اخوان المسلمون
میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ عرب حکمرانوں کے دلوں میں اخوان المسلمون کا اتنا زیادہ خوف کیوں ہے؟پورے مصر، عرب امارات اور سعودی عرب کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں جن کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے،اور اس تنظیم کو ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دے کر اس پر پابندی بھی عائد کی جا چکی ہے۔ اخوان کے حوالے سے خوف کا اس قدر پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ چاہے وہ اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی تنظیم ہو یا پھر ٹرمپ انتظامیہ، مبالغہ آرائی کر کر کے اسے مشرق وسطیٰ کی شیطانی قوت کے طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات،سعودی عرب اور قاہرہ کا نقطہ نظر سنیں تو آپ کو ایسا لگے گا جیسا کہ انھوں نے [مزید پڑھیے]
الوطن اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت نے مکہ القسیم کی مساجد میں خطبے دینے والے تقریباً ۱۰۰؍ آئمہ کرام کو نکال دیا ہے۔ اقدام کی بڑی وجہ علما کرام کی جانب سے حکومتی ہدایات کے مطابق اخوان المسلمون کے خلاف جمعے کا خطبہ دینے سے گریز کرنا ہے۔ سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی امور و دعوت و تربیت نے تمام آئمہ کرام اور خطیبوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے خطبوں میں ’’اخوان المسلمون‘‘پر تنقید کریں اور انھیں معاشرے میں تفریق و تقسیم کا ذمہ دار قرار دیں۔ گزشتہ ماہ وزارت نے ہدایات جاری کی تھیں کہ سینئر اسکالر ز کی سعودی کونسل کی طرف سے جاری کیے جانے والے متنازع بیان پر ایک خطبہ دیا جائے،کونسل نے اخوان کے خلا [مزید پڑھیے]
گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے جید علمائے کرام کی شورٰی نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمون انتہائی بُری تنظیموں میں سے ہے اور اسلام کی بنیادوں کے لیے خطرہ ہے۔ یہ دہشت گردوں کا گروپ ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ایسی بگڑی ہوئی تنظیم ہے، جو مستحکم (اور قانونی طور پر درست) حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے سرگرم رہتی ہے، تنازعات کو ہوا دیتی ہے، غلط کاموں کو دین کے پردے میں لپیٹتی ہے اور تشدّد و دہشت گردی کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ سعودی علمائے کرام کی رائے ہے کہ اخوان المسلموں نے اسلام کی [مزید پڑھیے]
امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے گیارہ جولائی ۲۰۱۸ء کو اپنے اجلاس میں ’’اخوان المسلمون کی طرف سے دنیا کو خطرہ‘‘ کے موضوع پر سماعت کی۔ اس سماعت کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ اخوان المسلمون دنیا بھر میں امریکی مفادات کے لیے کن خطرات کا باعث بن رہی ہے۔ اسکالر حضرات کی ایک طویل عرصے سے یہ رائے ہے کہ اخوان المسلمون جدید اسلام ازم کی ’’مادر‘‘ تنظیم ہے تاہم کانگریس کی مذکورہ سماعت میں اسے ’’ایک ایسی بنیاد پرست اسلامی تنظیم بیان کیا گیا جس نے ۷۰ ملکوں میں باہم مربوط تحریکوں کو جنم دیا‘‘ اور القاعدہ بھی ان تحریکوں میں سے ایک ہے۔ مذکورہ سماعت میں اکثر شرکا نے کھل کر مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت سرکاری طور [مزید پڑھیے]
چند برسوں کے دوران علاقائی سیاست میں قطر غیر معمولی تیزی سے ابھرا ہے۔ اس نے ایک ایسی ریاست کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کی ہے، جو علاقائی مسائل کے حل کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ سفارت کاری کے محاذ پر قطر نے ایسی ثابت قدمی دکھائی ہے جس کے بارے میں سوچنا محال تھا۔ خلیج کی بیشتر ریاستیں اب تک سیاسی اور سفارتی امور میں غیر معمولی احتیاط کا دامن تھامتی چلی آئی ہیں مگر قطر نے دنیا کو بتانا چاہا ہے کہ قدرے کم رقبے کے باوجود وہ محلِ وقوع کے اعتبار سے اپنی اہمیت منوانے اور ثابت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ معروف تجزیہ کار اور سفارتی امور کے ماہر ڈیوڈ بی رابرٹس نے [مزید پڑھیے]
