مکتی باہنی، ہم اور وہمکتی باہنی، ہم اور وہ
یہ ستمبر ۲۰۰۶ء کی بات ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلا دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔آج گیارہ سال
یہ ستمبر ۲۰۰۶ء کی بات ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلا دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔آج گیارہ سال
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اللہ بھلا کرے‘ ان کی مسلم لیگی رَگ پَھڑکی اور انہوں نے صلاح الدین قادر چودھری کی سزائے موت پر زباں کھولی‘ بنگلا
جب فوج نے چاٹگام کو باغیوں کے شیطانی قبضے سے آزاد کرایا تب غیر بنگالیوں کے زخم کسی حد تک مندمل ہوئے اور انہوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی زندگی کو
بائیس سالہ محمد فرید نے عینی شاہد کی حیثیت سے بتایا کہ ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکا کے علاقے نیو کالونی کے آدم جی نگر میں کم و بیش ایک
جنرل یحییٰ خان سے مذاکرات کی ابتدا میں عوامی لیگ کی قیادت چاہتی تھی کہ ایک ایسے عبوری آئین پر اتفاق کرلیا جائے، جس کے تحت وفاق کے خاصے کمزور
ڈھاکا میں قیامت عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکا کو یکم مارچ سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک اپنی سفاک گرفت میں رکھا۔ لوٹ مار، آتش زنی اور قتل
ستمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند رجحانات اور تحریک سے متعلق کتاب ’’دی گریٹ ٹریجڈی‘‘ (عظیم المیہ) کے عنوان
سانحۂ مشرقی پاکستان کے پہلو بہ پہلو اُس خطے میں جو عظیم انسانی المیہ رونما ہوا، معروف دانشور، مصنف اور ماہرِ ابلاغیات جناب قطب الدین عزیز نے اُس کی جھلکیاں
سانحہ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا اور اس کے اسباب پر تو خاطر خواہ مواد دستیاب ہے۔ مگر اس بات سے کسی کو انکار
پاکستان نے ۱۹۷۱ء میں ایک قوم کی حیثیت سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کا سامنا کیا۔ ہم نے ایسی وجوہ کے باعث اپنے ملک کا ایک بازو
جنرل ایوب خان کے زمانے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فوجی اور سول ملازمتوں کے حوالے سے عدم مساوات ختم ہوچلی تھی۔ ۱۹۶۶ء میں ایوب خان نے ۶۰فیصد
نوٹ: سقوطِ مشرقی پاکستان کے پہلے سال کے مکمل ہونے پر روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی کے اس سوال پر کہ ’’آپ کی رائے میں سقوطِ مشرقی پاکستان کا بنیادی سبب کیا