جماعتِ اسلامی بنگلا دیش
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ا یک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ کے رسولؐ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ ؐ نے فرمایا تمہاری ماں۔اس نے کہا، ان کے بعد۔ آپ ؐ نے فرمایا، تمہاری ماں۔اس نے کہا، ان کے بعد، آپ ؐ نے فرمایا، تمہاری ماں۔ اس نے کہا، ان کے بعد،آپ ؐ نے فرمایا، تمہارے والد۔ بنگلا دیش جماعتِ اسلامی کے راہ نما اور سابق رُکنِ اسمبلی دلاور حسین سعیدی اپنے وعظ کی محفلوں میں، جہاں خواتین اور مرد شرکت کرتے تھے، درج بالا حدیث اس مقصد سے سناتے تھے کہ یہ واضح کیا جائے کہ قرآن، احادیث اور اسلام نے [مزید پڑھیے]
جماعت اسلامی بنگلا دیش اپنے مرکزی رہنما، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبد الرزاق کے استعفے کے بعد سخت بحران کا شکار ہے۔ اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی رہنما کارکنان کے تیزی سے گرتے ہوئے مورال کو بحال کرنے کے لیے جلد ہی ایک نئی جماعت کے قیام کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے جنرل سیکرٹری کی قیادت میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ جماعت سے وابستہ کچھ افراد کا خیال ہے کہ موجودہ تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کر کے ایک نئی جماعت ازسرنو تشکیل دینی چاہیے۔ لیکن پارٹی کے قدامت پسند افراد ان تجاویز کو قابلِ عمل نہیں سمجھتے۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ پارٹی کے دیگر افراد مستعفی عبدالرزاق کے راستے پر چل نکلیں گے، پارٹی کی تمام قیادت [مزید پڑھیے]
میں ۱۴ جنوری کو ڈھاکا پہنچا اور فضا کو سونگھتا رہا۔ پہلی بار یہاں آیا تھا، اس لیے دل میں ہزار شوق اور ولولے تھے، طلبہ سے ملاقاتیں ہوئیں، کئی سرکاری افسروں کے ’’درشن‘‘ بھی کیے۔ سیاست دانوں کے ہاں جانا بھی ہوا اور عام آدمیوں سے ملنا بھی۔ پورے ڈھاکا میں شیخ مجیب الرحمن کے عظیم الشان جلسۂ عام کا چرچا تھا، ہر شخص کی زبان پر تین روز پہلے منعقد ہونے والے اس اجتماع کا ذکر تھا۔ سیاسی سرگرمیوں سے پابندی ہٹنے کے بعد ڈھاکا میں شیخ صاحب کا یہ پہلا خطاب تھا اور اسے ان کی ’’پالیسی اسٹیٹمنٹ‘‘ کی حیثیت حاصل تھی۔ ۱۱ جنوری کو شائع ہونے والے ایک عوامی لیگی انگریزی ہفت روزہ نے آٹھ کالمی شہ سرخی لگائی ’’مجیب آج [مزید پڑھیے]
بنگلادیش کی موجودہ حکومت انتقامی کارروائیوں کو ہوا دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان کا نام لینے اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے بلکہ پاکستان سے محبت کرنے کی پاداش میں دھڑادھڑ پھانسیاں دے کر ظلم و ستم کی گھناؤنی مثالیں بھی قائم کر رہی ہے۔ اس وقت تک جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں کو پھانسیاں دی جاچکی ہیں، جن میں مولانا مطیع الرحمن نظامی‘ عبدالقادر ملا‘ محمد قمرالزمان‘ علی احسن مجاہد اور میر قاسم شامل ہیں، جبکہ بی این پی کے رہنما صلاح الدین قادر کو بھی پھانسی دی گئی۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم اور مولانا عبدالکلام محمد یوسف کو جیل میں تشدد کرکے شہید کردیا گیا۔ ان پھانسی پانے والے رہنماؤں سے یہ کہا گیا [مزید پڑھیے]
بنگلا دیشی حکومت کی جانب سے میر قاسم علی کو پھانسی دینے کی خبر سن کر دلی دکھ ہوا۔نہ صرف بنگلا دیش کے لوگ بلکہ بنگلا دیش سے باہر رہنے والے بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم ،حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کے لیے نام نہاد ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ اور’’جنگی جرائم ‘‘جیسی جذباتی معاملات کو استعمال کر رہی ہے۔ نہ صرف عالمی تنظیموں نے بلکہ اقوام متحدہ نے بھی نام نہاد عدالتی ٹرائل پر حکومت سے احتجاج کیا ،ان مقدمات کی سماعت کے دوران نہ تو عالمی قوانین کی پاسداری کی جا رہی ہے اور نہ ہی صحیح عدالتی طریقہ کار کو اپنایا جا رہا ہے۔مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ بنگالی ۱۹۷۱ء میں ہونے والے واقعات [مزید پڑھیے]