آج کا مشرقِ وسطیٰ اِخوان المسلمون کے حوالے سے منقسم ہے۔ دو مخالف اتحاد ابھر رہے ہیں۔ ایک ترکی، ایران اور قطر پر مشتمل ہے اور دوسرا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر پر مشتمل ہے۔ دو سال قبل سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل اتحاد کے مقابل ترکی اور قطر نمودار ہوئے تو ایران نے اُن کی بھرپور حمایت کی۔ یہ سب کچھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی مہربانی سے ہوا، جنہوں نے دو سال قبل جولائی میں قطر کی اقتصادی ناکہ بندی کی اور ایران و ترکی سے اُس کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچانے والی ۱۳ شرائط پیش کیں۔ سعودی عرب نے قطر پر دباؤ ڈالا کہ وہ ۲۰۱۵ء میں قائم کیے جانے والے ترک فوجی [مزید پڑھیے]
حمدہ و صلاۃ کے بعد الاخوان المسلمون دنیا بھر کی آزاد اقوام کو شہید صدر محمد مرسی کی مظلومانہ شہادت پر آواز بلند کرنے پر مبارکباد پیش کرتی ہے۔ یہ حقیقت تاریخ میں لکھی جائے گی کہ پوری دنیا کے حریت پسند اس بات پر گواہ تھے کہ مصر کی تاریخ کے پہلے منتخب صدر کو کیسے ایک غاصب فوجی قیادت نے انتہائی مشکوک اور پراسرار حالات میں شہید کیا۔ عسکری انقلاب کے چھ سال مکمل ہونے سے چند دن قبل صدر محمد مرسی کی شہادت نے مجرم عسکری انقلاب اور حریت پسند عوام کے مابین معرکے کو ایک نئی صورت اور ایک نیا رُخ دے دیا ہے، جس بِنا پر یہ بات ضروری ہے کہ مصر میں عوامی سطح کے انقلاب میں پائی جانے [مزید پڑھیے]
صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے لیے جو عزائم رکھتے ہیں اس کی ایک مثال ماہ اپریل میں جنرل سیسی کے مطالبے پر اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی صورت میں منظر عام پر آئی۔ ۹؍اپریل کو جنرل سیسی نے اپنے امریکا کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا دیرینہ مطالبہ دوبارہ پیش کیا اور بدلے میں فلسطین سے متعلق (Deal of the Century) صفقۃ القرآن کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ جس کے نتیجے میں ۳۰؍اپریل کو امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی باضابطہ کارروائی کا آغاز کر رہی ہے اور جلد ہی اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست [مزید پڑھیے]
اسی طرح اخوان نے اپنے وعدے کے برخلاف صدارتی انتخاب میں بھی اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا۔پھر صدر منتخب ہونے کے بعد اخوان نے حزب اختلاف اورسیکولر جماعتوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کو بھی اپنی مخالفت میں لا کھڑا کیا۔ اس جارحانہ طرز عمل کا انجام یہ ہوا کہ ۳۰ جون کو ایک بڑا عوامی احتجاج شروع ہو گیا۔ اور پھر کچھ ہی دنوں میں فوج نے بھی مداخلت کر دی۔فوج کے موقف کے مطابق اخوان کی حکومت کے خاتمہ کی ایک وجہ جہاں عوامی احتجاج اور حکومتی امور میں بد انتظامی تھی، وہیں محمد مرسی کی جانب سے ’’ریڈ لائن‘‘ عبور کرنا بھی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔ یہ ’’ریڈلائن‘‘ [مزید پڑھیے]
پی جے ڈی، النہضہ اور اخوان نے اپنے اپنے ممالک میں انتخابات جیتنے کے بعد نہ سخت قوانین کا اطلاق کیا اور نہ شریعت کے نفاذ کا اعلان کیااور نہ ہی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ تینوں جماعتوں کے تجربات اور ان کے ممالک کے حالات نے انھیں مختلف طریقوں سے کام کرنے پر مجبور کیا، تاہم تینوں نے جمہوری روایات کے حوالے سے اپنے موقف میں لچک پیدا کی، ان کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوا کہ آنے والی دہائیوں میں وہ جمہوریت کو بڑی حد تک قبول کر لیں گی۔جہاں تک اخوان اور PJD کی بات ہے تو انھوں نے یہ لچک پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ہی پیدا کرنا شروع کی،لیکن[مزید پڑھیے]
