کشمیر
اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت گلاسگو میں جہاں اس وقت ۲۶ویں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز ہو چکا ہے، چاہیے تھاکہ جنوبی ایشیائی ممالک ماحولیاتی مسائل پر کوئی مشترکہ حکمت عملی اپناتے، اس پورے خطے میں ہر سال کہیں خشک سالی، تو کہیں سیلاب، تپش، سمندری طوفان اور اب جاڑوں میں ہوائی آلودگی کی وجہ سے سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں کوپن ہیگن میں اسی طرح کی کانفرنس سے قبل اس وقت بھارت کے وزیر ماحولیات جے رام رمیش نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اقبال خان سے ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ دونوں ممالک ماحولیات سے متعلق مشترکہ موقف اپنائیں گے اور اس کے بعد اشتراک کی راہیں ڈھونڈیں گے۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ بجائے مشترکہ حکمت [مزید پڑھیے]
اپریل ۱۹۸۵ء کو جموں و کشمیر کے گورنر جگموہن اور ریاستی کانگریسی راہنماؤں نے وزیراعلیٰ غلام محمد شاہ کو گدی سے اتارنے کی پوری تیاری کی تھی۔ شاہ نے ایک سال قبل وزیراعظم اندرا گاندھی کی مددسے نیشنل کانفرنس کے ۱۵؍اراکین اسمبلی کو توڑ کر اپنے سالے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو تخت سے اتارا تھا۔ گورنر نے شکایتوں کا ایک پلندہ نئے وزیراعظم راجیو گاندھی کو بھیجا تھا اور نئی حکومت بنانے کی سفارش کی تھی۔ مقامی کانگریسی راہنماؤں کی رال ٹپک رہی تھی۔ ۱۹۷۵ء کے بعد پہلی بار وہ اقتدار کے قریب آرہے تھے۔ ان سبھی پیش رفتوں کے درمیان معمر اور جہاندیدہ وزیراعلیٰ شاہ نے سرینگرکے بہترین باورچیوں اور تین صحافیوں کو منتخب کرکے جہاز میں دہلی کا رخ کیا۔ چانکیہ پوری کے [مزید پڑھیے]
سفارتی مناقشے کی روشنی میں پاکستان اور سعودی عرب اپنی اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ (مقبوضہ) جموں و کشمیر میں گزشتہ برس ۵؍اگست کو بھارت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ابھرے ہیں۔ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اُسے بھارت کا حصہ بنانے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی کوشش پر پاکستان نے چاہا کہ اسلامی دنیا اس کا ساتھ دے۔ اس نے جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کی سربراہ کانفرنس بلانے پر زور دیا مگر سعودی عرب اس کے لیے راضی نہ ہوا۔ جب او آئی سی کا اجلاس بلانے کی کوشش ناکام رہی تو وزیر خارجہ [مزید پڑھیے]
مقبوضہ کشمیر میں اب موت کے خوف کا وجود نہیں۔ جدوجہدِ آزادی ایک فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوچکی ہے۔ اب پاکستانی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ حق خود ارادیت کی بنیاد پر عالمی سطح پر موثر لابنگ کرے، سیمینار، کانفرنسیں اور بھرپور مہم ترتیب دیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر پر ایک نئے مؤثر اور متحرک ریسرچ گروپ کا قیام عمل میں لایا جائے،ساتھ ہی کشمیر کمیٹی میں ٹیکنوکریٹ، مشیران اور ماہرین کو شامل کرکے اس کمیٹی کو فعال اور متحرک کیا جائے۔ یہ کہنا تھا معروف پاکستانی فلاسفر اور ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد کا۔ آپ سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور سینیٹر [مزید پڑھیے]
یقیناً یہ عنوان چونکا دینے والاہے۔ اس لیے نہیں کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ بلکہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، اس نے کشمیر کی آزادی کو ایک ناقابلِ انکار حقیقت بنا کر رکھ دیا۔ کشمیر میں بھارت کی فوج کی تعداد ۹ لاکھ ہو یا ۲۰ لاکھ یا ایک کروڑ، یہ بات ناقابلِ تردید حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ بھارت چاہے جتنا زور لگالے وہ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکتا۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵۔اے کے تحت کشمیریوں کو جو فریب دیا گیا، کشمیری اس پر صبر و شکر کر لیتے۔ بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دے کر دیکھ لیا، ظلم و ستم ڈھا کر [مزید پڑھیے]
بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور آرٹیکل ۳۷۰ پر ملائیشیا کی جانب سے پاکستان کی حمایت کے بعد بھارت اور ملائیشیا کے درمیان تجارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور دونوں ہی ملک ایک دوسرے کو تجارتی محاذ پر سزا دینے کی کوشش میں ہیں۔ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان، ترکی اور چین کی طرح مسئلہ کشمیر کو اٹھاتے ہوئے ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے جب بھارت کو نشانہ بنایا تو بھارت کے لیے یہ کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ مہاتیر محمد نے الزام لگایا تھا کہ بھارت نے جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا ہے۔ ملائیشیا اور بھارت کے تعلقات اچھے ہوا کرتے تھے لیکن کشمیر کے مسئلے پر مہاتیر محمد کا پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا [مزید پڑھیے]
مطالعہ پاکستان کی پھبتی کس کر پاکستان کے قومی بیانیے کوبے توقیر کرنے کی کوشش کرنے والے سورماؤں نے اب کشمیر پر پڑاؤ ڈال لیا ہے۔ قوم کو باور کرایا جا رہا ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ صرف حق خود ارادیت کی بات نہیں کر رہیں بلکہ وہ بھی کہہ رہی ہیں کہ پہلے پاکستان آزاد کشمیر سے فوجیں ہٹائے، اس کے بعد استصواب رائے ہو گا اور اس استصواب رائے تک بھارت کی فوج کشمیر میں موجود رہے گی۔ اس کے بعد یہ حضرات فوری طور پر ایک نتیجہ نکال کر قوم کے سامنے لہرا دیتے ہیں کہ پاکستان نے جب فوجیں ہی نہیں نکالیں تو استصواب رائے کیسا؟ساتھ ہی تمسخرانہ انداز [مزید پڑھیے]
جب جدید بھارت کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں یہ ضرور شامل ہوگا کہ ہندو بھارت کے سامراجی مقاصد وادیٔ کشمیر میں خاکستر ہوگئے۔ افغانستان کو اگر ’سلطنتوں کا قبرستان‘ کہا جاتا ہے تو غلط نہیں۔ ۱۹ برس بیت گئے مگر امریکا اب بھی وہاں اپنی طویل ترین جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگ لڑتے بھارت کو ۷۰ برس بیت چکے ہیں۔ اس جنگ کو ۷ لاکھ بھارتی فوجی لڑتے چلے آرہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ سویت یونین یا امریکی نیٹو فورسز نے افغانستان میں اگر اب تک سب سے بھاری فوج تعینات کی ہے تو وادی کشمیر میں اس سے ۷ گنا زیادہ فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ کشمیر جنگ کا خاتمہ صرف اس وقت [مزید پڑھیے]
اسے بہت بری طرح پیٹا گیا تھا اور وہ شدید زخمی حالت میں پڑا تھا، فاروق ڈار کوفوجی جیب کے بمپر کے ساتھ باندھ کر جیپ کومقبوضہ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سرینگر میں گھمایا گیا۔ بھارتی فوج نے اس پر یہ الزام لگایا کے وہ بھارتی فوجیوں پر پتھر پھینکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتاہے۔ ۹؍اپریل کو فاروق ڈار کی یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیل گئی اس ویڈیو کے پھیلتے ہی سرینگر میں غم و غصہ کی لہر دوڑگئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت انتخابات ہورہے ہیں اور ان انتخابات کو پُرامن رکھنے کے لیے بھا رتی فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے، انتہائی شرمناک بات تو یہ ہے کہ وادی میں رہنے والے شہریوں میں سے صرف سات [مزید پڑھیے]