پچھلے دنوں ایک تحریر نظر سے گزری جس میں پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی ستم ظریفی کا ذکر تھا۔ مصنف کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کے لیے اس کی سرحدوں سے پار رہنے والے بنگلادیش اور مقبوضہ کشمیر میں اپنی جانوں سے جا رہے ہیں جبکہ خود اس کے اندر سے اس کے لیے مردہ باد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں. اوّل الذکر روایت کو آج سابق مشرقی پاکستان کے فرزند میر قاسم نے اور آگے بڑھایا اور جان اپنے خالق حقیقی کے حوالے کر دی۔ جرم وہی، پاکستان کو سلامت رکھنے کی کوشش۔ حسب روایت، ہمارا ردعمل… شدید خاموشی ! اپوزیشن کے اپنے قضیے ختم ہونے میں نہیں آتے، یا وہ دانستہ خود کو الجھائے رکھتے ہیں کہ [مزید پڑھیے]
بنگلادیش کی پارلیمنٹ کے سابق رکن، سابق مرکزی وزیر زراعت، بندرگاہ اور صنعت، بنگلادیش جماعت اسلامی کے امیر، مولانا مطیع الر حمن نظامی کو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ کی سیکولر حکومت نے ۱۰مئی ۲۰۱۶ء کو پھانسی دے دی۔ شہید کے گھر والوں سے الوداعی ملاقات کی تفصیل ملاحظہ کیجیے۔ یہ ملاقات ڈھاکا سینٹرل جیل میں ۱۰مئی کو آٹھ بجے شب کروائی گئی۔ یہ تحریر مولانا کے تیسرے بیٹے ڈاکٹر نعیم الرحمن کی ہے، جو خود اس ملاقات میں موجود تھے۔ ملاقات کے کچھ ہی دیر بعدمولانا کو پھانسی دے دی گئی۔ (ادارہ)[مزید پڑھیے]
سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلادیش، میرے لیے ایک حساس اور جذباتی معاملہ ہے۔ میرے بچپن کے بہت خوبصورت مہ و سال، وہاں گزرے ہیں۔ ڈھاکا مجھے اپنے وجود کا حصہ لگتا ہے۔ ڈھاکا میرا رُومانس تھا اور ہے۔ مشرقی پاکستان کے آخری دنوں میں، کراچی آجانے کے بعد، دوبارہ وہاں نہ جاسکا۔ مگر دل کا ایک حصہ وہیں اٹکا رہا۔ اُس وقت کے ’’سیکنڈ کیپیٹل‘‘ اور ’’ایوب نگر‘‘ (حالیہ شیرِ بنگلا نگر) کہلانے والے علاقے میں واقع، فیڈرل گورنمنٹ اسکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ اپنا وہ اسکول اور محمد پور و میرپور کے علاقے، بیت المکرم مسجد، نیومارکیٹ اور صدر گھاٹ وغیرہ کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ تم نے بنگلا دیش دیکھا ہے تو جواب [مزید پڑھیے]
عوامی جمہوریہ بنگلادیش کی وزیر اعظم محترمہ شیخ حسینہ واجد (اللہ آپ کی حفاظت کرے) السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ و بعد! بنگلادیش کی تنظیم جماعت اسلامی کے بہت سے علماء کی گرفتاریوں اور پھانسیوں کے احوال جان کر ہمیں بڑا دکھ ہوا اور ان لوگوں کے احوا ل جان کر بھی افسوس ہوا کہ جن میں سابق وزراء اور بنگلادیش کے پارلیمانی اراکین بھی شامل ہیں، نیز ان عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد دیکھ کر بھی تکلیف ہوئی کہ جو ان افراد کے اوپر لگائے گئے محض ان الزامات کی بنیاد پر صادر کیے گئے جن کا دورانیہ چالیس سال سے زائد کا عرصہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ مشرق ومغرب کے تمام مسلمانوں نے مُلّا عبدالقادر، شیخ قمر زمان، شیخ علی [مزید پڑھیے]
مجھے افسوس رہے گا کہ میرے جذبات کی ترجمانی میری حکومت اور میرے وزیر اعظم نے نہیں کی۔ یہ ترجمانی ترکی کی حکومت اور ترکی کے صدر نے کی۔ ہر معاملے میں ترکی کی طرف مقلدانہ نظر سے دیکھنے والے حکمرانوں نے، نہیں معلوم کیوں اس معاملہ میں ایردوان کی تقلید پسند نہیں کی۔ حسینہ واجد کا مقدمہ کسی قانون، کسی اخلاق اور کسی سفارتی میدان میں ثابت نہیں۔ دنیا کا ہر ذمہ دار فورم اس ٹریبونل کو وحشت کا کھیل قرار دے چکا۔ ’’انٹرنیشنل نیو یارک ٹائمز‘‘ جیسے اخبارات ایک سے زیادہ بار اس کی مذمت کر چکے۔ پھر یہ نومبر ۱۹۷۴ء کے سہ فریقی معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یوں سفارتی آداب سے بھی متصادم ہے۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی نے [مزید پڑھیے]