مراکش کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (PJD) کے راہنما سعد الدین العثمانی نے مارچ ۲۰۱۷ء میں اتحادی حکومت کے قیام کا اعلان کر کے پانچ سال سے جاری سیاسی بحران کا خاتمہ کردیا۔ سعدالدین کی کاوشوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی جماعت PJD، جس نے ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، آئندہ بھی حکومت بنائے گی۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے مراکش کی حکومت اسی جماعت کے پاس ہے۔ پی جے ڈی ۲۰۱۱ء میں اقتدار حاصل کرنے والی واحد اسلامی تنظیم نہیں تھی۔[مزید پڑھیے]
کچھ دنوں سے اس نوعیت کی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جمال خاشقجی کو مغربی طرز کی جمہوریت سے کچھ خاص غرض نہ تھی اور یہ کہ وہ سیکولر ازم کو دشمن گردانتا تھا۔ سعودی نواز سوشل میڈیا اور انتہائی دائیں بازو کے مبصرین نے جو کچھ لکھا ہے، اس کی روشنی میں امریکا کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے معاملے میں بہت آگے بڑھنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ جمال خاشقجی کو جتنا آزاد خیال تصور کیا جارہا ہے، وہ اُس سے کہیں کم آزاد خیال تھا۔ مزید یہ کہ جمال خاشقجی ایک انتہا پسند تھا اور جو لوگ اس کے قتل کی مذمت کررہے ہیں وہ دراصل امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ [مزید پڑھیے]
الہامی تعلیمات کو کیونکر تبدیل کیا جائے،یا ان قوانین کی تبدیلی کیسے ممکن ہے،جن کوخدائی تعلیمات سمجھا جاتا ہے۔یہ وہ سوالات ہیں جس کا شاہ محمد سلمان کواس وقت سامنا ہے۔ انھوں نے اصلاحات کے نام پربعض سماجی پابندیوں پرنرمی کا اعلان کیاہے۔شاہ سلمان ہر ’’برائی‘‘ اور ’’شر‘‘ کا ذمہ دار ایران کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہناہے۱۹۷۹ء میں ہمارا فیصلہ غلط تھا۔ یاد رہے یہی وہ سال ہے جب شیعہ اسلام پسندوں نے شاہ ایران کا تختہ الٹ دیاتھا اور سنی اسلام پسندوں نے سعودی عرب میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے مسجد حرام پر قبضہ کر لیاتھا۔ اسی سال سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہو گئی تھیں۔شاہ سلمان کے ان حالیہ اقدامات سے امید ہے سعودی عوام جلد محفل [مزید پڑھیے]
حسن البناءؒ کی تحریک الاخوان المسلمون کی تاسیس کو گزرے مارچ میں ۹۰ برس ہوگئے ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والی عالم عرب کی اس بے نظیر دینی تحریک جسے معروف معنوں میں سیاسی جماعت بھی کہا جاسکتا ہے، کے پس منظر میں ہمیں خلافتِ عثمانیہ کا شکستہ ڈھانچہ پڑا نظر آتا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت کے ادارے کا انہدام ہوا تو اس پر ماتمی نوحے برصغیر پاک و ہند میں بھی بلند ہوئے اور مصر میں بھی سنائی دے رہے تھے۔ مصر میں اس ماتم کی فضا میں احیاء خلافت کی ایک مہین سی کوشش ہوئی تھی لیکن اس ادارے کو ختم کرنے والوں نے خوب سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا تھا کہ اب اسے زندہ کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہوگی۔ [مزید پڑھیے]
مصر کی فریڈم پارٹی کے سربراہ اور پارلیمان کے ترجمان صَلَح حَسب اللہ نے ۲۴ فروری کو ایک پریس کانفرنس میں آئندہ انتخابات میں مصری صدر عبد الفتح السیسی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ صدر سیسی اخوان کے سامنے کھڑے ہوئے اور اُن کا سامنا کیا، اُنھوں نے مصر کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا‘‘۔یہ بیان صدر سیسی کے لیے سیاست دانوں اور عوام کی حمایت ظاہر کرتا ہے۔ البتہ ۶ فروری کے Bloomberg کے ایک کالم نے اخوان کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ صدر سیسی انتخابات سے پہلے اخوان سے مصالحت کا ارادہ رکھتے ہیں، اسی طرح ۷ فروری کے المدن کے مضمون نے بھی اخوان کے ذرائع [مزید پڑھیے]
1
2
3
…
8
»