی بازگشت سال بھر سے سنائی دے رہی ہے۔ گزشتہ برس ۳ ستمبر کو ’’ڈان‘‘ میں پاکستانی سفارت کار منیر اکرم کا مضمون شائع ہوا جس میں توانائی کے شعبے سے متعلق معتبر ماہانہ جریدے ’’پٹرولیم اکانومسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا کہ چین ایران میں تیل و گیس، ٹرانسپورٹ، مواصلات اور تعمیراتی شعبوں میں لگ بھگ چار سو دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے [مزید پڑھیے]
ایران میں صدیوں پرانی کہاوت ہے کہ ’’مرنا ہے تو گیلان جایے‘‘۔ ایران کا صوبہ گیلان قدرتی حُسن اور سبزے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ مرنے کے لیے گیلان جانے کا مشورہ اِس لیے دیا جاتا ہے کہ پورے ایران میں رسم ہے کہ کسی گھر میں موت واقع ہو تو سوگوار خاندان محلے والوں کو ہفتہ بھر کھلاتا پلاتا رہتا ہے، جبکہ گیلان میں سوگوار خاندان کے لیے محلے والے ایک ہفتے تک کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ مرنے کے لیے گیلان جانے کا مشورہ اِس وقت کچھ اور مفہوم رکھتا ہے۔ ایران میں کورونا وائرس کی وبا سب سے زیادہ گیلان میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بھی عجیب ہی کہانی ہے۔ خوبصورت نظاروں والے پُرفضا مقامات کا حامل ہونے کی بدولت [مزید پڑھیے]
اس سے پہلے کہ ایران امریکا کے فوجیوں پر میزائل حملہ کرتا، روس کے صدر پیوٹن نے شام کے ہم منصب کے ساتھ ملاقات کی، جس میں امریکا اورایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع پر گفتگو کی۔ روس نے امریکی فضائی حملے اور اس میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی بار بار مذمت کی ہے، عالمی سطح پراس وقت روس اپنے حق میں بہتر ہوتی صورتحال کا انتظار کر رہا ہے۔ امریکا اور تہران کے درمیان تعلقات شام میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے خراب ہیں۔ یہ اس وقت مزید خراب ہوئے جب امریکا نے ایٹمی معاہدے کو منسوخ کیا، جب کہ روس اور ایران کے تعلقات اس وقت سے مضبوط ہیں، جب سے شام میں یہ ایک دوسرے کے ساتھ فوجی تعاون [مزید پڑھیے]
با لاآخر وہ موقع بھی آگیا جس کا سعودی ولی عہد شاہ محمد بن سلمان کو طویل عرصے سے انتظار تھا۔ریاستی انتظام کے تحت چلنے والی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ’’آرامکو‘‘ نے عوام کے لیے اپنے حصص کو پیش کردیا ہے۔اگرچہ عوم کی جانب سے اس پیشکش کواس طرح نہیں سراہا گیا جیسا کہ امید کی جا رہی تھی۔ فی الوقت آرامکو کو صرف مقامی اسٹاک ایکسچینج کمپنی تداول میں رجسٹرڈ کیا جائے گا۔شیئرز کو مقامی مارکیٹ تک محدود رکھنے کی وجہ شاہی خاندان میں اختلاف ہے، اسی وجہ سے اس عمل کو موٗخر کیا گیا تھا۔سعودی عرب کی اس اہم ترین کمپنی کی شیئرز کو بین الاقوامی اسٹاک مارکیٹ تک رسائی نہ دینے کی ایک وجہ اسکروٹنی کا سخت نظام اور سعودی [مزید پڑھیے]
1
2
3
…
6
»