گھر ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر جب رنجشیں،کدورتیں اور گلے شکوے نفرتوں کا روپ دھارنے لگیں تو الگ ہوجانے اور نیا گھر بسا لینے میں ہی عقلمندی ہوا کرتی ہے۔جب کوئی گھر تقسیم ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے نیا گھر جنم لیتا ہے تو اہل خانہ کے درد کی شدت وہی ہوتی ہے جو عملِ زچگی کے دوران خاتون کے حصے میں آتا ہے۔ علیحدگی کا یہ عمل کتنا ہی ناگوار اور ناپسندیدہ کیوں نہ ہو، وقت کے مرہم سے زخم بھرنے لگتے ہیں تو سب کو احساس ہوتا ہے کہ یہ بٹوارہ تو ایک دن ہونا ہی تھا تو اس پر کڑھنے، جلنے اور ایک دوسرے کو کوسنے دینے کے بجائے کیوں نہ ہنسی خوشی مل [مزید پڑھیے]
کتنی بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جن کے نزدیک وفا و بے وفائی کے درمیان فرق مٹ جائے۔ جو اس قدر بزدل‘ مصلحت کوش ہو جائیں کہ قوم کی ناموس‘ عزت و حرمت‘ وقار اور حمیت کے لیے جان دینے والوں کی یاد میں ایک آنسو بھی نہ بہا سکیں۔ یہ المیہ بنگلادیش کے لیے تھا اور نہ ہی مطیع الرحمن نظامی کے لیے۔ دونوں سرخ رو۔ حکومت اس لیے سرخ رو کہ اس نے پاکستان سے اپنی نفرت کو ایک علامت کے طور پر ثابت کیا۔ مطیع الرحمن نظامی اس لیے سرخ رو کہ اس نے اس وطن کی محبت میں جان دی، جو کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کے بنانے [مزید پڑھیے]
کوئی بھی شخص جو بنگلا دیش میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہے، وہ اِس بات سے اتفاق کرے گا کہ جماعت اسلامی ملکی سیاست میں بہت دور تک آچکی ہے۔ بنگلا دیش کی آزادی سے قبل یہ ایک بہت چھوٹی سی قوت تھی اور اُس وقت جماعت اسلامی صرف ایک طلبہ تنظیم یعنی اسلامی چھاترا شھنگستا (آئی سی ایس) کی شکل میں وہاں موجود تھی اور سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) کے نوجوانوں میں اُس کے بہت کم چاہنے والے موجود تھے۔ ۱۹۷۱ء تک صوبہ دو دھڑوں میں تقسیم تھا، ایک مارکسسٹ ایسٹ پاکستان یونین (ای ایس پی یو) اور چھاترا لیگ، جس کو عوامی لیگ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ صوبہ بھر میں آئی سی ایس کے [مزید پڑھیے]
جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما عبدالقادر مُلّا کو ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو ۱۹۷۱ء کی جنگ میں نظریہ پاکستان کی حمایت پر سزائے موت دی گئی۔ عبدالقادر مُلا نے تختہ دار پر جانے سے قبل اپنی اہلیہ کے نام ایک مفصل خط لکھا تھا، جو درج ذیل ہے: پیاری رفیق حیات السلام علیکم! میری پھانسی کا مکمل فیصلہ لکھا جا چُکا ہے۔ قوی امکان ہے کہ کاغذ کا وہ ٹکڑا کل رات یا اس کے بعد جیل کے دروازے تک پہنچ جائے۔ جس کے بعد اصولاً مجھے کال کوٹھری میں منتقل کردیا جائے گا۔ شاید یہ حکومت کا آخری عمل ہے، اس لیے وہ اس غیر منصفانہ عمل کو بہت تیزی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ میرا خیال ہے کہ وہ نظر ثانی کی [مزید پڑھیے]
بنگلادیشی حکومت ملک کی سب سے بڑی اور منظم اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔بہت سے وزراء اور حکومت کی حمایت یافتہ بعض سیاسی تنظیمیں، جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھا رہی ہیں۔جماعت اسلامی اس وقت سخت دبائو میں ہے۔ اس کے تین راہنمائوں کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے اور کئی کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان کے علاوہ بھی جماعت کے متعدد راہنمائوں کے خلاف ۱۹۷۱ء کی جنگ میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں مقدمے زیرِ سماعت ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کو ملکی سیاست سے باہر رکھا گیا یا پابندی لگائی گئی تو اس بات کا [مزید پڑھیے]
1
2
3
»