چند برس قبل بھارت میں ایک تھنک ٹینک ’’وویکانند فاؤنڈیشن انٹرنیشنل‘‘ نے وسط ایشیا پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا تھا۔ اس وقت فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوول تھے۔ چونکہ وسط ایشیا میری بھی دلچسپی کا موضوع رہا ہے، اس لیے اس تھنک ٹینک کے رابطہ عامہ کے ڈائریکٹر اور مصنف انوج دھر نے مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔ پہلی نشست میں ان ممالک کے سفراء نے پریزنٹیشن دی۔ بتایا گیا کہ دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد دیگر امور پر گفتگو ہوگی۔ فاؤنڈیشن کے خوبصورت احاطہ میں کھانے کے دوران میرے ایک سابق ایڈیٹر شاستری رام چندرن نے مجھے اجیت دوول سے ملایا، گوکہ وہ مجھے پہلے سے ہی جانتے تھے۔ ۲۰۰۲ء میں انٹیلی جنس بیورو [مزید پڑھیے]
ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے کشمیر محصور ہے۔ جموں خطہ کے مسلم اکثریتی علاقوں وادی چناب اور پیر پنجال میں بھی اب حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں سے آئے دن چھاپوں اورگرفتاریوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ ایک طرف عوام کرفیو اور ہڑتالوں کی بندشیں جھیل رہے ہیں تو دوسری جانب بھارتی حکومت اپنے عوام اور دنیا کو باورکرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ صورت حال سیاسی یا مقامی نوعیت کی نہیں، بلکہ پاکستان اور وہاں موجود غیر ریاستی عناصر کی دین ہے، جن کے تار عالمی دہشت گردی کے ساتھ جڑے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے جو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی، [مزید پڑھیے]
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زیر علاج آٹھ سالہ آصف کو بہلانے، اس کا دھیان بٹانے اور نْورِ بصارت کے بغیر زندگی گزارنے کی تیاری کروانے کے لیے اس کے والد عبدالرشید جب بچے کو صبرکی تلقین کرنے کی باتیں سناتے ہیں، تو شقی القلب انسان بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ شوپیاں کی ۱۴؍سالہ انشاء کا پورا چہرہ چھلنی ہے۔ پیلٹ گنوں سے شدید مجروح پانچ مریضوں کو سرینگر سے یہاں ریفرکیا گیا ہے۔کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے چند روز قبل جب اس ہسپتال کا دورہ کیا تو وارڈ میں اب بینائی سے محروم اور اپنے کنبے کے واحد کفیل سوپورکے آٹو ڈرائیور ۲۵ سالہ فردوس احمد ان کو بتارہے [مزید پڑھیے]
ریاست کا مزاج بدلا ہے نہ حریت پسندوں کا۔ توکیا مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کا لہو یوں ہی بہتا رہے گا؟جمہوری انقلاب اور انسان کے فکری ارتقا کا اہلِ کشمیر کو کیا فائدہ پہنچا؟ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں۔ یہ ایک سراب ہے۔ معلوم نہیں کیوں لوگ جانتے بوجھتے اسے پانی قرار دینے پر مصر ہیں۔ ان قراردادوں کے مطابق کشمیر پاکستان اوربھارت کا باہمی تنازع ہے۔ اقوامِ متحدہ اسی وقت مداخلت کر سکتی ہے جب دونوں فریق چاہیں۔ اب بھارت کیوں چاہے گا؟ ان قراردادوں کا جس شیڈول سے تعلق ہے، اس کے مطابق اقوامِ متحدہ مشرقی تیمور یا سوڈان کی طرح براہ راست مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہم اس فورم سے وہ مطالبہ کر رہے ہیں جو موجودہ [مزید پڑھیے]
پاک بھارت تنازع ہو یا فلسطین اسرائیل قضیہ، دونوں میں امریکی کردار ایک خاص حد تک ہے۔ امریکا دونوں جوڑوں کے قضیوں میں بظاہر اس لیے دلچسپی لے رہا ہے کہ معاملات بے قابو نہ ہوں اور نوبت جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک نہ جا پہنچے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان اور اسرائیل نے جوہری تجربات کیے تو امریکا نے انہیں کسی نہ کسی طور قبول کیا اور بھارت سے بھی معاملات درست کیے […]
فلسطین اور کشمیر کا تنازع حل کرنے سے متعلق کوششیں دم توڑتی رہی ہیں مگر اس کے باوجود امید کا دامن کسی نے بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ سب کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو درست کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں سکون کا سانس لے سکیں۔ […]
1
2
3
»